ہر شب کی تنہایئاں

مرے ديدہِ تر کي بے خوابياں
مرے دل کي پوشيدہ بے تابياں
مرے نالہء نيم شب کا نياز۔۔۔
مري خلوت و انجمن کا گداز۔۔
امنگيں مري ، آرزوئيں مري
اميديں مري ، جستجوئيں مري
مري فطرت آئينہء روزگار
غزالان افکار کا مرغزار ۔۔
مرا دل ، مري رزم گاہ حيات
گمانوں کے لشکر ، يقيں کا ثبات
يہي کچھ ہے ساقي متاع فقير
اسي سے فقيري ميں ہوں ميں امير
مرے قافلے ميں لٹا دے اسے
لٹا دے ، ٹھکانے لگا دے اسے!

(اقبال علیہ الرحمۃ)
 

باباجی

محفلین
شاعری سے میرا تو دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ہاں مضمون کے اعتبار سے اچھا لکھا ہے۔ گویا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ انسانی زندگی کے کٹھن لمحات میں تنہائی اس کا بہترین ہم سفر ہوتی ہے۔



دھوپ سے مُرجھائے گلستانِ دل کو​
دیتی ہیں تازگی، ہر شب کی تنہائیاں​
یعنی دل کے باغ میں خوشیوں کے چھوٹے چھوٹے پھول ہیں جنہیں زمانے کے غموں (دھوپ) نے پژمردہ کر دیا، لیکن رات کی تنہائی میں کوئی قوت ان تمام غموں کو غلط کر دیتی ہے جس سے دل کو ایک نئی تازگی میسر آتی ہے۔​

اب اس پر بھی تبصرہ کیجئے گا اور اصلاح بھی!
شعبان نظامی بھائی
یہ آج سے تقریباً 10 سال پہلے لکھی تھی میں نے

مقصد تھا کہ شب کی تنہائی میں حضرتِ انسان
اپنے باطن کو کھولتا ہے

اور باطن کی اُنہی کیفیات کو یہاں بیان کرنی کی کوشش کی
 
Top