وعلیکم السّلام ۔۔ نایاب صاحب آپ کے لیئے 45 نمبر پر سوال ہے کہ ----- یہ منہ اور مسور کی دال کیوں کہا جاتا ہے ؟؟ کسی اور دال سے تشبیہ کیوں نہیں دی جاتی
السلام علیکم
محترمہ حجاب بہنا
سدا ہنستی مسکراتی رہیں آمین
بدقسمتی یا خوش قسمتی سے اس محاورے کے خالق باورچی کو صرف مسور کی دال ہی پکانا آتی تھی ۔
مسور کی دال دوسری تمام دالوں کی نسبت اک انفرادیت کی حامل ہے کہ
یہ کسی سبزی یا گوشت کے ساتھ ملا کر پکانے سے ذائقہ کی محتاج نہیں ہے ۔۔
یہ خود اپنے آپ میں اک ذائقہ رکھتی ہے ۔ جو کسی مصالحے اور شراکت کا محتاج نہیں ہوتا ۔
بہادر شاہ ظفر نے غالب کو تحفہ خاص میں مسور کی دال پکوا کر بھیجی تھی۔
جسے غالب نے دولت و دین و دانش و داد کی دال قرار دیا۔
بھیجی ہے جو مجھ کو شاہ حجم جاہ نے دال
ہے لطف و عنایات شہنشاہ پہ دال
یہ شاہ پسند دال ہے بے بحث و جدال
ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال
دروغ بر گردن راوی کسی نواب کی خدمت میں ایک باورچی پیش ہوا پوچھا ” کیا کیا پکاتے ہو؟
باورچی نے جواب دیا ” صرف مسور کی دال “ نواب صاحب نے دریافت کیا ” تنخواہ کیا لو گے؟ “
باورچی نے مروجہ تنخواہ سے چار گنا زیادہ بتائی۔ نواب صاحب نے حیرت سے کہا ” دال پکانے کی اتنی تنخواہ؟ “
باورچی تنک کر بولا ” حضور مسور کی دال ہے منہ دیکھ کر منہ کو آتی ہے“۔
جواب سن کر نواب صاحب پھڑک گئے بولے ” ٹھیک ہے تنخواہ منظور “
باورچی بولا ” حضور دو شرائط اور ہیں ایک یہ کہ ایک دن پہلے کہلا دیجئے گا، دوسرے یہ کہ گرم گرم تناول کرنا ہو گی “۔
نواب صاحب اس پر بھی راضی ہو گئے۔ کچھ دن بعد نواب صاحب کو خیال آیا باورچی کو خبر کی۔
اگلے دن دال تیار ہوئی۔ باورچی نے نواب صاحب کو اطلاع پہنچائی کہ حضور دال تیار ہے، تناول فرما لیجئے ۔
نواب صاحب کسی انتہائی اہم معاملے میں الجھے ہوئے تھے بولے تھوڑی دیر ٹھہر جاؤ۔
کچھ دیر بعد یاددہانی پر نواب صاحب نے پھر وہی جواب دے دیا۔
تیسری مرتبہ بھی نواب صاحب کھانے پر تیار نہ ہوئے تو باورچی نے
دال کی ہنڈیا ایک سوکھے درخت کی جڑ میں پٹخی اور نوکری چھوڑ کر چلا گیا۔
نواب صاحب نے باورچی کو بہت ڈھنڈوایا، نہ ملا۔ البتہ سوکھا درخت سرسبز ہو گیا۔
نایاب