عبدالحسیب
محفلین
گوشت خوری کے لیے ہند میں مشہور ہیں ہم
جب سے ہڑتال ہے قصابوں کی مجبور ہیں ہم
چار ہفتہ ہوئے قلیے سے بھی مہجور ہیں ہم
"نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم"
"اَے خدا شکوہ اربابِ وفا بھی سن لے"
خوگرِ گوشت سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
آگیا عین ضیافت میں اگر ذکرِ بٹیر
اٹھ گئے نیر سے ہونے بھی نا پائے تھے سیر
گھاس کھا کر کبھی جیتے ہیں نیستاں میں بھی شیر؟
تو ہی بتلا ترے بندوں میں ہے کون ایسا دلیر؟
تھی جو ہمسائے کی مرغی وہ چرائی ہم نے
نام پر تیرے چھری اس پہ چلائی ہم نے
سرِ محفل مجھے کہتے ہوئے آتا ہے حجاب
قطع گردن سے پرے ہوتی ہے تیغ قصاب
گوشت ملتا نہ تھا آلو کے بنائے ہیں کباب
مرغ و ماہی ہوئے منڈی میں بھی اتنے کمیاب
جلد پہنچا جو وہاں چل دیا مرغا لے کر
"آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر"
شہر میں گوشت کی خاطر صفت جام پھرے
ہم پھرے جملہ اعزّاء پھرے خدام پھرے
جس جگہ پہنچے اسی کوچے سے ناکام پھرے
"محفل کون و مکاں میں سحر و شام پھرے"
شب میں چڑیوں کے بسیرے بھی نہ چھوڑے ہم نے
"بحرِ ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے"
ہو گئی قورمے اور قلیے سے خالی دنیا
رہ گئی مرغ پلاؤ کی خیالی دنیا
گوشت رخصت ہوا دالوں نے سنبھالی دنیا
آج کل گھاس کی کرتی ہے جگالی دنیا
"طعن اغیار ہے رسوائی ہے ناداری ہے
کیا تری دہلی میں رہنے کا عوض خواری ہے"
-سید محمد جعفری