ہر تمنّا مری، یوں سر کو جھکائے آئی ۔۔۔۔ غزل اصلاح کے لیئے

السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر ہے :
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
بحر رمل مثمن مخبون محذوف
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب
جناب محمد اسامہ سَرسَری صاحب ،
احباب محفل جناب راحیل فاروق صاحب، جناب ادب دوست صاحب اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
**********--------------**********
کپکپاتا ہوا لب، عقدہ کُشا ہو جیسے
بات اک درد کی ، اِس دل سے رِہا ہو جیسے

ہر تمنّا مری، یوں سر کو جھکائے آئی
تھک کے پلٹی، درِ مقبولِ دعا ہو جیسے

ایسی منزل کو چلیں، تُو، نہ تری یاد رہے
سامنے کچھ نہ ہو، بس ایک خلا ہو جیسے

شبِ تنہائی لگے مجھ کو، تھکن کی درماں
اس کو یوں پیار کروں، درد کُشا ہو جیسے

لمس ہاتھوں کا ترے، گرم ہتھیلی پہ مری
جسم کے تاروں میں، مدھم سا چِھڑا ہو جیسے

کیا عجب رشتہ ہے تجھ سے، کہ یقیں ہے مجھ کو
تُو مرے واسطے مصروفِ دعا ہو جیسے

صفحِ تاریخ میں بیٹھی ہوئی صدیوں کی تھکن
یوں لگے، منتظرِ بانگِ درا ہو جیسے

حکم کاشف یہ، بِنا اُس کے گزارو ہنس کے!
جلتے انگاروں پہ چلنے کی سزا ہو جیسے !

سیّد کاشف
**********--------------**********
 
## ماشاءاللہ ، خوب صورت اشعار ہیں ، الفاظ کا چناؤ بہت عمدہ ہے ، شستہ و شائستہ کی خوب مثال پیش کی ہے۔ بہت داد قبول فرمائیے۔ :)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کپکپاتا ہوا لب، عقدہ کُشا ہو جیسے
بات اک درد کی ، اِس دل سے رِہا ہو جیسے
## بہت خوب! گو بیانیہ مفقود ہے ، مگر یہ طرز بھی مقبول ہے۔
## "اس" بھرتی کا ہے ، اگر اس کے بجائے "ہو" کردیں تو بیانیہ بھی مکمل ہوجائے گا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہر تمنّا مری، یوں سر کو جھکائے آئی
تھک کے پلٹی، درِ مقبولِ دعا ہو جیسے
## "درِ مقبولِ دعا" کھٹک رہا ہے ، "مقبولِ دعا" کا اس شخص کو کہا جائے گا جس کی دعا قبول ہوتی ہو جیسے مستجاب الدعوات ، اب آپ پتا نہیں کیا مراد لے رہے ہیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسی منزل کو چلیں، تُو، نہ تری یاد رہے
سامنے کچھ نہ ہو، بس ایک خلا ہو جیسے
## اگر "منزل کو چلیں" کے بجائے "راہوں پہ چلوں" ہو تو شاید بہتری میں اضافہ ہوجائے۔
## ردیف کمزور ہے ، مگر چل جائے گی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شبِ تنہائی لگے مجھ کو، تھکن کی درماں
اس کو یوں پیار کروں، درد کُشا ہو جیسے
## تھکن کا درماں اور دردکشا دونوں ہی محلِ نظر ہیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لمس ہاتھوں کا ترے، گرم ہتھیلی پہ مری
جسم کے تاروں میں، مدھم سا چِھڑا ہو جیسے
## ستار کے تار کھینچنے کو تار چڑھانا یا تار لگانا کہتے ہیں ، تار چھیڑنا بھی اگر ہو تو آپ کے شعر کا دوسرا مصرع فاعل سے خالی لگ رہا۔
## یہ شعر اس غزل کے اکائی سے خارج ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیا عجب رشتہ ہے تجھ سے، کہ یقیں ہے مجھ کو
تُو مرے واسطے مصروفِ دعا ہو جیسے
## اچھا شعر ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صفحِ تاریخ میں بیٹھی ہوئی صدیوں کی تھکن
یوں لگے، منتظرِ بانگِ درا ہو جیسے
## "صفح" کیا ہوتا ہے؟
## دوسرے مصرع میں "یوں لگے" یا "جیسے" میں سے کوئی ایک زائد ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حکم کاشف یہ، بِنا اُس کے گزارو ہنس کے!
جلتے انگاروں پہ چلنے کی سزا ہو جیسے !
## پہلا مصرع مزید بہتری چاہتا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 
کاشف بھائی، محبت آپ کی کہ اس لائق سمجھا۔
حق یہ ہے کہ میں اس میدان کا آدمی نہیں۔ دریدہ دہن ہوں۔ کبھی کبھی کسی بات پہ جو منہ میں آ جاتا ہے، بک دیتا ہوں۔ منضبط تجزیہ یا محاکمہ میرے بس کی بات نہیں۔ زندگی میں کبھی کسی قاعدے کی پابندی کا گناہ گار نہیں ہوا۔
بہرحال، تعمیلِ ارشاد کے طور پہ ایک عمومی نکتے کی جانب توجہ دلاؤں گا۔
شاعر جذبات سے کھیلتا ہے۔ اچھا شاعر دوسروں کے جذبات سے، برا اپنے جذبات سے۔ اقبالؔ نے کسی موقع پہ کچھ ایسا کہا تھا کہ قوال اگر خود وجد میں آ جائے تو محفل پہ سحر تو نہیں پھونک سکتا۔ بڑا شاعر ایک پہلو سے ضرور بڑا انسان ہوتا ہے۔ اور وہ یہ کو وہ کلام تب کرتا ہے جب اپنے جذبات کو مسخر کر چکتا ہے۔ عام شاعر اپنے متلاطم احساسات میں اس قدر گھرے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان کے کلام اور دیوانے کی بڑ میں معنوی لحاظ سے کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔
جو گھڑ سوار اپنی سواری پہ قابو رکھتا ہے اس کی رفتار دیدنی ہوتی ہے۔ جس کو اپنے گھوڑے کو بس میں لانے کے لیے جدوجہد کرنی پڑے، اس کا تماشا بہرحال گھڑ سواری نہیں کہلا سکتا۔ فن کار اور اس کے احساسات میرے نزدیک بالترتیب گھڑ سوار اور اس کی سواری ہیں۔
اوپر میں نے دو انتہائیں بیان کی ہیں۔ آپ کا کلام بین بین ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے کلام پر گرفت رکھنے والے شاعر کا پتا اس کی روانی سے چلتا ہے۔ آپ کے خیالات اور احساسات ارفع ہیں۔ مگر معلوم ہوتا ہے آپ نے یہ غزل تب کہی جب آپ ہنوز ان سے برسرِ پیکار تھے۔ جو کہا گیا، شور میں دب کر رہ گیا خواہ کتنا ہی عمدہ پیغام تھا۔ بات صاف ہو کر بلند آہنگ میں نہیں ہو سکی!
اگر کوئی بات ناگوار گزرے تو معافی کا خواستگار ہوں۔
یہ سب لکھا گیا زرہِ امتثالِ امر ۔۔۔
دیکھا کہ چارہ غیرِ اطاعت نہیں مجھے​
 

الف عین

لائبریرین
اسامہ ستے متفق ہوں۔
ہر تمنّا مری، یوں سر کو جھکائے آئی
تھک کے پلٹی، درِ مقبولِ دعا ہو جیسے
شاید یہ مراد ہے در مقبول ’سے‘ تھک کر تمنا دعا کی طرح پلٹ گئی۔ لیکن الفاظ سے یہ بیانیہ واضح نہیں ہوتا۔
 
## ماشاءاللہ ، خوب صورت اشعار ہیں ، الفاظ کا چناؤ بہت عمدہ ہے ، شستہ و شائستہ کی خوب مثال پیش کی ہے۔ بہت داد قبول فرمائیے۔ :)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کپکپاتا ہوا لب، عقدہ کُشا ہو جیسے
بات اک درد کی ، اِس دل سے رِہا ہو جیسے
## بہت خوب! گو بیانیہ مفقود ہے ، مگر یہ طرز بھی مقبول ہے۔
## "اس" بھرتی کا ہے ، اگر اس کے بجائے "ہو" کردیں تو بیانیہ بھی مکمل ہوجائے گا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہر تمنّا مری، یوں سر کو جھکائے آئی
تھک کے پلٹی، درِ مقبولِ دعا ہو جیسے
## "درِ مقبولِ دعا" کھٹک رہا ہے ، "مقبولِ دعا" کا اس شخص کو کہا جائے گا جس کی دعا قبول ہوتی ہو جیسے مستجاب الدعوات ، اب آپ پتا نہیں کیا مراد لے رہے ہیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسی منزل کو چلیں، تُو، نہ تری یاد رہے
سامنے کچھ نہ ہو، بس ایک خلا ہو جیسے
## اگر "منزل کو چلیں" کے بجائے "راہوں پہ چلوں" ہو تو شاید بہتری میں اضافہ ہوجائے۔
## ردیف کمزور ہے ، مگر چل جائے گی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شبِ تنہائی لگے مجھ کو، تھکن کی درماں
اس کو یوں پیار کروں، درد کُشا ہو جیسے
## تھکن کا درماں اور دردکشا دونوں ہی محلِ نظر ہیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لمس ہاتھوں کا ترے، گرم ہتھیلی پہ مری
جسم کے تاروں میں، مدھم سا چِھڑا ہو جیسے
## ستار کے تار کھینچنے کو تار چڑھانا یا تار لگانا کہتے ہیں ، تار چھیڑنا بھی اگر ہو تو آپ کے شعر کا دوسرا مصرع فاعل سے خالی لگ رہا۔
## یہ شعر اس غزل کے اکائی سے خارج ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیا عجب رشتہ ہے تجھ سے، کہ یقیں ہے مجھ کو
تُو مرے واسطے مصروفِ دعا ہو جیسے
## اچھا شعر ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صفحِ تاریخ میں بیٹھی ہوئی صدیوں کی تھکن
یوں لگے، منتظرِ بانگِ درا ہو جیسے
## "صفح" کیا ہوتا ہے؟
## دوسرے مصرع میں "یوں لگے" یا "جیسے" میں سے کوئی ایک زائد ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حکم کاشف یہ، بِنا اُس کے گزارو ہنس کے!
جلتے انگاروں پہ چلنے کی سزا ہو جیسے !
## پہلا مصرع مزید بہتری چاہتا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
السلام علیکم
اسامہ سر ۔۔۔ آپ کی توجہ چاہونگا۔

کپکپاتا ہوا لب، عقدہ کُشا ہو جیسے
بات ہو درد کی ، اور دل سے رِہا ہو جیسے

ہر تمنّا مری، یوں سر کو جھکائے آئی
باب رحمت کا ہر اک ، بند ملا ہو جیسے

ایسی راہوں پہ چلوں، تُو، نہ تری یاد رہے
سامنے کچھ نہ ہو، بس ایک خلا ہو جیسے

شبِ تنہائی ہےاب ، میری تھکن کی ساتھی
اس کو یوں پیار کروں، درد کُشا ہو جیسے

لمس ہاتھوں کا ترے، گرم ہتھیلی پہ مری
جسم کے تاروں میں، مدھم سا چِھڑا ہو جیسے
ہم روز مرہ کی شاعرانہ زبان میں "جان کے تار"، " روح کے تار" کا ذکر کرتے ہی ہیں .. سو میں نے "جسم کے تاروں " کی اصطلاح ڈھالنے کی کوشش کی ہے .. ویسے روح کے تار بھی استعمال کر سکتا تھا لیکن چونکہ ہتھیلی کا ہاتھ پر ہونا ایک "جسمانی" معاملہ ٹھہرا :)... ویسے پروین شاکر کا ہی شعر ہے
وہ نرم لہجے میں کچھ کہہ رہا ہے پھر مجھ سے
چھڑا ہے پیار کے کومل سروں میں مدھم پھر
اگر میں اس اس ترکیب سازی میں واقعتاََ حد سے تجاوزکر رہا ہوں، توپھر تبدیل کر دیتا ہوں۔۔ ورنہ مجھے تو ایسی بری تو نہیں لگ رہی .. جیسا آپ کہیں۔۔۔

کیا عجب رشتہ ہے تجھ سے، کہ یقیں ہے مجھ کو
تُو مرے واسطے مصروفِ دعا ہو جیسے

صفحِہ تاریخ میں بیٹھی ہوئی صدیوں کی تھکن
یوں لگے، منتظرِ بانگِ درا ہو جیسے
"بانگ درا" والے مصرع میں ابھی بہتر صورت سامنے نہیں آ پائی ... ان شا الله بعد میں اس مصرع کو درست کر لونگا

اب تو کاشف یوں لگے اُس کے بِنا جینا کچھ
جلتے انگاروں پہ چلنے کی سزا ہو جیسے !

حالانکہ ابھی میں پہلے مصرع سے مطمئن نہیں ہوں۔
جزاک اللہ
 
کاشف بھائی، محبت آپ کی کہ اس لائق سمجھا۔
حق یہ ہے کہ میں اس میدان کا آدمی نہیں۔ دریدہ دہن ہوں۔ کبھی کبھی کسی بات پہ جو منہ میں آ جاتا ہے، بک دیتا ہوں۔ منضبط تجزیہ یا محاکمہ میرے بس کی بات نہیں۔ زندگی میں کبھی کسی قاعدے کی پابندی کا گناہ گار نہیں ہوا۔
بہرحال، تعمیلِ ارشاد کے طور پہ ایک عمومی نکتے کی جانب توجہ دلاؤں گا۔
شاعر جذبات سے کھیلتا ہے۔ اچھا شاعر دوسروں کے جذبات سے، برا اپنے جذبات سے۔ اقبالؔ نے کسی موقع پہ کچھ ایسا کہا تھا کہ قوال اگر خود وجد میں آ جائے تو محفل پہ سحر تو نہیں پھونک سکتا۔ بڑا شاعر ایک پہلو سے ضرور بڑا انسان ہوتا ہے۔ اور وہ یہ کو وہ کلام تب کرتا ہے جب اپنے جذبات کو مسخر کر چکتا ہے۔ عام شاعر اپنے متلاطم احساسات میں اس قدر گھرے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان کے کلام اور دیوانے کی بڑ میں معنوی لحاظ سے کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔
جو گھڑ سوار اپنی سواری پہ قابو رکھتا ہے اس کی رفتار دیدنی ہوتی ہے۔ جس کو اپنے گھوڑے کو بس میں لانے کے لیے جدوجہد کرنی پڑے، اس کا تماشا بہرحال گھڑ سواری نہیں کہلا سکتا۔ فن کار اور اس کے احساسات میرے نزدیک بالترتیب گھڑ سوار اور اس کی سواری ہیں۔
اوپر میں نے دو انتہائیں بیان کی ہیں۔ آپ کا کلام بین بین ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے کلام پر گرفت رکھنے والے شاعر کا پتا اس کی روانی سے چلتا ہے۔ آپ کے خیالات اور احساسات ارفع ہیں۔ مگر معلوم ہوتا ہے آپ نے یہ غزل تب کہی جب آپ ہنوز ان سے برسرِ پیکار تھے۔ جو کہا گیا، شور میں دب کر رہ گیا خواہ کتنا ہی عمدہ پیغام تھا۔ بات صاف ہو کر بلند آہنگ میں نہیں ہو سکی!
اگر کوئی بات ناگوار گزرے تو معافی کا خواستگار ہوں۔
یہ سب لکھا گیا زرہِ امتثالِ امر ۔۔۔
دیکھا کہ چارہ غیرِ اطاعت نہیں مجھے​

برادرم راحیل فاروق
صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہہ دینا دریدہ دہنی نہیں ہے حق گوئی ہے .. .. ہاں جن الفاز کا استعمال کیا جا رہا ہے وہ الفاظ ضرور اہمیت رکھتے ہیں ... اور ما شا الله آپ کا طرز تخاطب اصلاح یا مشورہ دیتے وقت تضحیک آمیز کبھی نہیں ہوتا ... سو یہ لب و لہجہ ہزار بار قبول ہے ...
جیسا کے آپ نے فرمایا " شاعر جذبات سے کھیلتا ہے۔ اچھا شاعر دوسروں کے جذبات سے، برا اپنے جذبات سے" تو بھائی میں ابھی برے شاعر سے زیادہ کچھ ہوں بھی تو نہیں ... یہاں تو ابھی ، جیسا آپ نے کہا، گھوڑے پر چڑھنا سیکھ رہے ہیں ... گھڑسواری تو ابھی دور کی بات ہے ... :p
اور آپ کا تجزیہ درست ہے کے میں اپنے خیال اور مناسب الفاظ میں ان کی ادائیگی سے ہنوز برسر پیکار ہوں .... بھائی یہاں سب کے سامنے اپنی آدھی ادھوری کاوش پیش کرنے کا واحد مقصد، خیال اور کلام میں مطابقت اور یکسانیت بیٹھانا ہی تو ہے .. اساتذہ اور آپ جیسے احباب کے مشورے ہی اس راہ پر ڈالتے ہیں ... سو بھائی میں تو منتظر رہتا ہوں کے کب کسی کی نظر کرم ہوتی ہے ...
آپ کے مشورے مجھے عزیز ہیں ... ایسے ہی نوازتے رہییگا ... جزاک الله۔ :)
 
اسامہ ستے متفق ہوں۔
ہر تمنّا مری، یوں سر کو جھکائے آئی
تھک کے پلٹی، درِ مقبولِ دعا ہو جیسے
شاید یہ مراد ہے در مقبول ’سے‘ تھک کر تمنا دعا کی طرح پلٹ گئی۔ لیکن الفاظ سے یہ بیانیہ واضح نہیں ہوتا۔

بہت بہتر استاد محترم...
آپ نے بالکل درست اندازہ لگایا تھا۔ مقصدِ بیان وہی تھا۔
شعر میں نے تبدیل کر دیا ہے ... آپ ایک بار دیکھ لیجئے گا ...
جزاک الله ۔
 
Top