محسن حجازی
محفلین
آپ سب کا اور باجو کا بطور خاص بہت شکریہ
دراصل یہ مسئلہ دو اڑھائی سال سے چل رہا تھا کہ اچانک پیٹ میں درد ہوتا تھا اور ہسپتال بھی جانا پڑتا تھا۔ ہر بار پین کلر لینے کے بعد آرام آجاتا۔ اس بار یعنی آٹھ تاریخ کو ہمارے نزدیک والے ہسپتال میں ایک رشئین ڈاکٹر تھی جس نے کہا کہ اتنے لمبے عرصے سے مسئلہ چل رہا ہے تو اس کا حل نکلنا چاہئے۔ اس نے Valkeakoski کے ہسپتال ریفر کیا۔ وہاں انہوں نے پندرہ بیس مختلف قسم کے ٹیسٹ کئے اور پھر ڈیوٹی ڈاکٹر نے سرجری ڈپیارٹمنٹ سے سرجن کو کال کیا۔ سرجن صاحبہ کوئی دو گھنٹے تاخیر سے آئیں۔ انہوں نے چیک اپ کیا اور بتایا کہ ان کے خیال میں اپینڈکس ہی ہے۔ تاہم سو فیصد یقینی نہیں تھا۔ اس لئے سی ٹی سکین کے لئے ریفر کیا۔ سی ٹی سکین میں فوراً علم ہو گیا کہ اپینڈکس ہے اور پوری طرح سے انفیکٹڈ ہے۔ تاہم میرے کیس میں اپینڈکس اپنی اصل یا نارمل جگہ سے ہٹ چکا تھا اور اس کا رخ بھی اوپر کی طرف ہو چکا تھا۔ جس کی وجہ سے عام علامات موجود نہیں تھیں۔ خیر سرجن کی ڈیوٹی کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ ڈیوٹی ڈاکٹر نے دوبارہ سرجن کو سی ٹی سکین کا رزلٹ بتایا اور بلڈ ٹیسٹ بھی کہ انفیکشن لیول اس وقت 177 پر ہے جو انتہائی حد کو چھو رہا تھا تو سرجن نے اسی وقت آپریشن کا فیصلہ کر لیا
آپریشن شام سوا پانچ بجے شروع ہوا اور چھ بجے مجھے جگا دیا۔ انستھیزیا ڈاکٹر نے بتایا کہ آپریشن کے دوران کوئی مسئلہ چونکہ نہیں ہوا اس لئے اگلے دن میں گھر جا سکتا ہوں۔ رات ہسپتال گزری۔ اگلے دن بارہ بجے چھٹی ہو گئی۔ التبہ ڈرائیو کرنے کے لئے ایک دن مزید انتظار کا کہا گیا تھا۔ سرجن نے یہ بھی بتا دیا کہ چونکہ آپریشن میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا اس لئے امید ہے کہ اینٹی بائیوٹیکس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اگر درد ہو تو بروفن یعنی Ibumax لے سکتا ہوں یا Ketorin
ٹانکے بدھ کے روز کھلنے تھے، یعنی پندرہ تاریخ کو۔ تاہم آپریشن کے تیسرے دن مجھے اندازہ ہوا کہ انفیکشن ہو رہا ہے۔ تاہم ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ معمولی سا اگر کوئی مواد زخم سے رسے تو کوئی پریشانی والی بات نہیں۔ تاہم ہفتے کی رات کو یہ مواد اتنا گاڑھا ہو چکا تھا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ انفیکشن ہو چکا ہے۔ تاہم یہ زخم کے صرف ایک چھوٹے سے حصے پر ہی تھا۔ ہفتے کی رات کو پھر اسی ہسپتال گیا۔ ڈیوٹی ڈاکٹر نے ایک پتلی سی تیلی کو زخم میں گھسیڑ کر سیمپل لیا اور پھر اینٹی بائیوٹک لکھ دی۔ چونکہ ہفتے کی رات اور اتوار کے دن کو فارمیسی بند تھی تو یہ دو ڈوز انہوں نے خود سے دیں
ٹانکے بدھ کی بجائے جمعہ کو کھلنے تھے، تاہم جمعے تک زخم خشک نہیں ہوا تو پیر کا کہا۔ پیر کو ایک ٹانکہ کھول دیا گیا اور بقیہ دو باقی ہیں۔ کل پتہ چلے گا کہ کیا پوزیشن ہے
بڑے بھا آپ کے ساتھ اتنا کچھ بیت گيا ہم کو اب معلوم پڑ رہا ہے۔۔۔ ایک عالم بے خبری کا بھی ہوتا ہے ہم تو دو چار ہاتھ اس سے بھی آگے ہیں۔۔۔
چلئے جراحت تو بطریق احسن نمٹ گئی۔
اب زخم کا کیا حال ہے؟ انفیکشن تھمی کہ نہیں؟
باایں ہمہ تمام قصے میں ہم کو رشئین لیڈی ڈاکٹر بھلی معلوم ہوئی
امریکی بھی ہوتی تو ہم معترض نہ ہوتے
جرمن بھی سنتے ہیں اچھی ہوتی ہیں۔
آپ کو بھی بھلی معلوم ہوئی کہ نہیں دیکھئے ناں اس بے چاری نے ہی تو ڈھائی سالوں پر محیط درد کو سمجھا وگرنہ آج کل کون کسی کے درد کو سمجھتا ہے۔