صفحہ 14 ، مراسلہ 22
مفید المستفید: علی بن احمد الغوری جس کا نمبر AR d II 71 ہے۔ پنجاب یونیورسٹی لائبریری کی ملکیت ہے۔ کتاب کا سنہ کتابت 759 ھ ہے۔
اس کا خط تعلیق ہے۔ چونکہ مصنف ہندوستان سے متعلق ہے اور نسخہ بھی ظاہرا ہندوستان میں لکھا گیا ، اس مناسبت سے اسے تعلیق "ہندوستان" کہا گیا ہے۔
کتاب کا صفحہ 13 ملاحظہ ہو۔ خط کے خصائص واضح ہو جائیں گے۔ اس میں "د" کی ساخت ملاحظہ ہو۔ اس کی شکل نسخ کی سی ہے لیکن ہر جگہ باقی خط سے "د" کو اصولا زیادہ بڑا کیا گیا ہے۔ سطر نمبر 1 میں المقصود کی "د" ملاحظہ ہو۔ نیز سطر نمبر 16 "کہ" کو ہر جگہ "کر" لکھا ہے۔ یائے مجہول کو یای معروف کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ نسخ کے دائرے قدرے گولائی اختیار کر رہے ہیں۔ گ کو ک لکھا گیا ہے۔
تختی 15:
رواں اور مصنوع تعلیق ( آخری حصہ آٹھویں صدی ھجری)
دیوانِ سعدی (spi VI 18 A)
پروفیسر شیرانی اس خط کو
خطِ بہار کہا کرتے تھے۔
ورق 42 ب ملاحظہ ہو۔ یہ نسخ کی ہموار روانی کے خلاف آزادی کا کھلا اعلان ہے۔ شکستہ بھی اسی کے اندر سے نکلتا ہوا نظر آتا ہے۔ خط کا ردھم خود بخود جوش زن ہے۔ سطر 6 ملاحظہ ہو۔ خطاط نے حروف کی نچلی سطح کو ہم رنگ اور ہم قدم رکھنے کی خاص کوشش کی ہے۔
دراں صورت کہ عشق آمد خرد مندی کجا ماند
میں ن کا لٹکا ہوا دائرہ ہے اس کے محاذ میں ت اور ق کے ن کو ہم شکل بنایا ہے۔ اس کے بعد کی سطر میں د کے دائرے لٹکے ہوئے جا رہے ہیں ۔ سارے شعر پر