گوجرہ: مسلم عیسائی جھگڑے میں چھ ہلاک - خطرے کی گھنٹی

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

جو دوست اس مفروضے پر يقين رکھتے ہیں کہ سی – آئ – اے يا امريکی حکومت صوبہ پنجاب اور پاکستان ميں بے يقينی اور افراتفری کی فضا قائم کرنے کی خواہش مند ہے، ان سے گزارش ہے کہ وہ اعداد وشمار اور جاری منصوبوں پر نظر ڈاليں جو اس وقت بے شمار امريکی نجی اور سرکاری تنظيموں کے توسط سے جاری ہيں۔ مختلف سطحوں پر جاری يہ تعاون اور کاوشيں دونوں ممالک کے مابين تعلقات کی نوعيت کو اجاگر کر تی ہيں۔ گزشتہ چند ہفتوں کے حوالے سے يہ خبريں پيش ہيں جو عام طور پر ميڈيا اور ہر خبر ميں سازش کی بو سونگھ لينے والے دوستوں کی نظروں سے اوجھل رہتی ہيں۔


جولائ 21 2009 کو امريکی حکومت کی جانب سے 75 ملين ڈالرز کی لاگت سے ايک پانچ سالہ پروگرام کا لاہور ميں باقاعدہ افتتاح کيا گيا جس کا مقصد صوبہ پنجاب ميں اساتذہ کی مہارت اور ان کی قابليت ميں بہتری لانا ہے۔ پری سروس ٹيچر ايجوکيشن کے نام سے جاری يہ پروگرام يو – ايس – ايڈ اور پنجاب حکومت کے مابين باہمی تعاون اور کاوشوں کا نتيجہ ہے۔ يو – ايس – ايڈ نے قومی سطح پر ايک معاہدے پر بھی دستخط کيے ہيں جس کے توسط سے اسی طرز کے پروگرام دوسرے صوبوں ميں بھی شروع کيے جائيں گے۔

جولائ 24 2009 کو امريکی حکومت اور پنجاب ڈيپارٹمنٹ آف پبلک پراسيکوشن کے تعاون سے ايک ورک شاپ کا انعقاد کيا گيا جو 22 سے 24 جولائ تک جاری رہی۔ اس ورک شاپ کا مقصد وکلا‏ء کی جانب سے عوامی سطح پر انصاف کی فراہمی کے نظام ميں بہتری اور پنجاب ڈيپارٹمنٹ آف پبلک پراسيکوشن کی معاونت کے لیے تجاويز اور مختلف منصوبوں کی منظوری دينا تھا۔

اپريل 2 2009 کو وزارت معيشت حکومت پاکستان اور امريکی حکومت کے مابين تعاون کے حوالے سے ايک مشترکہ اعلاميہ جاری ہوا۔ اس اعلاميے اور معاہدے کے نتيجے ميں یو – ايس – ايڈ نے 24 ملين ڈالرز کی لاگت سے 3 سالہ پروگرام کی منظوری دی ہے جس کے توسط سے بجلی کی پيداوار اور توانائ ميں اضافے کے حوالے سے منصوبے شروع کيے جائيں گے۔

يہ امر توجہ طلب ہے کہ جو تجزيہ نگار سازشی کہانيوں کی تشہير کرتے ہيں ان کے تمام دلائل اور نقطہ نظر جذباتيت، يک طرفہ اور غير منطقی تجزيوں يا محدود سوچ کی بنياد پر ہوتے ہیں۔ اعداد وشمار اور زمين پر موجود حقائق کو يکسر نظرانداز کر ديا جاتا ہے۔ جيسا کہ ميں نے بارہا اس فورم پر کہا ہے کہ امريکی حکومت اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے اور اس کو تسليم بھی کرتی ہے کہ خطے میں امريکی مقاصد اور مفادات کا تحفظ صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب پاکستان ميں مکمل استحکام ہو۔ امريکی حکومت کی جانب سے کئ بلين ڈالرز کی مالی امداد اور پورے ملک ميں جاری بے شمار منصوبوں کی تکميل کے لیے دی جانے والی تکنيکی اور مالی امداد اور تعاون امريکی حکومت کے اس عزم کو واضح کرتا ہے کہ امريکہ پاکستان کے استحکام اور ترقی کے حوالے سے ہر ممکن کوشش اور تعاون جاری رکھے گا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

مہوش علی

لائبریرین
بلوائی انصاف Mob Justice کی حوصلہ شکنی بہت ضروری ہے۔ عوام کو یہ سمجھنا چاہیے معاملہ کیسا بھی ہو، یہ مسائل حل کرنا عدالتوں کا کام ہے، ورنہ "بلوائی انصاف" سے چیزیں مزید بگڑ ہی سکتی ہیں ٹھیک نہیں ہو سکتیں۔

جہاں تک قرآن کے اوراق کا تعلق ہے، تو ذاتی طور پر میں یہ یقین رکھتی ہوں کہ ہر قوم میں شریر لوگ موجود ہو سکتے ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ یہ واقع پیش آیا ہو۔
چنانچہ تحقیقات ہونی چاہیے ہیں مگر یہ کام صرف اور صرف عدالت کا ہے۔

نیز یہ کہ قرآن کی بےحرمتی کی جو سزا ہے، وہی سزا ایسے مسلمان کے لیے ہونی چاہیے ہے جو انجیل، بائیبل، یا ہندوؤں کی مقدس کتاب یا کسی اور مذہب کی کسی بھی مقدس کتاب کی بے حرمتی کرے۔ انصاف کا میزان ہر کسی کے لیے برابر ہونا چاہیے۔

ڈان اخبار کی خبر کے مطابق مظاہرین پر امن ارادے لیکر نہیں آئے تھے، بلکہ انکے پاس مکمل اسلحہ اور پٹرول بم موجود تھے۔
http://www.dawn.com/wps/wcm/connect...ix-christians-die-in-riots-with-muslims-rs-05

امت اخبار کے مطابق یہ سنی تحریک کے اراکین تھے، مگر ٹائمز آن لائن کے مطابق انکا تعلق کالعدم لشکر جھنگوی سے تھا۔
http://www.timesonline.co.uk/tol/news/worl...icle6736696.ece

Hundreds of armed supporters of Lashkar-e-Jhangvi, an outlawed Islamic militant group, set alight dozens of Christian homes in Gojra town at the weekend after allegations that a copy of the Koran had been defiled.

مکمل رپورٹ پڑھئیے

ڈان اخبار کے مطابق بھی سینکڑوں نقاب پوش جھنگ شہر سے آئے تھے اور مظاہرے کے دوران سب سے زیادہ اشتعال انگیز حرکتیں یہی کر رہے تھے۔
خبر کا لنک

میری ذاتی رائے میں ایسے موقعوں پر ہر جذباتی انتہا پسند ایک ہی صف میں کھڑا ہوتا ہے، چاہے وہ سنی تحریک کا ہو، یا لشکر جھنگوی کا یا سپاہ محمد کا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ انتہا پسند انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ہیں، چاہے یہ مسلمان انتہا پسند ہوں یا پھر ہندو انتہا پسند یا پھر کسی اور مذہب سے ان انتہا پسندوں کا تعلق ہو۔


اور ڈان اخبار میں پراچہ صاحب کا آرٹیکل سوچنے کے لیے ہمیں بہت کچھ دیتا ہے۔ اس آرٹیکل سے چند اقتباسات:

Today, I too am a minority
Posted by Nadeem F. Paracha in Featured Articles, Pakistan on 08 4th, 2009 | 12 responses

A riot is when an agitated group or mass of people clash with the police, or with another mass of agitated men and women. It is not a riot when an agitated group of people attack the homes and lives of men, women and children who are not as well armed as the attacking group, or whose best defense in this respect is to flee the scene. So why is the Pakistani media referring to the recent attack by Muslims on the Christian community in the Gojra area as ‘communal riots?’

They were not riots, but an attack. An assault by an arrogant majority on a low-lying minority.


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔Even though the media did well to cover the episode in which Gojra’s Christian community – their homes, churches and lives – were brutally attacked by mad mobs of self-righteous Muslims, it was frustrating to note that the Punjab government had more than enough information about the attacks before the actual incident took place to nip the frontline miscreants of the attack in the bud. But its officials in the area did absolutely nothing.
یہ صرف پنجاب پولیس کا مسئلہ نہیں، بلکہ تقریبا ہر ہر بلوائی حملوں یا فسادات سے قبل ہر حکومت کو خبر ہوتی ہے، مگر کبھی بھرپور انتظامات نہیں ہو پاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

The Punjab government has blamed the Gojra incident on a few local Islamist leaders and clerics who had arrived in Gojra not long ago. It is believed by the province’s government that whipping up communal violence is yet another tactic being used by shady sectarian organizations to continue destabilizing the province.​

ڈان اخبار کی خبر کے مطابق وزیر شہباز بھٹی صاحب نے قرآن کی بے حرمتی ہونے کا انکار کیا ہے۔ چند اہم اقتباسات۔

........
Over 100 houses were set ablaze and 100 houses were looted by a mob which included masked men.

The minister Shehbaz Bhatti said there were indications that the masked men belonged to the banned Sipah-i-Sahaba organisation.

........

The minister said it had been found that no incident of desecration of Holy Quran had taken place at a weeding ceremony. Rumours about alleged desecration were spread by some elements with some ulterior motive.

All the people who attended the ceremony said that no such incident had taken place, he added.

امت اخبار کی یہ خبر سمجھ میں نہیں آئی کہ جہاں اقلیتی وزیر کی طرف وہ بہ یک وقت قرآن کی بے حرمتی کرنے کا اقرار بھی کر رہے ہیں، اور دوسری طرف وزیر صاحب کا انکار بھی بیان کر رہے ہیں کہ یہ جھوٹی بات ایف آئی آر میں درج کروانے کی بات بھی کر رہے ہیں۔

news-07.gif


میرے تجربے کے مطابق امت اخبار کبھی چیزوں کو ایسے توڑ مڑوڑ کر پیش کرتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
امت اخبار کی خبریں اور رپورٹیں جو شخص بھی لکھتا ہے، اُس کے قلم میں بہت جادو ہے اور ہم اسکی گرد تک کو نہیں پہنچ سکتے۔ یہ سچ اور جھوٹ کو ایسے آپس میں ملا کر پیش کرتے ہیں کہ انسان اگر بہت باریک بینی اور تنقیدی نگاہ سے انکی خبریں پڑھے تو ہی جھوٹ کو سچ سے الگ کر پائے گا۔

*********************

ہم یہ بات کر رہے ہیں بلوائی انصاف کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور ہر چیز عدالت کے سپرد ہونی چاہیے۔

اسلامی تاریخ کے حوالے سے ایک مختصر بات نوٹ کر لیں کہ یہ بلوائی انصاف سب سے پہلے خلیفہ ثالث جناب عثمان ابن عفان کے خلاف کیا گیا تھا اور علی ابن ابی طالب نے اس بلوائی انصاف کی ہمیشہ مخالفت کی تھی۔

اور عدالت کے حوالے سے بات ہمارے ذہنوں میں یہ بات صاف ہونی چاہیے کہ اسلامی شریعت اور اسکے تحت چلنے والی عدالتیں اس اصول کے تحت چلتی ہیں کہ: "ایک مجرم چھوٹتا ہے تو چھوٹ جائے، مگر کسی مظلوم کو سزا نہ ہونے پائے"
یعنی گواہان کا سلسلہ اسقدر سخت ہے کہ اکثر مجرم کو سزا نہیں ہو پاتی اور وہ بچ نکلتا ہے۔ مگر یہ سلسلہ اس لئے اتنا سخت رکھا گیا ہے تاکہ کسی مظلوم اور بے گناہ کو سزا نہ ہونے پائے۔

اس سلسلے میں دو واقعات:

1۔ علی ابن ابی طالب جب امیر شام معاویہ ابن ابی سفیان سے لڑنے کے لیے جا رہے تھے تو ان کی ڈھال راستے میں گر گئی۔ جب جنگ سے فارغ ہو کر واپس آئے تو انہیں یہ ڈھال ایک یہودی کے پاس نظر آئی۔ علی ابن ابی طالب نے مقدمہ عدالت میں پیش کیا اور عدالت کے قاضی ابن الحارث الکندی نے مقدمے کا فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا۔
اس پر یہودی علی ابن ابی طالب کی خدمت میں پیش ہوا اور کہا کہ بے شک یہ ڈھال آپ ہی کی ہے اور آپکے اونٹ سے راستے میں گر گئی تھی۔ اور جب مسلمانوں کے امیر کے خلاف اسکی عدالت میں فیصلہ اسکے خلاف ہوا تو مجھے پتا چل گیا کہ حق و سچ کیا ہے۔ اس کے بعد یہودی نے لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ پڑھا، اور علی ابن ابی طالب نے وہ ڈھال اسی یہودی کو تحفہ میں دی۔

2۔ مغیرہ بن شعبہ کا واقعہ بہت صاف ہے۔ تفصیل میں میں نہیں جا رہی ہوں۔

چنانچہ ہو سکتا ہے کہ عیسائیوں کی بستی میں یہ حرکت ہوئی ہو۔ اور ہو سکتا ہے کہ عدالت میں کچھ ثابت نہ ہو پائے۔ مگر پھر بھی یہ اُس بلوائی انصاف سے کہیں بہتر چیز ہے کہ جس میں 7 بے گناہ یونہی زندہ نذر آتش ہو گئے اور پتا نہیں کتنے لوگ زخمی ہوئے، مسلمان و اسلام کتنا بدنام ہوا اور پاکستان کی کتنی جگ ہنسائی ہوئی، اور انڈیا میں ہندو انتہا پسندوں کوپاکستان میں اپنے شریک کار ملنے پر انہیں کتنی خوشی ہوئی۔
 

dxbgraphics

محفلین
امت اخبار کے مطابق یہ سنی تحریک کے اراکین تھے، مگر ٹائمز آن لائن کے مطابق انکا تعلق کالعدم لشکر جھنگوی سے تھا۔

میرے تجربے کے مطابق امت اخبار کبھی چیزوں کو ایسے توڑ مڑوڑ کر پیش کرتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
امت اخبار کی خبریں اور رپورٹیں جو شخص بھی لکھتا ہے، اُس کے قلم میں بہت جادو ہے اور ہم اسکی گرد تک کو نہیں پہنچ سکتے۔ یہ سچ اور جھوٹ کو ایسے آپس میں ملا کر پیش کرتے ہیں کہ انسان اگر بہت باریک بینی اور تنقیدی نگاہ سے انکی خبریں پڑھے تو ہی جھوٹ کو سچ سے الگ کر پائے گا۔

میڈم آپ کے تجربے سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ مظاہرین کا تعلق سنی تحریک سے نہیں ہے ۔ ایک جگہ آپ اسی امت کا حوالہ دیتی ہیں اور دوسری طرف خود ہی اس امت کو رد کردیتی ہیں
 

نبیل

تکنیکی معاون
میری گزارش ہے کہ اس تھریڈ‌ کو موضوع پر ہی رہنے دیں، بصورت دیگر مجھے آپ کے مراسلات حذف کرنے پڑیں گے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
گوجرہ حملہ: نقاب پوش کہاں سے آئے؟


عبادالحق
بی بی سی اردو ڈاٹ کام،گوجرہ




090806020935_sarfraz_170.jpg
نقاب پوش حملہ انتہائی مہارت سے اسلحہ استعمال کر رہے تھے


پنجاب کے وسطی شہر گوجرہ میں مسیحی آبادی مشتمل بستی پر حملے اور سات افراد کی ہلاکت کے واقعہ نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
ان سوالات میں سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر بستی پر حملہ کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کا حصہ نہیں کیا گیا تو مسیحی بستی کے سامنے احتجاج کرنے والے مظاہرین کے پاس ایسا مواد کیوں موجود تھا جس کی مدد سے بستی گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔

مزید پڑھیں
 

dxbgraphics

محفلین

اکثر شہر سے دور گاوں میں گھر کی حفاظت کے لئے اسلحہ رکھنا پڑتا ہے۔ اگر یہ واقعہ شہر میں ہوتا تو پھر اسلحہ کی گنجائش نہیں رہتی۔
کیوں کہ پشاور سے گھر ہم نے والدہ کے آبائی گاوں منتقل کیا تو پتہ چلا کہ پولیس بھی گاوں میں دس بجے کے بعد نہیں آتی۔ پھر مجبورا ہمارے گھر میں بھی لائسنسڈ اسلحہ موجود ہے ۔ دو دفعہ تو ہم نے اپنے گھر سے ڈاکوں کو بھگایا ہے۔
 

خوشی

محفلین
میرے خیال میں‌تو پاکستان میں کوئی اقلیت کم از کم ایسی حرکت نہیں کر سکتی ، معاملہ کچھ اور ہی ھے
 

نبیل

تکنیکی معاون
حالانکہ شہر سے گاوں صرف پانچ کلومیٹر دور ہے
ہر جملہ الگ سے پوسٹ کرنا ضروری نہیں ہے۔ اور یہاں آپ کے اسلحے کی تفصیل نہیں مانگی جا رہی۔ اس پوسٹ کو میری طرف سے وارننگ سمجھیں۔ اگر دوبارہ موضوع سے ہٹ کر کوئی پوسٹ کی گئی تو مجھے سختی کرنی پڑے گی۔
 

خوشی

محفلین
میرے خیال میں نبیل جی ٹھیک کہہ رھے ھیں 7 جانیں ضائع ہوئی ھیں مسلم نہ سہی پاکستانی تھے ہمارے ہم وطن ، ہمیں اس پہ سنجیدگی سے سوچنا چاھیئے کہ کیا کیا جائے کہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں ، بجائے اس کے ہم لاحاصل بحث میں الجھ جائیں
 

arifkarim

معطل
میرے خیال میں نبیل جی ٹھیک کہہ رھے ھیں 7 جانیں ضائع ہوئی ھیں مسلم نہ سہی پاکستانی تھے ہمارے ہم وطن ، ہمیں اس پہ سنجیدگی سے سوچنا چاھیئے کہ کیا کیا جائے کہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں ، بجائے اس کے ہم لاحاصل بحث میں الجھ جائیں

پاکستانی؟؟؟؟؟
قادیانی بھی پاکستانی تھے۔ اسلئے عیسائیوں پر نادم اور پشیمان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
 

خوشی

محفلین
میں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی میرے نزدیک پہلے ہم سب پاکستانی ھیں بعد میں اور کچھ ، اور ظلم ظلم ہوتا ھے چاھے کسی کے ساتھ بھی ہو، پاکستانی ہونے کی حثیت سے سب کے حقوق بلاتفریق برابر ھیً کم ازکم میں تو ایسا ہی سمجھتی ہوں
 

مہوش علی

لائبریرین
اگر واقعی اس واقعہ کو گہرائی میں جا کر سمجھنا ہے، تو برگیڈئیر سیمسون [ریٹائرڈ] کا یہ مضمون سب سے بہترین ذریعہ ہے۔
مضمون کا لنک

مضمون سے چند اقتباسات

اس مضمون کا ٹائٹل ہے:A Party Leader Of Former Premier Sharif Involved In Killing Pakistani Christians

یعنی مسیحی برادری کےاس قتل عام میں نواز لیگ پارٹی کا ایک لیڈر ملوث ہے۔

پاکستان کا سیاسی نظام سب سے بڑا قصوروار
اس واقعے کے سارے ذمہ دار صرف مذہبی انتہا پسند نہیں ہیں۔۔۔۔۔ بلکہ افسوس کہ پاکستان کا سیاسی نظام اس سلسلے میں سب سے بڑا قصور وار ہے۔ آگے چل کر آپ پر یہ بات واضح ہو گی کہ میں کیوں پاکستانی سیاسی نظام کو قصوروار ٹہرا رہی ہوں۔

The recent incidents in Gojra are a grim reminder of an opportunist political system in which strange bedfellows can be espoused for political expediency and where rule of law can be applied selectively. Worse, it exposes false claims of the provincial and federal governments over constant surveillance of banned militant outfits in Punjab.
اگر کالعدم تنظیموں کو کنٹرول میں ابھی تک نہیں کیا جا سکا ہے، تو مسئلہ صرف مذہبی انتہا پسندی تک محدود نہیں بلکہ اسکی مکمل سیاسی وجوہات بھی موجود ہیں۔

There is no doubt that the working relationship between the Federal Government and PMLN Government is dysfunctional. It took the Government of Punjab three days to move into a belated action despite warnings given by Mr. Shahbaz Bhatti, the Federal Minister of Minorities Affairs. The provincial government dismissed the factual reporting of the federal minister for over two days and moved reluctantly after all the damage had been done. The Faisalabad-Karachi Railway traffic remained blocked for two days. The Chief Minister has repeatedly postponed his visit to the city citing security reasons. Meanwhile the frustrations continue to grow resulting in resignations of one federal and one provincial minister.
وزیر برائے اقلیتی امور جناب شہباز بھٹی صاحب نے اس بلوائی حملے سے دو دن قبل ہی حکومت کو اسکی وارننگ دے دی تھی، مگر حکومت نے کاہلی و سستی کا مظاہرہ کیا حتی کہ یہ واقعہ رونما ہو چکا اور تیسرے دن جا کر فورسز پہنچیں۔

حکومت کی اسی کاہلی و سستی پر احتجاج کرتے ہوئے دو وزراء نے استعفے پیش کیے۔

Reportedly, around 18 July, intelligence agencies had issued a warning to the Government of Punjab of likely incidents of terrorism in which some enclaves of minority Pakistanis could be targeted. Rather than take this information seriously, the provincial government deemed it fit to act as it did, allowing free access to militant outfits for arson and murder.
ایجنسیز نے 18 جولائی کو ان فسادات کی وارننگ صوبائی حکومت کو دے دی تھی۔ میں اوپر اپنی پچھلی پوسٹ میں بھی ان خبروں کا ذکر کر چکی ہوں جہاں ایجنسیز کی اس 18 جولائی والی وارننگ کا ذکر ہے۔

The Christian enclave in Gojra is located close to Awan Town named after a local property tycoon Mr. Qadeer Awan. Qadeer also runs and controls many local businesses like CNG and petrol pumps. He is reputed to be a very influential PMLN member and financier of the party and sleeper militants. He is known to hold the neighboring Christian enclave in contempt with a long record of confrontation. He saw the incident at Korrian as an opportunity to settle issues and extract advantage. He is the prime suspect in the FIR, registered after 48 hours of delay. Christians allege that he with his team of sons and relatives masterminded the entire operation including movement of militants from Jhang and surrounding areas.

اس علاقے کے مسیحی آبادی [جس کا قتل ہوا ہے] اس کی الزام یہ ہے کہ اس واقعے میں سب سے بڑا ہاتھ نواز لیگ کے ایک مقامی لیڈر کا ہے جو کہ بہت امیر شخص ہے اور جس کی زمینوں اور جاگیر نے اس مسیحی گاؤں کو گھیرا ہوا ہے اور زمین کے مسائل پر انکے آپس میں پہلے سے ہی جھگڑے ہیں۔
اور نواز لیگ کے اس لیڈر کے کالعدم تنظیموں سے روابط تھے، اور اسی نے جھنگ سے ان کو بلایا، اور اسی لیڈر کے اثر کی وجہ سے مسیحی آبادی کے اس مقدمے کو تھانے والے درج نہیں کرتے تھے حتی کہ اڑتالیس گھنٹے گذر گئے۔

These militants moved on public transport with automatic weapons, explosives and incendiaries with complete impunity despite many Police Check Posts en route. Rather than risk confronting heavily armed militants, the baton wielding local police chose to by stand.

یہ بلوائی مکمل طور پر آٹو میٹک اور ایکسپلوسیو ہتھیاروں سے مسلح تھے اور مکمل آزادی سے اپنی ٹرانسپورٹ پر گھوم رہے تھے اور پولیس یہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہی تھی مگر پھر بھی سائیڈ میں خاموش کھڑی تھی۔

نتیجہ:
پولیس کو بھی اپنی جان پیاری ہے اور مذہبی جنونیوں کے ان مسلح جتھوں سے کھل کر محاذ آرائی کرنا یا انکے خلاف کاروائی کرنے سے پولیس بھی گھبراتی ہے۔ قوم کے لیے یہ سبق سیکھنا بہت ضروری ہے کہ وہ اندازہ لگائے کہ ان مذہبی جنونیوں کو پاکستان میں کتنی قوت حاصل ہو چکی ہے۔
اور اس آرٹیکل میں نواز لیگ کو لتاڑا گیا ہے کیونکہ صوبائی حکومت انکے ہاتھوں میں ہے، مگر یہ مکمل انصاف کی بات نہیں ہے، بلکہ قوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ اگر نواز شریف کی جگہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت ہوتی تب بھی ہمیں یہی چیز دیکھنے کو ملتی۔ بلکہ یہ مذہبی انتہا پسند ہمارے معاشرے میں اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ پولیس تو پولیس، فوج تک ان پر ہاتھ ڈالنے سے جحجھکتی ہے۔

But there is a positive side too. Neighbouring Muslim communities gave shelter to men, women and children, escorted them out of the area on their own transport and provided food. Some Pakistani NGOs have also established camps and MQM relief has arrived in trucks from as far away as Sindh. Pathetically, the only missing group is the Government of Punjab.
اچھی بات یہ ہے کہ خاموش اکثریت ابھی تک اچھی اقدار پر یقین رکھتی ہے اور کسی نہ کسی دن یہ خاموش اکثریت ان مذہبی انتہا پسندوں کے مقابلے پر کھل کر کھڑی ہو گی۔ اللہ کرے یہ دن اُس وقت سے پہلے آ جائے کہ جب پانی سر سے اونچا نہ ہو چکا ہو۔

Standing next to seven caskets on the railway crossing at Gojra, I was questioning myself why seven females were burnt alive with incendiaries and why innocent people shot in the head at point blank. As I write this, two more men have succumbed to burn injuries in the local hospital. The Punjab Government made no efforts to evacuate them to a Burn Hospital in Lahore.

برگیڈیئر صاحب [ریٹائرڈ] پنجاب حکومت پر غصہ ہیں کہ اُس نے آگ سے سوختہ زخمیوں کو ہسپتال نہیں پہنچایا۔

Local Christians allege that PMLN Government is reluctant to act because it fears losing its vote bank in the area. The incident has become a political battle ground between PMLN and PPP in which justice, rule of law and criminal accountability would ultimately be eclipsed. I remain in awe of the political system to move beyond its petty politics.
یہ وہ نقطہ ہے جو کہ میرے نزدیک سب سے اہم ہے اور میری پوری گفتگو کا محور ہے۔

اور اس گفتگو کا نتیجہ یہ ہے کہ صرف مذہبی انتہا پسندی کو الزام نہیں دیا جا سکتا، بلکہ اس سلسلے میں مذہبی انتہا پسندی سے بھی بڑا مجرم ہمارا سیاسی نظام ہے۔ نواز لیگ پر زیادہ نزلہ یوں گرا ہے کہ صوبائی حکومت انکے ہاتھ میں ہے، مگر یہ یقینی بات ہے کہ نواز لیگ کی جگہ اگر پیپلز پارٹی ہوتی تب بھی یہ ڈرامہ یونہی ہونا تھا کیونکہ سیاسی جماعتیں اصول و نظریات سے زیادہ اپنے ووٹ بینک کی فکر کرتی ہیں، اور لال مسجد کے واقعے کے بعد ہر سیاسی پارٹی نے کم از کم یہ سبق ضرور سے سیکھ لیا ہے کہ مذہبی انتہا پسندوں سے براہ راست ٹکر لینا سیاسی خود کشی کے مترادف ہے [لال مسجد کے واقعے سے قبل مشرف صاحب کی حکومت پر مکمل گرفت تھی، مگر مذہبی انتہا پسندوں سے براہ راست ٹکر لینا کا خمیازہ انہیں بہت مہنگا پڑا اور رائیٹ ونگ میڈیا نے تہس نہس کر دیا۔ اور یہ حال ہر اُس سیاسی جماعت کو ہو گا جو مذہبی انتہا پسندی سے براہ راست ٹکر لینے کی کوشش کرے گی]

***************

بابری مسجد، ہندو انتہا پسند اور ہندوستان کی مرکزی حکومت

یہی ڈرامہ انڈیا میں بھی بابری مسجد کی شہادت کے وقت کھیلا گیا۔

اور بابری مسجد کی شہادت میں ہندو انتہا پسند اکیلے ذمہ دار نہیں ہیں۔

بلکہ اُس وقت ہندوستان کے مرکزی سیاسی حکومت ان ہندو انتہا پسندوں کے اس جرم میں برابر کی شریک تھی۔ یہ معامہ سیاست کا بھی تھا، یہ معاملہ ووٹ بینک کا بھی تھا جسے مرکزی سیاسی حکومت کسی صورت کھونا نہیں چاہتی تھی اور صرف اسی وجہ سے مرکزی حکومت و فورسز خاموش تماشائی بنے کھڑے رہے اور انتہا پسند ہندو بابری مسجد کو شہید کرنے میں کامیاب ہوئے۔

اور صرف بابری مسجد ہی نہیں۔

جی ہاں صرف بابری مسجد ہی نہیں، بلکہ جب بھی ہندو مسلم فسادات ہوتے ہیں تو یہی پولیس والے یوں ہی خاموش تماشائی بنے کھڑے پائے جاتے ہیں اور بلوائی حملوں میں مصروف ہوتے ہیں اور سیاسی جماعتیں زبانی بیان بازیاں کر رہی ہوتی ہیں۔
 

arifkarim

معطل
ماشاءاللہ۔ یعنی ہر واقعہ کا ذمہ ددار حکومت پاکستان، اور اسکو الیکٹ کرنے والے عوام الپاکستان!
 

طالوت

محفلین
شکریہ مہوش تعمیری گفتگو کرنے کے لئے ۔
مگر اس کے ساتھ دائیں بائیں سے مرچ مصالحہ لگانے کی ضرورت نہیں ۔ امیر المومنین سیدنا عثمان کے ساتھ بلوائی "جسٹس" نہیں دہشت گردی کی گئی تھی ۔ آپ کے اس جملے سے جس قسم کا تاثر ملتا ہے وہ آپ بخوبی سمجھتی ہیں ۔ ازراہ کرم اس ضمن میں احتیاط سے کام لیں ۔ اس طرح کی ابحاث ان واقعات کے ذکر کے بغیر بھی مکمل ہو سکتی ہیں ۔
وسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
شکریہ طالوت۔ مگر آپ کا اعتراض بے جا ہی ہے کیونکہ یہاں بات بلوائی نقطہ نظر سے ہو رہی ہے کہ جو اپنی دانسٹ میں معاشرے کی اصلاح اور انصاف کا نام لے کر ہی اٹھے تھے اور ہتھیار بند ہو کر ارض خدا پر فتنہ و فساد پھیلانے لگے تھے [کچھ لال مسجد والوں کی طرح]
 

dxbgraphics

محفلین
مہوش علی : پاکستان کا سیاسی نظام سب سے بڑا قصوروار
اس واقعے کے سارے ذمہ دار صرف مذہبی انتہا پسند نہیں ہیں۔۔۔۔۔ بلکہ افسوس کہ پاکستان کا سیاسی نظام اس سلسلے میں سب سے بڑا قصور وار ہے۔ آگے چل کر آپ پر یہ بات واضح ہو گی کہ میں کیوں پاکستانی سیاسی نظام کو قصوروار ٹہرا رہی ہوں۔

سو فیصد اتفاق کرتا ہوں آپ کی اس بات سے
 

dxbgraphics

محفلین
شکریہ مہوش تعمیری گفتگو کرنے کے لئے ۔
مگر اس کے ساتھ دائیں بائیں سے مرچ مصالحہ لگانے کی ضرورت نہیں ۔ امیر المومنین سیدنا عثمان کے ساتھ بلوائی "جسٹس" نہیں دہشت گردی کی گئی تھی ۔ آپ کے اس جملے سے جس قسم کا تاثر ملتا ہے وہ آپ بخوبی سمجھتی ہیں ۔ ازراہ کرم اس ضمن میں احتیاط سے کام لیں ۔ اس طرح کی ابحاث ان واقعات کے ذکر کے بغیر بھی مکمل ہو سکتی ہیں ۔
وسلام

تعمیری گفتگو میں ایسے تاثرات بہ آسانی سمجھ میں آجاتے ہیں۔ اگر کوئی بات کریں تو تنبیہ ملتی ہے۔
 
Top