گیان چند پرلوک سدھار گئے

الف عین

لائبریرین
خبر پرانی سہی لیکن کیوں کہ یہاں اب تک کسی نے نہیں دی ہے تو میں ہی دے دوں۔ کل کے اخبار سے معلوم ہوا کہ امریکہ میں ڈاکٹر گیان چند اپبی طویل بیماری کے بعد انتقال کر گئے۔
موت سے پہلے اگرچپہ انھوں نے اپنے آپ کو متنازعہ فیہ بنا لیا تھا،لیکن اردو ادب اور تےنقید و تحقیق میں ان کا نام بہر حال روشن رہے گا۔
میں نے اب تک ’سمت‘ میں ان کی کتاب ایک بھاشا دو ادب دو لکھاوٹ کے خلاف لکھنے سے احتراز کیا تھا بلکہ ان کا ہی ایک بیان شائع کیا تھا ’مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں‘ (جو اتفق اے میرے ادارئے کا ہی مستقل رنوان ہے( لیکن محض تازہ شمارے میں میں نے ان کے مشاہدات کے برعکس مشاہدات پیش کئے تھے کہ حکومت وغیرہ کے اداروں میں غیر مسلم اردو داں کو فوقیت اکثر دی جاتی رہی ہے۔ افسوس کہ اب تک میرے اس ادارئے پر کسی نے ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا۔
بہر حال ایک عالم کا اٹھنا ایک حادثہ تو ہے ہی اور دکھ کا مقام ہے۔
 

Dilkash

محفلین
ھندوستانی غیر مسلم اردوداں لکھاری ھمیشہ سے ایجنسیوں کے لئے کام کرتے رھے۔۔ انکا زیادہ فوکس دو قومی نظریے کے خلاف پروپیگنڈہ مہم پر رھا۔

عربستان میں اردو مشاعروں میں ملک مصیب او سلیم جعفری نے ان لوگوں کو کثرت سے بلایا۔

انھوں نے عربوں اور ھماری نوجوان نسل کو یہ باور کرنے کی کوشش کی کہ ہم ایک ہیں، ھماری زبان رھن سھن اور علاق۔۔۔ہ ایک ھے۔اور اس خطے میں مختلف النسل و مذاھب اور اقوام ایک ساتھ رھتے ھیں لھذا ایک خطے میں دو قومی نظریہ کیا ھے؟

گوپی چند نارنگ سٹیج پر اکر کھتا ھے۔

اپ لوگوں کی مہربانی ھے کہ مجھے اس قابل سمجھا ورنہ میں تو ایک پہاڑی بلوچستانی ھوں۔۔بھلا کہاں اردو اور کھاں ایک بلوچستانی؟؟؟


پاکستانی بچےقربت کی یہ میھٹے بھول سن کر خوش ھوجاتے ھیں۔کہ کتنا پیارہ ادمی ھے؟ھندو ھوکر ھماری زبان بولتا ھے۔

پھر انکے جلو میں ائے ھوئے ھندو گلزاری لال کھتا ھے۔

ادب کا کوئی سرحد نھیں۔
عطا صاحب کھتا ھے کہ ادب کا سرحد ھو نہ ھو مگر ادیب کا سرحد ضرور ھوتا ھے۔

پھر تیسرا ھندو شاعر کھتا ھے
یہ جو لکیر میرے سینے کے اوپر کھینچی گئ ھے۔

اب مٹنا چاھئے۔

پھر ھمارے مسلمان بھائی ان دو ٹکوں کی شاعروں کو بے تحاشہ داد اس لئے دیتے ھیں کہ یہ ھندو ھو کر ھماری زبان بولتے ھیں ۔اور اس میں شاعری بھی کرتے ھیں۔

تو عرض یہ ھے کہ ان لوگوں کی کون پزیرائی کرتا ھے؟

پھر اپ اسکا نتیجہ بھی دیکھ لیں کہ سلیم جعفری کی دونوں بیٹیوں نے ھندوؤں سے شادی کی ھے۔۔جب پوچھا کہ کیوں۔؟
کہتے ھیں ۔اپکو یقین نہیں کہ جوڑے اسمانوں پر بنتے ھیں؟

جیسا کہ سلمٰی صدیقی نے کرشن چندر سے شادی کی تھی۔:(

اور انکے والد محترم(رشید احمد صدیقی) تمام عمر ھندوؤں کے دوستی پر پچھتاتا رھا۔
 

Dilkash

محفلین
4-5 سال پہلے مجلس فروغ اردو قطر کے سالانہ مشاعرے میںgcn کو ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
300000 لاکھ روپے ھر سال ھندوستان پاکستان کے دو ادیبوں/شاعروں کو دئیے جاتے ھیں۔

ساتھ میں ایک شیلڈ /ایوارڈ بھی دی جاتی ھے۔

بدقسمتی سےعزت ماب ڈاکٹر عبدلقدیر خان مھمان خصوصی تھے۔

جی سی این کو ایوارڈ ڈاکٹر صاحب کے ھاتھوں دینا تھا۔جب اناؤنسمنٹ ھوئی ،تو ڈاکٹر صاحب اٹھا اور انکی طرف چل کر اٰیوارڈ پیش کیا۔

جی سی این اپنی جگہ سےاٹھنا تو درکنار ھلا بھی نہیں اور ھاتھ جوڑ دئے۔
انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے ھاتھوں ایوارڈ لینے سے انکار کردیا۔
1200 لوگوں اور میڈیا کے سامنے ڈاکٹر صاحب کی بے عزتی ھوئ۔
بعد میں جب کسی نے نجی محفل میں ان سے پوچھا۔گوپی جی کیوں؟
کہنے لگے یہ شخص میرے ملک کا دشمن ھے۔اور ھمارے وطن کو تباہ کرنے کے لئے ایٹم بم بنایا ھے۔میں کیسے یہ ایوارڈ انکے ھاتھوں لے سکتا ھوں؟



ہم نے بیہت احتجاج کیا اور 24 تنظیموں کے صدور سے دستخط لے کر پاکستانی سفیر کو اپنا اختجاج ریکارڈ کیا۔

بعد میں عبدلقادر حسن نے فون پر بتایا کہ یہ ایک سازش تھی اور اس سازش کی کامیابی پر ھمارے حکمران بھی کچھ نہ بولے بلکہ ھوسکتا ھے خوش بھی ھوں ۔۔کیونکہ جلد ھی پھر ملک کے اس ھیرو کو زیرو بنانے کا عمل شروع ھوا۔

دوسری طرف ، چند ھی دنوں بعد گوپی جی کو اس کامیابی پر انڈیا کا سب سےبڑا ایوارڈ دیا گیا
 
ڈاکٹر گیان چند جین اردو کے نامور محقق اور ماہر لسانیات کی حیثیت سے اپنی نمایاں شناخت رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی گراں قدر تصانیف اور تحقیقی مقالات سے اردو زبان کو ثروت مند کیا ہے۔ انہوں نے جہاں علمِ عروض پر کتاب لکھی وہاں دیگر اصناف ادب پر بھی ان کی ایک کتاب شائع ہوچکی ہے۔ اردو داستانوں پر بھی انہوں نے جو کام کیا ہے وہ یقینا بلند پایہ اور بے نظیر ہے۔ اسی طرح شمالی ہند کی اردو مثنویوں پر بھی ان کا کام غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ تحقیق کے فن پر بھی ان کی ایک کتاب سند کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اس فن کو اس طرح سمجھایا ہے اور پیش کیا ہے کہ طلبہ اور اساتذہ اس فن سے پوری طرح متعارف ہوجاتے ہیں۔

ڈاکٹر گیان چند جین گزشتہ کئی برس سے امریکہ میں مقیم تھے۔ کچھ عرصہ قبل ہی ان کی ایک کتاب “ ایک بھاشا ، دو لکھاوٹ ، دو ادب “ منصہ شہود پر آئی ہے، جس کے بعد بھارت کے روشن خیال ، وسیع النظر اور انسان دوست ادبی حلقوں میں بحث و مباحثے کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ اس کتاب کے بعد کہا جاتا ہے کہ گیان چند صاحب نے اپنی تمام عمر کی اردو ریاضت اور محنت پر اپنے ہاتھوں سے پانی پھیر دیا۔ اس پر ممتاز شاعر ، نقاد اور محقق ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی کی ایک مفصل تحریر بھی ہے جو موقع ملا تو ضرور پیش کروں گا۔
 

رضوان

محفلین
4-5 سال پہلے مجلس فروغ اردو قطر کے سالانہ مشاعرے میںgcn کو ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
300000 لاکھ روپے ھر سال ھندوستان پاکستان کے دو ادیبوں/شاعروں کو دئیے جاتے ھیں۔

ساتھ میں ایک شیلڈ /ایوارڈ بھی دی جاتی ھے۔

بدقسمتی سےعزت ماب ڈاکٹر عبدلقدیر خان مھمان خصوصی تھے۔

جی سی این کو ایوارڈ ڈاکٹر صاحب کے ھاتھوں دینا تھا۔جب اناؤنسمنٹ ھوئی ،تو ڈاکٹر صاحب اٹھا اور انکی طرف چل کر اٰیوارڈ پیش کیا۔

جی سی این اپنی جگہ سےاٹھنا تو درکنار ھلا بھی نہیں اور ھاتھ جوڑ دئے۔
انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے ھاتھوں ایوارڈ لینے سے انکار کردیا۔
1200 لوگوں اور میڈیا کے سامنے ڈاکٹر صاحب کی بے عزتی ھوئ۔
بعد میں جب کسی نے نجی محفل میں ان سے پوچھا۔گوپی جی کیوں؟
کہنے لگے یہ شخص میرے ملک کا دشمن ھے۔اور ھمارے وطن کو تباہ کرنے کے لئے ایٹم بم بنایا ھے۔میں کیسے یہ ایوارڈ انکے ھاتھوں لے سکتا ھوں؟



ہم نے بیہت احتجاج کیا اور 24 تنظیموں کے صدور سے دستخط لے کر پاکستانی سفیر کو اپنا اختجاج ریکارڈ کیا۔

بعد میں عبدلقادر حسن نے فون پر بتایا کہ یہ ایک سازش تھی اور اس سازش کی کامیابی پر ھمارے حکمران بھی کچھ نہ بولے بلکہ ھوسکتا ھے خوش بھی ھوں ۔۔کیونکہ جلد ھی پھر ملک کے اس ھیرو کو زیرو بنانے کا عمل شروع ھوا۔

دوسری طرف ، چند ھی دنوں بعد گوپی جی کو اس کامیابی پر انڈیا کا سب سےبڑا ایوارڈ دیا گیا

دلکش صاحب میں اس مشاعرہ کا عینی شاہد ہوں اور آپ نے سو فیصد درست واقع بیان کیا لیکن مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے محسن اور پاکستان کے ہیرو کو کچھ نادان دوستوں یا پیٹ سے سوچنے والے بیوروکریٹس نے جان بوجھ کر اس محفل میں بھیجا جو اُن کے شایانِ شان نہیں تھی۔ اگر میں گوپی چند نارنگ کے بدلے وہاں ہوتا تو میری قومی غیرت کا تقاضہ تھا کہ ایسی تقریب ہی کا بائیکاٹ کروں جو ادب کا لبادہ اوڑھ کر اپنے مزموم مقاصد پورے کرنے کے لیے منعقد کی جائے۔
اس بدمزگی کے ذمہ دار وہ لوگ تھے جو ڈاکٹر صاحب کو اس تقریب میں لائے جسمیں پاکستان، انڈیا بنگلہ دیش، کینیڈا اور بریطانیہ سے شعراء کو مدعو کیا گیا تھا۔ ہم یہ بات قطعًا جانتے ہیں کہ ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا دشمن ہوتا ہے پھر بھی اس طرح کی کوتاہی کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ گوپی چند نارنگ اردو کے حوالے سے اپنا الگ مقام رکھتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب سے ایوارڈ نا لیکر اس نے ثابت کیا کہ اس کے لیے اس کا وطن پہلے ہے پھر باقی حوالے ہیں۔ اس سارے واقعے میں ڈاکٹر عبدالقدیر کی عظمت پر تو کوئی آنچ نہیں آئی ہاں سرکاری بزرجمہر ضرور بغلیں جھانک رہے تھے اور تاویلوں کے پلندے تراشے جارہے تھے۔
اب بیسیوں بنگلہ دیشی بھی اس مشاعرے میں موجود تھے اگر وہ کہتے کہ ہمارے بنگلہ بندھو مجیب الرحمن کو خراج عقیدت پیش کرو تو ہم کہاں جاتے؟؟؟؟؟ دلکش صاحب اگر ہم طویلے میں مندر بنائیں تو پھر دیوتاؤں کے اپمان کا شکوہ نا کریں۔
 

Dilkash

محفلین
رضوان بھائی بہت شکریہ

اس تنظیم کا مقصد ہی دو قومی نظریے کی مخالفت ھے۔

میں نے الحمد اللہ گزشتہ سات 7 سالوں سے انکے مشاعروں کا بائیکاٹ کیا ھوا ھے۔
اور ھر فورم پر اپنا احتجاج ریکارڈ کیا ھے۔

میں نے اپنے صف اول کے ادیبوں اور شاعروں سے بھی کھا ھے۔انکا کہنا تھا کہ تم لوگ ھوشیار رھو ہمیں کوئی درغلا نہیں سکتا۔
دوسریاور سچی بات یہ تھی کہ انکی ملکی سطح پر کون اتنی پزیرائی کرے؟
لھذا انکا فائدہ ھی فائدہ تھا۔۔پیسہ۔۔ شھرت۔چکر۔۔اور تحفے انکو مفت میں مل رھے تھے۔۔
ھمارے طرح دیوانے تھوڑے ہیں کہ اپنے جگری یاروں کے ساتھ صرف اس بات پر برسوں کے یارانے چھوڑے۔

ایک زرہ سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
چلو اچھا ھوا کچھ لوگ تو پہچانے گئے
 

الف عین

لائبریرین
دلکش صاحب۔ آپ کے ذہن پر نفرت کے بہت دبیز پردے ہیں، تعصب کی نظر سے تہذیبی قدروں کو نہ دیکھیں، اردو نہ ہندوستان کی ہے نہ پاکستان کی۔ اور جہاں معاملہ محض اردو کا ہو، اور وہ بھی ہندوستان پاکستان سے باہر، تو کسی کو اپنی وطنیت کے جذبات کا اس طرح مظاہرہ کرنا بجا نہیں ہے کہ دوسروں کے جذبات مجروح ہوں۔
مجھے اس بات پر تکلیف ہوئی کہ گیان چند جین کی مخالفت میں قلم اٹھانے کے باوجود میں ان کے لئے ’اُس‘ کے الفاظ استعمال نہیں کرتااور یہاں بڑے بڑے ہندوستانی جیدوں کے لئے ایسا ہی طرزِ گفتگو استعمال کیا جا رہا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اعجاز اختر صاحب معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ہندو ادیبوں کے رویے سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ان کے دل و دماغ پر نفرت کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔
 

Dilkash

محفلین
اعجاز اختر صاحب بزرگوارم

میں اپکی تکلیف کے لئے معزرت خواہ ھوں، لیکن جو حقیقت تھی میں نے بیان کی ۔بھر حال اچھا ھوا کہ اپ نے بھی دل کی بات کہی۔چلو تھوڑا بہت تو وطن سے محبت اور جزبے کا اظھار بھی ھونا چاہئے۔

اردو بے شک مسلمانوں کی زباں ھوگی مگر اردو کے آڑ میں بھی لوگ سیاسی چالیں چلتے ھیں۔

مکرمی
میں نے کسی بھی جید کی شان میں گستاخی نہیں کی ھے۔اور نہ اپکی دل ازاری چاھتا تھا۔


گوپی بند نارنج اگر اپ عالم سمجھتے ھیں تو پھر ابلیس سے بڑا عالم بھی تو کوئی نھیں تھا۔
 

فاتح

لائبریرین
انتہائی دکھ ہوا محترم کی وفات کی خبر سن کر۔
ڈاکٹر گیان چند جین اردو کے نامور محقق اور ماہر لسانیات کی حیثیت سے اپنی نمایاں شناخت رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی گراں قدر تصانیف اور تحقیقی مقالات سے اردو زبان کو ثروت مند کیا ہے۔ انہوں نے جہاں علمِ عروض پر کتاب لکھی وہاں دیگر اصناف ادب پر بھی ان کی ایک کتاب شائع ہوچکی ہے۔ اردو داستانوں پر بھی انہوں نے جو کام کیا ہے وہ یقینا بلند پایہ اور بے نظیر ہے۔ اسی طرح شمالی ہند کی اردو مثنویوں پر بھی ان کا کام غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ تحقیق کے فن پر بھی ان کی ایک کتاب سند کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اس فن کو اس طرح سمجھایا ہے اور پیش کیا ہے کہ طلبہ اور اساتذہ اس فن سے پوری طرح متعارف ہوجاتے ہیں۔

ڈاکٹر گیان چند جین گزشتہ کئی برس سے امریکہ میں مقیم تھے۔ کچھ عرصہ قبل ہی ان کی ایک کتاب “ ایک بھاشا ، دو لکھاوٹ ، دو ادب “ منصہ شہود پر آئی ہے، جس کے بعد بھارت کے روشن خیال ، وسیع النظر اور انسان دوست ادبی حلقوں میں بحث و مباحثے کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ اس کتاب کے بعد کہا جاتا ہے کہ گیان چند صاحب نے اپنی تمام عمر کی اردو ریاضت اور محنت پر اپنے ہاتھوں سے پانی پھیر دیا۔ اس پر ممتاز شاعر ، نقاد اور محقق ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی کی ایک مفصل تحریر بھی ہے جو موقع ملا تو ضرور پیش کروں گا۔
محب صاحب! بہت عمدہ خاکہ تحریر فرمایا ہے آپ نے۔

:grin:
اور اعجاز اختر صاحب کا جواب پڑھ کر جانے کیوں ہنسی آ رہی ہے۔ اس مشہور مقولے کا پہلا حصہ ذہن میں آ گیا تھا;)
 

رضوان

محفلین
اعجاز اختر صاحب بزرگوارم

میں اپکی تکلیف کے لئے معزرت خواہ ھوں، لیکن جو حقیقت تھی میں نے بیان کی ۔بھر حال اچھا ھوا کہ اپ نے بھی دل کی بات کہی۔چلو تھوڑا بہت تو وطن سے محبت اور جزبے کا اظھار بھی ھونا چاہئے۔

اردو بے شک مسلمانوں کی زباں ھوگی مگر اردو کے آڑ میں بھی لوگ سیاسی چالیں چلتے ھیں۔مکرمی
میں نے کسی بھی جید کی شان میں گستاخی نہیں کی ھے۔اور نہ اپکی دل ازاری چاھتا تھا۔
گوپی بند نارنج اگر اپ عالم سمجھتے ھیں تو پھر ابلیس سے بڑا عالم بھی تو کوئی نھیں تھا۔
محترمی دلکش صاحب
آپ کے نقطہ نظر سے مجھے شدید اختلاف ہے۔
اردو اگر صرف مسلمانوں ہی زبان ہے تو پھر سوائے اورادووظائف، قصص الانبیاء اور سوہنے پیروں کی باتیں کے باقی تمام کتب کو سنگسار کردینا چاہیے۔ معاف کیجیے گا اس طرح کی سوچ کو اگر عملی جامع پہنا دیا جائے تو پھر اردو منقش جز دان میں لپٹی اونچے سے مقدس طاق پر دَھری نظر آئے گی اور کچھ ہی عرصے بعد اس کا حشر یہودیوں کی عبرانی زبان والا ہوگا۔
اردو کی تاریخ اور ترویج پر ذرا نظر ڈالیے کہ پہلی درس گاہ کس نے قائم کی تراجم کس نے کیے اردو کے اولین اخبارات کس مزہب کے لوگوں نے جاری کیے۔
انتہائی معذرت کے ساتھ " اگر آپ جیسے خیالات رکھنے والے لوگ اردو کی خدمت کا دعوٰی کرتے ہیں تو اردو کو دشمنوں کی حاجت نہیں ہے۔
 

Dilkash

محفلین
معاف کرنا میں نے یہ تو نہیں کہا کہ مسلمانوں کی زبان ہے۔

۔۔۔ھوگی۔۔۔ کا لفظ میں نے لکھا ہے۔
مٰیں نے تو سیاست کی بات کی ہے اور اردو کے نام پر ہونے والے سرگرمیوں کی بات کی ہے۔

باقی اردو کی خدمت کا نہ تو میں نے کبھی دعوٰی کیا ہے اور نہ شائد اس قابل ھوں۔

البتہ چند لوگ اردو بیچ کر خدمت کی دعویداری کرتے ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
مجھے بھی اس سوچ سے اختلافِ رائے ہے ۔ گیان چند کی نظریات اور سوچ خواہ کچھ بھی رہے ہوں ۔مگر ان کی ادبی خدمات کو پسِ منظر نہیں ڈالا جاسکتا ۔ ان کی ذات اور نظریات سے اختلاف اپنی جگہ ہیں ۔ مگر وہ ایک الگ بحث ہے ۔ لیکن جب ہم اردو ادب کے حوالے سے بات کریں گے تو ان کی علمی و ادبی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ اور یہاں یہی موضوع بنا کر ان کا ذکر کیا جارہا ہے ۔
 
انتہائی دکھ ہوا محترم کی وفات کی خبر سن کر۔

محب صاحب! بہت عمدہ خاکہ تحریر فرمایا ہے آپ نے۔


:grin:
اور اعجاز اختر صاحب کا جواب پڑھ کر جانے کیوں ہنسی آ رہی ہے۔ اس مشہور مقولے کا پہلا حصہ ذہن میں آ گیا تھا;)

بہت شکریہ تعریف کا فاتح مگر حقیقت یہ ہے کہ اسے میں نے اخبار جہاں سے لے کر بہت پہلے اپنے پاس محفوظ کر رکھا تھا اور اب پوسٹ کر دیا۔ اس پر ٹر شمس الرحمن فاروقی کی تنقید بھی پڑھنے کی چیز ہے جو اگر ملی تو ضرور پوسٹ کروں گا۔
 

حیدرآبادی

محفلین
لہجہ ؟؟

گوپی چند نارنگ کے خیالات اور ان کی ایک مخصوص قسم کی تجزیہ نگاری سے مجھے بھی اختلاف ہے۔
لیکن بات کی پیش کشی کا بھی ایک لہجہ ہوتا ہے۔ اردو ادب کے حوالے سے بات کی جا رہی ہو تو ، نارنگ صاحب کا بہرحال کچھ نہ کچھ مقام تھا ادب میں۔
دلکش صاحب نے جو "لہجہ" استعمال کیا ہے اس پر اعتراض کیا جا سکتا ہے۔ بے شک ، ان کی تمام باتوں میں سچ ہو سکتا ہے۔
لیکن ۔۔۔ اگر ہمارے پاکستانی برادران کو ناگوار خاطر نہ گزرے تو ذرا کوئی ہمیں‌ یہ ضرور بتا دے کہ "کڑوے سچ" کے اظہار کے لیے لہجے کا بدنما ہونا بھی کیا آپ کے ہاں‌ اتنا ہی ضروری سمجھا جاتا ہے ؟؟ :confused:
 

محمد وارث

لائبریرین
لیکن ۔۔۔ اگر ہمارے پاکستانی برادران کو ناگوار خاطر نہ گزرے تو ذرا کوئی ہمیں‌ یہ ضرور بتا دے کہ "کڑوے سچ" کے اظہار کے لیے لہجے کا بدنما ہونا بھی کیا آپ کے ہاں‌ اتنا ہی ضروری سمجھا جاتا ہے ؟؟ :confused:


ارے نہیں حیدر آبادی بھائی، "کڑوے سچ" کے اظہار کیلیے لہجےکا نہ ہی تو بدنما ہونا ضروری ہے اور نہ ہی طنزیہ:)
 
میں نے بھی ایک پوسٹ کی تھی مگر شاید صحیح پوسٹ‌نہیں ہوئی۔

حیدرآبادی صاحب یہاں 7 میں سے پانچ پاکستانیوں نے اچھا انداز برقرار رکھا ہے کیا یہ ثبوت نہیں کہ اکثریت عمدگی سے بات کر رہی ہے۔ :)
 

Dilkash

محفلین
دلکش صاحب نے جو "لہجہ" استعمال کیا ہے اس پر اعتراض کیا جا سکتا ہے۔ بے شک ، ان کی تمام باتوں میں سچ ہو سکتا ہے۔
لیکن ۔۔۔ اگر ہمارے پاکستانی برادران کو ناگوار خاطر نہ گزرے تو ذرا کوئی ہمیں‌ یہ ضرور بتا دے کہ "کڑوے سچ" کے اظہار کے لیے لہجے کا بدنما ہونا بھی کیا آپ کے ہاں‌ اتنا ہی ضروری سمجھا جاتا ہے ؟؟ :confused:[/QUOTE]

محترم حیدر ابادی صاحب!!!

میں اس موضوع پر دوبارہ بولنا نہیں چاہتا تھا کہ میری اس صحافتی قسم کے تبصرے نے کچھ دوستوں کو خاصہ پریشان کیا جس کے لئے میں معزرت خواہ ھوں، حالانکہ جس وقت میں نے اس فورم کو جائن کیا تھا تو اس وقت ھر طرف ہرے بھرے جھنڈے اور اپنے وطن عزیز کے شہروں اور مسلمانوں کے نام دیکھ کر جوش وطنیت میں یہ بھول گیا تھا کہ میں جس علاقائی ادب میں لکھتا تھا وہ سو فیصد مسلمان تھا۔جب کے اردو ادب بقول شخصے لا دین ادب ھے جس میں ھندو مسلم سب برابر ہے۔
جہ۔۔اں ھ۔۔زاروں مسلمان لکھ۔۔اریوں کے مقابلے میں چن۔د غیر مسلم لکھ۔اریوں کو بھی لوگ ان داتا مانتے ہیں۔
حالانکہ مجھے جاھل کہنے والے اچھی طرح جانتے ہیں،کہ اردو زبان و ادب میں اسلامی مدرسوں،اداروں اور اسلامی لیٹریچر لکھنے والوں کا حصہ بھی کوئی کم نہیں ہے، جیسا کہ اردو کو بہت پہلے سے بندے ما ترم گانے والوں نے صرف مسلمانوں کا زبان قرار دیا ہے۔

اور بدقسمتی سے جہاں سے یہ اردو ہمیں اسلامی ورثے کی شکل میں ملی ہے خود ان کی نسلوں نے انکی بقا کی جنگ ہاری ہے۔

اب جیسے تیسے یہی اردو میرے وطن میں تمام تر علاقائی زبانوں اور بولیوں کی خوبصورت رنگ و اھنگ کے ساتھ، ثقافتی اور تہزیبی روایات کے زیر سایہ زندہ و تابندہ ہے اور انشااللہ جب تک پاکستان یے ، زندہ رہے گی ۔

رہ گئی بات پاکستان میں لہجے کی بدنمائی کا تو اسکا قصوروار میں تو ہوسکتا ہوں پاکستانی ادیب یا شاعر نہیں۔
مجہے اندازہ نہیں تھا کہ اس بورڈ پر میری تھوڑی سی تلخ گوئی کے لئے پورے پاکستان کے لکھاریوں کو مورد الزام ٹھرایا جائگا،

اور اس تبصرے کو ادبی دھشتگردی قرار دیکر آدبی سو مناتو کی چولیں ھلنے لگے گے۔



حالانکہ میں نے ہندوستانی ادبا و شعراء کا رویہ بھی دیکھا اور پڑھا ہے

دیار غیر میں ھمارے ساتھ اردو کے یہی ادبا و شعراء نہیں بیھٹتے اور اپنی ڈیڈھ اینٹ کی الگ مسجد بنا رکھے ہیں۔
الگ تنظیمں اور الگ پروگرام کرتے ہیں اور وہاں کے مجلے بھی میں نے دیکھے ہیں جو سالہا سال تک مسلسل اپنے نمبروں میں ہمارے ادیبوں اور فنکاروں کے کردارکشی کرتے ہیں۔

انکا ذکر کیوں نہیں کرتے؟
میں نے اگر اپنے کے وطن حوالے سے خدشات ظاھر کئے تو اتنا بڑا گناہ تو نہیں کیا۔ اگر چہ مجھے اپنے وطن اور دین و نظریے کی دفاع کا حق ھے چاھے اس کے لئے میں کردارکشی تو کجا اپنا اور دوسروں کا سر بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرونگا۔


بہرحال میں اس موضوع پر مزید کچھ کہنا یا پڑھنا نہیں چاہتا اور اگر کوئی جواب دینا چاھے تو میرے پرسنل ایمیل ایڈریس یا پی ایم پر دے سکتے ہیں۔ کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی میرے خیالات سے مجروح ھو۔
اپنے بھی ہیں خف۔۔ہ اور بیگانے بھی ہیں ناخوش
می۔۔ں زہر ہلاہل ک۔۔۔و کبھی کہہ نہ سکا قن۔۔۔۔۔۔د
 
Top