موسموں کے جن کو صرف درختوں سے قابو میں رکھا جاسکتا ہے
شبینہ فراز
ستاروں پر کمند ڈالتا، خلاؤں کو مسخر کرتا اورجدید ٹیکنالوجی سے دنیا کو سمیٹ کر کمپیوٹر کے بٹن میں مقیدکرتا شاداں و فرحاں انسا ن جب 21 ویں صدی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو اس کے رنگ میں بھنگ پڑ جاتا ہے اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ ترقی جو اس نے دن رات محنت کرکے حاصل کی تھی آج اسی کی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔ دھواں اگلتی صنعتیں خود اس کی سانسوں کے درپے ہیں۔فطرت کو تسخیر کرنے کا دعوی آج کرہ ارض کی تباہی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ وہ اس شکستہ آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہے۔
تو ایسے میں اب یہ حضرت انساں کرے تو کیا کرے؟
بس ایک ہی صورت ہے بچاؤکی ، ایک ہی جائے امان ہے اور وہ ہے صرف اور صرف فطرت کے تشکیل کردہ اصولوں کے تحت زندگی بسر کرنا۔ اگرچہ یہ آج کے دور میں اتنا آسان نہیں رہا ہے لیکن کوشش تو کی جاسکتی ہے نا! جلد یا بدیر ہم حالات کو پھر اپنے حق میں کرسکتے ہیں۔
عالمی یوم ماحول اقوام متحدہ کے زیر اہتمام دنیا بھر میں 5 جون کونہایت تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا فیصلہ پہلی بار 1972میں اسٹاک ہوم میں منعقد ایک کانفرنس میں کیا گیاتھا۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں اور خصوصا حکومتوں کی توجہ ماحولیاتی مسائل پر مبذول کرانا ہے(اس وقت جو ملکی حالات ہیں اس میں حکومت کتنی توجہ ماحول کو دے سکے گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے لیکن پھر بھی امید تو کی جاسکتی ہے۔ )
ہر سال یہ دن ایک خاص عنوان کے تحت منعقد کیا جاتا ہے ، 2007 میں اسے
Melting Ice, A hot topic
کے تحت منایا جارہا ہے۔اس سال کے آغاز سے ہی ہم اپنے ہر مضمون میں یہ بات مسلسل دہرا رہے ہیں کہ دنیا کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت کرہ ارض پر موجود ہر قسم کے ماحولیاتی نظاموں کو خطرے میں ڈال دے گا۔ بڑھتی ہوئی حدت براہ راست گلیشیئرز پر اثر انداز ہوگی جس سے سیلاب اور طغیانی کے خطرات بڑھیں گے اور پھر پانی کی کمی خشک سالی کو دعوت دے گی۔یہ دو مظاہر دنیا کو ہلا کر رکھ دیں گے ۔ زمین پر موجود ہر قسم کی حیات خطرے میں پڑجائے گی چاہے وہ انسان ہو یا کوئی اور جاندار۔
بڑھتی ہوئی حرارت اور برف کے اسی تعلق کے پیش نظر 2007 تا 2008 کو بین الاقوامی قطبی سال (Polar Year) بھی قرار دیا گیا ہے۔
قطبی علاقے اس کرہ ارض کی آب و ہوا پر بھی خاصا اثر ڈالتے ہیں۔استوائی خطے سال میں قطبین کے مقابلے میں تقریبا پانچ گنا زیادہ حرارت حاصل کرتے ہیں اور ہماری فضا اور سمندر اس حرارت کو قطبین تک پہنچانے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔لہذا یہ دونوں قطبی علاقے کرہ ارض کے آب و ہوا کے نظام سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔حدت کے بڑھنے سے مستقل طور پر منجمند علاقوں کے پگھلنے سے نہ صرف وسیع علاقے زیر آب آئیں گے بلکہ برف پگھلنے سے میتھین کا بھی اخراج ہوگا جو گرین ہاؤس گیسوں میں سے ایک ہے۔
اس تمام صورت حال میں بہتری لانے کے لیے دنیا بھر کے سائنس داں دن و رات محنت کررہے ہیں اور آئے دن ان کے تجربات اور تجاویز سامنے آتی رہتی ہیں لیکن سر دست ہم کسی سائنسی تجربے یا اعدادو شمار کے گورکھ دھندوں پر بات نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی کسی سرکاری حکمت عملی کے جھمیلوں میں الجھنا چاہتے ہیں بلکہ ان سب کے بجائے صرف ایک آسان بات پر زور دیں گے اور یہ کہ ہمیں صرف اور صرف درخت لگانے چاہیئیں اور اگر ہمارے پاس جگہ نہیں ہے تو ہم پودوں سے بھی کام چلا سکتے ہیں۔ اس سے ہم موسم کے بے قابو ہوتے جن کو خاصی حد تک قابو میں لا سکتے ہیں۔
ہمارے ملک میں جنگلات کا رقبہ صرف 4.8 فیصد ہے جو بہت کم ہے اور حکومت اسے 2011ء میں بڑھا کر 5.7 فیصد تک پہنچانا چاہ رہی ہے۔ہر سال حکومت سرکاری سطح پر شجر کاری مہم دھوم دھام سے شروع تو کرتی ہے لیکن جتنا کثیر سرمایہ اس پر خرچ ہوتا ہے اس کے مقابلے میں نتائج چند فیصد بھی برآمد نہیں ہوتے ۔اور آئندہ سال جب یہ مہم ایک بار پھر شروع ہوتی ہے تو پچھلے سال کے نتائج قصہ پارینہ سمجھ کر بھلا دیے جاتے ہیں اور ان کاکوئی تذکرہ نہیں ہوتا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اس سال ایسا نہ ہو اور حکومت اپنے ارادوں میں کامیاب ہولیکن صرف حکومت پر تکیہ کیوں؟ یہ کام ہمیں خود بھی کرنا چاہیے۔
شجر کاری اگرچہ ہمارا مذہبی اور اخلاقی فریضہ بھی ہے لیکن ایک عام مشاہدہ ہے کہ ہم مذہب اور اخلاق سے زیادہ اپنے ثقافتی رسم و رواج سے زیادہ متاثر رہتے ہیں ۔ بے انتہا فضولیات اور خرافات میں پیسہ اور وقت دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ پیدائش ، موت ، شادی بیاہ ہر موقع پر ہم مذہب اور اخلاقیات سے ہٹ کر صرف ثقافتی رسوم ورواج کو اہمیت دے رہے ہوتے ہیں لہذا اس حوالے سے ہم واضح طور پر یہ بات کہہ رہے کہ جب تک شجر کاری کو ہم اپنے رسم ورواج اور روز مرہ کی عادات میں شامل نہیں کر لیں گے اس کے نتائج خاطر خواہ برآمد نہیں ہوں گے۔
ذیل میں ہم شجرکاری اور جنگلات کے فروغ کی لمبی چوڑی حکمت عملیوں سے ہٹ کر یہاں کچھ ’’عام اور عوامی‘‘ سی تجاویز پیش کررہے ہیں، اجتماعی اور زیادہ تر انفرادی سطح پر چھوٹے چھوٹے سے کام جو سب بہت آسانی سے کر سکتے ہیں۔اور اگر ہم انہیں اپنے معاشرے میں رائج کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ ہم نے ایک خاموش انقلاب کی بنیاد رکھ دی ہے۔
شجرکاری کے فروغ کے لیے کچھ تجاویز
ہم اقوام متحدہ کے تحت بہت سے ایسے دن بھی مناتے کہ جن سے ہمارے ملک کا اتنا براہ راست تعلق نہیں ہوتا ہے تو کیوں نہ ایک دن ایسا بھی منایا جائے جس کی ابتدا ہمارے ملک سے ہواور جو ہماری ضرورت بھی ہو۔ جنگلات کی کمی ہمارا ایک تشویش ناک معاملہ ہے اور بہت زیادہ سرمایہ خرچ کرنے کے باوجود ہم من پسند نتائج اب تک نہیں حاصل کر پائے ہیں لہذا ہم وقت برباد کیے بغیر اسی سال سے قومی یا صوبائی سطح پر یوم شجر کاری منانے کاآغاز کرسکتے ہیں یا کم از کم شہری حکومت تجرباتی طور پر شہر کی سطح پر ’
’یوم شجر کاری‘‘ منا سکتی ہے ۔ مثبت نتائج کے بعد ہم اسے بڑھا کر
ہفتہ شجر کاری بھی منا سکتے ہیں۔
نوٹ : 2009 سے ہر سال 18 اگست قومی شجر کاری دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
اسکولوں کی شمولیت یقینی بنائی جائے اور ان کے درمیان مقابلوں کا اہتمام کیا جائے۔
ٹاؤن ناظمین کو شجر کاری کے ٹاسک دیے جائیں۔ناظمین محلوں کی سطح پر اس کام کو آگے بڑھا سکتے ہیں خصوصا خواتین اور بچوں کی شمولیت سے یہ کام ممکن ہو سکتا ہے۔
جامعات بوٹینیکل گارڈن لگائیں تاکہ ہم ادویاتی پودوں میں بھی خود کفیل ہوسکیں۔اس کے علاوہ اسکول اور کالج کے طالب علموں کے لیے ان گارڈن کے مطالعاتی دوروں کا بھی اہتمام کیا جائے تاکہ اس حوالے سے ان پودوں کی قدر وقیمت کا شعور پروان چڑھ سکے۔
بلڈرز کو پابند کیا جائے کہ وہ ہاؤسنگ اسکیموں میں درختوں کے لیے جگہ ضرور رکھیں اور جب وہ اسکیم کا اعلان کریں تو اسی وقت درخت لگا دیے جائیں تا کہ جب لوگ آباد ہوں تو درخت خاصے بڑے ہوچکے ہوں۔
ہاؤسنگ اسکیموں کے نقشوں میں شجر کاری منصوبہ بھی لازمی قرار دیا جائے
ایک دوسرے کو تحفے میں پودے دینے کی رسم قائم کریں خصوصا مشہور شخصیات تا کہ لوگوں کو ترغیب حاصل ہو ۔ (اسی سال 5 جون سے اس کا آغاز کیا جائے تو کیا اچھا ہو!)
صحت مند ہونے والے مریضوں کو اسپتال پودوں کا تحفہ دیں خصوصا میٹرنٹی اسپتال والے ماں بننے والی ہر عورت کو یہ تحفہ ضرور دیں۔
پارکوں کے لیے خالی پڑی ہوئی جگہوں پر ناظمین علاقے کے لوگوں کے ساتھ مل کر پودے لگا سکتے ہیں ۔
نالے اور ندیوں کے پشتوں پر درخت لگائیں۔
اور سب سے اہم بات کہ خواتین کو کچن گارڈن کی ترغیب دی جائے۔ اس حوالے سے ذرائع ابلاغ پر معلوماتی پروگرام دکھائے جائیں خصوصا وہ تمام چینل یہ کام باآسانی کرسکتے ہیں جو گھنٹا گھنٹا بھر کے روزانہ کوکنگ پروگرام چلاتے ہیں ۔ 15سے20منٹ اس حوالے سے بھی مخصوص کیے جاسکتے ہیں۔کم جگہوں مثلا فلیٹوں میں رہنے والی خواتین بھی باآسانی بڑے گملوں میں دھنیا، پودینہ، ٹماٹر،مرچیں اور کریلے وعیرہ کی بیلیں لگا سکتی ہیں۔ اس سے سبزیوں کی قیمتیں بھی اعتدال میں رہیں گی۔
متعلقہ سرکاری محکمے ابتدائی طور پر مختلف پودے اور سبزیوں کے بیج مفت فراہم کرسکتے ہیں۔
شہری حکومت کا محکمہ لوگوں کی رہنمائی کرسکتا ہے کہ وہ کن جگہوں پر کون سے پودے یا درخت لگا سکتے ہیں۔
مختلف ہارٹیکلچر سوسائیٹیز اور ایسوسی ایشن عام لوگوں کے لیے تربیتی کورس کا اہتمام کریں۔
زیادہ سے زیادہ فلاورز شو منعقد کیے جائیں۔
درخت کاٹنے پر سختی سے پابندی عائد ہو اور اس جرم کے ارتکاب پر ابتدائی طور پر جرمانہ اور بعد ازاں سزا ہو۔
اگلے سال جب یوم شجر کاری منایا جائے تو پچھلے سال کے نتائج بھی دیکھ لیے جائیں اور اچھی کارکردگی کے اعتراف میں انعامات اور اعزازات دیے جائیں ۔
ہمیں امید ہے کہ متعلقہ شعبے ہماری ان تجاویز پر ضرور غور کریں گے کیونکہ اگر یہ سب کچھ ہونے لگے تو اس سے نہ صرف یہ کہ ہمارا شہر اور ملک سرسبز ہوگا بلکہ اس کے اثرات کم ہی سہی لیکن ماحول پر ضرور رونما ہوں گے۔ہمارا گھر اور ارد گرد کی فضاکتنی خوشگوار ہوجائے گی۔ خوبصورت پرندے اور رنگ برنگ تتلیوں کی آمد و رفت بڑھنے لگے گی اور سوچیے ذرا زندگی کتنی حسین لگنے لگے گی!
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
درد پھولوں کی طرح مہکے اگر تو آئے
فرحت کیانی شمشاد محمد وارث نبیل عائشہ عزیززین ابوشامل