arifkarim
معطل
مدیر کی آخری تدوین:
کیونکہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔کچھ لوگ نجانے کیوں جنرل راحیل شریف کو ایک بلند معزز مقام سے نیچے کھینچنا چاہتے ہیں
وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصل میں عوام کو نہ آمریت چاہیئے نہ جمہوریت چاہیئے۔ انہیں تو بس وہ فنکار اور مداری چاہیئے جو ہر 4سال بعد انہیں اپنی انگلیوں پر نچوا سکیںعوام کا سمجھ میں نہیں آتا. جب مشرف صاحب آئے تھے تو سب ان کے پیچھے چلے تھے اور پھر ان کو کس طرح سے خوار کرکے فارغ کیا۔ سب کو معلوم ہے۔
عوام کا سمجھ میں نہیں آتا. جب مشرف صاحب آئے تھے تو سب ان کے پیچھے چلے تھے اور پھر ان کو کس طرح سے خوار کرکے فارغ کیا۔ سب کو معلوم ہے۔
اب جبکہ عوام کی پسندیدہ جموریت آگئی ہے تو پھر فوجی بوٹوں کی آواز اور میرے عزیز ہم وطنوں والے خطاب کے لئے عوام کے کان ترس رہے ہیں۔ (یاد رہے کہ یہ وہ جموریت ہے جو بقول حامد میر اور اسی قبیل کے دوسرے صحافیوں کے مطابق "بہترین آمریت سے بہتر تھی"۔ اکثر ان کے پروگراموں میں یہ گونج سنائی دیتی تھی کہ "بد ترین جموریت بہترین آمریت سے بہتر ہے" اور پھر اس جمہوری دور میں ہی ان کی تواضح کس طرح کی گئی سب کو معلوم ہے۔)
جناب بالکل بجا فرمایا آپ نے۔ عوام کو وہی لوگ پسند آنے چاہیں جنہوں نے ان کے لئے کام کیا۔ تاہم یہاں پر تو ووٹ اس لئے نہیں پڑتا کہ کس نے کام کیا اور کس نے نہیں کیا بلکہ اس لئے پڑتا ہے کہ اس شخص کا تعلق کس پارٹی سے ہے یا کس برادری سے ہے۔عوام کو وہ لوگ پسند آتے ہیں جو کام کرتے ہیں اور جن کے کاموں کے مثبت اثرات نظر آتے ہیں۔
مطلب آپکے خیال میں افواج پاکستان کا انتخابی نشان "ڈنڈا" درست ہے؟تاہم فوج کا کام حکومت سنبھالنا نہیں ہے۔ ہاں اگر ضرورت پڑے تو سیاسی لوگوں کا قبلہ درست کرنے کا موقع نہیں چھوڑنا چاہیے۔
یا کس پیشے سے ہے۔ ہری پور میں نون لیگ کے امیدوار بابر نواز خان کامیاب رہے۔ انتخابی مہم کے دوران موصوف بھرے مجمع میں اقرار کرتے رہے کہ میں اور میرا خاندان چور بھی ہے اور ڈاکو بھی ہے لیکن میں پھر بھی آپ سے ووٹ مانگتا ہوں:جناب بالکل بجا فرمایا آپ نے۔ عوام کو وہی لوگ پسند آنے چاہیں جنہوں نے ان کے لئے کام کیا۔ تاہم یہاں پر تو ووٹ اس لئے نہیں پڑتا کہ کس نے کام کیا اور کس نے نہیں کیا بلکہ اس لئے پڑتا ہے کہ اس شخص کا تعلق کس پارٹی سے ہے یا کس برادری سے ہے۔
ہاہاہاہاہاہاتاہم فوج کا کام حکومت سنبھالنا نہیں ہے۔ ہاں اگر ضرورت پڑے تو سیاسی لوگوں کا قبلہ درست کرنے کا موقع نہیں چھوڑنا چاہیے۔
آپ نے اس دستاویز سے جنرل کے لئے ایک ووٹ کیسے اخذ کیا؟ پاکستان میں write-in نہیں ہوتا لہذا راحیل شریف کے ووٹ مسترد کے کالم میں آئیں گے۔ لہذا 1 سے ل کر 3912 تک ہو سکتے ہیں۔237،948 ووٹرز میں سے ایک کو جنرل راحیل شریف اور ان کا انتخابی نشان ڈنڈا پسند ہے جس کی وجہ سے ہری پور کی باقی ساری عوام عقلمند ٹھہرائی گئی۔
وا وا
سبحان اللہ
اور فوج کا قبلہ کسے درست کرنا چاہیے ؟تاہم فوج کا کام حکومت سنبھالنا نہیں ہے۔ ہاں اگر ضرورت پڑے تو سیاسی لوگوں کا قبلہ درست کرنے کا موقع نہیں چھوڑنا چاہیے۔
اور فوج کا قبلہ کسے درست کرنا چاہیے ؟
ہاہاہاہاہاہا
عوام کی تو کوئی سنتا نہیں ہے۔ کیونکہ نہ تو ووٹ میں اتنی سکت ہے کہ حکومت کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے اور نہ ہی عوام کو ووٹ کے صحیح استعمال کا شعور۔ پھر عوام کے پاس موجود "آپشنز" بھی سب الا ماشاءاللہ ہیں۔
28 مئی 1998 کو حکومت نے جو ایٹمی دھماکے کئے اس کی وجوہات میں واضح عوامی دباؤ تھا اور مجید نظامی مرحوم نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو کہا تھا کہ ایٹمی دھماکے کر دو ورنہ عوام آپ کا دھماکہ کر دیں گے۔
2- نواز شریف کی پہلی حکومت کی سپریم کورٹ کے ذریعے بحالی میں بھی عوامی دباؤ کا دخل تھا کیونکہ اس وقت نواز حکومت بہت مقبول تھی اور بار بار ہڑتالیں ہورہی تھیں۔
3- چیف جسٹس افتخار چودھری کی معطلی کے بعد سپریم کورٹ کے ذریعے بحالی اور بعد میں دوسری بار لانگ مارچ کے ذریعے بحالی میں بھی عوامی دباؤ واضح تھا۔
4- جب بھی فوج نے جہوری حکومت کا تختہ الٹا اس وقت وہ حکومت عوام میں بدنام ہوچکی تھی کبھی فوج نے مقبول جمہوری حکومت کا تختہ نہیں الٹا مثلاً جب جنرل ضیاء نے بھٹو حکومت کو رخصت کیا اس وقت بھٹو حکومت مقبول نہیں تھی، جب مشرف نے 1999 کو بغاوت کی اس وقت بھی نواز حکومت کارگل واقعے کی وجہ سے بدنام تھی۔
اس لئے یہ کہنا بجا نہیں ہوگا کہ ملکی مقتدر عوامی خواہشات یا دباؤ کو بالکل اہمیت نہیں دیتے۔ بات یہ ہے کہ عوام دباؤ ڈالیں تو سہی
مشرف کی پارٹی کا تو اس سے بھی زیادہ بیڑہ غرق ہےاوہ۔۔۔پی پی پی پی کا امیدوار بھی نظر آ رہا ہے
RIP
اسمیں قہقہے والی کیا بات ہے؟ انہوں نے کوئی لطیفہ تو نہیں سنایاہاہاہاہاہاہا
Write-in تو میرے خیال میں صرف امریکی الیکشن سسٹم میں ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں ناروے میں صرف قومی انتخابات کے دوران اپنے نا پسندیدہ امیدوار کو ہٹانے اور اسکی جگہ کسی اور محبوب لیڈر کو ووٹ کرنے کا حق دیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے دیگر ممالک میں بھی کچھ اسی قسم کا سسٹم ہو۔ ویسے یہ 3912 کا عدد کہاں سے آیا؟آپ نے اس دستاویز سے جنرل کے لئے ایک ووٹ کیسے اخذ کیا؟ پاکستان میں write-in نہیں ہوتا لہذا راحیل شریف کے ووٹ مسترد کے کالم میں آئیں گے۔ لہذا 1 سے ل کر 3912 تک ہو سکتے ہیں۔
ہمسایہ ممالک کی افواج کو!!!اور فوج کا قبلہ کسے درست کرنا چاہیے ؟
یہ حکومت 1947 والی نہیں ہے جناب! الاماشاءاللہ، 30 سال سے زائد ( 1958 – 1971, 1977 – 1988, 1999 – 2008 ) عرصہ ہماری افواج یہاں حکومتیں کر چکی ہیں۔ ایسے میں یہ توقع کرنا کہ ہماری سول حکومت مسلح افواج کے فیصلوں پر نظر اندازہو سکیں گی، یہ ناممکن بوجھ اٹھانے کے مترادف ہے:حکومت کو۔
عوام کی تو کوئی سنتا نہیں ہے۔ کیونکہ نہ تو ووٹ میں اتنی سکت ہے کہ حکومت کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے اور نہ ہی عوام کو ووٹ کے صحیح استعمال کا شعور۔ پھر عوام کے پاس موجود "آپشنز" بھی سب الا ماشاءاللہ ہیں۔
بالکل۔ جہاں پر انکا اپنا مفاد شامل حال رہا، وہاں انہوں نے عوام کی بھی "لاج" رکھ لی۔میرا خیال ہے کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ عوام کی کوئی نہیں سنتا۔ فوج اور عدلیہ اور حکومت نے متعدد مواقع پر اجتماعی عوامی خواہشات کو مدنظر رکھا اس کی مثالیں موجود ہیں۔۔
جو اسنے مشرف کے تختہ الٹنے کے بعد کر دیا۔ نون لیگ کا بھاری مینڈیٹ اسوقت بھی وزنی ثابت نہ ہوا۔ عوام نےمنتخب وزیر اعظم کو چھوڑ کر افواج پاکستان کا خیر مقدم کیا۔1- 28 مئی 1998 کو حکومت نے جو ایٹمی دھماکے کئے اس کی وجوہات میں واضح عوامی دباؤ تھا اور مجید نظامی مرحوم نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو کہا تھا کہ ایٹمی دھماکے کر دو ورنہ عوام آپ کا دھماکہ کر دیں گے۔
اسرائیل اور دیگر مغربی جمہوریتوں میں جب منتخب حکومت کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنا عوامی مینڈیٹ کھو رہی ہے تو وہ فوراً سے پہلے نئے الیکشن کا اعلان کر دیتی ہے۔ پتا نہیں ہماری دیسی "جمہوری" حکومتوں کو عوام سے ایسا کیا خوف ہوتا ہے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت نئے الیکشن کے ذریعہ واپس لانے کی بجائے اپنی آئینی 5 سالہ ٹرم جبراً مکمل کرنے کی ناکام کوششیں کرتی رہتی ہیں۔ اور اس چکر میں کبھی افوج تو کبھی کسی اور سیاسی انتشار کے ذریعہ ملک و ملت کا نقصان کر بیٹھتی ہیں۔4- جب بھی فوج نے جہوری حکومت کا تختہ الٹا اس وقت وہ حکومت عوام میں بدنام ہوچکی تھی کبھی فوج نے مقبول جمہوری حکومت کا تختہ نہیں الٹا مثلاً جب جنرل ضیاء نے بھٹو حکومت کو رخصت کیا اس وقت بھٹو حکومت مقبول نہیں تھی، جب مشرف نے 1999 کو بغاوت کی اس وقت بھی نواز حکومت کارگل واقعے کی وجہ سے بدنام تھی۔
آپکی بات کسی حد تک درست ہے کہ عوامی دباؤ سے حکومت اور عدلیہ پریشر میں آجاتی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی عوامی مطالبات منظور کر لیتی ہے۔ جیسے عمران خان کے دھرنا چھوڑنے کے باوجود حکومت کا جوڈیشل کمیشن برائے تحقیقات الیکشن کے قیام کا اعلان۔اس لئے یہ کہنا بجا نہیں ہوگا کہ ملکی مقتدر عوامی خواہشات یا دباؤ کو بالکل اہمیت نہیں دیتے۔ بات یہ ہے کہ عوام دباؤ ڈالیں تو سہی
اوہ، اگر تحریک انصاف نہ ہوتی تو شاید یہ بھی نظر نہ آتااوہ۔۔۔پی پی پی پی کا امیدوار بھی نظر آ رہا ہے
RIP
مشرف کو کس حکیم نے کہا تھا کہ وہ سیاست کرے۔ یہ سیاست کے کھیل جرنیلوں کے بس کی بات نہیں۔ انہیں یا تو صرف کرپٹ امراء چلا سکتے ہیں یا بہت ہوشیار و چالاک سٹے باز!مشرف کی پارٹی کا تو اس سے بھی زیادہ بیڑہ غرق ہے