چھلاوا
فرضی خاکچہ
طنز و مزاح
تحریر۔ علی مزمل۔ کراچی
بہت کم اشخاص اس حقیقت سے آشنا ھوں گے کہ بظاہر تہذیب اور شائستگی کے سر سبز پیکر میں ملفوف یہ شخص اندر سے لیہ کے تربوز کی طرح لال ھے جو خواتین کی محفل میں بیک جنبش,چشم وہ کچھ انجام دینے پر مکمل قدرت رکھتا ھے جو اوباش تخلیہ میں کر گزرنے کا سوچ کر ہچکچاتے ھیں۔
موصوف کی حسن پرستی کا بھید پالنے ہی میں کھل گیا تھا۔ یہ بات سینہ بہ سینہ ھم تک پہنچی کہ عہد طفولیت میں گلی پڑوس کی کوئی واجبی شکل و صورت کی خاتون اگر گود میں لے لیتی تو ان کی گھگھی بندھ جاتی۔ اس کے برعکس حسیناؤں کی گود میں خوب کلکاریاں مارتے اور انہی مہوشوں پر شغل,آب رسانی بھی فرماتے۔ انہی مشاغل کے سبب جہاں دیدہ بوڑھیوں نے ان سے پردہ کرنا شروع کر دیا تھا سو آج بھی آب رسانی کے علاوہ ان کے معمولات میں سر,مو فرق نہیں آیا۔ آج بھی اعلیٰ حضرت بیش تر مرد حضرات کو ہمشیرگان کے توسط سے یاد رکھتے ھیں۔ کسی دقیق موضوع پر بحث کے دوران اچانک پوچھ بیٹھتے ھیں۔ "وہ رقیہ خانم کے سنجھلے بھائی کا کیا نام تھا؟"
یہ سپوت مرقع,عجائب ھو نہ ھو عجیب الخلائق ضرور ھے۔
عبدالقدوس قدوسی بہ یک وقت ہمہ جہت نقائص اور خصوصیات کے حامل شخص ھیں۔ ان کی زندگی مسلسل جدوجہد سے عبارت ھے۔ کچھ لوگ اپنی قسمت کا کھاتے ھیں کچھ بیوی بچوں اور ناتواں اہل,خانہ کی قسمت کا۔ مگر یہ اپنی زبان اور قلم کے زور پر رزق کے حصول کے لئے کوشاں ھیں۔ اگر شمار ممکن ھو تو یہ اپنی زندگی میں لی گئی مجموعی سانسوں سے کئی گنا لفظ ادا کر چکے ھیں۔ حد تو یہ ھے کہ سوچتے ھوئے بھی بول رھے ھوتے ھیں۔ بسا اوقات افشائے راز کے سبب کچھ باتیں لکھ بھی لیتے ھیں جو بعد از تحریر سنانا ضروری تصور کرتے ھیں۔
محققین ان کی درست عمر کے تعیّن میں ناکام رھے ھیں۔ ان کے بڑے بھائی اکثر کہتے پائے گئے ھیں کہ ھم نے ہوش سنبھالا تو عبدالقدوس کو اتنا ہی پایا۔ (واللہ اعلم بالصواب)
اس ںات میں صداقت یوں بھی نظر آتی ھے کہ عبدالقدوس قدوسی پہلے میرے والد کے دوست تھے پھر میرے بڑے بھائی کے اور اب میرے دوست ھیں۔
بات کرتے وقت گمان ھوتا ھے کہ ان کا خمیر جلیبی کے شیرے میں گوندھا گیا ھے۔ شیریں کلامی کو خود پر اس شدت سے لاگو کیا ذیابیطس لاحق ھوگئی۔
لہٰذا تنویر سپرا کے کلام کی تلخی اور کڑواہٹ سے انسولین کا کام لیتے ھیں جس سے ان کے خون میں شامل مٹھاس معمول پر رہتی ھے۔
ہر حکم کی بجا آوری کے لئے مستعد رہتے ھیں۔ مجال ھے جو انہیں کوئی کام کہا جائے اور وہ انکار کردیں مگر محال ھے کوئی کام ھوکر دے جائے۔
امیر محمد لکھنوی مرحوم کے فرزند اور خسرو نظام فتح عندلیب یعنی چار نام کے واحد شخص کے برادر,خورد ھیں۔
برادر,کلاں کا بے حد احترام کرتے ھیں اور بلا تشکیک ان کے ہر مشورہ پر اندھا دھند عمل کرتے ھیں اور یہ بھی حقیقت ھے کہ بھائی کے مشوروں پر عمل کرکے آج تک انہیں ہزیمت نہیں اٹھانی پڑی۔ سوائے عقد,مسنونہ کے۔
شومئی تقدیر ایک دن یوں ہی گلوری کو دل چاہا۔ جھٹ موبائل فون پر بڑے بھائی کو خواھش لکھ بھیجی۔ اجازت ملتے ہی سریع التاثیر پتی بمع قوام چاندی کے ورق لگا یہ بڑا مغلئی پان کلے میں دبایا اور چلتے بنے۔
تادیر جگالی کی اور جب پیک پچکارنے کا وقت آیا تو ملکی حالات کے پیش,نظر موبائل سروس معطل ھوگئی اور باوجود ہزار کوشش بڑے بھائی سے رابطہ ممکن نہ ھوا تو ممدوح اگلے چوبیس گھنٹے پیک منہ میں لئے گھومتے رھے۔ جب پیک پپوٹوں سے رسنے لگی تو موبائل سروس بحال ھوئی۔ بس اسی دن سے ھندوستانی ثقافت پر چار حرف بھیجے بیٹھے ھیں۔
عالم,شباب میں فلم اسٹار وحید مراد سے معمولی مشابہت کے باعث وحید مراد کی کسی فلم کا پہلا شو کبھی قضاء نہ ھوا۔ پہلا شو نہایت اہتمام اور خشوع و خضوع سے دیکھا جاتا اور فلم میں وحید مراد نے جو لبادہ زیب,تن کیا ھوتا عبدالقدوس قدوسی عمیق مشاہدہ اور تمام تر وجدانی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ھوئے کپڑوں کے رنگ۔ بٹن کے نمونے۔ بخیئے کی ترپن اور ٹیکسٹائل مل کا ٹیگ تک پڑھ لیتے اور واپسی پر گھر جانے کے بجائے بجاج کی دکان سے ھوبہو کپڑا لے کر اپنے مخصوص درزی کی گردن جا ناپتے اور حکم صادر ھوتا کہ تمام آلات,حرب سمیٹ کر سینما گھر پہنچو۔
اگلے شو کے دو ٹکٹ لئے جاتے۔ فلم جاری رہتی اور سینما کے پردے کے عین نیچے درزی چٹائی بچھا کر کپڑا تراشتا رھتا۔
سوٹ مکمل ھوتے ہی سینما کے متعفن سنڈاس میں جا کر زیب,جان کرتے اور bull fighter کے انداز کی bell bottom کے پائنچے پھڑپھڑاتے۔ شانوں پر سرگودھا کے دنبوں کے کانوں سے بڑے shirt کے کالر لہراتے پیدل شہر بھر کا چکر کاٹتے اور وہ کپڑے جسم سے تب تک نہ اترتے جب تک وحید مراد کی نئی فلم نہ آجاتی یا عوام الناس بھپتیاں نہ کسنے لگتے۔
کمپئرنگ کے پیدائشی جنون کے باوصف عوامی تقریبات میں شمولیت کے لئے ہر وقت نیفہ اڑسے رھتے ھیں اور اگر بھولے سے انہیں کمپئرنگ کی مسند,ا