ہمارا تعلیمی نظام

راشد احمد

محفلین
تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتی ہے. تعلیم کی بدولت ہی انسان اچھے برے کی تمیز کر سکتا ہے یعنی تعلیم ہی مسائل کا حل ہے لیکن ہمارا تعلیمی نظام ہمارے مسائل حل کرنے کی بجائے مسائل بڑھا دیتا ہے۔ آپ خود دیکھیں کہ پاکستان میں تین قسم کے تعلیمی نظام ہیں اور یہ تین طبقاتی تعلیمی نظام ہمارے ملک کی کوئی خدمت نہیں کر رہے بلکہ ہمارے ملک اور نوجوان نسل کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں. ان نظام کی وجہ سے ہمارے طلبا کی ڈگریوں کو بیرون ملک خاص اہمیت نہیں دی جاتی اور انہیں دوبارہ سے اپ گریڈ ہونا پڑتا ہے. بہت سی تنظیموں اور دانشوروں نے اس نظام کے خلاف آواز اٹھائی لیکن حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی. شاید یہ ان کے نوٹس میں نہیں یا وہ لاپرواہ بیٹھے ہیں یا وہ اسے اتنا اہم مسئلہ نہیں سمجھتے۔

1۔ اردو میڈیم جو سرکاری سکولوں یا گلی محلوں کےسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ جس میں اردو مضامین اور اسلامیات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اور ان سکولوں میں غریبوں کے بچے ہی پڑھ سکتے ہیں۔اور ان سکولوں کے طلبا کو رٹا سسٹم پر لگایا جاتا ہے۔جو ان کے مستقبل کے لئے کار آمد نہیں ہے.

2۔ انگلش میڈیم جو بیکن ہاوس، دی ایجوکیٹرز، کیتھڈرل سکول نمایاں ہیں ان سکولوں کی فیسیں زیادہ ہیں جس کی وجہ سے صرف امرا، جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی اولادیں ہی پڑھ سکتی ہیں۔ کسی غریب آدمی کی اولاد مالی حالات کی وجہ سے یہاں نہیں پڑھ سکتی۔ ان سکولوں میں اسلامی مضامین، اردو کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔

3۔ مدرسے۔ جن میں اسلامی مضامین کو اہمیت دی جاتی ہے جبکہ انگلش، کمپیوٹرسائنس، سائنس کے مضامین کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جبکہ بعض مدرسے فرقہ واریت، انتہا پسندی اور نفرت پھیلاتے ہیں اور طلبا کی توجہ صرف دینی علوم پر ہی رکھتے ہیں ۔ ان کے طلبا کو صرف یہی بتایا جاتا ہے کہ ان کو صرف مولوی بننا ہے نا کہ ڈاکٹر، سائنسدان، انجینیر وغیرہ.

ہمارے ہاں کوئی تعلیمی نظام مکمل نہیں ہے تو پھر ہم میں شعور کیسے آئے گا۔ یہ سب تعلیمی نظام غریب عوام کے طلبا میں احساس کمتری پیدا کرتے ہیں اردو میڈیم کے طالب علم جب تعلیم سے فارغ ہوتے ہیں تو ان کو ان کوکوئی اچھی نوکری وغیرہ نہیں ملتی۔ یہ لوگ ایم اے یا بی اے کی ڈگری لے کر بھی اچھی طرح انگلش نہیں بول سکتے اور ان میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے. جبکہ انگلش میڈیم کے اکثر طلبا میں یہ بات نوٹ کی ہے کہ وہ اردو میں کمزور ہوتے ہیں اور اردو نہ تو ٹھیک طریقے سے لکھ پاتے ہیں اور نہ ہی پڑھ سکتے ہیں اور یہ طلبا اردو مضامین میں اکثر کمزور ہوتے ہیں. مدرسے سے فارغ التحصیل طلبا کا مسئل یہ ہے کہ انہوں نے صرف قرآن، فقہ، حدیث وغیرہ پر عبور حاصل کیا ہوتا ہے جبکہ وہ نہ تو کوئی کلرک قسم کی نوکری کر سکتے ہیں نہ ہی سائنسدان، ڈاکٹر یا انجینئر بن سکتے ہیں. زیادہ تر طلبا کسی مسجد میں امامت شروع کردیتے ہیں یا کسی مدرسے میں پڑھانا شروع کر دیتے ہیں یا پھر وہ حمد و نعت خوانی شروع کر دیتے ہیں. میرے خیال ان افراد کو ہمارے ہاں ایک الگ طبقہ تسلیم کیا جاتا ہے.

میرے خیال میں ایک یکساں تعلیمی نظام جوطلبا کی بہتر رہنمائی کرے اور اس تعلیمی نظام میں جہاں سائنس، ٹیکنالوجی، انگلش، کمپیوٹر کو اہمیت دی جائے وہاں اردو اور اسلامیات اور دیگر دینی علوم کو بھی خصوصی اہمیت دی جائے. اور یہ تعلیمی نظام رٹا سسٹم کا سخت مخالف ہو اور پورے پاکستان کا تعلیمی نظام ایک ہی ہو تاکہ ہم نسلی اورصوبائی عصبیت سے نکل سکیں. اور ہم قابل اور باصلاحیت افراد پیدا کر سکیں.

اس سلسلے میں حکومت کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے. اگر حکومت پورے پاکستان کا تعلیمی نظام ایک کر دیتی ہے تو ہمارے بہت سے مسائل خود بخود حل ہوتے جائیں گے جن میں نوجوانوں میں اعتماد کی کمی، نوجوان نسل کے نفسیاتی مسائل، بہتر مواقع کا مسیر نہ ہونا، باصلاحیت افراد کی کمی وغیرہ شامل ہیں.
 

ارشد خان

محفلین

ہمارا تعلیمی نظام ۔۔۔۔۔۔۔ شروع سے لے کر آخر تک ہمیں کتاب حفظ کرنے پر زور دیا جاتا ہے ۔
اصل چیز کیسی سبجیکٹ کا سمجھنا ہوتا ہے ۔ استاد بچے کو ایک مشین سمجھتا ہے ۔
جو سب ڈیٹا کو اپنے ذہن میں فیڈ کر لے ۔۔۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔ ہر سبجیکٹ کا زندگی سے تعلق ہوتا ہے ۔
بچوں کو یہ بتانا چاہیے ۔۔۔ بے شک سا ل بعد امتحا ن والا سسٹم نہ ہو ۔ مغرب میں یہی ہوتا ہے ۔ اس لئے وہاں بچے
خلا کو تسخیر کر رہے ہیں ۔ جب کہ ہمارے ہاں ایک تو گھر بچھے کو نظر انداز کرتا ہے ۔
دوسرا استاد ۔۔۔۔ تیسرا معا شرہ طا لب علم کو وہ مقام نہیں دیتا ۔ حالانکہ یہی طا لب علم ہو سکتا ہے مستقبل میں وطن کا مسیحا ثابت ہو ۔

خوش رہو پاکستا ن
 

بلال

محفلین
بہت خوب راشد احمد صاحب اور ارشد خان صاحب۔ جب تک ہم ذہنی طور پر غلامی سے نجات نہیں لے لیتے تب تک ہمارا کچھ نہیں‌ہو سکتا۔ ہمارے بزرگوں نے برطانیہ سے آزادی لی تھی اور اب ہمیں برطانیہ کی زبان اور کلچر سے بھی آزادی لینی ہو گی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ انگریزی زبان اور کلچر بہت برے ہیں لیکن کم از کم ان کی غلامی اچھی نہیں۔ جب تک اردو میں انگریزی کا تڑکہ ختم، نظام تعلیم کے بے شمار معیار ختم اور ہماری سوچ تبدیل نہیں ہو گی تب تک چاہے کوئی بھی نظام ہو ہم ترقی نہیں کر سکیں گے۔۔۔ ہماری عوام میں سب سے پہلی تفریق ہی اردو، انگریزی اور لباس سے شروع ہوتی ہے۔
اللہ تعالٰی آپ سب کو خوش رکھے۔۔۔آمین
والسلام
 

arifkarim

معطل

مغرب میں یہی ہوتا ہے ۔ اس لئے وہاں بچے
خلا کو تسخیر کر رہے ہیں ۔ جب کہ ہمارے ہاں ایک تو گھر بچھے کو نظر انداز کرتا ہے ۔

مغرب کا تعلیمی نظام بھی کوئی معرکہ نہیں ہے۔ یہاں بھی صرف وہی طلباء کچھ بن سکتے ہیں۔ جو یا تو قدرتی طور پر لائق ہوں یاجنکے والدین اپنے بچوں پر خاص توجہ دیں۔۔۔۔
مغرب میں بھی اسٹیٹ اسکولز کیساتھ پرائویٹ اسکولز مثلا کیتھڈرل اسکولز موجود ہیں۔ جہاں‌پر صرف امراء کی اولادیں ہی پڑھ سکتی ہیں۔ اور یہاں‌پر اچھے گریڈز حاصل کرنا ،اسٹیٹ اسکولز کے مقابلے میں بھی نہایت آسان ہوتا ہے!
یورپ کے مختلف ممالک مثلا جرمنی، سویٹزلینڈ وغیرہ میں طلباء کی قابلیت کے حساب سے اسکولوں میں بھیجا جاتا ہے۔ مثلا اگر کوئی طالب علم بچپن میں کمزور ہے تو اسکو ایسے اسکول میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں سے وہ کسی صورت ہائی اسٹڈیز تک نہیں پہنچ سکتا۔
جبکہ اسکنڈےنیوین ممالک میں تعلیم کا نظام اتنا گرا ہوا کہ پہلی سے دسویں جماعت تک ہونے والے پرچوں کے نتائج کو محض جزوی طور پر لیا جاتا ہے۔ یعنی اگر کوئی طالب علم سالانہ پرچوں میں فیل بھی ہو جائے تو اسکو اگلی کلاس میں بھیج دیا جاتا ہے۔
دوسرا یہاں بھی لسانیات اور مذاہب کے مضامین میں رٹا سسٹم ہی چلتا ہے۔ صرف سائنسی اور معاشرتی علوم میں کچھ تسخیر کی گنجائش موجود ہے۔

اسلئے اپنے تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کیلئے پہلے ہمیں اس احساس کمتری کو دور کرنا ہے کہ اگر مغرب کے نظام پر چلیں گے تو بہتری آئے گی، حالانکہ مغرب خود اپنے تعلیمی نظام کی وجہ سے پریشان ہے:grin:
 

راشد احمد

محفلین

ہمارا تعلیمی نظام ۔۔۔۔۔۔۔ شروع سے لے کر آخر تک ہمیں کتاب حفظ کرنے پر زور دیا جاتا ہے ۔
اصل چیز کیسی سبجیکٹ کا سمجھنا ہوتا ہے ۔ استاد بچے کو ایک مشین سمجھتا ہے ۔

خوش رہو پاکستا ن

جی ہاں سکولوں میں یہ ہوتا ہے کہ استاد جب ٹیسٹ لیتا ہے جس میں طالب علم کو بالکل وہی حرف بحرف لکھنا پڑتا ہے جو کتاب میں ہے اگر وہ کتاب سے ہٹ کر لکھے گا تو استاد اسے نمبر نہیں دے گا۔ وہ طالب علم کے ذہنی میلان کو اہمیت نہیں دیتے بلکہ رٹا کو اہمیت دیتے ہیں۔

اساتذہ کی تربیت بھی بہت ضروری ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت اچھا موضوع ہے۔ باقی اراکین کی آراء کا بھی انتظار رہے گا کہ ہم اپنے تعلیمی نظام کو کیسے بہتر بنا سکتےہیں۔

میں سمجھتا ہوں اس میں کسی حد تک اساتذہ کرام کی آمدنی کا بھی تعلق ہے جو کہ تنخواہوں کی صورت میں بہت کم ہوتی ہے۔ اس وجہ سے وہ بچوں کو الگ سے ٹیوشن لینے پر زور دیتے ہیں۔ اسکولوں کالجوں میں پڑھائی کم ہوتی ہے اور وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مجھ سے الگ سے ٹیوشن لو۔ بلکہ الگ سے ٹیوشن دینا تو آج کے دور کا ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یورپ و امریکا میں بھی الگ سے ٹیوشن کا رواج ہے یا نہیں، لیکن یہاں تو اس کام کے لیے باقاعدہ اکیڈمیاں تشکیل پا چکی ہیں۔ دوسری طرف جگہ جگہ پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکول خود رو پودوں کی طرح قائم ہیں جہاں پہلی جماعت کے بچے کا بستہ اتنا وزنی ہے کہ اس سے اٹھایا بھی نہیں جاتا۔ قصہ مختصر آج کے دور میں تعلیمی ادارے ایک منافع بخش کاروبار ہے۔
 

راشد احمد

محفلین
اہم تعلیمی نظام کو ایک صورت میں ہی بہتر بنا سکتے ہیں کہ
اساتذہ کی تنخواہوں میں‌خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔ اساتذہ کو اچھی تنخواہ دینے کا مطلب ہے کہ وہ طالب علم کو اچھی تعلیم دے گا۔ اگر کسی استاد کی بنیادی ضرورتیں پوری کردی جائیں تو وہ طلبا کی تعلیمی ضرورتوں کا خیال رکھے گا۔ اسی طرح طالب علموں کے لئے مفت معیاری اور اچھی تعلیم ہونی چاہئے اس کے لئے تعلیمی نصاب میں ردوبدل ضروری ہے۔ خاص طور پر چھوٹی کلاسوں کے لئے۔ جب میں پرائمری کا طالب علم تھا تو انگلش ہمارے نصاب میں نہیں تھی جس کا مجھے چھٹی کلاس اور اس سے اگلی کلاس میں بہت نقصان ہوا اور وہ انگلش میں کافی کمزور رہا۔ میں نے تو اس خامی کو ٹیوشن پڑھ کر کور کر لیا تھا لیکن جو طلبا ٹیوشن فیس نہیں دے سکتے تھے وہ اپنی اس کمزوری کی وجہ سے تعلیم کو خیر باد کہہ گئے۔ ہمارے ہاں وہی طالب علم تعلیم کو درمیان میں‌خیر باد کہتا ہے جو مالی طور پر کمزور ہو یا تعلیمی میدان میں کمزور ہو۔

طالب علم کو اعتماد دینا ضروری ہے ہمارے ہاں طالب علم کو پڑھایا تو جاتا ہے لیکن اسے اعتماد اور اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے بداعتمادی کا شکار ہر کر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
میں نےانگریزی میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی، یعنی اردو اور انگریزی پہلی جماعت سے ایک ساتھ سیکھی۔ اسکے باوجود اردو کی طرف زیادہ جھکاؤ رہا ہے ، کیونکہ ہمیں انگریزی صرف ایک مواصلاتی زبان ہونے کی حیثیت سے سکھائی گئی تھی، نہ کہ اسکو خدا بنا کر اپنی مادری زبان کو بھولنے کیلئے! اسکا فائدہ یہ ہوا کہ دینی علوم اردو میں‌سیکھے اور جدید علوم انگریزی میں۔ لیکن عملی زندگی میں جاکر پتا لگا کہ جو انگریزی جدید علوم ہمنے سیکھے تھے، انکی تو ہمارے ملک میں‌کوئی صنعت و ضرورت ہی نہیں ہے:grin::grin::grin:

مطلب وقت برباد اور پیسا برباد۔ اسلئے اپنے پیارے سے نالائق ملک کو الوداع کہہ کر دیار غیر میں آگئے جہاں کم از کم جدید علوم ، عملی زندگی میں کچھ فائدہ بخش تو ہیں۔ حل؟
پہلے حکومت کو جدید انگریزی علوم کی مناسبت سے انڈسٹری کھولنی ہوگی تاکہ گیجویٹ طالب اپنے حاصل کردہ علوم کو ملک کی بقاء کیلئے عملی جامہ پہنا سکے۔۔۔۔ جو علوم اپنے ملک کی خدمت میں کام نہ آئیں، انہیں سیکھنے کا فائدہ؟
 

فرحت کیانی

لائبریرین
تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتی ہے. تعلیم کی بدولت ہی انسان اچھے برے کی تمیز کر سکتا ہے یعنی تعلیم ہی مسائل کا حل ہے لیکن ہمارا تعلیمی نظام ہمارے مسائل حل کرنے کی بجائے مسائل بڑھا دیتا ہے۔ آپ خود دیکھیں کہ پاکستان میں تین قسم کے تعلیمی نظام ہیں اور یہ تین طبقاتی تعلیمی نظام ہمارے ملک کی کوئی خدمت نہیں کر رہے بلکہ ہمارے ملک اور نوجوان نسل کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں. ان نظام کی وجہ سے ہمارے طلبا کی ڈگریوں کو بیرون ملک خاص اہمیت نہیں دی جاتی اور انہیں دوبارہ سے اپ گریڈ ہونا پڑتا ہے. بہت سی تنظیموں اور دانشوروں نے اس نظام کے خلاف آواز اٹھائی لیکن حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی. شاید یہ ان کے نوٹس میں نہیں یا وہ لاپرواہ بیٹھے ہیں یا وہ اسے اتنا اہم مسئلہ نہیں سمجھتے۔

1۔ اردو میڈیم جو سرکاری سکولوں یا گلی محلوں کےسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ جس میں اردو مضامین اور اسلامیات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اور ان سکولوں میں غریبوں کے بچے ہی پڑھ سکتے ہیں۔اور ان سکولوں کے طلبا کو رٹا سسٹم پر لگایا جاتا ہے۔جو ان کے مستقبل کے لئے کار آمد نہیں ہے.

2۔ انگلش میڈیم جو بیکن ہاوس، دی ایجوکیٹرز، کیتھڈرل سکول نمایاں ہیں ان سکولوں کی فیسیں زیادہ ہیں جس کی وجہ سے صرف امرا، جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی اولادیں ہی پڑھ سکتی ہیں۔ کسی غریب آدمی کی اولاد مالی حالات کی وجہ سے یہاں نہیں پڑھ سکتی۔ ان سکولوں میں اسلامی مضامین، اردو کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔

3۔ مدرسے۔ جن میں اسلامی مضامین کو اہمیت دی جاتی ہے جبکہ انگلش، کمپیوٹرسائنس، سائنس کے مضامین کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جبکہ بعض مدرسے فرقہ واریت، انتہا پسندی اور نفرت پھیلاتے ہیں اور طلبا کی توجہ صرف دینی علوم پر ہی رکھتے ہیں ۔ ان کے طلبا کو صرف یہی بتایا جاتا ہے کہ ان کو صرف مولوی بننا ہے نا کہ ڈاکٹر، سائنسدان، انجینیر وغیرہ.

ہمارے ہاں کوئی تعلیمی نظام مکمل نہیں ہے تو پھر ہم میں شعور کیسے آئے گا۔ یہ سب تعلیمی نظام غریب عوام کے طلبا میں احساس کمتری پیدا کرتے ہیں اردو میڈیم کے طالب علم جب تعلیم سے فارغ ہوتے ہیں تو ان کو ان کوکوئی اچھی نوکری وغیرہ نہیں ملتی۔ یہ لوگ ایم اے یا بی اے کی ڈگری لے کر بھی اچھی طرح انگلش نہیں بول سکتے اور ان میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے. جبکہ انگلش میڈیم کے اکثر طلبا میں یہ بات نوٹ کی ہے کہ وہ اردو میں کمزور ہوتے ہیں اور اردو نہ تو ٹھیک طریقے سے لکھ پاتے ہیں اور نہ ہی پڑھ سکتے ہیں اور یہ طلبا اردو مضامین میں اکثر کمزور ہوتے ہیں. مدرسے سے فارغ التحصیل طلبا کا مسئل یہ ہے کہ انہوں نے صرف قرآن، فقہ، حدیث وغیرہ پر عبور حاصل کیا ہوتا ہے جبکہ وہ نہ تو کوئی کلرک قسم کی نوکری کر سکتے ہیں نہ ہی سائنسدان، ڈاکٹر یا انجینئر بن سکتے ہیں. زیادہ تر طلبا کسی مسجد میں امامت شروع کردیتے ہیں یا کسی مدرسے میں پڑھانا شروع کر دیتے ہیں یا پھر وہ حمد و نعت خوانی شروع کر دیتے ہیں. میرے خیال ان افراد کو ہمارے ہاں ایک الگ طبقہ تسلیم کیا جاتا ہے.

میرے خیال میں ایک یکساں تعلیمی نظام جوطلبا کی بہتر رہنمائی کرے اور اس تعلیمی نظام میں جہاں سائنس، ٹیکنالوجی، انگلش، کمپیوٹر کو اہمیت دی جائے وہاں اردو اور اسلامیات اور دیگر دینی علوم کو بھی خصوصی اہمیت دی جائے. اور یہ تعلیمی نظام رٹا سسٹم کا سخت مخالف ہو اور پورے پاکستان کا تعلیمی نظام ایک ہی ہو تاکہ ہم نسلی اورصوبائی عصبیت سے نکل سکیں. اور ہم قابل اور باصلاحیت افراد پیدا کر سکیں.

اس سلسلے میں حکومت کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے. اگر حکومت پورے پاکستان کا تعلیمی نظام ایک کر دیتی ہے تو ہمارے بہت سے مسائل خود بخود حل ہوتے جائیں گے جن میں نوجوانوں میں اعتماد کی کمی، نوجوان نسل کے نفسیاتی مسائل، بہتر مواقع کا مسیر نہ ہونا، باصلاحیت افراد کی کمی وغیرہ شامل ہیں.

پاکستان کے تعلیمی نظام کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ سرکاری اور پرائیویٹ سکیٹرز کے لحاظ سے۔ زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنا شاید زیادہ مناسب نہیں کیونکہ بہت سے سرکاری اداروں میں ذریعہء تعلیم انگریزی ہے اور کچھ پبلک ادارے اردو میں تعلیم دے رہے ہیں۔ اسی طرح مدارس کو تیسرے نظام کے بجائے ایک سب سسٹم کہا جائے تو بہتر ہو گا۔ دوسری بات یہ کہ مدرسہ سسٹم پر دہشت گردی یا فرقہ واریت کا لیبل لگانا درست نہیں۔ اگرچہ ایک بڑی تعداد یہی کچھ کر رہی ہے لیکن اصل مدارس باقاعدہ نصاب کو فالو کرتے ہیں۔ اور جہاں تک میرا محدود علم بتاتا ہے ان کو دنیاوی علوم کو بھی شاملِ نصاب کرنا لازم ہوتا ہے۔ جہاں ایسا نہیں ہوتا وہ وہی مدارس ہوتے ہیں جن کا مقصد مدرسہ کی آڑ میں شدت پسندی کو فروغ دینا ہوتا ہے۔
پاکستان میں نظامِ تعلیم کی زبوں حالی کی بہت سی وجوہات ہیں۔ جن میں سب سے پہلے حکومتی لاپرواہی، غیر حقیقی منصوبہ بندی اور ملک کے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی حالات شامل کئے جا سکتے ہیں۔ اردو اور انگریزی میڈیم میں تقسیم بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ تمام اردو میڈیم یا دوسرے الفاظ میں تمام سرکاری ادارے میں تعلیم کا معیار بہت کم ہے اور تمام انگلش میڈیم یا پرائیویٹ ادارو کی کارکردگی تسلی بخش ہے۔ بیکن ہاؤس، لائسیم، گرامر سکولز وغیرہ کیونکہ انٹرنیشنل اداروں کی شاخیں ہیں تو ان کی مانیٹرنگ بھی اس سظح پر ہوتی ہے۔ لا محالہ ان کو اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہی پڑتی ہے۔ اس کے باوجود آپ کو بڑے شہروں میں تو یہ پرائیویٹ سکولز بہترین پرفارمنس دکھاتے ملیں گے مگر انہی سکولز کو کسی چھوٹے شہر میں جا کر دیکھیں تو اکثر کی حالت سرکاری سکولز جیسی ہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب پاکستان میں تعلیم ایک کاروبار بن چکی ہے۔ جس کے پاس کچھ پیسہ اکٹھا ہوا وہ تعلیم میںں سرمایہ کاری کرنے کا سوچنے لگتا ہے۔ اور جب کاروباری لوگ اس میدان کے کرتا دھرتا ہوں تو معیاری تعلیم کی توقع فضول ہے۔
سرکاری اداروں کے مسائل کی فہرست بہت طویل ہے۔ لیکن اگر اس کو سکول یا کالج تک محدود کریں تو سب سے بڑی وجہ نظامِ جوابدہی کی عدم موجودگی ہے بلکہ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ پالیسیز میں تو یہ نظام موجود ہے لیکن عملی طور پر نہ ادارے کے سربراہ سے جواب طلبی ہوتی ہے اور نہ اساتذہ سے۔ تو معیار کی بات چہ معنی دارد؟

اردو یا انگریزی پر عبور نہ ہونے کی وجہ تجربہ کار اساتذہ کی قلت ہے۔ سرکاری اداروں میں اساتذہ کی تعداد اتنی کم ہے کہ ایک استاد کو قطع نظر اس کی استعداد اور مہارت کے، ایسے مضامین بھی پڑھانے پڑتے ہیں جو اس کے لئے بالکل نئے ہوتے ہیں۔ ایک استاد جس نے پرائیویٹ طور پر سیاسیات یا اسلامیات میں ڈگری لی ہے، اگر اسے اردو یا انگریزی پڑھانی پڑے تو وہ کیا سکھا پائے گا اور طلبہ کیا سیکھ سکیں گے جبکہ پرائیویٹ اداروں میں اردو کو فیشن کے طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔
نصاب کی غیر یکسانیت واقعی بہت اہم ہے۔ جب تک ہمارے نظامِ تعلیم میں یکساں نصاب کا نفاذ نہیں ہوتا ، 'پیلے سکول' اور 'صاحب سکول' کی تقسیم کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت اچھا موضوع ہے۔ باقی اراکین کی آراء کا بھی انتظار رہے گا کہ ہم اپنے تعلیمی نظام کو کیسے بہتر بنا سکتےہیں۔

میں سمجھتا ہوں اس میں کسی حد تک اساتذہ کرام کی آمدنی کا بھی تعلق ہے جو کہ تنخواہوں کی صورت میں بہت کم ہوتی ہے۔ اس وجہ سے وہ بچوں کو الگ سے ٹیوشن لینے پر زور دیتے ہیں۔ اسکولوں کالجوں میں پڑھائی کم ہوتی ہے اور وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مجھ سے الگ سے ٹیوشن لو۔ بلکہ الگ سے ٹیوشن دینا تو آج کے دور کا ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یورپ و امریکا میں بھی الگ سے ٹیوشن کا رواج ہے یا نہیں، لیکن یہاں تو اس کام کے لیے باقاعدہ اکیڈمیاں تشکیل پا چکی ہیں۔ دوسری طرف جگہ جگہ پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکول خود رو پودوں کی طرح قائم ہیں جہاں پہلی جماعت کے بچے کا بستہ اتنا وزنی ہے کہ اس سے اٹھایا بھی نہیں جاتا۔ قصہ مختصر آج کے دور میں تعلیمی ادارے ایک منافع بخش کاروبار ہے۔

اس سے ایک بات یاد آئی۔ ہمارے ایک جاننے والے انکل آرمی پبلک سکول/ کالج کے پرنسپل تھے۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کریں گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ اپنا سکول کھول رہے ہیں کیونکہ اس بزنس میں کافی منافع ہے۔ :)
جب تعلیم بزنس بن جائے تو حالات ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے اب پاکستان میں ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ جو بھی بحث ہو رہی ہے یہ شہروں کے اسکول / کالج کی ہو رہی ہے۔ دیہاتوں کے اسکولوں کی زبوں حالی وہ لوگ بہت اچھی طرح جانتے ہوں گے جن کا تعلق دیہات سے ہے۔ سو میں میرا خیال ہے بیس یا پچیس بچے ایسے نکلتے ہوں گے جو اپنی پڑھائی جاری رکھ سکتے ہوں گے۔ باقی کے بچے معاشی مجبوری کے تحت اسی عمر میں کھیتوں میں کام کرنے یا پھر کسی نجی ادارے میں کام کرنے لگ جاتے ہیں۔ پنجاب کے رہنے والے، خاص کر سیالکوٹ، گوجرانولہ، گجرات، شیخوپورہ، لاہور، فیصل آباد، وزیر آباد اور گرد و نواح کے علاقوں کے رہنے والے بخوبی جانتے ہوں گے کہ یہاں ابھی بھی چائلڈ لیبر کام کرتی ہے۔
 

راشد احمد

محفلین
بھائی میں نے پرائمری گاوں کے سکول سے پاس کی ہے۔ وہاں سکولوں کا کوئی حال نہیں ہے۔ آج بھی بچے ٹاٹوں پر پڑھ رہے ہیں‌جیسا کہ میں‌نے آج سے 15 سال پہلے دیکھا تھا۔ اس وقت بھی بچے ماسٹر کے لئے لسی اور مکھن وغیرہ لاتے تھے آج بھی لارہے ہیں۔ اس وقت بھی بچے سکول سے بھاگ کرکھیلنے کودنے کے لئے کھیتوں میں چلے جاتے تھے۔ آج بھی وہی صورت حال ہے۔ ہمارے وقت میں کلاس کا مانیٹر اس لڑکے کو بنایا جاتا تھا جو عمر میں سب سے زیادہ یا دیکھنے میں زیادہ عمر کا لگتا ہو۔ اس وقت بچے ماسٹر کے گھر کا سودا سلف لا کر دیتے تھےاور دوسرے کام کرتے تھے۔ جب آدھی چھٹی ہوتی تھی تو میں دیکھتا تھا کہ کوئی بچہ ماسٹر کے سر میں تیل کی مالش کررہا ہے۔ تین مہینے کی چھٹیوں کا تو کچھ نہ پوچھو۔ گاوں کے لوگ تین ماہ کی چھٹیوں میں سکول میں تاش کھیلنے، گوٹیاں کھیلنے یا لڈو کھیلنے کے لئے جاتے تھے اور آج بھی وہی صورت حال ہے۔ یہاں ایک بات اور بھی بتادوں کہ ماسٹر بچوں کو پڑھانے کے دوران اکثر سگریٹ پی رہے ہوتے تھے اور ان کا لباس بھی کوئی خاص صاف عمدہ نہیں ہوتا تھا۔ایک استاد کئی کئی مضامین پڑھا رہا ہوتا تھا اور ایک کلاس میں ضرورت سے زیادہ بچے ہوتے تھے۔

گورنمنٹ سکولوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ بچوں کے یونیفارم اور ظاہری حالت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ وہی نیلی شلوار قمیض یا سفید شرٹ اور خاکی پینٹ۔ سکول کی انتظامیہ یونیفارم پر تو زور دے دیتی ہےلیکن یونیفارم کی حالت اور غیر استری شدہ یونیفارم، بچوں کے ناخن، بالوں، جوتوں کی صفائی پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ صرف ماسٹر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سبق یاد کرو اور وہی سبق سناو جو کتاب میں لکھا ہے۔ کتاب سے باہر سناو گے یا نہیں سناو گے تو مولا بخش سے پھینٹی لگے گی۔

میرے خیال میں تعلیم کے ساتھ ساتھ نظم وضبط اور غیر نصابی سرگرمیوں پر بھی کام ہونا چاہئے یہی ان کی شخصیت اور کردار میں نکھار پیدا کرتی ہے۔ اگرچہ بچے پڑھ لکھ تو جائیں گے لیکن نظم وضببط اور غیر عمدہ شخصیت کے بغیر پڑھے لکھے ان پڑھ بن جائیں گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
راشد آپ نے بڑا صحیح کا نقشہ کھینچا ہے دیہاتوں کے اسکول کا۔ اسی لیے میں نے لکھا تھا کہ بیس یا پچیس فیصد بچے ہی گاؤں کے اسکول سے تعلیم حاصل کر کے شہر کے اسکول میں جاتے ہیں۔
 

امکانات

محفلین
راشد آپ کا کالم مجھے پسند آیا ہے اور میں نے اسے اپنے ادارتی صفحے پر لگا دیاہے آج دیکھ لینا ورنہ ہمارا اخبار چھوٹا ہے بیک ایشو نہیں رکھتا لنک یہ ہے
اخبار کا لنک یہ ہے یہ آپ کو اج کے اخبار میں جاکر صفحہ چار
 

راشد احمد

محفلین
شکریہ امکانات بھائی

لیکن آپ اخبار کو پوپ اپ ونڈو میں کیوں کھول رہے ہیں؟ بہت سے لوگوں نے پوپ اپ بلاکر لگائے ہوتے ہیں۔ بہتر ہے کہ اسے ایک الگ ونڈو میں کھولیں،

شکریہ
 

راشد احمد

محفلین
یہاں میں‌آپ کو ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں

میں دو مرتبہ ایم اے سیاسیات کے پیپرز دے چکا ہوں لیکن دونوں بار فیل ہوچکا ہوں اس کی وجہ اس کے سوالات تھے جو یہ تھے

1۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی
2۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر نوٹ لکھیں۔
3۔ پریشر گروپس
4۔ بیوروکریسی کا کردار
5۔ ملک میں جمہوری قوتوں کا کردار

اس قسم کے سوالات میں میں نے پاکستان کی موجودہ صورت حال، بیوروکریسی کے کردار، پاکستان کی خارجہ پالیسی، ملک میں جمہوری قوتوں کے کردار، سیاسی جماعتوں کے کردار اور دیگر کو تنقید کا نشانہ بنادیا تھا جس کی وجہ سے میں‌سارے مضامین میں دو مرتبہ فیل ہوچکا ہوں اور میں امتحانی سوال ایسے لکھ رہا تھا جیسے کسی اخبار کے لئے کالم نگاری کر رہا ہوں۔

اس سے نتیجہ یہ اخذ ہوتا ہے کہ آپ نے وہی لکھنا ہے جو کتاب میں ہے۔ کتاب سے باہر یا حالات کے تجزیہ کے نتاظر میں کچھ لکھا تو سمجھیں آپ ناکام ہوگئے۔

ہمارے تعلیمی نظام کو بھی دیگر نظام کی طرح سچ سننے کی عادت نہیں ہے۔

اس بار تیسری مرتبہ ایم اے کے امتحانات دے رہا ہوں اور وہی لکھوں گا جس کی کتاب اجازت دے رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر میں کتاب والا مواد امتحانی پیپر پر چھاپ دوں گا تو پاس ہو جاوں گا۔

:grin:
 

شمشاد

لائبریرین
یہ رویہ ہمارے تعلیمی نظام میں بنیادی کلاسوں سے ہے بھلے ہی تعلیم اردو میں ہو یا انگریزی میں۔

میں آپ کو اپنے بیٹے کی بات بتاتا ہوں۔

استانی نے پوری کلاس کو اے ایپل، بی بوائے، سی کیٹ، ڈی ڈاگ، ای ایگ ۔۔۔۔۔۔ پڑھایا۔ اور یہی ہوم ورک بھی تھا کہ گھر سے کر کے لانا ہے۔ مرے بیٹے نے کیا لیکن ای سے اسے ایگ یاد نہیں آیا تو اس نے ای سے ایر ear لکھ دیا۔ خیر سے استانی جی نے اگلے دن اس کو کاٹ دیا کہ ای سے ایگ ہی لکھنا تھا۔

میرے استفسار پر استانی جی نے بتایا کہ اسکول سے جو ہدایات ہمیں ملی ہوئی ہیں ان سے ہم ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں ہو سکتے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلی کلاس کے بچے کو، جس کو نئی نئی بات کرنے کا شوق ہوتا ہے بلکہ جنون ہوتا ہے، ہر الٹا کام اس عمر کے بچوں نے کرنا ہوتا ہے، اگر ایسے ہی چند ایک واقعات سے واسطہ پڑے گا کہ اس نے اپنے سے کوئی نیا لفظ لکھا اور استانی جی نے بجائے اس کو شاباش دینے کے اس کو کاٹ دیا تو وہ بچہ تو بچپن میں ہی دلبرداشتہ ہو جائے گا۔ اس کی وہ حس جس سے وہ نت نئے کام کرنا چاہتا ہے، وہ مر جائے گی، اس کو دبا دیا جائے گا اور وہ صرف رٹے کے لیے ہی رہ جائے گا۔
 

arifkarim

معطل
ہمارے تعلیمی نظام کو بھی دیگر نظام کی طرح سچ سننے کی عادت نہیں ہے۔
:grin:

ہاہاہا۔ ویسے میرے کالج میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہوا ہے۔ مجھے دہشت گردی پر مضمون لکھنے کو کہا گیا۔میں نے سارا الزام یہود و مغربی دنیا پر ڈال دیا کہ یہی لوگ عالمی دہشت گردی کے زمہ دار ہیں۔ نتیجہ نکلنے پر دوسرے ساتھیوں کو جنہوں نے روایتی پراپگینڈا کے مطابق القائدہ اور اسامہ بن لادن وغیرہ کو الزام دیا تھا، وہ ‌A گریڈز لے گئے۔ جبکہ مجھے C گریڈ پر ٹرخا دیا گیا۔ میرے شور مچانے پر ٹیچر بولا کہ تمنے جو لکھا ہے، وہ تمہاری ذاتی رائے۔ جسکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں:rollingonthefloor:
یہ واقعہ پاکستان کا نہیں ، یہیں مغرب کا ہے، جو آزادی رائے کادعویٰ کرتی ہے۔!

آج ۸ سال بعد حقائق سامنے آنے پر وہ ٹیچر مجھ سے چھپتا پھرتا ہے:biggrin:
 
راشد بھائی آپ کی باتیں صرف باتیں نہیں بلکہ حیقیت ھے
شمشاد بھائی کی آپ بیتی دراصل موجودہ نظام کی عکاس ہے اور عارف بھائی کی باتیں ہمارے شعور کو بانجھ بنانے کی کوشش ہے ۔
 
Top