ہفتۂ شعر و ادب - نظمیں

علی فاروقی

محفلین
آن باقی ہے،،،،جوش ملیح آبادی

ہنوز عشق و محبت کی شان باقی ہے
وہی زمیں ہے وہی آسمان باقی ہے
جبیں پہ گو،شکنِ عقل ہے زمانے کی
مگر نظر میں جنوں کا نشان باقی ہے
ربابِ فصلِ بہاری خموش ہے کب سے
ہنوز مطربِ وحشت کی تان باقی ہے
وہاں جفا ہی جفا رہ گئ ہے مدت سے
یہاں جفا پہ وفا کا گمان باقی ہے
جفا کا اب نہیں اگلا سا بانکپن قائم
مگر وفا کی وہی آن بان باقی ہے
وہ جوش چھوڑ چکے ناوک افگنی پھر بھی
چمکتا تیر لچکتی کمان باقی ہے
 

زرقا مفتی

محفلین
اب مجھے بھول رہا ہے

اب مجھے بھول رہا ہے کہ وہ گھر کونسا تھا
جس کے لیے میں نے ستاروں پہ کمندیں ڈالیں
ابر پاروں کے اُترنے کو بنائے زینے
اب مجھے بھول رہا ہےکہ وہ غم کونسا تھا
جس نے ستاروں سے بھرے باغ کو بے نور کیا
ابر پاروں سے اُڑا لیں بوندیں
اب مجھے بھول رہا ہے کہ وہ شے کونسی تھی
جس کے لیے بھاگ رہی تھی میں ہوا کے پیچھے
ایسے رستے پہ جہاں وقت بھی موجود نہ تھا
اب مجھے بھول رہا ہے کہ وہ لمحہ کیا تھا
سالہا سال جسے میں نے قفس میں رکھا
جس کی چیخیں مجھے دہلاتی رہیں
اور چادر میں چھپائے منہ کو
نیند کو میں نے بہانہ رکھا
اب مجھے بھول رہا ہے کہ وہ دل کونسا تھا
جس کے لیے میں نے بڑا ظلم کیا
خود پہ کہ اوروں پہ
یہ ظاہر نہیں ہوتامجھ پر
ظلم سا ظلم
کہ جس کی کوئی حد ہے نہ شروعات کہیں
اب مجھے بھول رہا ہے کہ وہ دن کونسا تھا
جب مجھے معلوم ہوا تھا
کہ کسی سچ میں کوئی وزن نہیں
عدل کے بھی کئی مفہوم ہیں اور
ظلم کی طرح سزا کی کوئی معیاد نہیں

یاسمین حمید
 

الف عین

لائبریرین
نسیاں کی عمارتِ شکستہ

شاذ تمکنت

نسیاں کی عمارتِ شکستہ
چپ چاپ، اداس، سر جھکائے
مبہوت، خراب حال، گم صم
کُہرے کی رِدا میں منہ چھُپائے
وقتٕ گزراں کو تک رہی ہے
لمحوں کے بدن کی روح جیسے
کھنڈروں میں کہیں بھٹک رہی ہے

دالان، ستون، سقف، زینے
کرتے ہوئے سائیں سائیں، جیسے
رہ رہ کے کہیں کوئ پرندہ
بولے تو فضا کی سانس ٹوٹے
اعضا شکنی سکوتِ شب کی
یہ نیم قمر، یہ زرد محراب
سناٹے کی تھرتھراہٹوں میں
جھنکاریں ہیں محوِ راحتِ خواب

جب پچھلے پہر ہوا کا جھونکا
سنکے تو دریچے چرچرائیں
زنجیر کا کرب کسمسائے
پرچھائیاں صف بہ صف نکل آئیں
پرچھائیاں۔۔۔ سرخ، سبز، نیلی
نارنجی، سیہ، سفید، پیلی
دھُندلاہٹیں، سوچ، ہُو کا عالم
سب شہر و دیار لٹ گئے ہیں
کس طرح ہوئے صدا بہ صحرا
وہ لوگ۔۔ جو مجھ سے چھُٹ گئے ہیں

۔۔شعر و حکمت، دور اول، 1971ء
 

الف عین

لائبریرین
صدا دوئ کی آبنا کے آر پار

ن۔ م۔ راشد

ہمیں ہیں وہ کہ جن کی اک نگاہ سے
صدا دوئ کی آبنا کے آر پار اُتر گئی

نہیں مجھے نہ کھاؤ تم
نہیں کہ میں غذا نہیں
مجھے نہ کھا سکو گے تم
میں آب و نان سے بندھا ہوا نہیں
میں اپنے آپ سے بھرا ہوا نہیں
ہیں میرے چار سو وہ آرزو کے تار
تارِ خار دار
جن کو کھا نہیں سکو گے تم
نہیں مجھے نہ کھاؤ تم
ابھی نہ کھا سکو گے تم!

یہ سانپ دیکھتے ہو کیا؟
تمہارے جسم و جاں میں کھا رہا ہے بل
تمام دن، تمام رات
(وہ سانپ جس سے سب سے پہلی مرتبہ بہشت میں ملے تھے تم)
کبھی یہ اپنے زہر ہی میں جل کے خاک ہو گیا
کبھی یہ اپنے آپ کو نگل کے پاک ہو گیا
کبھی یہ اپنے آپ ہی میں سو گیا
تو پھر کھلیں گے سب کے ہاتھ
اب کے پاؤں اس نئے الاپ کی طرف بڑھیں گے
جس سے ہر وصال کی نمود ہے
نہیں مجھے نہ کھاؤ تم

یہ جانتے نہیں ہو تم
نہنگ مچھلیوں کو کھا رہے تھے۔۔۔
کھا رہے تھے
آخر اک بڑا نہ نہنگ رہ گیا
ہزار من کا اک بڑا نہنگ (اکیلی جان) زندہ رہ گیا
اور اپنے اس اکیلے ہن سے تنگ آ کے
اپنے آپ ہی کو کھا گیا!!
کہ نان و آب سے بندھے ہوؤں کا۔۔۔
اپنے آپ سے بھرے ہوؤں کا۔۔۔۔۔
بس یہی مآل ہے
یہ آخری وصال ہے!

مگر وہ عشق۔۔۔ جس کی عُمر ہم سے بھی طویل تر
وہ محض اشتہا نہیں
وہ محض کھیل بھی نہیں
وہ آب و نان کا رکا ہوا سوال بھی نہیں
وہ اپنے ہی وجود کا حسد نہیں
جو موت نے بچھا رکھا ہو
ایسا نا گزیر جال بھی نہیں

یہ ہم
جو حادثے کے لائے گِل سے یا
نصیب کے غبار سے نہیں اٹھے
ازل کے حافظے کے درد سے اٹھے
جو ہوش کے شگاف سے
جو استوائے جسم و روح سے اٹھے

ہمیں نہ کھا سکو گے تم
ہمیں ہیں وہ کہ جن کی اک نگاہ سے
صدا دوئ کی آبنا کے آر پار اُتر گئی
اور اس صدا سے ایک ایسا مرحلہ برس پڑا
جو بے نیازِ بُعد تھا
جو مشرقِ وجود تھا
وہ مرحلہ برس پڑا

تو کس طرح کہوں کہ ہم
تمام آب و نان کا رکا ہوا سوال ہیں؟
تمام اپنی بھوک کا جواب ہیں؟
نہیں مجھے نہ کھاؤ تم
کہ ایک میری جرأت نگاہ سے
تمام لوگ جاگ اٹھے
صدا کی شمع ہاتھ میں لئے ہوئے
دوئ کی آبنا کے آر پار ڈھونڈھنے لگے
اُسہ طلوع کی خبر
جو وقت کی نئ کرن کے پھوٹتے ہی، ساحلِ نمود پر
کم التفات انگلیوں کے درمیاں سے نا گہاں پھسل گیا
کہ وہ طلوع جس کو رو چکے تھے ہم
پھر آج ان کے ساحلوں کی ریت سے
جھلک اٹھے


شعر و حکمت، 1971
 

الف عین

لائبریرین
ٹھہرے جو ہوا
شہر یار



ٹھہرے جو ہوا
آنکھ میں سہمے ہوئے منظر کو دکھائیں
شبنم سے لدی شاخ کی تصویر بنائیں
وہ دور ادھر
ریت کی دیوار تھی۔
دیوا کے پیچھے اک شہر تھا
اس شہر کی سرحد پہ بہت لوگ کھڑے تھے
وہ لوگ خلاؤں کی طرف دیکھ رہے تھے
اور شہر کی ہر راہ پہ سنٓاٹے بچھے تھے
اُس شہر کی روداد سنیں اور سنائیں
پلکوں سے چلو، ریت کی دیوار گرائیں
ٹھہرے جو ہوا
آنکھ میں سہمے ہوئے منظر کو دکھائیں
شبنم سے لدی شاخ کی تصویر بنائیں

شعر و حکمت، شمارہ 4، 1971
 

الف عین

لائبریرین
چاند پر

محمد علوی

وہاں کون تھا
کس سے کہتے کہ ہم
بستیوں میں رہے
پر اکیلے رہے
کس سے کہتے کہ ہم
چھوڑ کر بستیاں
بھاگ کر آئے ہیں
کس سے کہتے کہ ہم
اپنی تنہائیاں
ساتھ ہی لائے ہیں
وہاں کون تھا؟
 

الف عین

لائبریرین
ایک نظم
چودھری محمد نعیم



رات سایوں نے پھر محبت کی
صبح سوچا کہ آسمان کا رنگ
روز سے کچھ زیادہ گہرا ہے
آج ۲۵ مئی کا سورج
کل کے سورج سے بھی سنہرا ہے
زندگی کو گداز لمحوں میں
بانٹ کر کس قدر مسرت سے
درد کو زخم میں چھپاتے ہیں
شام کو صبح سے ملاتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
ایک شام​

اطہر نفیس

اس نئے پارک میں
بنچ پر بیٹھتے بیٹھتے
اس نے مجھ سے کہا
’’آئیے بیٹھئے!‘‘
اور میں ۔۔۔ جانے کیا سوچ کر
اس سے دامن کشاں
اپنے گھر آ گیا

اپنے گھر آ گیا
میرے سہینے میں ایسا کوئی دل نہیں
جو محبت میں تقسیم ہوتا رہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
اگر کسی معزر ممبر کے پاس شاذ تمکنت کی نظم جس کا عنوان مجھے یاد نہیں رہا لیکن چند مصرعے یاد ہیں، شئیر کر سکیں تو بہت عنایت ہوگی۔

میں نے دیکھے ہی نہیں جور و جفا کے انداز
چمنِ عشق میں پائی ہی نہیں بوئے رقیب
مطلعِ عشق پہ ابھرا ہی نہیں روئے رقیب
 

الف عین

لائبریرین
شاذ کا مجموعہ میرے پاس ہے، گھر میں ’تراشیدہ‘ دیکھ کر پوسٹ کرتا ہوں فرخ انشا ء اللہ۔ (لیکن شاید کل، آج شادی میں جانا ہے دفتر کے بعد۔ وہاں شاید دیر ہو جائے۔
 

الف عین

لائبریرین
مزید یہ کہ اس دھاگے میں مزید ٹیگز کا اضافہ ممکن نہیں۔ افسوس کہ وہ نظمیں جو کہیں نہیں ملتیں، یہاں ڈھونڈھی بھی نہ جا سکیں گی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اعجاز صاحب، میں نے اب تک اس تھریڈ میں پوسٹ ہونے والے سبھی شعرا کے نام کے ٹیگز لگا دیے ہیں۔

ایک موضوع کو زیادہ سے زیادہ 25 ٹیگز لگ سکتے ہیں، اور اس تھریڈ کو 24 ٹیگز لگ گئے ہیں!
 

ملائکہ

محفلین
یہ جو موت ہے



یہ اُصول ہے
کوئی کوہ کن ، کوئی کاریگر
کسی کہکشاں میں دراز ہے
کوئی کوچہ کوچہ سفر میں دُور نکل گیا
جہاں کائنات نے تھک کے گرنا ہے ایک دن
وہاں وقت پہلے سے ہانپ ہانپ کے سوچکا
یہ جو موت ہے
یہ بھی اک طرح کا جہان ہے
کوئی راز، جس میں ہزار راز کے در کُھلیں
یہ جو موت ہے
یہ بھی زندگی ہے کسی طرح کی چُھپی ہوئی
کوئی ہنستا ہنستا مرے گا آج
تو کل کو ہنستا ہوا اُٹھے گا خود اپنی موت
کی کوکھ سے
کوئی کوہ کن
اگر اپنے کام سے ہٹ گیا
کوئی کاریگر
اگر اپنے کام میں بٹ گیا
کوئی کہکشاں میں پڑا رہا
یا اگر کسی بھی گلی میں، شہر میں دشت میں یا کہیں بھی وقفِ نظر
ہوا
وہ اُٹھے گا کب
وہ گِرا رہے گا سکُوت میں
وہ پڑا رہے گا جُمود میں
یہ اصول ہے
یہ جو موت ہے یہ اصول ہے
-------------------------------------
فرحت عباس شاہ
 

محمد وارث

لائبریرین
"ایک مجسّمہ"

(ضیا جالندھری)


لوحِ احکام ہوئی ایک ہی جھٹکے میں دو لخت
دیکھا جاتا نہ تھا پیغمبرِ سینا کا جلال
لب سفید، آنکھیں تپاں، رُخ سے عیاں صدمۂ سخت
اور ان آنکھوں سے اُبلتا ہوا اک قہرِ عظیم
شعلہ در شعلہ رواں سوئے بنی اسرائیل
بے اثر تم پہ ہر اک معجزہ و حرف و دلیل

مائیکل اینجلو، وہ طیش و الم کا لمحہ
تیرے تیشے نے تراشا ہے کس انداز کے ساتھ
اس قدر درد، پھر اس طنطنہ و ناز کے ساتھ

تیری تخلیق کا یہ سحر ہے بے قیدِ زماں
اہلِ دل کے لیے زہراب ہے یہ آگاہی
کہ اس انسان کی گمراہی وہی ہے کہ جو تھی
لاکھ سقراط اسے راستہ دکھلاتے رہیں
اس کی قسمت میں وہی تیرہ شبی ہے کہ جو تھی
لاکھ موسیٰ یہاں خورشید بکف آتے رہیں

----
ماخذ: "فنون"، لاہور - جولائی 1963ء
 

الف عین

لائبریرین
ابھی گھر میں کافی ڈھونڈھا۔ لیکن شاذ کا ’تراشیدہ‘ نہیں مل سکا۔ ویسے امتیاز الدین صاحب ان کے چھوٹے بھائی ہیں، ان سے ربط ہے اور شاژ کی کلیات پچھلے سال چھپی تھی تو اس میں پروف ریڈنگ بھی میں نے کی تھی۔ تراشیدہ نہیں تو اس کی فائل ملنے کی امید ہے۔
ویسے افسوس ہے کہ ‘تراشیدہ‘ نہ جانے کس کو پیاری ہو گئی!!
 

مغزل

محفلین
ماشا اللہ ، اس بار تو خاصا خزانہ جمع ہوا ہے کلام کی مد میں، وارث صاحب کیا اس کی ای بک نہیں بنائی جاسکتی ، اور غزلوں کی لڑی کی بھی ؟
 
Top