نارنگ صاحب پر سرقے کا الزام پہلے بھی لگایا گیا تھا۔ لیکن یہ اطلاع میرے لئے نئی ہے۔ بے حد افسوس ہوا، نارنگ صاحب کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری اردو یونیورسٹی نے دی ہے اور علی گڑھ یونیورسٹی نے بھی ان کو اور اے آر رحمٰن کو اگلے تقسیم اسناد میں دینے کا اعلان کیا ہے۔
نارنگ صاحب پر سرقے کا الزام پہلے بھی لگایا گیا تھا۔ لیکن یہ اطلاع میرے لئے نئی ہے۔ بے حد افسوس ہوا، نارنگ صاحب کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری اردو یونیورسٹی نے دی ہے اور علی گڑھ یونیورسٹی نے بھی ان کو اور اے آر رحمٰن کو اگلے تقسیم اسناد میں دینے کا اعلان کیا ہے۔
بزرگان ادب پر یہ پہلی بار سرقے پر الزام نہیں لگ رہا میرے پاس کراچی یونی ورسٹی کا جریدہ موجود ہے جس میں ابوالکلام آزاد، مولانا مودودی،علامہ نیاز فتح پوری تک کو مولانا حسن مثنی ندوی اور مرحوم ابوالخیر کشفی نے سارق مع ثبوت ثابت کیا ہے دونوں کی اصل اور سرقہ تحریف شدہ دو کالمون میں عکسی شہادتیں دی گئی ہیں۔دراصل یہ ساختیات وغیرہ یورپ ہی کی درآمدہ فکر ہے بیچارے ڈاکٹر فہیم اعظمی،محمد علی صدیقی تک اس وبائی مرض سے نہ بچ سکے ایک دنیا سے اس کے ادب میں نفوذ و رسوخ کا غم لیے آل محمد کے قبرستان میں خاک بسر ہوگئے دوسرے شاید پیکنگ یا ماسکو میں شیشے کے تابوت میں رکھ دیے جاءیں گے ۔ڈی لٹ کی ڈگری تو ڈاکٹر جمیل جالبی اور فرمان فتح پوری صاحبان کے پاس بھی ہیں مگر قسم لے و جو آج تک ایک تخلیقی فقرہ ان دونوں نے 50 یا 60 برسون میں اردو ادب کو دیا ہو۔یہ لوگ اپنے ماتحتوں کو کتابیں پڑھنے کے لیے دیتے ان کی رائے پر دو چار سطور بڑھاکے مسلسل نئے لکھنے والوں پر احسانات کرتے چلے گئے میں کیا عرض کروں کچھ کہا تو گستاخی پر محمول کیا جائے گا پروردگار نے دو نمبر کے لوگوں کو شاید آگے ہی آگے بڑھتے رہنے کا زیادہ حوصلہ بخشا ہم کو افتخار عارف اور نصیر ترابی کا مکالمہ یاد آگیا۔۔۔۔افتخار عارف نے کہا یار جتنی عزت اور شہرت ہمیں ملی تم کو کیوں نہیں مل سکی! نصیر ترابی بولے ”تم عزت کمانے کے چکر مین لگے ہو ہم عزت بچانے کی فکر میں رہتے ہیں“ اگر عرفان صدیقی اور افتخار عارف کی شاعری کا موازنہ بھی کوئی جی دار کردے تو کھرے کھوٹے کا سب احوال کھل جائے گا رستے میں!سیدانورجاویدہاشمی
عہدساز تحقیقی و تجزیاتی مطالعات پر مشتمل جریدہ ستائیس“۲۷’” چہ دلاور است مشرق و مغرب میں سرقہ بازی کی تاریخ “مہر نیم روز” کے سراغ رسانوں علی اکبر قاصد،حسن مثنیِ ندوی،ابوالخیر کشفی،ڈاکٹرفرمان فتح پوری قاضی عبدالودود اور ڈاکٹر حبیب الحق ندوی کی تحقیقات شعبہء تصنیف و تالیف و ترجمہ جامعہ کراچی ۔۔شمارہ ۲۷ اشاعت ۲۰۰۴ء سید خالد جامعی، عمیر حمید ہاشمی ڈائرکٹر و ڈپٹی ڈائرکٹر اور مدیران سے مل سکتا ہے قیمت ۲۰۰ روپے ۔۔۔۔۔ترغیبات جنسی علامہ نیازفتح پوری نے ہیولاک ایلیس کا سرقہ کیا؛ سیر المصنفین یحییِ نتہا علیگ سے محمد حسین آزاد محفوظ نہ رہ سکے؛ نیلی چھتری مشہور زمانہ ناول از ظفر عمر بی اے علیگ موریس لیبانک کا سرقہ؛قاضی عبدالغفار “دوپیسے کی چھوکری والے” نے خلیل جبران کے مال پر ہاتھ صاف کیا؛ابوالکلام آزاد پر علامہ سید رشید رضا المنار کی تفسیر سے سرقے کا ثبوت ؛مرزا غلام احمد قادیانی نے ابوالقاسم حریری و بدیع الزماں ہمدانی سے مسیح دجال بننے کا گر سیکھا؛ عصمت چغتائی عدالت خانم کا مال چراتی رہیں؛ کرشن چندر پر نون میم راشد نے سی ڈی لیوس کے خیالات سرقہ کرنے کا الزام عائد کیا؛ محمد حسین آزاد جیسے نابغہ جانسن و ایڈیسن کو ترجمہ کرکے اصل مصنف کہلانے لگے ۔۔۔اصل جریدہ مغل صاحب کو جامعہ کراچی سے لانا پڑے گا ہم کچھ کیسے پیش کریں۔فہرست سے چند باتیں درج کردی ہیں۔یقین تو جب آئے گا جب ہاتھ میں نگاہوں کے سامنے یہ سب اعلیِ ادبی نمونے آئیں گے۔کچھ نام ایسے ہیں کہ بے ساختہ انگشت بدنداں ہونا پڑتا ہے۔۔ہائیں نہیں ہرگز نہیں یہ سرقہ نہیں کرسکتے مگر ثبوت موجود!بابا جانی ۔ ابھی تک تصدیق تو نہیں ہوئی ہے ۔ پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں۔
عہدساز تحقیقی و تجزیاتی مطالعات پر مشتمل جریدہ ستائیس“۲۷’” چہ دلاور است مشرق و مغرب میں سرقہ بازی کی تاریخ “مہر نیم روز” کے سراغ رسانوں علی اکبر قاصد،حسن مثنیِ ندوی،ابوالخیر کشفی،ڈاکٹرفرمان فتح پوری قاضی عبدالودود اور ڈاکٹر حبیب الحق ندوی کی تحقیقات شعبہء تصنیف و تالیف و ترجمہ جامعہ کراچی ۔۔شمارہ ۲۷ اشاعت ۲۰۰۴ء سید خالد جامعی، عمیر حمید ہاشمی ڈائرکٹر و ڈپٹی ڈائرکٹر اور مدیران سے مل سکتا ہے قیمت ۲۰۰ روپے ۔۔۔۔۔ترغیبات جنسی علامہ نیازفتح پوری نے ہیولاک ایلیس کا سرقہ کیا؛ سیر المصنفین یحییِ نتہا علیگ سے محمد حسین آزاد محفوظ نہ رہ سکے؛ نیلی چھتری مشہور زمانہ ناول از ظفر عمر بی اے علیگ موریس لیبانک کا سرقہ؛قاضی عبدالغفار “دوپیسے کی چھوکری والے” نے خلیل جبران کے مال پر ہاتھ صاف کیا؛ابوالکلام آزاد پر علامہ سید رشید رضا المنار کی تفسیر سے سرقے کا ثبوت ؛مرزا غلام احمد قادیانی نے ابوالقاسم حریری و بدیع الزماں ہمدانی سے مسیح دجال بننے کا گر سیکھا؛ عصمت چغتائی عدالت خانم کا مال چراتی رہیں؛ کرشن چندر پر نون میم راشد نے سی ڈی لیوس کے خیالات سرقہ کرنے کا الزام عائد کیا؛ محمد حسین آزاد جیسے نابغہ جانسن و ایڈیسن کو ترجمہ کرکے اصل مصنف کہلانے لگے ۔۔۔اصل جریدہ مغل صاحب کو جامعہ کراچی سے لانا پڑے گا ہم کچھ کیسے پیش کریں۔فہرست سے چند باتیں درج کردی ہیں۔یقین تو جب آئے گا جب ہاتھ میں نگاہوں کے سامنے یہ سب اعلیِ ادبی نمونے آئیں گے۔کچھ نام ایسے ہیں کہ بے ساختہ انگشت بدنداں ہونا پڑتا ہے۔۔ہائیں نہیں ہرگز نہیں یہ سرقہ نہیں کرسکتے مگر ثبوت موجود!
سید انورجاویدہاشمی
آپ کی اکثر باتیں درست ہیں !!بزرگان ادب پر یہ پہلی بار سرقے پر الزام نہیں لگ رہا میرے پاس کراچی یونی ورسٹی کا جریدہ موجود ہے جس میں ابوالکلام آزاد، مولانا مودودی،علامہ نیاز فتح پوری تک کو مولانا حسن مثنی ندوی اور مرحوم ابوالخیر کشفی نے سارق مع ثبوت ثابت کیا ہے دونوں کی اصل اور سرقہ تحریف شدہ دو کالمون میں عکسی شہادتیں دی گئی ہیں۔دراصل یہ ساختیات وغیرہ یورپ ہی کی درآمدہ فکر ہے بیچارے ڈاکٹر فہیم اعظمی،محمد علی صدیقی تک اس وبائی مرض سے نہ بچ سکے ایک دنیا سے اس کے ادب میں نفوذ و رسوخ کا غم لیے آل محمد کے قبرستان میں خاک بسر ہوگئے دوسرے شاید پیکنگ یا ماسکو میں شیشے کے تابوت میں رکھ دیے جاءیں گے ۔ڈی لٹ کی ڈگری تو ڈاکٹر جمیل جالبی اور فرمان فتح پوری صاحبان کے پاس بھی ہیں مگر قسم لے و جو آج تک ایک تخلیقی فقرہ ان دونوں نے 50 یا 60 برسون میں اردو ادب کو دیا ہو۔یہ لوگ اپنے ماتحتوں کو کتابیں پڑھنے کے لیے دیتے ان کی رائے پر دو چار سطور بڑھاکے مسلسل نئے لکھنے والوں پر احسانات کرتے چلے گئے میں کیا عرض کروں کچھ کہا تو گستاخی پر محمول کیا جائے گا
آپ کی اکثر باتیں درست ہیں !!
کچھ اور پردہ نشینوں کے نام بھی مع ثبوت میرے پاس ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ایسی گستاخی کے لیے وقت نہیں ہے
دنیا میں اور بھی کام ہیں زلفِ پریشاں کو سنوارنے کے سوا
نظم تاج محل کے حوالے سے ساحر لدھیانوی پر بھی سرقہ کا الزام لگا اور کئی محققین نے ثبوت بھی پیش کیے۔ کچھ اس بارے بھی ارشاد ہو۔
میرے دائرہِ جہالت میں ایسی کوئی بات نہیں آئی ۔ آج پہلی بار جناب سے خبر ملی ہے ۔ ویسے واقعہ کیا تھا۔۔
( میں آپ کی طرح دوسو سال کا تو ہوں نہیں ۔۔ )
صاحب کیا آپ ہمیں قتل کرنے پر مامور کئے گئے ہیں ۔۔؟؟