ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہو گا؟ (مختصر سیاسی کالمچہ)

زیرک

محفلین
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہو گا؟​
وزارتوں میں ممکنہ تبدیلی پر ہنسیں کہ روئیں مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔ وہ جو کہا کرتے تھے کہ "پچھلی حکومتوں اور ان کے مالی مشیروں نے نے نااہلی، مالی بدعنوانی، کرپشن کر کے معاشی عدم استحکام پیدا کیا، (حیرت سے زیادہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ اب انہی سابقہ حکومتوں کے وزراء و مشیران کے وزارت خزانہ میں لے کر بیٹھے ہوئے ہیں) ہمارے پاس ہر وزارت کے لیے اہل افراد کے کئی کئی امیدوار موجود ہیں ہم 6 ماہ میں ملک کی تقدیر بدل کر رکھ دیں گے"۔ 13 ماہ کی اکھاڑ پچھاڑ سٹائل حکومت کی کارکردگی یہ ہے کہ معاشی حالات دگرگوں ہو کر رہ گئے ہیں، ایک سال کی ملکی تاریخ میں تناسب کے لحاظ سے اب تک کا سب سے بڑا بیرونی قرضہ لیا جا چکا ہے۔ وزارتی کارکردگی کا یہ حال ہو چکا ہے کہ وزیراعظم کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں، وہ ہفتے دس دن بعد ایک وزیر کو ہٹا کر دوسرے کو لانے کا میوزیکل چیئر ڈرامہ ہی کھیلتے نظر آ رہے ہیں اور معاشی حالات ہیں کہ قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا، "ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دو میلے کچیلے نشئ افراد کسی بازار سے گزر رہے تھے، پاس سے گزرنے والے نے ان سے کہا "اوئے بدبختو! سخت بدبو آ رہی ہے، کپٹرے ہی بدل لیا کرو"۔ دونوں نے وہیں کھڑے کھڑے "مذاقرات" کیے اور پاس کی گلی میں جا کر آپس میں کپڑے بدل لیے، وزارتوں میں ممکنہ تبدیلی بھی کچھ ایسی ہی کہانی سنا رہی ہے۔



دوستو! یہ میرے ذاتی خیالات ہیں، جن سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں، اس لیے کمنٹس کی بھی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ یہاں آ کر کمنٹس کا جواب دوں، اس لیے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔
 

جاسم محمد

محفلین
13 ماہ کی اکھاڑ پچھاڑ سٹائل حکومت کی کارکردگی یہ ہے کہ معاشی حالات دگرگوں ہو کر رہ گئے ہیں، ایک سال کی ملکی تاریخ میں تناسب کے لحاظ سے اب تک کا سب سے بڑا بیرونی قرضہ لیا جا چکا ہے۔
اتنا جھوٹ پھیلاؤ کہ سب سچ لگے۔ تحریک نصاف حکومت نے پچھلی حکومتوں کا لیا گیا قرضہ اس سال ریکارڈ 12 ارب ڈالر دے کر واپس کیا ہے۔ اگلے 4 سالوں میں مزید 27 ارب ڈالر واپس کرنا ہے۔
عوام کو کوئی شرم و حیا نہیں کہ سابقہ حکمران ملک پر اتنا قرضہ چڑھا کر گئے ہیں کہ بجٹ کا 42 فیصد صرف ان کی ادائیگیوں میں جا رہا ہے۔ اور جو نئی حکومت عوام کا پیٹ کاٹ کر سابقہ کرپٹ حکمرانوں کا لادھا ہوا بوجھ اتار رہی ہے، اسی پر طنز و تنقید کے نشتر برسائے جا رہے ہیں۔
web-whatsapp-com-e8ad852c-1ab5-4370-b341-6d3ad71f2f5f.jpg

web-whatsapp-com-cd77ee2a-7124-4d15-a8b7-4f27002d1b68.jpg
 

زیرک

محفلین
اتنا جھوٹ پھیلاؤ کہ سب سچ لگے۔ تحریک نصاف حکومت نے پچھلی حکومتوں کا لیا گیا قرضہ اس سال ریکارڈ 12 ارب ڈالر دے کر واپس کیا ہے۔ اگلے 4 سالوں میں مزید 27 ارب ڈالر واپس کرنا ہے۔
عوام کو کوئی شرم و حیا نہیں کہ سابقہ حکمران ملک پر اتنا قرضہ چڑھا کر گئے ہیں کہ بجٹ کا 42 فیصد صرف ان کی ادائیگیوں میں جا رہا ہے۔ اور جو نئی حکومت عوام کا پیٹ کاٹ کر سابقہ کرپٹ حکمرانوں کا لادھا ہوا بوجھ اتار رہی ہے، اسی پر طنز و تنقید کے نشتر برسائے جا رہے ہیں۔
web-whatsapp-com-e8ad852c-1ab5-4370-b341-6d3ad71f2f5f.jpg

web-whatsapp-com-cd77ee2a-7124-4d15-a8b7-4f27002d1b68.jpg
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی و حال کی سب حکومتیں قرض لیتی بھی رہی ہیں اور واپس بھی کرتی آئی ہیں، فرق صرف تناسب کا ہے۔ جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو کلیر کرتا چلوں کہ گو کہ انہوں نے پہلے قومی حکومت نہیں بنائی مگر ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں کہ اس حکومت میں بھی وہی لوگ شامل ہیں جو پہلے "چاند چڑھا رہے تھے یا سادہ لفظوں میں بولوں تو جن کو چور، کرپٹ اور نااہل قرار دیتے تھے انہی کو گلے لگا کر حکومت تشکیل دی گئی"، اس لیے موجودہ سرکار کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے پچھلی حکومتوں کو مہنگے پراجیکٹ شروع کرنے کا طعنہ دیا جاتا جبکہ پچھلے ایک سال میں کوئی بڑا پراجیکٹ بھی شروع نہیں کیا گیا بلکہ پہلے کے شروع کردہ پراجیکٹس کے بجٹ میں بھی بڑے بڑے کٹ لگائے گیئ ہیں، سوائے پشاور بی آر ٹی پراجیکٹ کے، اس کے باوجود کہ کوئی بڑا پراجیکٹ نہیں شروع کیا گیا پھر بھی ایک سال کی مدت میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرض لیا گیا ہے اگر اس میں سے ایک بڑا حصہ واپس کیا گیا ہے تو اس میں کون سی راکٹ سائنس ہے؟ جس پہ جناب جن الفاظ سے یہ پوسٹ شروع کر رہے ہیں وہ ملاحظہ کیجیے "اتنا جھوٹ پھیلاؤ کہ سب سچ لگے" گویا جناب کا لکھا قرآن ہو گیا؟ قلم کی کاٹ میں احتیاط لازم ہے وگرنہ تیر و تفنگ ہمارے پاس بھی ہیں۔ عوام کو شرم کس بات کا دلا رہے ہیں؟ وہی تو بے چاری ڈائریکٹ و ان ڈائریکٹ ٹیکسز دے کر اس ملک کو چلا رہی ہے، کاروباری طبقہ تو خریدار کو پکی رسید بھی نہیں دیتا، اس کا مطلب جانتے ہیں؟ کہ وہ عوام سے ٹیکس لے رہا ہے لیکن آگے حکومت کو ادا نہیں کر رہا۔ کیا عوام ان سے ٹیکس لے کر حکومت کا دروازہ کھٹکھٹا کران کو ادا کریں؟ حقیقت یہی ہے کہ حکومت چل نہیں رہی، کاروبار بالکل رکا ہوا ہے۔ حکومت اس بات سے خوش ہے کہ ادائیگیوں کا توازن بہتر ہو رہا ہے، او بھائی جب کوئی خریدار ہی نہیں ملے گا تو امپورٹڈ شے کون خریدے گا؟ امپورٹڈ اشیا نہیں خریدی جائیں گی تو بین الاقوامی ادائیگیوں کا توازن تو بہتر ہو گا ناں؟ لیکن مسئلہ ملکی کاروبار کا ہے جو خزانے کو بھرتا ہے اور وہ فل سٹاپ لگا کر رکا ہوا ہے۔ملک سے باہر بیٹھ کر چند اشاریے لگا کر خود کو خوش کر لیں، میں پچھلے ایک سال کے دوران 3 بار پاکستان جا چکا ہوں پرسوں ہی واپسی ہوئی ہے، راولپنڈی، اسلام آباد اور لاہور تین شہروں میں کاروباری حالات کا خود مشاہدہ کیا ہے اور حقیقت بتا رہا ہوں کہ کاروباری حالات بالکل بند ہونے کی پوزیشن کی طرف جا رہے ہیں، جو کاروبار چل رہا ہے وہ تو زیادہ تر کچی رسیدوں پر ہی چل رہا ہے، جس کا مطلب ایک سمجھدار انسان خوب اخذ کر سکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سوائے پشاور بی آر ٹی پراجیکٹ کے، اس کے باوجود کہ کوئی بڑا پراجیکٹ نہیں شروع کیا گیا پھر بھی ایک سال کی مدت میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرض لیا گیا ہے اگر اس میں سے ایک بڑا حصہ واپس کیا گیا ہے تو اس میں کون سی راکٹ سائنس ہے؟
آپ ایک سال میں جو تاریخی قرضہ لینے کی بات کر رہے ہیں وہ موجودہ حکومت نے لیا ہی نہیں۔
سابقہ حکومت نے ملک کی کرنسی کو مصنوعی طور پر زیادہ رکھ کر بے لگام درآمداد کو رواج دیا۔ جس کی وجہ سے ملک کا تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ شدید حد تک بڑھ گیا۔ اتنا زیادہ کہ صرف ایک سال میں پاکستانی زر مبادلہ کے ذخائر 20 ارب ڈالر سے کم ہو کر صرف 8 ارب ڈ الر رہ گئے۔ اگر نئی حکومت آکر اس کی روک تھام نہ کرتی تو چند ماہ بعد پاکستان کا دیوالیہ نکل جاتا۔

زرمبادلہ کو بچانےکیلئے روپے کی قدر کو یکدم گرانا پڑا جس کے بعد پرانے قرضوں کی مالیت اور ادائیگیوں میں شدید اضافہ ہوا۔ اور اسی لئے مہنگائی اور شرح سود میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ سابقہ حکومت کی کوتاہیوں کی سزا موجودہ حکومت کو مل رہی ہے۔
Depreciation of PKR since June 1, 2018: ‘Impact on public external debt around Rs 1,657 billion’ – Business Recorder
Devaluation pushes up total debt by Rs900bn - Newspaper - DAWN.COM
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
امپورٹڈ اشیا نہیں خریدی جائیں گی تو بین الاقوامی ادائیگیوں کا توازن تو بہتر ہو گا ناں؟ لیکن مسئلہ ملکی کاروبار کا ہے جو خزانے کو بھرتا ہے اور وہ فل سٹاپ لگا کر رکا ہوا ہے۔
یعنی ماضی میں جو کاروبار کی ریل پیل تھی وہ درآمداد کی خرید و فروخت پر استوار تھی ۔ ملک کی اپنی پیداوار اس قابل ہی نہیں کہ وہ مقامی صارفین کی مانگ اور کاروبار میں اضافہ کا باعث بن سکے۔ عام عوام کو باہر کی مہنگی برینڈڈ منصوعات چاہئے جبکہ ملک کی برآمداد پچھلے 5 سالوں سے شدید مندی کا شکار ہیں۔ مطلب ہم باہر کی دنیا کو کچھ بیچ نہیں رہے۔ بس ان سے مال خرید خرید کر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کو آگ لگا رہے ہیں۔ ایسا کب تک چلتا؟ کسی نہ کسی حکومت کو تو کو اس بے ہنگم معاشی پالیسی کو لگام دینی تھی۔ سو دے دی۔


اس لئے عوام حکومت کو گالیاں دینے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکے۔ پاکستانی مصنوعات خریدے، استعمال کرے اور ان کا معیار بہتر کرے۔ بجائے ہر وقت باہر کی چیزیں امپورٹ کر نے میں ڈالر برباد کرے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
جو کاروبار چل رہا ہے وہ تو زیادہ تر کچی رسیدوں پر ہی چل رہا ہے، جس کا مطلب ایک سمجھدار انسان خوب اخذ کر سکتا ہے۔
زیادہ تر پاکستانی ایکسپورٹر جو مال باہر بیچتے ہیں اس کے ریکارڈ میں انڈر انوائسنگ کرتے ہیں۔تاکہ مال بکنے پر جو زرمبادلہ کا منافع ہو وہ سارے کا سارا واپس قومی خزانہ میں آنے کی بجائے بیرون ممالک کے بینکوں میں جمع ہوتا رہے۔
اسی طرح زیادہ تر پاکستانی تاجر جو مال بیچتے ہیں اس کے لئے عوام کو کچی رسیدیں پکڑا دیتے ہیں۔ تاکہ عوام کا دیا گیا ٹیکس سرکاری خزانہ میں جمع نہ ہو سکے۔
یعنی قوم کے ایکسپورٹر اور تاجر مل کر قومی خزانہ کو اپنے ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔ ان کو روکو تو شٹر ڈاؤں ہڑتال اور اپنے کاروبار ملک سے باہر لے جانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ ان حالات کا ذمہ دار حکومت کیسے ہے؟
 
آخری تدوین:

زیرک

محفلین
زیادہ تر پاکستانی ایکسپورٹر جو مال باہر بیچتے ہیں اس کے ریکارڈ میں انڈر انوائسنگ کرتے ہیں۔تاکہ مال بکنے پر جو زرمبادلہ کا منافع ہو وہ سارے کا سارا واپس قومی خزانہ میں آنے کی بجائے بیرون ممالک کے بینکوں میں جمع ہوتا رہے۔
اسی طرح زیادہ تر پاکستانی تاجر جو مال بیچتے ہیں اس کے لئے عوام کو کچی رسیدیں پکڑا دیتے ہیں۔ تاکہ عوام کا دیا گیا ٹیکس سرکاری خزانہ میں جمع نہ ہو سکے۔
یعنی قوم کے ایکسپورٹر اور تاجر مل کر قومی خزانہ کو اپنے ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔ ان کو روکو تو شٹر ڈاؤں ہڑتال اور اپنے کاروبار ملک سے باہر لے جانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ ان حالات کا ذمہ دار حکومت کیسے ہے؟
تو حکومت سسٹم ٹھیک کرے ناں، حکومت کیا فوج نے چلانی ہے؟ حکومت نے 25 ہزار سے زائد کی خریداری پہ خریدار سے شناختی کارڈ کی کاپی دینے کی پخ لگائی ہوئی ہے، (ویسے بھی شناختی کارڈز کے غلط استعمال کی بے شمار مثالیں پاکستان میں کم نہیں تو ایسے میں کون شناختی کارڈ کی کاپی دے گا؟ خریدار بھی سیانا ہے 15 ہزار کی شاپنگ ایک دکان سے کر لے گا، 10 کی کسی اور دکان سے،نقصان کس کا ہوا ؟ حکومت کا) کم از کم میں نے ویسٹ میں رہتے ہوئے کسی ملک میں شناختی کارڈ کی کاپی دینے جیسا کام ہوتے نہیں دیکھا۔ اس مسئلے کا سیدھا سادہ حل ایک "سینٹرالائزڈ آٹومیٹک ٹِل سسٹم "ہے جو باقاعدہ ایف بی آر کے پاس رجسٹرڈ ہو اور خریداری کی صورت میں ٹِل سے باقاعدہ رسید جاری کرے اور اس کی وجہ سے ٪20 سیلز یا ویلیو ایڈڈ ٹیکس سیدھا براہِ راست سرکاری خزانے میں جمع ہو جائے۔ انڈر انوائسنگ کے ذریعے زرمبادلہ کی اوورسیز ہورڈنگ کا ایک حل ہے اور وہ ہے ہر ایکسپورٹر٪100 فارن کرنسی ملک میں لانے کا پابند ہونا چاہیے، ہاں اسے اجازت ہونی چاہیے کہ ضرورت کے مطابق جتنی رقم باہر لے جانا چاہے لے جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے اسے اسٹیٹ بنک کی ڈیکلئیریشن لازمی ہونی چاہیے۔ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اداراتی معاملات درست نہیں کرتی بلکہ ڈنگ ٹپاؤ ٹوٹکوں سے کام چلاتی ہے، ان کی چھری چلتی ہے تو بے چاری عوام پر جو بے شمار ڈائریکٹ اور انڈائریکٹ ٹیکسز اور ڈیوٹیز دے دے کر مرنے والی ہوئی ہوئی ہے۔ حالات یہ ہیں کہ اب پاکستان میں سفید پوش مڈل کلاس ختم ہونے جا رہی ہے، اب وہاں صرف غریب اور امیر دو طبقے ہی باقی رہ جائیں گے۔
 

فاخر

محفلین
یعنی ماضی میں جو کاروبار کی ریل پیل تھی وہ درآمداد کی خرید و فروخت پر استوار تھی ۔ ملک کی اپنی پیداوار اس قابل ہی نہیں کہ وہ مقامی صارفین کی مانگ اور کاروبار میں اضافہ کا باعث بن سکے۔ عام عوام کو باہر کی مہنگی برینڈڈ منصوعات چاہئے جبکہ ملک کی برآمداد پچھلے 5 سالوں سے شدید مندی کا شکار ہیں۔ مطلب ہم باہر کی دنیا کو کچھ بیچ نہیں رہے۔ بس ان سے مال خرید خرید کر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کو آگ لگا رہے ہیں۔ ایسا کب تک چلتا؟ کسی نہ کسی حکومت کو تو کو اس بے ہنگم معاشی پالیسی کو لگام دینی تھی۔ سو دے دی۔


اس لئے عوام حکومت کو گالیاں دینے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکے۔ پاکستانی مصنوعات خریدے، استعمال کرے اور ان کا معیار بہتر کرے۔ بجائے ہر وقت باہر کی چیزیں امپورٹ کر نے میں ڈالر برباد کرے۔

’’پاکستانی مصنوعات خریدے، استعمال کرے اور ان کا معیار بہتر کرے۔ بجائے ہر وقت باہر کی چیزیں امپورٹ کر نے میں ڈالر برباد کرے‘‘۔
لیکن بندہ بیرون ملک بیٹھ کر :’نصیحت کرے‘‘ :LOL::LOL::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::p:p:p
 

زیرک

محفلین
’’پاکستانی مصنوعات خریدے، استعمال کرے اور ان کا معیار بہتر کرے۔ بجائے ہر وقت باہر کی چیزیں امپورٹ کر نے میں ڈالر برباد کرے‘‘۔
لیکن بندہ بیرون ملک بیٹھ کر :’نصیحت کرے‘‘ :LOL::LOL::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::p:p:p
بندہ پرور کسی کو جانے بغیر طنزیہ گفتگو کرنے کا کوئی میڈل ہوتا تو میں آپ کو ضرور دیتا، بہرحال آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ ناچیز 25 سال سے دیار غیر میں رہ کر بھی ایک سال کی مدت کے دوران کم از کم ایک بار اور کبھی کبھار دو بار پاکستان کا چکر لگاتا آیا ہے (تازہ ترین دورے سےابھی 7 نومبر کو ہی واپسی ہوئی ہے) الحمدللہ اپنے علاوہ اہلِ خانہ و دوست احباب کے لیے بھی پاکستانی اشیاء ہی خریدتا ہوں، نہ صرف خریدتا ہوں بلکہ انہیں پاکستانی اشیاء خریدنے کی ترغیب بھی دیتا ہوں۔
 

فاخر

محفلین
بندہ پرور کسی کو جانے بغیر طنزیہ گفتگو کرنے کا کوئی میڈل ہوتا تو میں آپ کو ضرور دیتا، بہرحال آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ ناچیز 25 سال سے دیار غیر میں رہ کر بھی ایک سال کی مدت کے دوران کم از کم ایک بار اور کبھی کبھار دو بار پاکستان کا چکر لگاتا آیا ہے (تازہ ترین دورے سےابھی 7 نومبر کو ہی واپسی ہوئی ہے) الحمدللہ اپنے علاوہ اہلِ خانہ و دوست احباب کے لیے بھی پاکستانی اشیاء ہی خریدتا ہوں، نہ صرف خریدتا ہوں بلکہ انہیں پاکستانی اشیاء خریدنے کی ترغیب بھی دیتا ہوں۔
@زيرك بھائی !
شاید آپ کو شاید غلط فہمی ہوگئی ہے ۔ میں نے آپ کی پوری تحریر پڑھی ہے کیا آپ کو لگتا ہے کہ:’ میں نے یہ جواب آنجناب کو دیا ہے؟‘
بات یہ ہے کہ :’ میں نے جاسم صاحب کو یہ جواب دیا ہے‘‘،غلط فہمی کے لئے معذرت!
 

جاسم محمد

محفلین
بندہ پرور کسی کو جانے بغیر طنزیہ گفتگو کرنے کا کوئی میڈل ہوتا تو میں آپ کو ضرور دیتا، بہرحال آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ ناچیز 25 سال سے دیار غیر میں رہ کر بھی ایک سال کی مدت کے دوران کم از کم ایک بار اور کبھی کبھار دو بار پاکستان کا چکر لگاتا آیا ہے (تازہ ترین دورے سےابھی 7 نومبر کو ہی واپسی ہوئی ہے) الحمدللہ اپنے علاوہ اہلِ خانہ و دوست احباب کے لیے بھی پاکستانی اشیاء ہی خریدتا ہوں، نہ صرف خریدتا ہوں بلکہ انہیں پاکستانی اشیاء خریدنے کی ترغیب بھی دیتا ہوں۔
موصوف نے خاکسار پر طنز کیا تھا۔ آپ بلاوجہ “ہٹ” ہو گئے۔ چور کی داڑھی میں تنکا تو نہیں؟ :)
 

زیرک

محفلین
@زيرك بھائی !
شاید آپ کو شاید غلط فہمی ہوگئی ہے ۔ میں نے آپ کی پوری تحریر پڑھی ہے کیا آپ کو لگتا ہے کہ:’ میں نے یہ جواب آنجناب کو دیا ہے؟‘
بات یہ ہے کہ :’ میں نے جاسم صاحب کو یہ جواب دیا ہے‘‘،غلط فہمی کے لئے معذرت!
میری طرف سے معذرت قبول کیجئے، چونکہ تھریڈ میرا تھا، میں نے دیکھے بغیر جواب دیا۔ لیکن آپ کی بات درست ہے کہ آپ نے جاسم کی پوسٹ کو ہی ٹیگ کیا تھا۔ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں، یوں سمجھیے رات گئی بات گئی۔
 

زیرک

محفلین
موصوف نے خاکسار پر طنز کیا تھا۔ آپ بلاوجہ “ہٹ” ہو گئے۔ چور کی داڑھی میں تنکا تو نہیں؟ :)
میرا تھریڈ تھا،دیکھے بغیر جواب دیا تھا،جس کی صارف سے معذرت کر چکا ہوں، ویسے خدالگتی کہوں تو اکثر چوروں کو دوسرے بھی چور ہی دکھائی دیا کرتے ہیں۔
 
Top