کاشف اسرار احمد
محفلین
السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر ہے :
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
بحر رمل مثمن مخبون محذوف
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب
جناب محمد اسامہ سَرسَری صاحب ،
احباب محفل جناب راحیل فاروق صاحب، جناب ادب دوست صاحب اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
**********--------------**********
کپکپاتا ہوا لب، عقدہ کُشا ہو جیسے
بات اک درد کی ، اِس دل سے رِہا ہو جیسے
ہر تمنّا مری، یوں سر کو جھکائے آئی
تھک کے پلٹی، درِ مقبولِ دعا ہو جیسے
ایسی منزل کو چلیں، تُو، نہ تری یاد رہے
سامنے کچھ نہ ہو، بس ایک خلا ہو جیسے
شبِ تنہائی لگے مجھ کو، تھکن کی درماں
اس کو یوں پیار کروں، درد کُشا ہو جیسے
لمس ہاتھوں کا ترے، گرم ہتھیلی پہ مری
جسم کے تاروں میں، مدھم سا چِھڑا ہو جیسے
کیا عجب رشتہ ہے تجھ سے، کہ یقیں ہے مجھ کو
تُو مرے واسطے مصروفِ دعا ہو جیسے
صفحِ تاریخ میں بیٹھی ہوئی صدیوں کی تھکن
یوں لگے، منتظرِ بانگِ درا ہو جیسے
حکم کاشف یہ، بِنا اُس کے گزارو ہنس کے!
جلتے انگاروں پہ چلنے کی سزا ہو جیسے !
سیّد کاشف
**********--------------**********
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر ہے :
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
بحر رمل مثمن مخبون محذوف
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب
جناب محمد اسامہ سَرسَری صاحب ،
احباب محفل جناب راحیل فاروق صاحب، جناب ادب دوست صاحب اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
**********--------------**********
کپکپاتا ہوا لب، عقدہ کُشا ہو جیسے
بات اک درد کی ، اِس دل سے رِہا ہو جیسے
ہر تمنّا مری، یوں سر کو جھکائے آئی
تھک کے پلٹی، درِ مقبولِ دعا ہو جیسے
ایسی منزل کو چلیں، تُو، نہ تری یاد رہے
سامنے کچھ نہ ہو، بس ایک خلا ہو جیسے
شبِ تنہائی لگے مجھ کو، تھکن کی درماں
اس کو یوں پیار کروں، درد کُشا ہو جیسے
لمس ہاتھوں کا ترے، گرم ہتھیلی پہ مری
جسم کے تاروں میں، مدھم سا چِھڑا ہو جیسے
کیا عجب رشتہ ہے تجھ سے، کہ یقیں ہے مجھ کو
تُو مرے واسطے مصروفِ دعا ہو جیسے
صفحِ تاریخ میں بیٹھی ہوئی صدیوں کی تھکن
یوں لگے، منتظرِ بانگِ درا ہو جیسے
حکم کاشف یہ، بِنا اُس کے گزارو ہنس کے!
جلتے انگاروں پہ چلنے کی سزا ہو جیسے !
سیّد کاشف
**********--------------**********