گیئر گچھا

محمد وارث

لائبریرین
علی بن اعجاز صاحب نے تو اس "مؤقر" ادارے کا نام اپنی شگفتہ سی تحریر میں درج نہیں کیا تھا لیکن انہوں نے خود ہی خود کو ظاہر کر دیا ہے، بہت سے دوستوں کا بھلا ہو جائے گا اس طرح یعنی دُور رہ کر۔ :)
 

La Alma

لائبریرین
تحریر کے پس منظر سے عدم واقفیت کی بنا پر اس بات کا اندازہ لگانا تو قدرے مشکل ہے کہ صاحبِ تحریر کا اصل مدعا کیا تھا لیکن بحثیت ایک قاری مجھے تحریر میں کوئی ایسی قباحت نظر نہیں آتی. کسی ادبی تنظیم کا نام تو سرے سے لیا ہی نہیں گیا اور جن شعراء یا ادباء کا ذکر ہوا ہے، وہ بھی ازراہِ تفنن ہوا ہے.
قانونی چارہ جوئی تو ایک انتہائی قدم ہے اور وہ بھی ایسے ادارے کی جانب سے جس کا تعلق براہِ راست فنونِ لطیفہ سے ہے جس میں یقینًا تمام افراد پڑھے لکھے اور باشعور ہونگے، ایک نہایت افسوس ناک امر ہے. ادبی حلقوں میں تو تنقیدی مقالے یا مضامین لکھنا، کسی کاوش کے معائب پر گفت و شنید، بحث و مباحث اور مزاحیہ پیروڈیز وغیرہ ، جس میں بعض اوقات بات دل شکنی کی حد تک بھی چلی جاتی ہے، نہایت معمول کی بات سمجھی جاتی ہے . اور ویسے بھی ایسی کوئی بھی تحریر، کسی ادارے یا اس کے اکابرین کی ساکھ کو کیا نقصان پہنچا سکتی ہے. فن تو ہمیشہ اپنے آپ کو خود منواتا ہے.
 

بارکزئی

محفلین
طوالت کے خوف سے صرف ایک مثال پیش کروں گا۔ محترم علی بن اعجاز نے فرمایا کہ ایسی شاعری پیش کی جائے جو ھمیں سمجھ آئے۔
کیا یہ طفلانہ خواھش نہیں؟ ہر شخص اپنے میلان,طبع کے مطابق شعر کہتا ھے قاری کو شاعر کی ذھنی سطح تک آنا چاھئے نہ کہ شاعر آپ کے فہم کو شعر کہتے ھوئے ملحوظ رکھے۔
میر سہل گوئی میں مقام رکھتے ھیں تو غالب دقیق شاعری کے خالق مگر غالب کی حیثیت اور مقام ھمیشہ مسلم رہا اور رھے گا۔
مدعا یہ ھے کہ جب ایک شخص شاعری کے بارے میں کچھ جانتا ہی نہیں وہ کس طرح فتویٰ صادر کرسکتا ھے کہ شاعری ھو ہی نہیں رہی۔
ادارہ میں موجود لوگ نہایت قابل بھی ھیں اور اور اوسط سطح کے بھی۔ دنیا کے کسی بھی ادارے اور تنظیم میں ایک سطح اور قابلیت کے افراد کو مجتمع کرنا یقیناً ممکن نہ ھوگا۔ چند افراد کا تعارف ھے۔
میجر شہزاد نئیر صاحب
جونہایت نفیس شاعر اور نقاد ھیں۔ دو سے زائد کتب شائع ھو چکی ھیں جن پر بین الاقوامی ایوارڈز بھی تفویض ھوئے
مسعود حساس صاحب
جو صاحب,دیوان شاعر نقاد۔مختلف النوع زبانوں پر دسترس رکھتے ھیں
امین اڈیرائی صاحب
جو سندھی۔ پنجابی اور ارود زبان میں تیرہ کتابیں تخلیق کر چکے ھیں۔
اور اسی طرح صاحب,علم افراد کی ایک فہرست ھے۔ مگر علی صاحب جو علم وادب میں کوئی مقام نہیں رکھتے ان پر برائے راست بھپتی کس رھے ھیں تو کیا اس پر معترض نہیں ھوا جا سکتا۔
ھم میں سے کسی کے والد یا بزرگ کا بے ڈھنگا نام ھو اور کوئی اس نام کا مزاق اڑائے تو میرے خیال میں کوئی غیرت مند اولاد اسے برداشت نہیں کرے گی۔
یہ دوست احباب اساتذہ بھی روحانی باپ کی طرح ھیں جن سے ھم روز کچھ نہ کچھ سیکھتے ھیں۔ لہٰذا برا لگنا فطری امر ھے۔ اور جس کا ان افراد سے کوئی ربط نہیں انہیں کیوں ناگوار گزریں گی؟
Munawwar Ali Khan Barukzye
Pen name۔ Ali Muzammil
 
مدیر کی آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
طوالت کے خوف سے صرف ایک مثال پیش کروں گا۔ محترم علی بن اعجاز نے فرمایا کہ ایسی شاعری پیش کی جائے جو ھمیں سمجھ آئے۔
کیا یہ طفلانہ خواھش نہیں؟ ہر شخص اپنے میلان,طبع کے مطابق شعر کہتا ھے قاری کو شاعر کی ذھنی سطح تک آنا چاھئے نہ کہ شاعر آپ کے فہم کو شعر کہتے ھوئے ملحوظ رکھے۔
میر سہل گوئی میں مقام رکھتے ھیں تو غالب دقیق شاعری کے خالق مگر غالب کی حیثیت اور مقام ھمیشہ مسلم رہا اور رھے گا۔
مدعا یہ ھے کہ جب ایک شخص شاعری کے بارے میں کچھ جانتا ہی نہیں وہ کس طرح فتویٰ صادر کرسکتا ھے کہ شاعری ھو ہی نہیں رہی۔
ادارہ میں موجود لوگ نہایت قابل بھی ھیں اور اور اوسط سطح کے بھی۔ دنیا کے کسی بھی ادارے اور تنظیم میں ایک سطح اور قابلیت کے افراد کو مجتمع کرنا یقیناً ممکن نہ ھوگا۔ چند افراد کا تعارف ھے۔
میجر شہزاد نئیر صاحب
جونہایت نفیس شاعر اور نقاد ھیں۔ دو سے زائد کتب شائع ھو چکی ھیں جن پر بین الاقوامی ایوارڈز بھی تفویض ھوئے
مسعود حساس صاحب
جو صاحب,دیوان شاعر نقاد۔مختلف النوع زبانوں پر دسترس رکھتے ھیں
امین اڈیرائی صاحب
جو سندھی۔ پنجابی اور ارود زبان میں تیرہ کتابیں تخلیق کر چکے ھیں۔
اور اسی طرح صاحب,علم افراد کی ایک فہرست ھے۔ مگر علی صاحب جو علم وادب میں کوئی مقام نہیں رکھتے ان پر برائے راست بھپتی کس رھے ھیں تو کیا اس پر معترض نہیں ھوا جا سکتا۔
ھم میں سے کسی کے والد یا بزرگ کا بے ڈھنگا نام ھو اور کوئی اس نام کا مزاق اڑائے تو میرے خیال میں کوئی غیرت مند اولاد اسے برداشت نہیں کرے گی۔
یہ دوست احباب اساتذہ بھی روحانی باپ کی طرح ھیں جن سے ھم روز کچھ نہ کچھ سیکھتے ھیں۔ لہٰذا برا لگنا فطری امر ھے۔ اور جس کا ان افراد سے کوئی ربط نہیں انہیں کیوں ناگوار گزریں گی؟
Munawwar Ali Khan Barukzye
Pen name۔ Ali Muzammil
House number۔ A-83
Sec-14-B
Shadman twon
North nazimabad۔
Karachi
Cell حذف کیا گیا
میرے بھائی آپ بلاوجہ ایک ایسی تحریر کے پیچھے پڑ گئے ہیں جس میں مزاح کے سوا کچھ نہیں۔۔۔
اگر بدلہ لینا ہی ہے تو وہ آپ نے لے لیا۔۔۔
ایک ایسی تحریر کے ذریعہ جس میں طنز کے سوا کچھ نہیں!!!
اب کیا بے چارے کی جان لیں گے؟؟؟
 
محترم علی بن اعجاز نے فرمایا کہ ایسی شاعری پیش کی جائے جو ھمیں سمجھ آئے۔
کیا یہ طفلانہ خواھش نہیں؟
ہرگز نہیں۔ ہر فرد کسی بھی شاعر کی شاعری کے حوالے سے اچھی یا بری رائے رکھنے کا حق دار ہے۔ اس سے کبھی شاعر کی توہین نہیں ہوتی۔ کسی کے کہنے سے کسی کے کلام کا اثر کم یا زیادہ نہیں ہوتا۔
ہر ایک کی اپنی پسند ہوتی ہے، جس کا اظہار توہین کے زمرہ میں نہیں آتا۔
مدعا یہ ھے کہ جب ایک شخص شاعری کے بارے میں کچھ جانتا ہی نہیں وہ کس طرح فتویٰ صادر کرسکتا ھے کہ شاعری ھو ہی نہیں رہی۔
اگر وہ واقعی ایسا فرد ہے، جیسا آپ نے کہا، تو اس کی رائے کیسے سینئر شعراء اور نقاد پر اثر انداز ہو سکتی ہے؟ اور جب آپ کسی کے نقاد ہونے کا ذکر کر رہے ہیں تو لازمی طور پر و ہدوسرے کو بھی تنقید کا پورا حق دیتے ہوں گے۔

فیس بک پر آپ کے ادارہ کا پیج دیکھنے کا اتفاق ہوا تو ایک بات کا تذکرہ بار بار پڑھنے کو ملا، کہ ادارہ واہ واہ کے بجائے تنقید کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ جبکہ یہاں بہت ہلکے مذاح کو توہین کہہ کر شدید رد عمل دیا جا رہا ہے۔ وہ بھی ایسے فرد کا مزاح، جس کی آپ کے بقول کوئی حیثیت بھی نہیں ہے۔
 

بارکزئی

محفلین
چھلاوا

فرضی خاکچہ
طنز و مزاح
تحریر۔ علی مزمل۔ کراچی

بہت کم اشخاص اس حقیقت سے آشنا ھوں گے کہ بظاہر تہذیب اور شائستگی کے سر سبز پیکر میں ملفوف یہ شخص اندر سے لیہ کے تربوز کی طرح لال ھے جو خواتین کی محفل میں بیک جنبش,چشم وہ کچھ انجام دینے پر مکمل قدرت رکھتا ھے جو اوباش تخلیہ میں کر گزرنے کا سوچ کر ہچکچاتے ھیں۔
موصوف کی حسن پرستی کا بھید پالنے ہی میں کھل گیا تھا۔ یہ بات سینہ بہ سینہ ھم تک پہنچی کہ عہد طفولیت میں گلی پڑوس کی کوئی واجبی شکل و صورت کی خاتون اگر گود میں لے لیتی تو ان کی گھگھی بندھ جاتی۔ اس کے برعکس حسیناؤں کی گود میں خوب کلکاریاں مارتے اور انہی مہوشوں پر شغل,آب رسانی بھی فرماتے۔ انہی مشاغل کے سبب جہاں دیدہ بوڑھیوں نے ان سے پردہ کرنا شروع کر دیا تھا سو آج بھی آب رسانی کے علاوہ ان کے معمولات میں سر,مو فرق نہیں آیا۔ آج بھی اعلیٰ حضرت بیش تر مرد حضرات کو ہمشیرگان کے توسط سے یاد رکھتے ھیں۔ کسی دقیق موضوع پر بحث کے دوران اچانک پوچھ بیٹھتے ھیں۔ "وہ رقیہ خانم کے سنجھلے بھائی کا کیا نام تھا؟"
یہ سپوت مرقع,عجائب ھو نہ ھو عجیب الخلائق ضرور ھے۔
عبدالقدوس قدوسی بہ یک وقت ہمہ جہت نقائص اور خصوصیات کے حامل شخص ھیں۔ ان کی زندگی مسلسل جدوجہد سے عبارت ھے۔ کچھ لوگ اپنی قسمت کا کھاتے ھیں کچھ بیوی بچوں اور ناتواں اہل,خانہ کی قسمت کا۔ مگر یہ اپنی زبان اور قلم کے زور پر رزق کے حصول کے لئے کوشاں ھیں۔ اگر شمار ممکن ھو تو یہ اپنی زندگی میں لی گئی مجموعی سانسوں سے کئی گنا لفظ ادا کر چکے ھیں۔ حد تو یہ ھے کہ سوچتے ھوئے بھی بول رھے ھوتے ھیں۔ بسا اوقات افشائے راز کے سبب کچھ باتیں لکھ بھی لیتے ھیں جو بعد از تحریر سنانا ضروری تصور کرتے ھیں۔
محققین ان کی درست عمر کے تعیّن میں ناکام رھے ھیں۔ ان کے بڑے بھائی اکثر کہتے پائے گئے ھیں کہ ھم نے ہوش سنبھالا تو عبدالقدوس کو اتنا ہی پایا۔ (واللہ اعلم بالصواب)
اس ںات میں صداقت یوں بھی نظر آتی ھے کہ عبدالقدوس قدوسی پہلے میرے والد کے دوست تھے پھر میرے بڑے بھائی کے اور اب میرے دوست ھیں۔
بات کرتے وقت گمان ھوتا ھے کہ ان کا خمیر جلیبی کے شیرے میں گوندھا گیا ھے۔ شیریں کلامی کو خود پر اس شدت سے لاگو کیا ذیابیطس لاحق ھوگئی۔
لہٰذا تنویر سپرا کے کلام کی تلخی اور کڑواہٹ سے انسولین کا کام لیتے ھیں جس سے ان کے خون میں شامل مٹھاس معمول پر رہتی ھے۔
ہر حکم کی بجا آوری کے لئے مستعد رہتے ھیں۔ مجال ھے جو انہیں کوئی کام کہا جائے اور وہ انکار کردیں مگر محال ھے کوئی کام ھوکر دے جائے۔
امیر محمد لکھنوی مرحوم کے فرزند اور خسرو نظام فتح عندلیب یعنی چار نام کے واحد شخص کے برادر,خورد ھیں۔
برادر,کلاں کا بے حد احترام کرتے ھیں اور بلا تشکیک ان کے ہر مشورہ پر اندھا دھند عمل کرتے ھیں اور یہ بھی حقیقت ھے کہ بھائی کے مشوروں پر عمل کرکے آج تک انہیں ہزیمت نہیں اٹھانی پڑی۔ سوائے عقد,مسنونہ کے۔
شومئی تقدیر ایک دن یوں ہی گلوری کو دل چاہا۔ جھٹ موبائل فون پر بڑے بھائی کو خواھش لکھ بھیجی۔ اجازت ملتے ہی سریع التاثیر پتی بمع قوام چاندی کے ورق لگا یہ بڑا مغلئی پان کلے میں دبایا اور چلتے بنے۔
تادیر جگالی کی اور جب پیک پچکارنے کا وقت آیا تو ملکی حالات کے پیش,نظر موبائل سروس معطل ھوگئی اور باوجود ہزار کوشش بڑے بھائی سے رابطہ ممکن نہ ھوا تو ممدوح اگلے چوبیس گھنٹے پیک منہ میں لئے گھومتے رھے۔ جب پیک پپوٹوں سے رسنے لگی تو موبائل سروس بحال ھوئی۔ بس اسی دن سے ھندوستانی ثقافت پر چار حرف بھیجے بیٹھے ھیں۔
عالم,شباب میں فلم اسٹار وحید مراد سے معمولی مشابہت کے باعث وحید مراد کی کسی فلم کا پہلا شو کبھی قضاء نہ ھوا۔ پہلا شو نہایت اہتمام اور خشوع و خضوع سے دیکھا جاتا اور فلم میں وحید مراد نے جو لبادہ زیب,تن کیا ھوتا عبدالقدوس قدوسی عمیق مشاہدہ اور تمام تر وجدانی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ھوئے کپڑوں کے رنگ۔ بٹن کے نمونے۔ بخیئے کی ترپن اور ٹیکسٹائل مل کا ٹیگ تک پڑھ لیتے اور واپسی پر گھر جانے کے بجائے بجاج کی دکان سے ھوبہو کپڑا لے کر اپنے مخصوص درزی کی گردن جا ناپتے اور حکم صادر ھوتا کہ تمام آلات,حرب سمیٹ کر سینما گھر پہنچو۔
اگلے شو کے دو ٹکٹ لئے جاتے۔ فلم جاری رہتی اور سینما کے پردے کے عین نیچے درزی چٹائی بچھا کر کپڑا تراشتا رھتا۔
سوٹ مکمل ھوتے ہی سینما کے متعفن سنڈاس میں جا کر زیب,جان کرتے اور bull fighter کے انداز کی bell bottom کے پائنچے پھڑپھڑاتے۔ شانوں پر سرگودھا کے دنبوں کے کانوں سے بڑے shirt کے کالر لہراتے پیدل شہر بھر کا چکر کاٹتے اور وہ کپڑے جسم سے تب تک نہ اترتے جب تک وحید مراد کی نئی فلم نہ آجاتی یا عوام الناس بھپتیاں نہ کسنے لگتے۔
کمپئرنگ کے پیدائشی جنون کے باوصف عوامی تقریبات میں شمولیت کے لئے ہر وقت نیفہ اڑسے رھتے ھیں اور اگر بھولے سے انہیں کمپئرنگ کی مسند,ا
 

بارکزئی

محفلین
کمپئرنگ کے پیدائشی جنون کے باوصف عوامی تقریبات میں شمولیت کے لئے ہر وقت نیفہ اڑسے رھتے ھیں اور اگر بھولے سے انہیں کمپئرنگ کی مسند,اولیٰ پر متمکن کردیا جائے تو ایسے ناول کا تصور ذھن میں ابھرتا ھے جس کا دیباچہ اس ناول سے ضخیم ھو۔
کئی تقریبات ان کے مائیک سے چپکے رھنے کے سبب التوا کا شکار بھی ھوئیں۔ دو ایک بار چند رذیل الخلائق قماش حاسدین نے مائیک میں برقی رو دوڑا دی۔
ان کی آمد کے خوف سے کئی مشاعرے قبرستانوں میں منعقد کرائے گئے اور قبرستان میں چہار اطراف آئینہ بردار پہرے دار کھڑے کردئیے جاتے جو عبدالقدوس قدوسی کی غیر متوقع آمد کی اطلاع آئینے سے شمسی کرنیں منعکس کرکے دیتے اور شعراء اشارہ پاتے ہی قبروں کی اوٹ میں روپوش ھو کر یوں بے سدھ لیٹ جاتے جیسے مردے غسل,آفتابی سے مستفید ھو رھے ھوں۔ اور پھر خطرہ ٹل جانے پر مشاعرہ کے تمام شرکاء کو لخلخہ سنگھا کر بیدار کیا جاتا اور سلسلہ وہیں سے جڑ جاتا جہاں سے منقطع ھوا ھوتا۔
وقت گزرتا رہا اور عبدالقدوس قدوسی کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی اور پھر رفتہ رفتہ سامعین نے انہیں برداشت کرنا سیکھ لیا۔ اکثر مردم شب بیدار ان کی نظامت کے دوران بھرپور نیند کے مزے لوٹنے لگے۔ یہ مصدقہ امر ھے کہ سیاست اور ادب کی ایسی کوئی صنف دریافت نہیں ھوئی جس کی عزت عبدالقدوس قدوسی سے محفوظ رہی ھو۔
جوں جوں وقت گزرتا جاتا ھے ان کے اندر کا جوالا مکھی پہلے سے زیادہ شدت سے پھٹنے کو بےتاب ھے۔ واثق خیال یہی ھے کہ عبدالقدوس قدوسی کے علاوہ باقی افراد کی جسمانی نمو اسی رفتار سے جاری رہی تو وہ وقت دور نہیں جب میرا پوتا ان سے دوستی کے اظہار کے لئے ان کا شخصی خاکہ مرتب کر رہا ھوگا۔
 

بارکزئی

محفلین
عثمان صاحب۔ واضع رھے کہ یہ لڑائی نہیں ھے۔ دوسری بات یہ کہ اس بات کی شروعات اسی فورم سے ھوئی اور یہیں اختتام بھی ھوگا۔ اطمعنان رکھیں دشنام طرازی دونوں فریقین کی تربیت میں نہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
گیئرگچھا ایک ہلکی پھلکی سی تحریر ہے۔تحریر کا انداز شگفتہ ہے۔ پڑھتے ہوئے بہت لطف محسوس ہوا۔
 
بارکزئی صاحب تنقید ہر کوئی کرسکتا ہے اس کے لیئے صاحب کتاب ہونا ضروری نہیں ذہنی استعداد ہونا ضروری ہے، ہمارے ہاں شاعری کی پسند نا پسند کو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے
 
احباب کا شکریہ جنھوں نے میری عدم موجودگی میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ،
گو کہ میں نے ایک جوابی تحریر لکھ لی تھی لیکن بارکزئی صاحب کے ادب کی وجہ سے پوسٹ نہ کرسکا.
 
Top