ہمارا تعلیمی نظام

لیکن میری ایک رائے بھی ہے دراصل ہمارا تعلیمی نظام قیام پاکستان سے پہلے کا ہی خراب ہے کیونکہ ہم نے انگریزی تہزیب سے بچنے کے لئے بچوں کو ان سکولوں سے دور رکھا۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد تو ہمارا حق تھا کہ ہمیں انگریزی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی ھونی چاہیے تھی تا کہ جب ھم پڑھتے تو دین و دنیا کا علم ہمارے پاس ہوتا جسے سائنس کا علم ہوتا وہ فقہ کے بارے میں بھی جانتا لیکن اب نہ تو ہمیں دینی تعلیم کا حصول آسان دیا گیا اور نہ ہی دنیاوی علوم میں قابل بنایا گیا ۔ ہماری قوم کا المیہ رہا کہ ہم آج تک ایک تعلیمی نظام ایک ملک میں نہیں دے سکے جس کی وجہ سے آج اردو میڈیم انگریزی سے بھاگتا ہے اور انگلش میڈیم اردو سے کیوں دونوں میں ایک دوسرے کو سمجھنے کا طاقت اور قابلیت نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اس وقت تو انگریزی پڑھنے اور پڑھانے والوں کو کافر تک قرار دے دیا گیا تھا، دیو بند والے کیسے مل سکتے تھے۔ اب بھی کچھ لوگ آپ کو ایسے مل جائیں گے جو انگریزی کو فرنگی کی زبان کہتے ہیں۔
 

راشد احمد

محفلین
اس وقت تو انگریزی پڑھنے اور پڑھانے والوں کو کافر تک قرار دے دیا گیا تھا، دیو بند والے کیسے مل سکتے تھے۔ اب بھی کچھ لوگ آپ کو ایسے مل جائیں گے جو انگریزی کو فرنگی کی زبان کہتے ہیں۔

آج وہی انگریزی میں بات کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو انگریزی پڑھاتے ہیں۔ یہ منافقت نہیں‌تو اور کیا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
میں نہیں سمجھتا کہ انگریزی میں بات کرنا غلامی کی نئی شکل ہے۔ جہاں ضرورت ہو وہاں انگریزی میں بات کرنا ہی پڑتی ہے۔

فی زمانہ کمپیوٹر کا دور ہے اور کمپیوٹر کی زبان زیادہ تر انگریزی ہی ہے۔ کوئی بھی سوفٹویر لے لیں، انگریزی ہی ہے۔ ابھی اردو اس قابل نہیں تو ظاہر ہے انگریزی میں ہی استعمال کرنا پڑے گا۔

اس وقت دفاتر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والے دو سوفٹویر ہیں، ایک ورڈ پروسسنگ اور دوسرا سپریڈ شیٹ، اور یہ دونوں ہی انگریزی میں استعمال ہوتے ہیں۔ البتہ ورڈ پروسسنگ کسی حد تک اردو میں ڈھل چکی ہے لیکن ماخذ (سوفٹویر) ہنوز انگریزی میں ہی ہے۔
 

arifkarim

معطل
شمشاد بھائی، انگریزی سیکھنا ، بولنا اور استعمال کرنا کوئی گناہ نہیں۔ اصل چکر سوچ کا ہوتا ہے۔آجکل پاکستان میں دیکھ لیں، شاید ہی کوئی جملہ ہو جسمیں انگریزی کی ملونی شامل نہ ہو۔
ہم انگریزی میں ٹی وی پروگرامزپیش کرنا باعث فخر سمجھتے ہیں، حالانکہ ہماری قومی زبان تو اردو ہے۔ یہ در حقیقت ہماری سوچ کی غلامی ہے نا کہ ظاہری غلامی!
 

راشد احمد

محفلین
مجھے ایک واقعہ اسی ویب سائٹ کے ممبر نیا آدمی نے سنایا یہ میں آپ کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں۔

ایک مرتبہ ضیاء الحق کوریا کے دورے پر گئے۔ ایوان صدر جاتے ہوئے راستے میں انہیں ایک سات منزلہ عمارت دکھائی گئی تو ضیاء صاحب نے پوچھا یہ عمارت کس مقصد کے لیے ہے تو انہیں جواب دیا گیا کہ ہم واپسی پر آپ کو یہ عمارت دکھائیں گے۔
واپسی پر عمارت کے اندر گئے تو دیکھا کہ ہر منزل پر مختلف لوگ میز کرسی پر بیٹھے کچھ لکھ رہے ہیں اور ان کے سامنے کتابیں رکھی ہوئی ہیں۔ ضیاء صاحب کو بتایا گیا کہ دنیا بھر میں سائنس و ٹیکنالوجی پر کوئی بھی کتاب کہیں بھی شائع ہوتی ہے، ہم اس کتاب کا کوریئن زبان میں ترجمہ کر کے ایک ماہ کے اندر اندر شائع کر دیتے ہیں۔

دنیا کی کسی قوم نے اس وقت تک ترقی نہیں کی جب تک اس نے تعلیم اور خاص کر سائنس و ٹیکنالوجی کا اہتمام اپنی قومی زبان میں نہیں کیا۔

آج کوریا، چین، یورپ کے بہت سے ممالک میں سارا نصاب ان کی اپنی قومی زبان میں ہے۔ ان کے سارے مضامین اور علمی وتحقیقی سرگرمیاں ان کی اپنی قومی زبان میں ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر سائنس و ٹیکنالوجی کے مضامین انگریزی میں نہیں ہیں تو کوئی فائدہ نہیں۔
 

وجی

لائبریرین
بھائی تعلیم کیسی بھی زبان میں ہو تعلیم ہے اور اسکی اپنی افادیت ہوتی ہے
فرق صرف سوچ کا ہے
ہم اپنے تعلیمی نظام کو برا بھلا کہتے ہیں مگر کئی چیزوں نے اس نظام کو خراب کیا ہے
اس میں ایک ہماری سوچ بھی ہے ابھی بدھ کو ڈاکٹر قدیر کا کالم پڑھا جو کہ تعلیمی نظام کے بارے میں تھا
اس کے آخر میں جو بات انہوں نے لکھی وہ اس بارے میں تھی کہ قوم میں ہر کیسی کو اعلٰی تعلیم کا حق ہے لیکن جب وہ برلن میں پڑھنے گئے تو انکو پہلے ہی لیکچر میں یہ بات بتا دی گئی تھی کہ آپ سب میں سے کوئی ایک ڈگری لے پائے گا اور وہ ڈاکٹر قدیر تھے

اور ہمارے یہاں کیا حال ہے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں
 

arifkarim

معطل
واپسی پر عمارت کے اندر گئے تو دیکھا کہ ہر منزل پر مختلف لوگ میز کرسی پر بیٹھے کچھ لکھ رہے ہیں اور ان کے سامنے کتابیں رکھی ہوئی ہیں۔ ضیاء صاحب کو بتایا گیا کہ دنیا بھر میں سائنس و ٹیکنالوجی پر کوئی بھی کتاب کہیں بھی شائع ہوتی ہے، ہم اس کتاب کا کوریئن زبان میں ترجمہ کر کے ایک ماہ کے اندر اندر شائع کر دیتے ہیں۔

دنیا کی کسی قوم نے اس وقت تک ترقی نہیں کی جب تک اس نے تعلیم اور خاص کر سائنس و ٹیکنالوجی کا اہتمام اپنی قومی زبان میں نہیں کیا۔

آج کوریا، چین، یورپ کے بہت سے ممالک میں سارا نصاب ان کی اپنی قومی زبان میں ہے۔ ان کے سارے مضامین اور علمی وتحقیقی سرگرمیاں ان کی اپنی قومی زبان میں ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر سائنس و ٹیکنالوجی کے مضامین انگریزی میں نہیں ہیں تو کوئی فائدہ نہیں۔

ہاہاہا، بہت خوب۔ ہمنے مغربیوں سے تو کچھ سیکھنا نہیں ہے۔ شاید ’’مشرقیوں‘‘ سے ہی کچھ سیکھ لیتے۔۔۔۔ اسکی بجائے ضیاءالکذب صاحب ہمیں منشیات، طالبان، ریاست میں ریاست جیسی چیزیں ورثہ میں دے گئے:devil:
 

راشد احمد

محفلین
ہاہاہا، بہت خوب۔ ہمنے مغربیوں سے تو کچھ سیکھنا نہیں ہے۔ شاید ’’مشرقیوں‘‘ سے ہی کچھ سیکھ لیتے۔۔۔۔ اسکی بجائے ضیاءالکذب صاحب ہمیں منشیات، طالبان، ریاست میں ریاست جیسی چیزیں ورثہ میں دے گئے:devil:

میں‌آپ کی بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ ہم نے مغرب سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہم نے مغرب سے بہت کچھ سیکھا، مونچھیں داڑھی صاف کرنا، جینز پہننا، لڑکیوں جیسی شکل وشباہت بنانا، ان کی طرح کے سٹائل لگانا۔

جو سیکھنے والی چیزیں ہیں وہ سیکھنے نہیں۔ جو نہیں سیکھنے والی وہ سیکھ جاتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
تو بھائی اس میں قصور کس کا ہے؟ ہمارا اپنا ہی ہے کہ ہم جو چیز سیکھنی چاہیے وہ نہیں سیکھی اور نہی سیکھنی چاہیے تھی وہ سیکھ لیں۔
 
Top