ہر پاکستانی ایک درخت لگائے --- ڈاکٹر طاہر القادری

S. H. Naqvi

محفلین
میرے گھر میں لان ہے جہاں امرود، لوکاٹ، جامن، گلاب، سرو، موتیا، گارڈینیا اور انگور کی بیل وغیرہ لگے ہیں۔ انگور کی بیل تو آج کل انگور کے کھٹے سبز گوشوں سے بھری ہوئی ہے اور مجھے ان کے پکنے کا بہت شدت سے انتظار ہے۔ امرود پر بھی پھول لگے ہوئے ہیں:p
 

الف نظامی

لائبریرین
موسموں کے جن کو صرف درختوں سے قابو میں رکھا جاسکتا ہے
شبینہ فراز

ستاروں پر کمند ڈالتا، خلاؤں کو مسخر کرتا اورجدید ٹیکنالوجی سے دنیا کو سمیٹ کر کمپیوٹر کے بٹن میں مقیدکرتا شاداں و فرحاں انسا ن جب 21 ویں صدی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو اس کے رنگ میں بھنگ پڑ جاتا ہے اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ ترقی جو اس نے دن رات محنت کرکے حاصل کی تھی آج اسی کی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔ دھواں اگلتی صنعتیں خود اس کی سانسوں کے درپے ہیں۔فطرت کو تسخیر کرنے کا دعوی آج کرہ ارض کی تباہی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ وہ اس شکستہ آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہے۔

تو ایسے میں اب یہ حضرت انساں کرے تو کیا کرے؟

بس ایک ہی صورت ہے بچاؤکی ، ایک ہی جائے امان ہے اور وہ ہے صرف اور صرف فطرت کے تشکیل کردہ اصولوں کے تحت زندگی بسر کرنا۔ اگرچہ یہ آج کے دور میں اتنا آسان نہیں رہا ہے لیکن کوشش تو کی جاسکتی ہے نا! جلد یا بدیر ہم حالات کو پھر اپنے حق میں کرسکتے ہیں۔

عالمی یوم ماحول اقوام متحدہ کے زیر اہتمام دنیا بھر میں 5 جون کونہایت تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا فیصلہ پہلی بار 1972میں اسٹاک ہوم میں منعقد ایک کانفرنس میں کیا گیاتھا۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں اور خصوصا حکومتوں کی توجہ ماحولیاتی مسائل پر مبذول کرانا ہے(اس وقت جو ملکی حالات ہیں اس میں حکومت کتنی توجہ ماحول کو دے سکے گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے لیکن پھر بھی امید تو کی جاسکتی ہے۔ )
ہر سال یہ دن ایک خاص عنوان کے تحت منعقد کیا جاتا ہے ، 2007 میں اسے
Melting Ice, A hot topic
کے تحت منایا جارہا ہے۔اس سال کے آغاز سے ہی ہم اپنے ہر مضمون میں یہ بات مسلسل دہرا رہے ہیں کہ دنیا کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت کرہ ارض پر موجود ہر قسم کے ماحولیاتی نظاموں کو خطرے میں ڈال دے گا۔ بڑھتی ہوئی حدت براہ راست گلیشیئرز پر اثر انداز ہوگی جس سے سیلاب اور طغیانی کے خطرات بڑھیں گے اور پھر پانی کی کمی خشک سالی کو دعوت دے گی۔یہ دو مظاہر دنیا کو ہلا کر رکھ دیں گے ۔ زمین پر موجود ہر قسم کی حیات خطرے میں پڑجائے گی چاہے وہ انسان ہو یا کوئی اور جاندار۔

بڑھتی ہوئی حرارت اور برف کے اسی تعلق کے پیش نظر 2007 تا 2008 کو بین الاقوامی قطبی سال (Polar Year) بھی قرار دیا گیا ہے۔

قطبی علاقے اس کرہ ارض کی آب و ہوا پر بھی خاصا اثر ڈالتے ہیں۔استوائی خطے سال میں قطبین کے مقابلے میں تقریبا پانچ گنا زیادہ حرارت حاصل کرتے ہیں اور ہماری فضا اور سمندر اس حرارت کو قطبین تک پہنچانے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔لہذا یہ دونوں قطبی علاقے کرہ ارض کے آب و ہوا کے نظام سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔حدت کے بڑھنے سے مستقل طور پر منجمند علاقوں کے پگھلنے سے نہ صرف وسیع علاقے زیر آب آئیں گے بلکہ برف پگھلنے سے میتھین کا بھی اخراج ہوگا جو گرین ہاؤس گیسوں میں سے ایک ہے۔
اس تمام صورت حال میں بہتری لانے کے لیے دنیا بھر کے سائنس داں دن و رات محنت کررہے ہیں اور آئے دن ان کے تجربات اور تجاویز سامنے آتی رہتی ہیں لیکن سر دست ہم کسی سائنسی تجربے یا اعدادو شمار کے گورکھ دھندوں پر بات نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی کسی سرکاری حکمت عملی کے جھمیلوں میں الجھنا چاہتے ہیں بلکہ ان سب کے بجائے صرف ایک آسان بات پر زور دیں گے اور یہ کہ ہمیں صرف اور صرف درخت لگانے چاہیئیں اور اگر ہمارے پاس جگہ نہیں ہے تو ہم پودوں سے بھی کام چلا سکتے ہیں۔ اس سے ہم موسم کے بے قابو ہوتے جن کو خاصی حد تک قابو میں لا سکتے ہیں۔

ہمارے ملک میں جنگلات کا رقبہ صرف 4.8 فیصد ہے جو بہت کم ہے اور حکومت اسے 2011ء میں بڑھا کر 5.7 فیصد تک پہنچانا چاہ رہی ہے۔ہر سال حکومت سرکاری سطح پر شجر کاری مہم دھوم دھام سے شروع تو کرتی ہے لیکن جتنا کثیر سرمایہ اس پر خرچ ہوتا ہے اس کے مقابلے میں نتائج چند فیصد بھی برآمد نہیں ہوتے ۔اور آئندہ سال جب یہ مہم ایک بار پھر شروع ہوتی ہے تو پچھلے سال کے نتائج قصہ پارینہ سمجھ کر بھلا دیے جاتے ہیں اور ان کاکوئی تذکرہ نہیں ہوتا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اس سال ایسا نہ ہو اور حکومت اپنے ارادوں میں کامیاب ہولیکن صرف حکومت پر تکیہ کیوں؟ یہ کام ہمیں خود بھی کرنا چاہیے۔

شجر کاری اگرچہ ہمارا مذہبی اور اخلاقی فریضہ بھی ہے لیکن ایک عام مشاہدہ ہے کہ ہم مذہب اور اخلاق سے زیادہ اپنے ثقافتی رسم و رواج سے زیادہ متاثر رہتے ہیں ۔ بے انتہا فضولیات اور خرافات میں پیسہ اور وقت دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ پیدائش ، موت ، شادی بیاہ ہر موقع پر ہم مذہب اور اخلاقیات سے ہٹ کر صرف ثقافتی رسوم ورواج کو اہمیت دے رہے ہوتے ہیں لہذا اس حوالے سے ہم واضح طور پر یہ بات کہہ رہے کہ جب تک شجر کاری کو ہم اپنے رسم ورواج اور روز مرہ کی عادات میں شامل نہیں کر لیں گے اس کے نتائج خاطر خواہ برآمد نہیں ہوں گے۔

ذیل میں ہم شجرکاری اور جنگلات کے فروغ کی لمبی چوڑی حکمت عملیوں سے ہٹ کر یہاں کچھ ’’عام اور عوامی‘‘ سی تجاویز پیش کررہے ہیں، اجتماعی اور زیادہ تر انفرادی سطح پر چھوٹے چھوٹے سے کام جو سب بہت آسانی سے کر سکتے ہیں۔اور اگر ہم انہیں اپنے معاشرے میں رائج کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ ہم نے ایک خاموش انقلاب کی بنیاد رکھ دی ہے۔

شجرکاری کے فروغ کے لیے کچھ تجاویز
ہم اقوام متحدہ کے تحت بہت سے ایسے دن بھی مناتے کہ جن سے ہمارے ملک کا اتنا براہ راست تعلق نہیں ہوتا ہے تو کیوں نہ ایک دن ایسا بھی منایا جائے جس کی ابتدا ہمارے ملک سے ہواور جو ہماری ضرورت بھی ہو۔ جنگلات کی کمی ہمارا ایک تشویش ناک معاملہ ہے اور بہت زیادہ سرمایہ خرچ کرنے کے باوجود ہم من پسند نتائج اب تک نہیں حاصل کر پائے ہیں لہذا ہم وقت برباد کیے بغیر اسی سال سے قومی یا صوبائی سطح پر یوم شجر کاری منانے کاآغاز کرسکتے ہیں یا کم از کم شہری حکومت تجرباتی طور پر شہر کی سطح پر ’’یوم شجر کاری‘‘ منا سکتی ہے ۔ مثبت نتائج کے بعد ہم اسے بڑھا کر ہفتہ شجر کاری بھی منا سکتے ہیں۔

نوٹ : 2009 سے ہر سال 18 اگست قومی شجر کاری دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

اسکولوں کی شمولیت یقینی بنائی جائے اور ان کے درمیان مقابلوں کا اہتمام کیا جائے۔
ٹاؤن ناظمین کو شجر کاری کے ٹاسک دیے جائیں۔ناظمین محلوں کی سطح پر اس کام کو آگے بڑھا سکتے ہیں خصوصا خواتین اور بچوں کی شمولیت سے یہ کام ممکن ہو سکتا ہے۔
جامعات بوٹینیکل گارڈن لگائیں تاکہ ہم ادویاتی پودوں میں بھی خود کفیل ہوسکیں۔اس کے علاوہ اسکول اور کالج کے طالب علموں کے لیے ان گارڈن کے مطالعاتی دوروں کا بھی اہتمام کیا جائے تاکہ اس حوالے سے ان پودوں کی قدر وقیمت کا شعور پروان چڑھ سکے۔
بلڈرز کو پابند کیا جائے کہ وہ ہاؤسنگ اسکیموں میں درختوں کے لیے جگہ ضرور رکھیں اور جب وہ اسکیم کا اعلان کریں تو اسی وقت درخت لگا دیے جائیں تا کہ جب لوگ آباد ہوں تو درخت خاصے بڑے ہوچکے ہوں۔
ہاؤسنگ اسکیموں کے نقشوں میں شجر کاری منصوبہ بھی لازمی قرار دیا جائے
ایک دوسرے کو تحفے میں پودے دینے کی رسم قائم کریں خصوصا مشہور شخصیات تا کہ لوگوں کو ترغیب حاصل ہو ۔ (اسی سال 5 جون سے اس کا آغاز کیا جائے تو کیا اچھا ہو!)
صحت مند ہونے والے مریضوں کو اسپتال پودوں کا تحفہ دیں خصوصا میٹرنٹی اسپتال والے ماں بننے والی ہر عورت کو یہ تحفہ ضرور دیں۔
پارکوں کے لیے خالی پڑی ہوئی جگہوں پر ناظمین علاقے کے لوگوں کے ساتھ مل کر پودے لگا سکتے ہیں ۔
نالے اور ندیوں کے پشتوں پر درخت لگائیں۔
اور سب سے اہم بات کہ خواتین کو کچن گارڈن کی ترغیب دی جائے۔ اس حوالے سے ذرائع ابلاغ پر معلوماتی پروگرام دکھائے جائیں خصوصا وہ تمام چینل یہ کام باآسانی کرسکتے ہیں جو گھنٹا گھنٹا بھر کے روزانہ کوکنگ پروگرام چلاتے ہیں ۔ 15سے20منٹ اس حوالے سے بھی مخصوص کیے جاسکتے ہیں۔کم جگہوں مثلا فلیٹوں میں رہنے والی خواتین بھی باآسانی بڑے گملوں میں دھنیا، پودینہ، ٹماٹر،مرچیں اور کریلے وعیرہ کی بیلیں لگا سکتی ہیں۔ اس سے سبزیوں کی قیمتیں بھی اعتدال میں رہیں گی۔
متعلقہ سرکاری محکمے ابتدائی طور پر مختلف پودے اور سبزیوں کے بیج مفت فراہم کرسکتے ہیں۔
شہری حکومت کا محکمہ لوگوں کی رہنمائی کرسکتا ہے کہ وہ کن جگہوں پر کون سے پودے یا درخت لگا سکتے ہیں۔
مختلف ہارٹیکلچر سوسائیٹیز اور ایسوسی ایشن عام لوگوں کے لیے تربیتی کورس کا اہتمام کریں۔
زیادہ سے زیادہ فلاورز شو منعقد کیے جائیں۔
درخت کاٹنے پر سختی سے پابندی عائد ہو اور اس جرم کے ارتکاب پر ابتدائی طور پر جرمانہ اور بعد ازاں سزا ہو۔
اگلے سال جب یوم شجر کاری منایا جائے تو پچھلے سال کے نتائج بھی دیکھ لیے جائیں اور اچھی کارکردگی کے اعتراف میں انعامات اور اعزازات دیے جائیں ۔

ہمیں امید ہے کہ متعلقہ شعبے ہماری ان تجاویز پر ضرور غور کریں گے کیونکہ اگر یہ سب کچھ ہونے لگے تو اس سے نہ صرف یہ کہ ہمارا شہر اور ملک سرسبز ہوگا بلکہ اس کے اثرات کم ہی سہی لیکن ماحول پر ضرور رونما ہوں گے۔ہمارا گھر اور ارد گرد کی فضاکتنی خوشگوار ہوجائے گی۔ خوبصورت پرندے اور رنگ برنگ تتلیوں کی آمد و رفت بڑھنے لگے گی اور سوچیے ذرا زندگی کتنی حسین لگنے لگے گی!

رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
درد پھولوں کی طرح مہکے اگر تو آئے
فرحت کیانی شمشاد محمد وارث نبیل عائشہ عزیززین ابوشامل
 

الف نظامی

لائبریرین
پودے لگاتے بوڑھے کو دیکھ کر لوگوں نے کہا بابا جی جب تک یہ درخت پھل دار و سایہ دار ہونگے۔ آپ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں گے پھر یہ تکلیف کاہے کو؟ کہا کہ میرے بزرگ درخت لگا کے اِس دنیا سے رخصت ہو گئے مگر پھل میں نے کھایا۔۔۔ سائے میں بھی بیٹھا۔۔۔ اب یہ درخت میں اپنے فائدے کے لئے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کےلئے لگا رہا ہوں۔
ہم چونکہ بحیثیت مجموعی خود غرض ہوچکے ہیں ۔لہذا اپنی دنیا میں گم ہیں۔آس پاس کی کوئی خبر نہیں۔وہ لوگ جو اپنی طبعی عمر کے آخر ی حصے میں پہنچتے ہیں اور زندگی کی گزری فلم کو اپنے خیالات میں تازہ کرکے دیکھتے ہیں اور انہیں نظر آتا ہے کہ میں نے فلاں بستی میں ایک کنواں کھدوایا تھا آج بھی وہاں سے لوگ پانی پیتے ہیں۔ وہ جو دو یتیم بچے تھے جنہیں میں نے پڑھایا لکھایا ، آج وہ اچھے منصب پر فائز خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ کچھ گھرانے مسکینوں کے تھے، جو اپنی خود اری کے باعث کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاسکتے تھے، میں نہ صرف کفالت کرتا رہا بلکہ ان کے مستقل روزگار کا اہتمام کر دیا۔ زندگی سے مایوس ایک مریض کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا ،علاج کروایا۔وہ اپنے بچوں کے ساتھ آج خوش و خرم زندگی گزار رہا ہے۔ کوئی حاجت مند ملا اس کی ضرورت پوری کردی۔ راستوں کے کنارے پودے لگائے جو آج تناور درخت بن چکے ہیں، لوگ پھل بھی کھاتے ہیں اور سائے میں بھی بیٹھتے ہیں۔
یقین کیجئے ایسے لوگ بہت مطمئن اور پرسکون ہوتے ہیں۔ وہ عمر رفتہ کی ان نیکیوں کو یاد کرتے ہیں اور راحت و اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”اے نفس مطمئنہ لوٹ آ اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ میں تجھ سے راضی اور تومجھ سے راضی“۔ مگر جو لوگ ان کاموں سے دور رہے وہ عمر کے آخری حصے میں راحت و سکوں کی اس کیفیت سے محروم رہے۔ میرے دوست احباب جانتے ہیں کہ میں بوڑھے لوگوں کی باتیں توجہ سے سنتا ہوں ، پاس بیٹھتا ہوں۔ وقت دیتا ہوں۔اس لئے تاکہ وہ باتیں کر کے اپنے دل کا غبار اتار سکیں اور یہ جاننے میں بھی مدد ملتی ہے کہ وہ اپنی گزری زندگی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
اگر ہم اطمینان چاہتے ہیں تو صدقہ جاریہ کا اہتمام کریں۔ اللہ کے نبی نے فرمایا ”جو شخص درخت لگائے یا کھیتی باڑی کرے پھر اس میں سے انسان ، پرندے یا جانور کھائیں وہ اس کے لئے صدقہ جاریہ ہے“۔ ایک اور خوبصورت فرمان اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”درخت اللہ کے حکم سے سجدہ ریز ہوتے ہیں“۔
کیوں نہ میں اور آپ خد ا کے حضور سجدہ ریز ہونے والے ڈھیر سارے درخت لگائیں۔ درخت تو دکھاوے اور ریاکاری کی عبادت نہیں کرتے۔ کیا خیال ہے میں اور آپ جو درخت لگائیں گے ان کی سجدہ ریزیوں میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہوگا؟ ممکن ہے میرے جیسے ریاکاروں کے سجدوں میں خالص سجدے صرف ان درختوں کے ہوں جو ہمیں فائدہ پہنچا جائیں۔
اللہ کے نبی مدینے تشریف لائے تو میلوں پھیلے رقبے پر کئی جنگل اور سبزہ زار لگوائے۔ انہیں چراہ گاہ اور محفوظ علاقہ بھی کہا جاتا تھا۔ اور بلا ضرورت درخت کاٹنے کی سختی سے ممانعت تھی۔
حسن فطرت کے تناظر میں درختوں کی جو منظر کشی قرآن نے بیان کی اسے پڑھ کر انسان فطرت کے حسین نظاروں کھو جاتا ہے۔اسی لئے شائد علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا ۔
خدا اگر دل ِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
قرآن مجید نے شجر کاری کے ساتھ جڑے معیشت اور خوشحالی کے گہرے تعلق کو بڑے خوبصورت لفظوں میں بیان کیا ہے۔ حسن فطرت کی رعنائیوں ، دلکش مناظر کو آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون قرار دیا ہے۔ میں جان بوجھ کر اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ یہ موضوع الگ تحریر کا متقاضی ہے۔
اس وقت میرے سامنے بین الاقوامی ادارے ایف اے او کی فاریسٹ ریسورس اسسمنٹ کی تفصیلی رپورٹ ہے جس کے مطابق پاکستان میں صرف 3 فیصد رقبے پر جنگلات ہیں اوراس میں بھی خطرناک حد تک مسلسل کمی ہوتی جارہی ہے۔ہمارے پڑوسی ملک بھارت کا 24فیصد سے زائد علاقہ جنگلات پر مشتمل ہے جبکہ اس میں مزید تیز رفتار توسیع کی منصوبہ بندی کی جاری ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم نے دل بھی بنجر کر لئے ہیں اور پاک سر زمین کو بھی مکمل بنجر کرنا چاہتے ہیں۔
اللہ کے نبی کا یہ فرمان مجھے اکثر و بیشتر مایوسی سے نکال کر آمادہِ عمل کرتا ہے۔ آپ کوبھی اندازہ ہوجائے گا کہ درخت لگانے کی اہمیت کیا ہے:
فرمایا ”اگر تمھارے ہاتھ میں ایک پودے کی قلم ہے اور تم اسے لگا رہے اور عین اس وقت قیامت کا اعلان ہوجائے تو بھی کوشش کرو کہ یہ پودا زمین میں لگا دو“۔
میری تحریر میں تو شائد اثر نہ ہو مگر میر ے نبی نے سنگ دلوں اور تنگ ذہنوں کو بدل کے رکھ دیا۔ اور وہ بھی صرف 23برس میں۔ ”وحشی“ تہذیب یافتہ ہوگئے۔ آئیے اس پاک سر زمین سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے ہم اپنے آپ سے عہد کریں کہ ہم میں سے ہر شخص کم از کم 20پودے لگا کر اپنے وطن کو سر سبز و شاداب بنانے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ آئیے مل کر اس بکھرے سماج کی شیرازہ بندی کریں۔ سماج کے منفی رویوں کو پیدواری اور مثبت طرز فکر دینے کی اجتماعی کوشش کریں۔ خود غرضی سے تائب ہو کر آنے والی نسلوں کو ایک خوشحال اور سر سبز و شاداب پاکستان دے کر جائیں۔ میں نے اور آپ نے جلدیا بدیر اس دنیا سے رخصت ہوجانا ہے۔ مگر آئندہ نسلوں کے لیے کچھ اچھا کر کے اپنے اگلے سفر کو صدقہ جاریہ کے ذریعے اپنے لیے باعثِ راحت و سکون بنا لیں۔
 

نایاب

لائبریرین
ممکن ہے میرے جیسے ریاکاروں کے سجدوں میں خالص سجدے صرف ان درختوں کے ہوں جو ہمیں فائدہ پہنچا جائیں۔​
جزاک اللہ خیراء کیا ہی خوبصورت پر اثر نصیحت ہے ۔
میں نے تو یہاں سعودیہ میں ہی دو پودے لگائے ہیں ۔​
 

وجی

لائبریرین
ایسے پودوں کی بارے میں آگاہی مہم چلا ئی جانی چاہیئے جو ہر فرد کو کسی نہ کسی طور پر فائدہ دے تو ہی لوگ اس میں شریک ہوسکتے ہیں۔
جیسے سنا ہے کہ تلسی کا پودہ مچھر کو دور رکھتا ہے۔
ایسے ہی پیس لیلی کے پودے کے بارے میں بھی یہی سنا ہے۔
منی پلانٹ کی بیل کے گملے کمروں میں رکھے جاسکتے ہیں اور یہ ہوا کو صاف رکھتے ہیں
اسی طرح گھروں کی چھتوں پر سبزیوں کو اگانے کی ترغیب دینی چاہیئے
 
Top