جاسمن
لائبریرین
گھونسلے میں گھونسلا
اپریل کے آخری دِن تھے۔ بچوں کے نعروں کی آواز کانوں میں آئی،"اے سی،اے سی،اے سی۔۔۔" "بالکل نہیں۔ ہر گز نہیں۔ قطعی نہیں۔اُس اے سی صاحبہ کو ایک بار چائے پہ بُلایا تھا تب تو بڑے ٹھُسّے سے آگئی تھی(یہ جلن اور تڑپ ٹھُسّے پہ تھی)۔ پھِر دو تقریبات پہ بُلایا تو عین تقریب والے دِن اِنکار کر دیا۔اب گھر پہ تو میں نے بالکل نہیں بُلانا۔ بس کہہ دیا۔"
"اُف! مما ! آپ بھی ناں۔۔۔(باقی جُملہ منہ میں ہی رہنے دیا) اِس قدر گرمی آگئی ہے۔ اب اے سی شروع کریں۔" بیٹے کی عادت تو عین میرے پہ گئی ہے۔ بدتمیز ابھی ہم پِچھلے مہینے کا بِجلی کا بِل دیکھ دیکھ کے خوش ہو رہے تھے جو کہ خوش قسمتی سے خاصا کم آیا تھا۔ خیال تھا کہ اِس بِل کو لاؤنج کے دروازے پہ لگا دیں اور صبح و شام دیکھ دیکھ کے نظر ودِل ٹھنڈا کیا کریں کہ دونوں بچوں کی فرمائش نے خوفزدہ کر دیا۔ خیالوں میں ہزارووووووووووووں کے کتنے ہی بِل پھڑپھڑانے لگے۔کم سے کم چھ بِل تو ضرور ہی آئیں گے۔ یہ بچے بھی بعض اوقات بڑی بھیانک فرمائشیں کرتے ہیں۔ نہ ہی پچھلے کم بِل والی خوشی اُن سے شئیر کی جا سکتی تھی نہ اگلے زیادہ بِلوں کا غم۔۔۔۔کہ دونوں ابھی چھوٹے ہیں اور غمِ معاش نہ تو سمجھ سکتے ہیں نہ ہی اُنہیں اِن اُلجھنوں میں ڈالنا چاہیے۔
جس قدر ٹل سکتا تھا،ٹالتی رہی۔باپ کے کانوں میں گھُس گھُس کے بچوں نے گرمئ فرمائش ڈالی ۔ اُنہوں نے پہلے غور کیا پھِر غوض کیا۔ کافی دیر گہرے خیالوں میں گُم رہے۔ یہ سوچ کے میں نے تو چھیڑا ہی نہیں کہ چلو کسی بہانے چُپ تو ہوئے۔ لو جی ابھی اِسی بات پہ یہ نمانا دِل ذرا ک ذرا ہی خوش ہوا تھا کہ اچانک اپریل کے آخری دنوں میں بہار کے موسم کی موجودگی پہ شہادتیں شروع ہوئیں ،ائیر کنڈیشنر کے استعمال کے نقصانات پہ بیس تیس سیر حاصل گفتگو سُننے کو مِلی۔اِرد گرد کے کتنے ہی لوگوں کی مثالیں دی گئیں جو اے سی استعمال نہیں کرتے تھے۔ رات کو باہر (گھر سے باہر نہیں) سونے کے فائدے گِنوائے گئے۔ اپنے گاؤں میں کسی زمانے میں (زور کسی پہ ہے) گلیوں میں سونے کے مزے چٹخارے لے لے کے بتائے گئے۔ " ہمارے بچپن میں سرِ شام ہی گھر کے بڑے سے صحن میں پانی کا چھِڑکاؤ کر کے لکڑی کی گھڑونچی پہ پانی سے بھرے گھڑے رکھے جاتے تھے ۔ مغرب کے بعد کھانا کھا لیا جاتا تھا اور عشاء کے بعد ہم سب ایک ترتیب میں بِچھی چارپائیوں پہ سوجایا کرتے تھے۔ امی سے کئی بار کی سُنی ہوئی کہانیوں میں سے کوئی کہانی سُنتے سُنتے سو جاتے تھے۔ہمارے گاؤں میں اُن دَنوں بِجلی نہیں ہوتی تھی پھر بھی بہت مزے کی نیند آتی تھی۔ " وہ جیسے کسی خواب میں ڈوبے ہوئے تھے۔
میں نے دیکھا کہ سامع صرف میں ہی تھی ۔وہ دونوں تو اپنے کھیلوں میں مصروف تھے اپنے اپنے کان بند کئے۔ لیکن شاید اپنے مطلب کی بات اُنہیں سُنائی دے جاتی تھی اِس لئے کہانی والی بات پہ اُن کہانیوں کی فرمائش دادو جان سے کرنے کے عزم کے بعد پھِر سے مصروف ہو گئے۔ صِرف اپنے سامع ہونے پہ ابھی صحیح طرح تڑپ بھی نہ سکی تھی کہ اِس تقریر دِل پزیر کے بعد دونوں نے بابا کی خِدمت میں اُن کی پچھلی پِدرانہ خِدمات کے لئے سپاس نامہ پیش کیا اور بابا کے چہرے کے تمام تر خدوخال اور کان تک تمتمانے لگے۔اور اِس اعلان کے بعد یہ تقریب اختتام پزیر ہوئی کہ وہ کل ہی الیکٹریشن کو لا کر اے سی کی گیس وغیرہ چیک کرواتے ہیں۔خوشی بھی ہوئی کہ اب دِن رات مصنوعی ٹھنڈی ہو جائیں گے۔ پر آنے والے بِلوں کا غم۔۔۔۔۔تُجھ سے بھی دِل فریب ہیں غم روزگار کے
سابقہ اُستانی سے اِمتحانی پرچے بنانے کے سِلسلے میں مُلاقات طے تھی۔ ایک جگہ سے پِک کرنے کے بعد میاں صاحب اُستانی کے گھر چھوڑنے جا رہے تھے کہ اپنی کار گُزاری بتانی شروع کی۔ (وہ کار تو چلا رہے تھے لیکن گزاری کسی پہ نہیں تھی ۔)"اے سی کی صفائی کے دوران شارک کا گھونسلہ مِلا۔ بھئی بڑا پیارا گھونسلا بنایا ہے اِس ننھے سے پرندے نے، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔" میں بے تاب کہ گھونسلے کا کیا بنا اور میرے میاں حضور گھونسلے کی خوبصورتی اور پھیلاؤ پہ ساڑھے گیارہ سیر حاصل گفتگو کرنے کے بعد بڑے فخریہ انداز میں بتانے لگے کہ اُنہوں نے گھونسلا جوتوں کے ایک خالی ڈبے میں ڈال کے بیرونی دیوار پہ رکھ دیا ہے۔
"ہک ہا! کیا گھونسلہ بھی خالی تھا؟" معصومیت سے سوال کیا۔
" نہیں۔ دو انڈے اور دو ہی بچے بھی تھے اس میں۔" جواب میں معصومیت کا تناسب ہماری نسبت زیادہ تھا۔
"زندگی میں پہلی بار سماجی بہبود کا کوئی کام کیا اور وہ بھی غلط" یہ بات دل میں کہی ۔
" ہاں وہ ۔۔۔۔بِلی نیچے گھوم رہی تھی اور کوے اوپر اُڑ رہے تھے " اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خُدا ۔۔
"تو کیا کووں کو نیچے گھُومنا اور بِلی کو اُوپر اُڑنا چاہیے تھاَ؟" دِل جل بھُن کے سؤا ہوگیا۔
" میرے پیارے مجازی خُدا! بِلا شبہ آپ کی یہ نیکی بہت بڑی ہے۔ اور یقیناَ لاؤنج کے نوٹس بورڈ پہ بڑے بڑے لفظوں میں لکھنے کے قابل ہے۔ اور یقیناَ جب کبھی بچوں کے شاہکار اُس بورڈ پہ کم ہوں گے ( جو مستقبل قریب و بعید میں بعید ہی لگتا ہے)تو ضرور چسپاں کروں گی( یہ بھی بعید لگتا ہے کہ چسپاں کرنے کے لئے جگہ بچی تو میرا اپنا سماجی بہبود کا کام کیا کم ہے!) لیکن وہ کیا ہے کہ کووں اور بِلی کو زمین اور آسمان بدر نہیں کیا جا سکتا۔ "
"اچھا!!!!!" معصومیت تو جیسے ٹپک ٹپک کے کم ہونے میں نہ آ رہی تھی۔
"اب کیا کریں؟"
"اب تو جو کرنا ہے وہ کووں اور بِلی نے کرنا ہے۔ ہم نے بلکہ میں نے تو بال و پر اور گھونسلے کے دیگر جُملہ میٹیریل والا جوتوں کا ڈبہ ہی اُٹھانا ہو گا۔"
"اوہ" ۔۔۔۔۔یہ جُملہ ادا کرتے ہی دونوں کا دِل والدین پرندوں کے غم میں بوجھل ہو گیا۔ لیکن ساتھ ہی اُمید کی ننھی سی کومپل بھی پھوٹی کہ شاید!
" اچھا آپ ایسا کریں کہ واپسی پہ ایک چھوٹی سی گھڑی لیتے جائیے گا۔۔۔۔۔۔"
"ہیں؟ یہ چھوٹی سی گھڑی کیا کروں گا میں؟ تُم بھی ناں تحفہ دیتی بھی ہو تو ۔۔۔اب گھڑی دینی ہی ہے تو آدھا اِنچ بڑھا لو۔"اُن کے چہرے پہ جہاں گھڑی کے لفظ کو سُنتے ہی ایک الوہی چمک آئی تھی،اب ذرا ذرا غم کی بدلی بھی نظر آنے لگی۔
" اِس عُمر میں خوش فہمیاں اچھی نہیں ہوتیں
اِس عمر کو خوابوں کے حوالے نہیں کرنا
"واہ بھئی میں تو بہت حاضر شعر ہوں۔"خود کو خیالوں میں تھپکی دی جو کہ خیالوں میں ہی دی جا سکتی تھی۔اور ہاں یہ حاضر جواب کے جواب میں حاضر شعر ایک نئی اِصطلاح میں نے بقلم خود ایجاد کی ہے۔
"اِنتہائی (ذرا زور دے کے پڑھیے گا)محترم شوہر صاحب!! گُلزار محل کے قریب ایک گھڑوں اور گملوں والے کی دوکان ہے وہاں ایک چھوٹی سی مٹکی ملتی ہے ،جس کے ایک طرف ایک خلا ہوتا ہے۔۔۔۔" " وہ تو ہر مٹکے مٹکی میں ہوتا ہے۔" میری بات کاٹ کے اپنی عقل بندی کا مُظاہرہ کیا گیا۔
" میرے سر کے سائیں! یہ گھڑی یا مٹکی خاص طور پر پودوں اور پرندوں کے لئے ہوتی ہے اور اِس میں ایک اضافی خلا ہوتا ہے۔"
"اچھا اچھا میں سمجھ گیا۔اس مٹکی میں گھونسلے کو رکھنا ہے۔" انہوں نے فخریہ نظروں سے مجھے دیکھا اور حادثہ ہوتے ہوتے بچا۔نہیں آپ غلط سمجھے ۔میرا اور اُن کا حادثہ تو شادی کی صورت میں آج سے سوا تیرہ سال پہلے ہو چکا ہے۔ یہ سڑک والا حادثہ تھا جو بِلی اور کوے کی دُعاؤں سے ہوتے ہوتے رہ گیا۔
"لیکن میرے پاس تو پیسے ہی نہیں ہیں۔ "اُنہوں نے اپنی کسمپرسی کا اِظہار کرنے میں چالاکی دِکھائی۔
" یہ لیں پچاس روپے۔" میں بھی اُن کی بیوی تھی۔
اُستانی سے ملاقات ہوئی اور امتحانی پرچے تو میں نے پہلے ہی بنا لئے تھے بلکہ کمپوز بھی کر لئے تھے۔ بس اُن کو احتراماََ دکھانا اور پاس کروانا مقصود تھا۔ چائے پی گئی ،باتیں ہوئیں اور پھر اُنہوں نےمُجھے ہمارے گھر چھوڑا ۔ اندر داخل ہوتے ہی اِدھر اُدھر نطر دوڑائی تو بیرونی دیوار پہ کچھ نہ تھا البتہ اے سی کےفریم کے ساتھ ایک مٹکی گاڑی صاف کرنے والی صافی کی ایک دھجی کی مدد سے لٹکی ہوئی تھی۔ پہ دھجی میری طبع نازک پہ بہت گراں گُزری۔ اِس کے علاوہ مٹکی پہ کوئی پینٹ نہ سہی گیرو ہی پھیر لیتے۔ میں نے سوچا لیکن اظہار نہ کیا کہ وہ میری طرف ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کوئی فخریہ پیشکش کرنے والا دیکھتا ہے۔اُن کا دِل رکھنے کو چند تعریفیں بھی کرنی پڑیں۔ہم چاروں کچھ کچھ پریشان بھی تھے کہ کہیں رکھنے رکھانے میں بچوں یا انڈوں کا کچھ بِگڑ نہ گیا ہو۔
"پتہ نہیں اُنہوں نے کتنے سخت ہاتھوں سے گھونسلا رکھا ہو گا! پتہ نہیں کیا بنا ہو گا!!!!" دل میں بہت اضطراب تھا۔
صبح ہوئی تو دیکھا کہ والدین پرندوں میں سے ایک اے سی کے آلے دوالے پھِر رہا تھا۔ "میرا گھر کہاں گیا؟" اُس کی اڑان میں بے چینی اور اضطراب ہم سے کہیں زیادہ تھا۔ عجیب کُرلاتی ہوئی آواز تھی اُس کی۔ "کیا پرندے بھی بین کرتے ہیں؟ کیا اِن کے دل بھی روتے ہیں؟ کیا اِن کی آنکھیں بھی آنسووں سے بھرتی ہیں؟ " میں ابھی اسی قسم کی اُوٹ پٹانگ سوچوں میں کھوئی تھی کہ بچوں نے چیخیں ماریں۔( وہ کب چیخیں نہیں مارتے!صورتحال اچھی ہو یا خدانخواستہ بُری۔)
اُسنے اپنے بچے دیکھ لئیے۔ اُس نے اُنہیں دیکھ لیا۔" بچے تالیاں بجا رہے تھے۔ لیکن ابھی بھی صورتحال واضح نہیں تھی کہ سارے انڈے بچے سلامت تھے یا نہیں۔
بہر حال وہ اپنی چونچ میں دانا دُنکا جو لائی تھی ،اُن کو کھِلانے لگی۔ ہم روز والدین پرندوں کا شور سُنتے ۔ ایک سامنے روشن دان میں راکھی پہ بیٹھتا اور دُوسرا روزگار کے لئے نکل جاتا۔
اب صورتحال واضح ہو ہی گئی تھی کہ سب انڈے بچے سلامت رہے۔ بچے خاصے بڑے ہو رہے ہیں۔ نیچے کھڑے اُن کی چونچیں ہمیں نظر آنے لگی ہیں۔
" یہ گھونسلا اب ان کے لئے چھوٹا پڑ رہا ہے۔ نجانے بچے کتنے ہیں ؟ دو یا چار ؟"میاں جی نے اندازہ لگایا۔
پینٹ کی پلاسٹک کی ایک چھوٹی سی بالٹی لے کے ایک طرف سے توڑ کے سوراخ کیا ۔ بالٹی پہ جامنی گریس پیپر لپیٹا۔ کوئی پیارا سا ربن ڈھونڈنے سے بھی نہ ملا ۔
"یہ ایمی کوئی ربن نہیں رہنے دیتی۔ سارے اپنی گڑیوں کے بالوں میں اٹکا دیتی ہے۔" آخر ایک ڈوری ملی سو وہ ہی اس بالٹی کے ساتھ رکھ دی اور صاحب سے کہا کہ اِسے بھی اے سی سے باندھ دیں۔
"بھلا وہ اِس میں گھونسلا بنائیں گے!" اُن کی طرف سے اعتراض ہؤا۔
"شاید اُن کے بچے ایک اور گھونسلا بنا لیں۔" میں نے خیال ظاہر کیا۔
"اپنا فرض تو پُورا کریں باقی اللہ مالک ہے۔ "لیکن اس کام کے لئے اُن کا ارادہ لگ نہیں رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد دیکھا تو شیلف پہ وہ بالٹی نہیں تھی۔ باہر آئی ۔والدین پرندوں میں سے ایک ، رکھوالی کے لئے روشن دان میں بیٹھا تھا ۔چند لمحے کھڑی اُسے دیکھتی رہی۔اُس نے اپنے پر پھڑپھڑائے جیسے ہمارا شکریہ ادا کر رہا ہو۔ دوسرا ابھی ابھی اُڑتا ہؤا دانہ دُنکا یا کیڑے مکوڑے لے کے آیا تھا اور اپنے بچوں کو کھِلا رہا تھا۔ بچوں کی چونچیں باہر سےنظر آ رہی تھیں۔اُن کے شور سے زندگی کا احساس جاگتا تھا۔ یہ ایک بھرپور منظر تھا۔ اُس لمحہ مجھے اپنے صاحب پہ بہت پیار آیا۔ لیکن ساتھ ہی جب پینٹ کی بالٹی کودیکھا تو دِل جل کے سؤا ہو گیا۔ وہ بالٹی بھی گاڑی صاف کرنے والی صافی کی دھجی سے اے سی کے ساتھ بندھی ہوئی تھی۔
آخری تدوین: