گوشت کا مرثیہ (روحِ اقبال سے معذرت کے ساتھ)-سید محمد جعفری

عبدالحسیب

محفلین
گوشت خوری کے لیے ہند میں مشہور ہیں ہم
جب سے ہڑتال ہے قصابوں کی مجبور ہیں ہم
چار ہفتہ ہوئے قلیے سے بھی مہجور ہیں ہم
"نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم"
"اَے خدا شکوہ اربابِ وفا بھی سن لے"
خوگرِ گوشت سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
آگیا عین ضیافت میں اگر ذکرِ بٹیر
اٹھ گئے نیر سے ہونے بھی نا پائے تھے سیر
گھاس کھا کر کبھی جیتے ہیں نیستاں میں بھی شیر؟
تو ہی بتلا ترے بندوں میں ہے کون ایسا دلیر؟
تھی جو ہمسائے کی مرغی وہ چرائی ہم نے
نام پر تیرے چھری اس پہ چلائی ہم نے
سرِ محفل مجھے کہتے ہوئے آتا ہے حجاب
قطع گردن سے پرے ہوتی ہے تیغ قصاب
گوشت ملتا نہ تھا آلو کے بنائے ہیں کباب
مرغ و ماہی ہوئے منڈی میں بھی اتنے کمیاب
جلد پہنچا جو وہاں چل دیا مرغا لے کر
"آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر"
شہر میں گوشت کی خاطر صفت جام پھرے
ہم پھرے جملہ اعزّاء پھرے خدام پھرے
جس جگہ پہنچے اسی کوچے سے ناکام پھرے
"محفل کون و مکاں میں سحر و شام پھرے"
شب میں چڑیوں کے بسیرے بھی نہ چھوڑے ہم نے
"بحرِ ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے"
ہو گئی قورمے اور قلیے سے خالی دنیا
رہ گئی مرغ پلاؤ کی خیالی دنیا
گوشت رخصت ہوا دالوں نے سنبھالی دنیا
آج کل گھاس کی کرتی ہے جگالی دنیا
"طعن اغیار ہے رسوائی ہے ناداری ہے
کیا تری دہلی میں رہنے کا عوض خواری ہے"
-سید محمد جعفری
 
گوشت خوری کے لیے ہند میں مشہور ہیں ہم
جب سے ہڑتال ہے قصابوں کی مجبور ہیں ہم
آگیا عین ضیافت میں اگر ذکرِ بٹیر
اٹھ گئے نیر سے ہونے بھی نا پائے تھے سیر
گھاس کھا کر کبھی جیتے ہیں نیستاں میں بھی شیر؟
تو ہی بتلا ترے بندوں میں ہے کون ایسا دلیر؟
عبدالحسیب بھائی مندرجہ بالا اشعار کو ایک بار پھر چیک کرلیجیے۔ ہمیں محسوس ہورہا ہے کہ ان میں ٹائیپو ہے شاید!
 

عبدالحسیب

محفلین
عبدالحسیب بھائی مندرجہ بالا اشعار کو ایک بار پھر چیک کرلیجیے۔ ہمیں محسوس ہورہا ہے کہ ان میں ٹائیپو ہے شاید!
بھائی جان پہلے شعر میں تو میں کچھ ٹائیپو تلاش نہیں کر پایا۔ آپ ہی بتا دیں تو بہتر ہے۔ ہاں دوسرے اور تیسرے شعر میں مجھے شک ہے کہ اصل لفظ کچھ اور ہے۔

آگیا عین ضیافت میں اگر ذکرِ بٹیر
اٹھ گئے نیر سے ہونے بھی نا پائے تھے سیر
گھاس کھا کر کبھی جیتے ہیں نیستاں میں بھی شیر؟
تو ہی بتلا ترے بندوں میں ہے کون ایسا دلیر؟
پہلے شعر میں لفظ نیر شائد میز ہے اور دوسرے شعر میں نیستاں کیا لفظ ہے میں سمجھ نہیں پایا۔ مجھے لگا نیست کوہی مقامی لہجے میں نیستاں استعمال کیا گیا ہے۔ اصل نسخے میں تحریر واضح نظر نہیں آرہی۔
 
گوشت خوری کے لیے ہند میں مشہور ہیں ہم

سید محمد جعفری کے ہاں مزاح کے دو حربے بیک وقت کارفرما ہوتے ہیں: مضمون آفرینی اور لفظی بازی گری۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ اُن کے ہاں زبان کی صحت برقرار رہتی ہے۔ اُن کا وصفِ خاص معاشرتی ناہمواریوں کا ادراک اور اس کا مؤثر اظہار ہے۔

’’شوخیٔ تحریر‘‘ میں شامل نظمیں ’’کھڑا ڈنر‘‘ اور ’’ایبسٹریکٹ آرٹ‘‘ ضرور پڑھئے گا۔

محمد خلیل الرحمٰن
محمد اسامہ سَرسَری
 

عبدالحسیب

محفلین
سید محمد جعفری کے ہاں مزاح کے دو حربے بیک وقت کارفرما ہوتے ہیں: مضمون آفرینی اور لفظی بازی گری۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ اُن کے ہاں زبان کی صحت برقرار رہتی ہے۔ اُن کا وصفِ خاص معاشرتی ناہمواریوں کا ادراک اور اس کا مؤثر اظہار ہے۔

’’شوخیٔ تحریر‘‘ میں شامل نظمیں ’’کھڑا ڈنر‘‘ اور ’’ایبسٹریکٹ آرٹ‘‘ ضرور پڑھئے گا۔

محمد خلیل الرحمٰن
محمد اسامہ سَرسَری
یعقوب آسی بھائی، اس مفید معلومات کے لیے بہت شکریہ۔ دونوں نظمیں انشاء اللہ ضرور پڑھیں گے۔

یہاں کچھ اصلاح کی ضرورت ہے آپ ایک نظر دیکھ لیں تو عنایت ہوگی۔
آگیا عین ضیافت میں اگر ذکرِ بٹیر
اٹھ گئے نیر سے ہونے بھی نا پائے تھے سیر
گھاس کھا کر کبھی جیتے ہیں نیستاں میں بھی شیر؟
تو ہی بتلا ترے بندوں میں ہے کون ایسا دلیر؟
 
سید محمد جعفری کے ہاں مزاح کے دو حربے بیک وقت کارفرما ہوتے ہیں: مضمون آفرینی اور لفظی بازی گری۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ اُن کے ہاں زبان کی صحت برقرار رہتی ہے۔ اُن کا وصفِ خاص معاشرتی ناہمواریوں کا ادراک اور اس کا مؤثر اظہار ہے۔

’’شوخیٔ تحریر‘‘ میں شامل نظمیں ’’کھڑا ڈنر‘‘ اور ’’ایبسٹریکٹ آرٹ‘‘ ضرور پڑھئے گا۔

محمد خلیل الرحمٰن
محمد اسامہ سَرسَری
یاد کرنے کا بہت شکریہ استاد جی!
 

عبدالحسیب

محفلین
دوبارہ دیکھ لیا۔ یہاں مصرع اسی طرح لکھا ہے،​
جب سے ہڑتال ہے قصابوں کی مجبور ہیں ہم
ماخذ : صفحہ 89، شگوفہ :حیدرآباد
عبدالحسیب بھائی ! شکریہ کہ آپ کو دوبارہ دیکھنے کی زحمت اُٹھانی پڑی۔ ابھی ہم نے فاتح بھائی سے پوچھا تو انہوں نے ہماری تشفی کروادی، یوں بھی استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی بھائی کی خاموشی بجائے خود اشارہ تھی۔
 

فاتح

لائبریرین
بھائی جان پہلے شعر میں تو میں کچھ ٹائیپو تلاش نہیں کر پایا۔ آپ ہی بتا دیں تو بہتر ہے۔ ہاں دوسرے اور تیسرے شعر میں مجھے شک ہے کہ اصل لفظ کچھ اور ہے۔

پہلے شعر میں لفظ نیر شائد میز ہے اور دوسرے شعر میں نیستاں کیا لفظ ہے میں سمجھ نہیں پایا۔ مجھے لگا نیست کوہی مقامی لہجے میں نیستاں استعمال کیا گیا ہے۔ اصل نسخے میں تحریر واضح نظر نہیں آرہی۔
پہلا لفظ نیر بر وزن فاع (بمعنی پانی) یہاں کوئی معنی نہیں دے رہا لہٰذا عقلی طور پر یہاں میز یا ایسا ہی کوئی اور لفظ ہونا چاہیے۔
دوسرا لفظ نَیَستاں بر وزن فعولن بالکل درست ہے اور اس کا مطلب ہوتا ہے بانسوں یا سرکنڈوں کا جنگل جہاں عموماً شیر شکار کے لیے گھات لگا کر بیٹھتا ہے۔
 

عبدالحسیب

محفلین
عبدالحسیب بھائی ! شکریہ کہ آپ کو دوبارہ دیکھنے کی زحمت اُٹھانی پڑی۔ ابھی ہم نے فاتح بھائی سے پوچھا تو انہوں نے ہماری تشفی کروادی، یوں بھی استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی بھائی کی خاموشی بجائے خود اشارہ تھی۔
اس میں زحمت کی کیا بات بھائی جان؟ میں یہاں مواد شامل ہی اسی لیے کرتا ہوں کہ کہیں ٹائیپو کے اغلاط ہوں یا اور کچھ تو اصلاح ہو جائے اور اہل محفل کے ساتھ اپنا انتخاب بھی شیئر ہو جاتا ہے۔ بہت شکریہ اب پہلے مصرع پر اطمنان ہو گیا لیکن ابھی دو اشعار باقی ہیں جن میں اصلاح کی گنجائش ہے۔


آگیا عین ضیافت میں اگر ذکرِ بٹیر
اٹھ گئے نیر سے ہونے بھی نا پائے تھے سیر
گھاس کھا کر کبھی جیتے ہیں نیستاں میں بھی شیر؟
تو ہی بتلا ترے بندوں میں ہے کون ایسا دلیر؟
 
پہلا لفظ نیر بر وزن فاع (بمعنی پانی) یہاں کوئی معنی نہیں دے رہا لہٰذا عقلی طور پر یہاں میز یا ایسا ہی کوئی اور لفظ ہونا چاہیے۔
دوسرا لفظ نَیَستاں بر وزن فعولن بالکل درست ہے اور اس کا مطلب ہوتا ہے بانسوں یا سرکنڈوں کا جنگل جہاں عموماً شیر شکار کے لیے گھات لگا کر بیٹھتا ہے۔

اچھا بھائی جان دیکھئے آپ کی اس تشریح سے مجھے خیال آیا شیر جہاں رہتا ہے اس کو کیا کہتے میرا مطلب اس کے گھر کو کچھار کہنا درست ہے یا کوئی اور اسپیسفک ورڈ آتاہے۔
 

عبدالحسیب

محفلین
پہلا لفظ نیر بر وزن فاع (بمعنی پانی) یہاں کوئی معنی نہیں دے رہا لہٰذا عقلی طور پر یہاں میز یا ایسا ہی کوئی اور لفظ ہونا چاہیے۔
دوسرا لفظ نَیَستاں بر وزن فعولن بالکل درست ہے اور اس کا مطلب ہوتا ہے بانسوں یا سرکنڈوں کا جنگل جہاں عموماً شیر شکار کے لیے گھات لگا کر بیٹھتا ہے۔
بہت شکریہ فاتح بھائی پہلے لفظ میں مجھے بھی لگ رہا تھا کہ میز ہی ہونا چاہیے ۔ دوسرے لفظ کا مفہوم سمجھانے کے لیے بہت شکریہ ۔ میں کچھ کا کچھ مطلب سمجھ بیٹھا تھا:)
 

عبدالحسیب

محفلین
دوسرا لفظ
نَیَستاں
بر وزن فعولن بالکل درست ہے اور اس کا مطلب ہوتا ہے بانسوں یا سرکنڈوں کا جنگل جہاں عموماً شیر شکار کے لیے گھات لگا کر بیٹھتا ہے۔
اچھا بھائی جان دیکھئے آپ کی اس تشریح سے مجھے خیال آیا شیر جہاں رہتا ہے اس کو کیا کہتے میرا مطلب اس کے گھر کو کچھار کہنا درست ہے یا کوئی اور اسپیسفک ورڈ آتاہے۔

بھائی جان۔ شیر جہاں رہتا ہے وہ جگہ اور یہ جگہ دونوں مختلف ہیں۔ :)
 
Top