عرفان سعید
محفلین
(اقبال سے معذرت کے ساتھ)
گھڑی پلٹنے کی بیوی کی میکے سے ہے، پھر اس کا وار ہو گا
جو بھید ابھی تک تھا گھر کے اندر، وہ راز اب آشکار ہو گا
گزر گیا اب وہ دور بیگم کہ چھپ کے روتے تھے رونے والے
بنے گا سارا گھرانہ ماتم کدہ، ہر اک آہ و زار ہو گا
ترے ستم سے فرار جو ہو چکے تھے پھر گھر میں آ بسیں گے
اگر پٹائی وہی رہے گی تو پھر نیا کارزار ہو گا
سنا دیا مجھ کو ساس کی ایک مسکراہٹ نے یہ بھی آخر
جو عہد سسرالیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہو گا
اکھاڑوں میں جس نے نام ور پہلوان کو ہر طرح بچھاڑا
سنا ہے یہ سالیوں سے وہ شیر اب کہاں ہوشیار ہو گا
کیا مرا ذکر گھر کے دامادوں سے کچھ ایسے تھا ساس نے کل
سنا جو شوہر نے سالی کے تو کہا کہ منہ پھٹ ہے خوار ہو گا
مرے ہی گھر میں پڑے اے سالو! مری تو تنخواہ تھوڑی سی ہے
اسی طرح گر رہے مجھے کھاتے سب ، تو لازم ادھار ہو گا
تمہاری بہنا تو اپنے شوہر سے آپ ہی لڑ پڑا کرے گی
جو سخت لوگوں سے رشتہ ناطہ بنے گا، ناپائدار ہو گا
کمائی سب اپنی زندگی کی اسے کھلائی پلائی تو نے
ہزار کوشش کرو مگر اب کی بار تو گھر سے پار ہو گا
محلے بھر میں شکایتیں میری کرتی ہے بیوی واقفوں سے
یہ جانتی ہے کہ اس کہانی سے دل جلوں میں شمار ہو گا
کہا تھا کچھ سو کا زوجہ تو نے ، ہزاروں لاکھوں بھی ہم سے کھائے
"یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا"
کہا جو سالی سے میں نے اک دن یہاں کے داماد پا بہ گل ہیں
توسالے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ رازدار ہو گا
سسر کے خادم تو ہیں ہزاروں ، گھروں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا نوکر بنوں گا جس کو سسر کے لڑکوں سے پیار ہو گا
یہ رسمِ بزمِ نکاح اے دل! گناہ ہے جنبشِ نظر بھی
"رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہو گا"
میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنی خفیہ رکھی رقم کو
"شررفشاں ہوگی آہ میری ، نفس مرا شعلہ بار ہو گا"
نہ پوچھ عرفان کا ٹھکانا ابھی وہی کیفیت ہے اس کی
کہیں چھپا ہو گا غصے کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار ہو گا
۔۔۔ عرفان ۔۔۔
جو بھید ابھی تک تھا گھر کے اندر، وہ راز اب آشکار ہو گا
گزر گیا اب وہ دور بیگم کہ چھپ کے روتے تھے رونے والے
بنے گا سارا گھرانہ ماتم کدہ، ہر اک آہ و زار ہو گا
ترے ستم سے فرار جو ہو چکے تھے پھر گھر میں آ بسیں گے
اگر پٹائی وہی رہے گی تو پھر نیا کارزار ہو گا
سنا دیا مجھ کو ساس کی ایک مسکراہٹ نے یہ بھی آخر
جو عہد سسرالیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہو گا
اکھاڑوں میں جس نے نام ور پہلوان کو ہر طرح بچھاڑا
سنا ہے یہ سالیوں سے وہ شیر اب کہاں ہوشیار ہو گا
کیا مرا ذکر گھر کے دامادوں سے کچھ ایسے تھا ساس نے کل
سنا جو شوہر نے سالی کے تو کہا کہ منہ پھٹ ہے خوار ہو گا
مرے ہی گھر میں پڑے اے سالو! مری تو تنخواہ تھوڑی سی ہے
اسی طرح گر رہے مجھے کھاتے سب ، تو لازم ادھار ہو گا
تمہاری بہنا تو اپنے شوہر سے آپ ہی لڑ پڑا کرے گی
جو سخت لوگوں سے رشتہ ناطہ بنے گا، ناپائدار ہو گا
کمائی سب اپنی زندگی کی اسے کھلائی پلائی تو نے
ہزار کوشش کرو مگر اب کی بار تو گھر سے پار ہو گا
محلے بھر میں شکایتیں میری کرتی ہے بیوی واقفوں سے
یہ جانتی ہے کہ اس کہانی سے دل جلوں میں شمار ہو گا
کہا تھا کچھ سو کا زوجہ تو نے ، ہزاروں لاکھوں بھی ہم سے کھائے
"یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا"
کہا جو سالی سے میں نے اک دن یہاں کے داماد پا بہ گل ہیں
توسالے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ رازدار ہو گا
سسر کے خادم تو ہیں ہزاروں ، گھروں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا نوکر بنوں گا جس کو سسر کے لڑکوں سے پیار ہو گا
یہ رسمِ بزمِ نکاح اے دل! گناہ ہے جنبشِ نظر بھی
"رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہو گا"
میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنی خفیہ رکھی رقم کو
"شررفشاں ہوگی آہ میری ، نفس مرا شعلہ بار ہو گا"
نہ پوچھ عرفان کا ٹھکانا ابھی وہی کیفیت ہے اس کی
کہیں چھپا ہو گا غصے کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار ہو گا
۔۔۔ عرفان ۔۔۔
آخری تدوین: