ہفتۂ شعر و ادب - غزلیں

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم،

جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ محفل کی چوتھی سالگرہ کے موقعے پر 22 سے 28 جولائی 2009ء تک 'ہفتۂ شعر و ادب' منایا جا رہا ہے۔

یہ تھریڈ اسی حوالے سے ہے جس میں اردو غزلیات پوسٹ کی جائیں گی، میری کوشش یہی ہے کہ اس میں ایسی غزلیں ہوں جو اس سے پہلے ویب کی دنیا میں موجود نہیں ہیں لیکن ظاہر ہے کہ تمام ویب کا احاطہ کرنا میرے لیے مشکل ہے اور ہو سکتا ہے کہ کچھ غزلیں پہلے سے کہیں، کسی صورت میں موجود ہوں، بہرحال اپنی سی کوشش تو کر ہی رہا ہوں :)

مزید یہ کہ ان غزلیات کو اور اس سلسلے کے دیگر میرے موضوعات کو بلا تکلف اپنے بلاگ یا فورم پر کاپی کرنے کی اجازت ہے، ہاں اگر کاپی کرتے ہوئے 'اردو محفل' کا شکریہ ادا کر دیں تو عین نوازش ہوگی :)

آپ سب سے استدعا ہے کہ اگر آپ بھی کچھ ایسا شیئر کر سکیں تو عین نوازش ہوگی۔

والسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
ہستی کا ہر نفَس ہے نیا دیکھ کر چلو - احسان دانش

ہستی کا ہر نفَس ہے نیا دیکھ کر چلو
کس رُخ کی چل رہی ہے ہوا دیکھ کر چلو

زندہ ہے دل تو اس میں محبت بھی چاہیے
آنکھیں جو ہیں تو راہِ وفا دیکھ کر چلو

آذر کدے کی آنچ سے شہ پا کے یک بیک
صر صر بنی ہوئی ہے صبا دیکھ کر چلو

امسال دیدنی ہے چمن میں جنوں کا رنگ
گُل چاک کر رہے ہیں قبا دیکھ کر چلو

گُلچیں کے سدّباب سے انکار ہے کسے
لیکن اصولِ نشو و نما دیکھ کر چلو

کچھ سرپھروں کو ذکرِ وفا بھی ہے ناگوار
یہ انحطاطِ مہر و وفا دیکھ کر چلو

ہاں انفرادیت بھی بُری چیز تو نہیں
چلنا اگر ہے سب سے جدا دیکھ کر چلو

آنکھیں کھلی ہوئی ہوں تو ہر شے ہے بے نقاب
اے بندگانِ حرص و ہوا دیکھ کر چلو

ذوقِ عبودیت ہو کہ گستاخیِ نگاہ
تخمینۂ جزا و سزا دیکھ کر چلو

ناموسِ زندگی بھی بڑی شے ہے دوستو
دیکھو بلند و پست فضا دیکھ کر چلو

یہ تو بجا کہ ذوقِ سفر ہے ثبوتِ زیست
اس دشت میں سموم و صبا دیکھ کر چلو

عرفان و آگہی بھی عبادت سہی مگر
طرز و طریقِ اہلِ وفا دیکھ کر چلو

اسبابِ ظاہری پہ بھی درکار ہے نظر
باوصف اعتمادِ خدا دیکھ کر چلو

ممکن ہے روحِ سرو و سمن سے ہو ساز باز
کیا دے گئی گلوں کو صبا دیکھ کر چلو

ہر کشمکش نہیں ہے امینِ سکونِ دل
ہر موت میں نہیں ہے بقا دیکھ کر چلو

ہر لحظہ ہے پیمبرِ اندیشہ و عمل
کیا چاہتا ہے رنگِ فضا دیکھ کر چلو

یہ بھی روش نہ ہو رہِ مقصود کے خلاف
آئی ہے یہ کدھر سے صدا "دیکھ کر چلو"

ہمدرد بن کے دشمنِ دانش ہوئے ہیں لوگ
یہ بھی ہے دوستی کی ادا دیکھ کر چلو

(احسان دانش)

ماخذ: "نذرِ رحمٰن"، مجلسِ نذرِ رحمٰن، لاہور 1966ء
 

محمد وارث

لائبریرین
ہرچند کہ ساغر کی طرح جوش میں رہیے - شان الحق حقی

ہرچند کہ ساغر کی طرح جوش میں رہیے
ساقی سے ملے آنکھ تو پھر ہوش میں رہیے

کچھ اس کے تصوّر میں وہ راحت ہے کہ برسوں
بیٹھے یونہی اس وادیٔ گُل پوش میں رہیے

اک سادہ تبسّم میں وہ جادو ہے کہ پہروں
ڈوبے ہوئے اک نغمۂ خاموش میں رہیے

ہوتی ہے یہاں قدر کسے دیدہ وری کی
آنکھوں کی طرح اپنے ہی آغوش میں رہیے

ٹھہرائی ہے اب حالِ غمِ دل نے یہ صورت
مستی کی طرح دیدۂ مے نوش میں رہیے

ہمّت نے چلن اب یہ نکالا ہے کہ چبھ کر
کانٹے کی طرح پائے طلب کوش میں رہیے

آسودہ دلی راس نہیں عرضِ سُخن کو
ہے شرط کہ دریا کی طرح جوش میں رہیے

ہستی میں وہ حالت ہے دل و جاں کی کہ جیسے
جا کر کسی مینارۂ خاموش میں رہیے

کیوں دیکھیے خونابہ فشانی کو کسی کی
آرائشِ رخسار و لب و گوش میں رہیے

یا ربط خدایانِ جفا کیش سے رکھیے
یا حلقۂ یارانِ وفا کوش میں رہیے

حقّی وہی اب پھر غمِ ایّام کا دکھڑا
یہ محفلِ رنداں ہے ذرا ہوش میں رہیے

(شان الحق حقّی)

ماخذ: "نذرِ رحمٰن"، مجلسِ نذرِ رحمٰن، لاہور 1966ء
 

محمد وارث

لائبریرین
پھر ہجر و فراق کی گھڑی ہے - حکیم نیر واسطی

پھر ہجر و فراق کی گھڑی ہے
عمرِ غمِ آرزو بڑی ہے

پلکوں پہ مچل رہے ہیں انجم
کس چاند سے آنکھ جا لڑی ہے

آ جاؤ کہ ایک بار ہنس لیں
"رونے کو تو زندگی پڑی ہے"

یہ ظُلمتِ شب، یہ جوشِ گریہ
برسات کی رات کی جھڑی ہے

جنگل پہ لپک رہے ہیں شُعلے
طاؤس کو رقص کی پڑی ہے

نیّر کو سلامِ غم مُبارک
منزل مگر عشق کی کڑی ہے

(حکیم سیّد علی احمد نیّر واسطی)

ماخذ: "نقوش غزل نمبر"، چوتھا ایڈیشن، لاہور 1985ء
 

محمد وارث

لائبریرین
نہ ہوگا کاوشِ بے مدعا کا رازداں برسوں - اصغر گونڈوی

نہ ہوگا کاوشِ بے مدّعا کا رازداں برسوں
وہ زاہد، جو رہا سرگشتۂ سود و زیاں برسوں

کچھ اس انداز سے چھیڑا تھا میں نے نغمۂ رنگیں
کہ فرطِ ذوق سے جھومی ہے شاخِ آشیاں برسوں

جبینِ شوق لائی ہے وہاں سے داغِ ناکامی
یہ کیا کرتی رہی کم بخت، ننگِ آستاں برسوں

وہی تھا حال میرا، جو بیاں میں آ نہ سکتا تھا
جسے کرتا رہا افشا، سکوتِ رازداں برسوں

نہ پوچھو، مجھ پہ کیا گزری ہے میری مشقِ حسرت سے
قفس کے سامنے رکھّا رہا ہے آشیاں برسوں

خروشِ آرزو ہو، نغمۂ خاموش الفت بن
یہ کیا اک شیوۂ فرسودۂ آہ و فغاں برسوں

نہ کی کچھ لذّتِ افتادگی میں اعتنا میں نے
مجھے دیکھا کِیا اُٹھ کر غبارِ کارواں برسوں

وہاں کیا ہے؟ نگاہِ ناز کی ہلکی سی جنبش ہے
مزے لے لے کے اب تڑپا کریں اربابِ جاں برسوں

محبّت ابتدا سے تھی مجھے گُلہائے رنگیں سے
رہا ہوں آشیاں میں لے کے برقِ آشیاں برسوں

میں وہ ہر گز نہیں جس کو قفس سے موت آتی ہو
میں وہ ہوں جس نے خود دیکھا نہ سوئے آشیاں برسوں

(اصغر گونڈوی)

-----
ماخذ: "نقوش غزل نمبر"
 

شاہ حسین

محفلین
بہت خوب وارث صاحب عمدہ سلسلہ و شراکت ہے ۔

میں بھی کوشش کرتا ہوں ۔ کچھ غزلیں و نظمیں ڈھونڈ کر نکال رکھیں تھیں جانے کس خیال سے اس سے بہتر موقع ہو نہیں سکتا ۔
 

شاہ حسین

محفلین
دل کا رونا ٹھیک نہیں ہے ، منہ کو کلیجہ آنے دو ۔ ( اثر لکھنوی )

اثر لکھنوی


دل کا رونا ٹھیک نہیں ہے ، منہ کو کلیجہ آنے دو
تھمتے ہی تھمتے اشک تھمیں گے ، ناصح کو سمجھانے دو

کہتے ہی کہتے حال کہیں گے ، ایسی تمہیں کیا جلدی ہے
دل کو ٹھکانے ہونے دو اور آپ میں ہم کو آنے دو

بزم طرب میں دیکھ کے مجھ کو پھیر لیں آنکھیں ساقی نے
میرے لئے تھے زہر ہلاہل ، اس کے بھرے پیمانے دو

خود سے گریباں پھٹتے تھے اکثر ، چاک ہوا میں اڑتے تھے
اب کے جنوں کا جوش نہیں ہے ، آئی بہار تو آنے دو

یاد دل گم گشتہ میں میں ٹھنڈی آہیں بھرتا تھا
ہنس کے ستمگر کہتا کیا ہے ، بات ہی کیا ہے جانے دو

دل کے اثر کو لوٹ لیا ہے شوخ نگہہ اک کافر نے
کوئی نہ اس کو رونے سے روکو ، آگ لگی ہے بجھانے دو
 

شاہ حسین

محفلین
آرتی ہم کیا اُتاریں تیرے خد و خال کی - - (پریم واربرٹنی )

پریم واربرٹنی

آرتی ہم کیا اُتاریں تیرے خد و خال کی
بجھ گئی ہر جوت ، پوجا کے سنہیری تھال کی

جب کسی لمحے نے بھی روکر پکارا آپ کو
توڑ ڈالی عمر نے زنجیر ، ماہ و سال کی

تم تو کیا دستک نہیں دیتیں ہوائیں تک یہاں
دل ہے یا سنسان کُٹیا ہے کسی کنگال کی

پھر اُگانے دو یہاں ہم کو لہو کے کچھ گُلاب
آپ نے تو شاہراہ دل بہت پامال کی !

سُرخ شعلوں کے سمندر سے نکالا ہے جسے
چاندنی ہے یا کوئی مچھلی ہوس کے جال کی

تو مقدّس آنکھ ہے یعنی حسین سُورج کی آنکھ
اور میں گہری گپھا وہ بھی کسی پاتال کی

پوچھتی ہیں پریم چنڈی گڑھ کی اکثر لڑکیاں
آپ کے ہر شعر میں خوشبو ہے کیوں بھوپال کی
 

محمداحمد

لائبریرین
غزل

میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی

ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ، وہ کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے دار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی

سرِ طور ہو، سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی، وہ کہیں سہی

نہ ہو اُن پہ جو مرا بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں اُن ہی کا تھا، میں اُن ہی کا ہوں، وہ مرے نہیں، تو نہیں سہی

جوہو وہ فیصلہ وہ سُنائیے، اسے حشر پر نہ اُٹھائیے
جو کریں گے آپ ستم وہاں، وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

نوٹ:میرے پاس فی الحال شاعر کا نام جاننے کا واحد ذریعہ مقطع ہے، پورا نام اگر کسی دوست کے علم میں ہو تو مطلع کردے۔
 

مغزل

محفلین
غالب
کی ستم پیشہ ڈومنی کے نام

دہر میں نقش ِ وفا وجہِ تسلّی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا

سبز ۂ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا
یہ زمَّرُد بھیِ حریفِ دمِ افعی نہ ہوا

میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

دل گزرگاہِ خیالِ مئے و ساغر ہی سہی
گر نفس جادۂ سر، منزلِ تقوی نہ ہوا

ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں بھی راضی کہ کبھی
گوش منّت کشِ گلبانگِ تسلّی نہ ہوا

کس سے محرومیِ قسمت کی شکایت کیجئے
ہم نے چاہا تھا کہ مرجائیں ، سو وہ بھی نہ ہوا
 

مغزل

محفلین
غزل

یوں بظاہرمری کوتاہی نہیں ہے کوئی
سلسلہ دائمی ہوتا ہی نہیں ہے کوئی

پاؤں دھرنے کی طلب میں جو اضافہ کیجئے
سر پٹکتے رہیں کہ جاَ ہی نہیں ہے کوئی

عکس پانی میں رہے یا کہ سرِ آئینہ
گویا مہتاب تو اونچا ہی نہیں ہے کوئی

درد کو جانئیے درماں، نہ توقع رکھیئے
مت سمجھیے کہ مداوا ہی نہیں ہے کوئی

آنکھ اُٹھّے تو نگاہوں میں ہوں رقصاں منظر
چلنے لگ جائیں تو رستا ہی نہیں ہے کوئی

اُس کا ثانی نہ اگر ہاشمی دیکھا جائے
ہم سمجھ لیں گے ہم سا ہی نہیں ہے کوئی

٭سیدانورجاویدہاشمی٭
 

مغزل

محفلین
غزل

جنگل میں کبھی جو گھر بناؤں
اُس مور کو ہم شجر بناؤں

بہتے جاتے ہیں آئینے سب
میں بھی تو کوئی بھنور بناؤں

دُوری ہے بس ایک فیصلے کی
پتوار چُنوں کہ پَر بناؤں

بہتی ہوئی آگ سے پرندہ
بانہوں میں سمیٹ کر بناؤں

گھر سونپ دوں گردِ رہ گزر کو
دہلیز کو ہم سفر بناؤں

ہو فرصتِ خواب جو میسّر
اک اور ہی بحر و بر بناؤں


ثروت حسین​
 

مغزل

محفلین
غزل

آسماں تک ملی زمیں آباد
ہوگئی تھی کہاں جبیں آباد

چھٹ رہا تھا غبارِ دشتِ گُماں
آرہا تھا نظر یقیں آباد

سانس لیتا کہ میں سفر کرتا
سارا عالم تھا عنبریں آباد

آبسا تھا وہ میری آنکھوں میں
آنسوؤں سے تھی آستیں آباد

میرے آغوش میں دلِ برباد
تیرے پہلو میں ہم نشیں آباد

یوں بھی ہوتا ہے عشق میں شاید
میں کہیں خاک تو کہیں آباد

جانِ محفل تجھے خدا رکھّے
مطمئن شاد خوش نشیں آباد

لیاقت علی عاصم
( غیر مطبوعہ)
 

مغزل

محفلین
غزل

فکر میں وحشتِ عمل کیا ہے
اے غزالاں مری غزل کیا ہے

چاند اٹکا ہو جیسے شاخوں میں
اور صبرورضا کا پھل کیا ہے

آج ہی کوئی انتظام کرو
میں نہیں جانتا یہ کل کیا ہے

زندگی تیرے عہد میں اے دوست
مسئلہ ہے کوئی تو حل کیا ہے

رات بھر کی قدم سرا شاید
جھونپڑا کیا ہے اور محل کیا ہے

آپ سمجھیں مجھے نہ سمجھائیں
زندگی کیا ہے اور اجل کیا ہے!


لیاقت علی عاصم
(غیر مطبوعہ)​
 

مغزل

محفلین
غزل

آگ کے سامنے ہوا نہ ہوا
ہوکے وہ راکھ سا روانہ ہوا

بے فراق و وصال ٹھہرا عشق
اُس سے کوئی معاہدہ نہ ہوا

گفتگو میں بھی کوئی بات نہ کی
خامشی میں بھی چُپ ذرا نہ ہوا

جس دوا میں تھا جان کا نقصان
اُس دوا سے بھی فائدہ نہ ہوا

کوئی تجھ سا ہو خاک دنیا میں
کوئی مجھ سا مرے سوا نہ ہوا

لیاقت علی عاصم

غیر مطبوعہ
 

مغزل

محفلین
غزل

اثباتِ یقیں نفی گماں کچھ نہیں کرتے
بس جیتے ہیں ہم لوگ میاں کچھ نہیں کرتے

ڈرتے ہیں دھڑکتا ہوا دل بند نہ ہوجائے
جب دیکھتے ہیں آہ و فغاں کچھ نہیں کرتے

سب چھوڑدیا گردشِ افلاک پہ ہم نے
اب ترکِ زماں نقلِ مکاں کچھ نہیں کرتے

سب عشق و ہوس رشک و حسد ہم سے خفا ہیں!
رہنے دو خفا کہہ دو کہ ہاں کچھ نہیں کرتے

یہ دوستیاں دشمنیاں تم کو مبارک
ہم دوستیاں دشمنیاں کچھ نہیں کرتے


لیاقت علی عاصم
غیر مطبوعہ​
 

مغزل

محفلین
غزل

ترے بغیر شناسائیوں کی تنہائی
یہ انجمن ہے کہ تنہائیوں کی تنہائی

چراغ میں نے بجھاتا تو چاند سے اتری
ترے خیال کی پرچھائیوں کی تنہائی

اِدھر میں جسم کے آلودہ سلسلوں کا ہجوم
اُدھر وہ روح کی رعنائیوں کی تنہائی

بدن کے دائروں میں اک وہ خالِ لب اُس کا
وہ ایک نقطے میں گولائیوں کی تنہائی

نہ بنتِ صبح نہ وہ دخترانِ شام رہیں
رہی تو وقت کی کی انگڑائیوں میں تنہائی

ہوا بھی آگ بھی پانی بھی اور مٹی بھی
مرا بدن ہے کہ یکجائیوں کی تنہائی

کسی دیار میں ٹھہروں کہ دشت سے گزروں
وہی ہوں میں وہی پہنائیوں کی تنہائی

کوئی کسی کو ملا ہی نہیں محبت میں
ہر ایک قصہ ہے رسوائیوں کی تنہائی

کسی بھی جھوٹ کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو
بڑا عذاب ہے سچائیوں کی تنہائی


لیاقت علی عاصم
(غیر مطبوعہ)​
 

مغزل

محفلین
غزل

خاموشی کی باتیں زندہ رہتی ہیں
بادل میں برساتیں زندہ رہتی ہیں

پیڑ نہ ہوں تو یاد آئیں اُس کی پلکیں
سایوں کی سوغاتیں زندہ رہتی ہیں

رستوں میں بے رستہ ہوجاتے ہیں لوگ
اُن قدموں کی گھاتیں زندہ رہتی ہیں

روحوں کی نزدیکی جسموں کی دوری
قصّوں میں دو باتیں زندہ رہتی ہیں

جن آنکھوں نے تم کو دیکھا پھر اُن میں
دن جیتے ہیں راتیں زندہ رہتی ہیں


لیاقت علی عاصم
غیر مطبوعہ​
 
Top