ہر تان ہے دیپک!

جس طرح ادبیات میں غزل کو عرب، رباعی کو ایران، ہائیکو کو جاپان، افسانے کو روس اور ڈرامے کو یونان کے شناختی کارڈ کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے اسی طرح گیت کو ساکنانِ برِ صغیر کے سفلی و نورانی جذبات کا بہترین ترجمان قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس مضمون میں ہمارا مدعا یہی ہے کہ اس ورثۂِ آبا کی نئی ہیئت کی تفہیم اور قدر دانی کی صورت پیدا کی جائے تا کہ بعدازاں اس کے آثار کو یورپ، افریقہ، انٹارکٹکا وغیرہ میں دیکھ کر دل سیپارا نہ ہو۔
پہلے تو یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ گیت صرف لکھا ہی نہیں جاتا بلکہ گایا بھی جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ بات آپ کو معلوم ہو مگر قندِ مکرر کے طور پر عرض کر دینے بھی میں کوئی حرج نہیں۔ خیر، تو ہم بیان کر رہے تھے کہ گیت میں گائیکی کا عنصر نہایت اہم ہے۔ اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے ہم ایک مثال پیش کرنا چاہتے ہیں۔
ایک معروف گیت کے بول کچھ اس طرح ہیں:
درد جب حد سے گزرتا ہے تو گا لیتے ہیں
جس غیرتِ ناہید نے اسے سماعت نواز کرنے کا بیڑا اٹھایا، اس کی ادائیگی ملاحظہ فرمائیے تو کچھ اس قسم کے شعلے لپکتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں:
درد جب حد سے گزرتا ہے تو گا لیتے ہیں
ہگا لیتے ہیں
ہگا لیتے ہیں
ہگا لیتے ہیں

اب بظاہر اس مصرعے سے شاعر کا جو مقصد تھا وہ فوت ہو گیا ہے، بلکہ کہنا چاہیے کہ کتے کی موت مر گیا ہے۔ لیکن بنظرِ غائر دیکھا جائے تو مغنی نے دراصل اس میں ذومعنویت پیدا کر کے ابلاغ کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ جن لوگوں کو مثلاً قبض کی شکایت رہتی ہے اور وہ پیٹ کی اس جان لیوا اینٹھن سے واقف ہیں جو بیت الخلا میں بیٹھے ہوئے مریض پر وارد ہوتی ہے، وہ گواہی دیں گے کہ درد کے حد سے گزرنے اور ہگا لینے میں جو مسیحائی کا رنگ پیدا ہو گیا ہے وہ اکیلے نغمہ نگار کے بس کی بات نہ تھا۔
اس توضیح کے بعد ہم معاصر گیتوں سے فقط دو تین مثالیں پیش کر کے رخصت چاہیں گے کیونکہ زیادہ تسہیل سے بھی معنویت کے خون کا خدشہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اگر کسی صاحب کو پھر بھی سمجھ نہ آئے تو افسوس ہے۔
ایک تازہ ترین نغمے کا مکھڑا ملاحظہ کیجیے:
ہفتے میں چار شنیوار ہونے چاہئیں!
خدا پاک کی قسم کھا کر کہیے کہ آپ کا آمین کہنے کو جی نہیں چاہتا؟ بس یہی گیت نگار کا مقصد ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ آج کے اس پرفتن دور میں بندے اور رب کا کھویا ہوا تعلق بحال ہو جائے۔ حصولِ مدعا کے لیے جس لطافت کو وہ بروئے کار لایا ہے، اس کی داد نہ دینے والے شخص کے ذہن میں یقیناً فتور ہے۔ چاہئیں کا لفظ خود اس دعوےٰ پر دال ہے۔ شاعر نے یہ نہیں کہا کہ یا اللہ! ہفتے میں چار شنیوار عطا فرما۔ مبادا کہ سیکولر ذہنیت کے حامل لوگ بدک کے بھاگ جائیں اور ابلاغ کو ضعف پہنچے۔ بلکہ چاہئیں کا لفظ استعمال کیا ہے جو مذہبی اور غیرمذہبی دونوں قسم کے لوگ بے خرخشہ بولتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر چار شنیوار ہونے چاہئیں تو وہ کون فراہم کرے گا۔ باس پہ تو ویسے ہی لعنت بھیجیے یہ کام ہماری حکومتوں کے بس کا بھی نہیں۔ اس سے فکر کی رو لازماً باری تعالیٰ کی جانب مڑ جاتی ہے۔ فہوالمراد۔
ایک خاتون یوں نغمہ سنج ہوتی ہیں:
گڈی تو منگا دے، تیل میں پوانی ہاں!
اس گیت کی حقیقی معنویت سے کوئی تب تک آگاہ نہیں ہو سکتا جب تک اس نے کم از کم بی اے تک معاشیات نہ پڑھی ہو۔ ہم تو یہاں تک سمجھتے ہیں کہ ورلڈ اکنامک فورم کے سیمیناروں میں اس نغمے کو تھیم سونگ کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ تاہم کند ذہن افراد کے لیے یہ وضاحت ضروری ہے کہ نغمہ نگار نے دراصل اس گیت میں رواں صدی کے انتہائی خطرناک تیل کے بحران کی جانب اشارہ کیا ہے۔ شاعر چونکہ عصری تقاضوں پہ نہایت گہری نگاہ رکھتا ہے اور تیل کے بحران کے نتائج بھی اپنی چشمِ بصیرت سے دیکھ رہا ہے، لیکن براہِ راست بات کر کے ذلیل بھی نہیں ہونا چاہتا سو وہ بالواسطہ طور پہ بیان کرتا ہے کہ اس زمانے میں عشق کرنے والے تارے توڑنے کی بجائے تیل ڈلوانے کے بہانے محبوب کو پھسلاتے ہیں۔ اللہ اکبر!
واضح رہے کہ گیت کی کلاسیکی روایت میں عورت عاشق ہوتی ہے۔ اس روایت کو زندہ کر کے بھی شاعر نے رجعت پسند مردوں کے منہ پر وہ طمانچہ رسید کیا ہے کہ الامان!
مگر کیا کیجیے کہ پرانے لوگ ابھی تک سعدیؔ کے اس شعر میں کھوئے ہوئے ہیں جس میں انھوں نے کہا ہے:
چناں قحط افتاد اندر دمشق---
کہ یاراں فراموش کردند عشق​
یعنی دمشق میں ایسا کال پڑا کہ لوگ عاشقی معشوقی وغیرہ بھول گئے۔ کس قدر بھونڈا مضمون ہے۔ ایک معاصر شاعر نے غالباً اسی لیے سوال کیا ہے کہ
میں اپنے پیٹ کا دوزخ بھروں کہ پیار کروں؟​
بات بھی ٹھیک ہے۔ ان قدامت پرستوں کو چاہیے کہ وہ آنکھیں کھولیں،دورِ حاضر کے بحرانوں پہ غور کریں اور گیت نگار کے فن کی داد دیں کہ کس طرح اس نے پیٹ جیسے قبیح اور غیرشاعرانہ مضمون سے دامن بچاتے ہوئے گاڑی اور تیل کے سفری الفاظ کے ذریعے اپنے عہد کی ترجمانی کی ہے۔ بقولِ غالبؔ:
تو اے کہ محوِ سخن گسترانِ پیشینی
مباش منکرِ غالبؔ کہ در زمانۂِ تست​
(اے تُو کہ پرانے سخنوروں میں کھویا ہوا ہے، غالبؔ کا منکر مت ہو جائیو جو تیرے زمانے میں ہے!)
ہم یہیں پہ بات ختم کر دینا چاہتے ہیں لیکن ہمیں خوف ہے کہ بعض کورسواد اب بھی معاصر گیتوں کی معنویت کا انکار کر کے اپنی حماقت کا ثبوت دینے سے باز نہیں آئیں گے۔ لہٰذا ہم ایک آخری مثال اور پیش کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اگر وہ دل میں ذرہ بھر بھی خوفِ الٰہی رکھتے ہیں تو فوراً اپنے موقف سے رجوع کر لیں گے۔
کوئی زاہدِ خشک ہی ہو گا جس نے یہ سرودِ محبت نہ سنا ہو:
تیری تو۔۔۔
تیری تاں۔۔۔
ہمیشہ یاد ستاوے!

محبت کی طوفانی شدت کا کچھ اندازہ ہوا آپ کو؟
یہ گیت ان قنوطیت پسندوں کو دنداں شکن جواب ہے جو خیال کرتے ہیں کہ:
یوں وفا اٹھ گئی زمانے سے----
کبھی گویا جہاں میں تھی ہی نہیں​
مغنی جب شروع میں تیری تو کہتا ہے، اہلِ نظر تبھی معاملے کی گمبھیرتا بھانپ کر چوکنے ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ معاً پنجابی کی جانب گریز کرتا ہے اور تیری تاں کی خارا شگاف للکار بلند ہوتی ہے۔ اس پران لوگوں کے بھی کان کھڑے ہو جاتے ہیں جو اب تک لہو و لعب میں پڑے ہوئے تھے۔ مگر پھر؟ پھر شاعر اچانک ہتھیار پھینک دیتا ہے اور محبوب کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ایک معصوم بچے کی طرح یاد ستانے کا شکوہ کرنے لگتا ہے۔ اُف! سامعین کے دل بیٹھ جاتے ہیں، سورماؤں کا بی پی لو ہو جاتا ہے اور رقیق القلب لوگ آہ و بکا کرنے لگتے ہیں۔ باقی باتیں چھوڑیے، کیا انیسؔ و دبیرؔ کے مرثیے بھی اس مقام کو پہنچ سکے ہیں؟
ہمارا ایمان ہے کہ عشق میں اس معراج کو مجنوں، فرہاد، رومیو وغیرہ اکٹھے ہو کر بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اس فوقیت کے علاوہ دوسرا طرۂِ امتیاز یہ ہے کہ یہ نہایت مردانہ وار قسم کا عشق ہے جس پہ انگلی اٹھانے کی تاب محبوبہ کا باپ بھی نہیں لا سکتا۔ غالبؔ کی طرح نہیں کہ پہلے گدا سمجھ کے لوگ چپ ہو جائیں اور آخرِ کار بھانڈا پھوٹنے پہ پاسبانوں کے ہاتھوں محبوب کی گلی میں رسوا ہونا پڑے۔ وہ بھی ہونے والی سالیوں کے سامنے!
اس مضمون کے اختتام پہ ہم اپنی بے بضاعتی کا اعتراف کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے زمانے کے گیتوں میں مثلاً شیلا کی جوانی اور منی کی بدنامی وغیرہ کو جو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے اس پہ گفتگو کرنا شاید سب سے زیادہ ضروری تھا۔ مگر ہم اپنی لیاقت کی بابت ہرگز کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں۔ اس سے آگے ہمارے پر جلتے ہیں۔ بلکہ کانوں سے بھی دھواں نکلنے لگتا ہے!
ماخذ: دل دریا
 
آخری تدوین:
میں سمجھا نہیں، بھیا۔
مثلاً آپ کسی کو ایک واقع بتانا چاہتے ہیں۔ یا آپ کسی زبان میں بتا سکتے ہیں یا اس واقعے کی وڈیو دکھا سکتے ہیں یا وہ واقعہ لکھ کر پڑھا سکتے ہیں ۔ تو سب سے تیز رفتار ذریعہ کیا ہوسکتا ہے؟
 
حضرات، دامنِ اردو تنگ ہے مگر اتنا بھی نہیں کہ اظہارِ مدعا کے لیے ان "نمونوں" کا سہارا لینا پڑے۔ بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے!
آپکے سخنِ ظریف کے ردِعمل میں جو ہنسی کے فوارے پھوٹ پڑے، انہیں الفاظ کا پہناوا پہناتا تو شاید یہ سامنے آتا "ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔!!!!!"
اب بتایئے یہ کسی طرح بھی مہذب رویہ نظر آتا ہے؟ :LOL:
 

جاسمن

لائبریرین
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔ہاہاہاہاہاہاہاہاہاا۔۔۔۔۔۔۔ہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔
بھئی بہت ہی خوب۔ بہت ہی مزے دار۔کوئی نیرنگ خیال کو خبر دو۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہاہاہاہااااااا۔۔۔ لاجواب۔۔۔۔ میں بےاختیار ہنس رہا ہوں۔۔۔ اور میرے اردگرد بیٹھے لوگ (جو نہیں جانتے) مجھے احمق سمجھ رہے ہیں۔۔۔ جاننے والوں کو یقیناً میری عقل سلیم پر کبھی شبہ نہ رہا ہوگا۔۔۔۔ کیا کہنے راحیل صاحب۔۔۔۔۔۔ اتنے عرصہ دراز بعد طنز و مزاح کی ایسی چاشنی محسوس کی ہے۔۔۔۔۔ سلمت یداک ۔۔۔

اچھا منی اور شیلا کو تو بھلے چھوڑیے لیکن"حشرات الارض" سے متعلق گیتوں سے یوں بےرخی اچھی نہیں۔۔۔۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔ہاہاہاہاہاہاہاہاہاا۔۔۔۔۔۔۔ہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔
بھئی بہت ہی خوب۔ بہت ہی مزے دار۔کوئی نیرنگ خیال کو خبر دو۔
واقعی لاجواب۔۔۔۔۔ اور آپ کا خاص الخاص شکریہ کہ آپ کی بدولت ایسی کمال تحریر پڑھنے کو ملی۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

عباس اعوان

محفلین
کمال تحریر
بالکل لا جواب
عرصے کے بعد ایسی جاندار اور اصیل تحریر پڑھنے کو ملی
مزاح لکھنا نہایت مشکل ہے، لوگ اچھا طنز بھی بمشکل لکھ پاتے ہیں، اور ہمارے جیسے تو محض پھکڑ پن سے ہی مزاح پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اتنی اچھی اور عمدہ تحریر پر مبارکباد قبول فرمائیے
:)
 
Top