وہ تو رومن سندھی کہلائے گی پھر تو ۔۔۔۔انڈیا کے سندھی غالبا دیوناگری رسم الخط استعمال کرتے ہیں -
میرے کمپوٹر میں جمیل نوری نسعلیق فونٹ انسٹال ہے۔ اور جس نے بھی سندھی میں کچھ لکھا ہے وہ مجھ سے صحیح پڑھا نہیں جا رہے۔۔۔۔
جمیل نوری نستعلیق اردو کا فانٹ ہے۔ اسمیں دیگر زبانیں نہیں لکھی جا سکتیں۔میرے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے۔@نبیل اور ابن سعید بھائی توجہ دیں۔
گر مکھی کا تو پتا ہے۔ یہ شاہ مکھی کیا ہے؟اچھی خبر ہے
دیکھیں پنجابی (شاہ مکھی) کی باری کب آتی ہے
ضروری نہیں ہے۔ محمد بن قاسم کی سندھ آمد سے قبل بھی سندھی زبان موجود تھی اور عربی رسم الخط میں لکھی نہیں جاتی تھی۔وہ تو رومن سندھی کہلائے گی پھر تو ۔۔۔۔
اب کی بات ہو رہی ہے بھئی عارف ۔ جب کی نہیں ۔ضروری نہیں ہے۔ محمد بن قاسم کی سندھ آمد سے قبل بھی سندھی زبان موجود تھی اور عربی رسم الخط میں لکھی نہیں جاتی تھی۔
زبان آپ کسی بھی رسم الخط میں لکھ سکتے ہیں۔ بس اسکا تلفظ خراب نہ ہو۔اب کی بات ہو رہی ہے بھئی عارف ۔ جب کی نہیں ۔
ویسے مجھے پتہ نہیں تھا۔
نہیں عارف ۔ ایسا نہیں ہے تلفظ تو لامحالہ خراب ہو ہی جاتا ہے ۔زبان آپ کسی بھی رسم الخط میں لکھ سکتے ہیں۔ بس اسکا تلفظ خراب نہ ہو۔
وہ رسم الخط کونسا تھا؟ضروری نہیں ہے۔ محمد بن قاسم کی سندھ آمد سے قبل بھی سندھی زبان موجود تھی اور عربی رسم الخط میں لکھی نہیں جاتی تھی۔
جس زبان کا اپنا رسم الخط متعین نہ ہو تو پھروہ زبان نہیں بولی کہلاتی ہے۔زبان آپ کسی بھی رسم الخط میں لکھ سکتے ہیں۔ بس اسکا تلفظ خراب نہ ہو۔
دیوناگری میں سندھی 1948 میں شروع ہوئی اور ابھی بھی انڈیا میں سندھی اور دیوناگری دونوں رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ضروری نہیں ہے۔ محمد بن قاسم کی سندھ آمد سے قبل بھی سندھی زبان موجود تھی اور عربی رسم الخط میں لکھی نہیں جاتی تھی۔
اردو یا ہندی دیوناگری رسم الخط میں لکھنے سے بھی چل جاتی ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں۔ ترکی زبان کو بھی پہلی جنگ عظیم کے بعد عربی رسم الخط سے رومنائز کیا گیا تھا۔ اور ابھی تک وہی چل رہا ہے۔ انہیں واپس عربی پر جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔نہیں عارف ۔ ایسا نہیں ہے تلفظ تو لامحالہ خراب ہو ہی جاتا ہے ۔
ہر زبان کی اپنی لفظی اور صوتی باریکیاں اور نزاکتیں بھی تو ہوتی ہیں ۔
عربی کا ح فارسی کا ژ وغیرہ ۔۔۔۔نہیں عارف ۔ ایسا نہیں ہے تلفظ تو لامحالہ خراب ہو ہی جاتا ہے ۔
ہر زبان کی اپنی لفظی اور صوتی باریکیاں اور نزاکتیں بھی تو ہوتی ہیں ۔
عارف ! یہ بھی ایک حد تک ٹھیک ہے کہ کام چل جاتا ہے ۔ مگر لسانی تقاضے ملفوظی اور صوتی یا منطوقی عناصر کا حق ادا نہیں ہو تا۔میری مراد اس سے تھی ۔اردو یا ہندی دیوناگری رسم الخط میں لکھنے سے بھی چل جاتی ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں۔ ترکی زبان کو بھی پہلی جنگ عظیم کے بعد عربی رسم الخط سے رومنائز کیا گیا تھا۔ اور ابھی تک ویسے ہی چل رہا ہے۔
1947 تک خدا بادی رسم الخط بھی استعمال ہوتا تھا:دیوناگری میں سندھی 1948 میں شروع ہوئی اور ابھی بھی انڈیا میں سندھی اور دیوناگری دونوں رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔
آپ سے کس نے کہہ دیا کہ سندھی سدھم میں لکھی جاتی تھی؟یہاں تو سنسکرت کا ذکر ہورہاہے۔ سندھی کس رسم الخط میں لکھی جاتی تھی اس کا کوئی ذکر موجود نہیں۔
رسم الخط کی تبدیلی کی ضرورت آخر کیوں؟ کیا موجودہ رسم الخط میں کوئی مسئلہ ہے؟ رسم الخط کی تبدیلی سے سینکڑوں سال کی محنت جو اہلِ علم اور اہلِ زبان نے کی ہے سارا ضائع ۔۔۔!اردو یا ہندی دیوناگری رسم الخط میں لکھنے سے بھی چل جاتی ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں۔ ترکی زبان کو بھی پہلی جنگ عظیم کے بعد عربی رسم الخط سے رومنائز کیا گیا تھا۔ اور ابھی تک ویسے ہی چل رہا ہے۔
معلوم نہیں یہ رسم الخط کی بحث کیوں چھڑ گئی جب کہ سندھی کا تقریبا سب کام سندھی رسم الخط ہی میں ہو رہا ہے۔
وہ تو رومن سندھی کہلائے گی پھر تو ۔۔۔۔
ضروری نہیں ہے۔ محمد بن قاسم کی سندھ آمد سے قبل بھی سندھی زبان موجود تھی اور عربی رسم الخط میں لکھی نہیں جاتی تھی۔
زبان آپ کسی بھی رسم الخط میں لکھ سکتے ہیں۔ بس اسکا تلفظ خراب نہ ہو۔
اردو یا ہندی دیوناگری رسم الخط میں لکھنے سے بھی چل جاتی ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں۔ ترکی زبان کو بھی پہلی جنگ عظیم کے بعد عربی رسم الخط سے رومنائز کیا گیا تھا۔ اور ابھی تک ویسے ہی چل رہا ہے۔
موجودہ عربی رسم الخط میں کوئی مسئلہ نہیں۔ البتہ اس سے دیگر رسم الخط کی حیثیت کم نہیں ہوتی۔رسم الخط کی تبدیلی کی ضرورت آخر کیوں؟ کیا موجودہ رسم الخط میں کوئی مسئلہ ہے؟ رسم الخط کی تبدیلی سے سینکڑوں سال کی محنت جو اہلِ علم اور اہلِ زبان نے کی ہے سارا ضائع ۔۔۔!
میں نے صرف رسم الخط کی تبدیلی کے ضمن میں بات کی تھی۔ اتا ترک کی شان میں قصیدے نہیں لکھے تھے۔جہاں تک کمال اتاترک کی بات ہے تو اس نے ترکی پر کون سا ایسا احسان کردیا کہ ہم اس کی تعریف کریں۔ اس نے ترکیوں کو اپنے ہزار سالہ تاریخ سے یک دم منقطع کردیا۔ ایسا پاگل شخص کسی بھی قوم کو تباہی تک ہی لے جاتاہے۔
ترکی کی ترقی کا رسم الخط کی تبدیلی سے کیا تعلق؟ ہم نے صرف یہ لکھا تھا کہ رسم الخط بدل دینے سے زبان نہیں بدل جاتی۔اب یہ نہ کہیں کہ ترکی نے اس سب کے باوجود ترقی کی ۔ اس سے اچھی ترقی دیگر قوموں نے اپنی زبانوں کے قائم رسم الخط میں کی ہے۔
کیونکہ اردو، ہندی، پنجابی، سندھی وغیرہ مختلف رسم الخط سے لکھی جا سکتی ہیں۔ اور گوگل کیلئے ایک یہ چیلنج ہوگا کہ ان میں سے کس کو زیادہ بہتر اسپورٹ فراہم کرے۔معلوم نہیں یہ رسم الخط کی بحث کیوں چھڑ گئی جب کہ سندھی کا تقریبا سب کام سندھی رسم الخط ہی میں ہو رہا ہے۔