محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
محترم جناب سید شہزاد ناصر صاحب نے یہاں فارسی غزل مع نثری ترجمہ پیش کی تھی، بندے نے اس کا منظوم ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے:
ہر رات چھانتا ہوں ترے در کی خاک میں
اور دل کو آبِ چشم سے کرتا ہوں پاک میں
ہوں گی یہ ہڈّیاں مری جس روز چور چور
پھربھی رکھوں گا دل میں ترا انہماک میں
تجھ سے ملن کی شب ہو تو کاذب رہے سَحَر
ہائے! ہوں مبتلائے غمِ درد ناک میں
میں جاں نثار تجھ پہ ،گریباں دریدہ ہوں
بس میں نہیں ہے ورنہ کروں دل بھی چاک میں
آجا ، مری شکستہ دلی دیکھ اے حبیب!
رکھتا ہوں مدتوں سے ترا انسلاک میں
اے مہرباںۙ! عطا ہو اجازت گدائی کی
اے شاہِ حسنۙ! چھانوں ترے در کی خاک میں
اور دل کو آبِ چشم سے کرتا ہوں پاک میں
ہوں گی یہ ہڈّیاں مری جس روز چور چور
پھربھی رکھوں گا دل میں ترا انہماک میں
تجھ سے ملن کی شب ہو تو کاذب رہے سَحَر
ہائے! ہوں مبتلائے غمِ درد ناک میں
میں جاں نثار تجھ پہ ،گریباں دریدہ ہوں
بس میں نہیں ہے ورنہ کروں دل بھی چاک میں
آجا ، مری شکستہ دلی دیکھ اے حبیب!
رکھتا ہوں مدتوں سے ترا انسلاک میں
اے مہرباںۙ! عطا ہو اجازت گدائی کی
اے شاہِ حسنۙ! چھانوں ترے در کی خاک میں