ہمارا مذہبی مزاج اور معاشرتی زوال

شیہک طاہر

محفلین
یہ معاشرہ اپنے بدترین انجام سے دو چار ہونے والا ہے۔ جس معاشرے میں مذہب کا ادارہ محبت اور انسان دوستی کے بجائے، نفرت اور انسان گریزی کی پرورش گاہ بن جائے، جہاں مذہب انسانی فلاح و بہبود اور نیکی کے بجائے محض ظاہری عبادت و رسوم کا مجموعہ بن جائے، تاریخی عمل میں ایسے معاشرے کی کوئی گنجائش نہیں۔ فکر دشمنی اور فساد پروری جس معاشرے کا مذہبی مزاج بن جائے تو جان لو کہ زوال لازم ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
میرے بھائی . یہ معاشرہ ہم جیسے " افراد " پر ہی قائم ہے ............
کسی بھی معاشرے کے عروج و زوال میں " فرد " کا کردار اہم رہتا ہے .......
معاشرے کا چلن کیسا بھی ہو . یہ چلن " فرد " کے کردار پر ہی استوار ہوتا ہے .
فرد اپنی اصلاح کرنے میں مخلص ہو تو معاشرہ عروج کی جانب رواں ہونے لگتا ہے ........
 

عمراعظم

محفلین
ہمارے معاشرے کو آئینہ دکھاتی تحریر۔۔۔ البتہ امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اگر ہر شحص اپنے کردار کی اصلاح کا عزم کر لے تو خوف کی یہ فضا دُور ہو سکتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ معاشرہ اپنے بدترین انجام سے دو چار ہونے والا ہے۔ جس معاشرے میں مذہب کا ادارہ محبت اور انسان دوستی کے بجائے، نفرت اور انسان گریزی کی پرورش گاہ بن جائے، جہاں مذہب انسانی فلاح و بہبود اور نیکی کے بجائے محض ظاہری عبادت و رسوم کا مجموعہ بن جائے، تاریخی عمل میں ایسے معاشرے کی کوئی گنجائش نہیں۔ فکر دشمنی اور فساد پروری جس معاشرے کا مذہبی مزاج بن جائے تو جان لو کہ زوال لازم ہے۔

شیہک طاہر صاحب اردو محفل میں خوش آمدید۔

اپنا تعارف تو دیں۔
 

شیہک طاہر

محفلین
میرے بھائی . یہ معاشرہ ہم جیسے " افراد " پر ہی قائم ہے ............
کسی بھی معاشرے کے عروج و زوال میں " فرد " کا کردار اہم رہتا ہے .......
معاشرے کا چلن کیسا بھی ہو . یہ چلن " فرد " کے کردار پر ہی استوار ہوتا ہے .
فرد اپنی اصلاح کرنے میں مخلص ہو تو معاشرہ عروج کی جانب رواں ہونے لگتا ہے ........

لیکن اس تناظر کو بھی پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ فرد کے دائرہء عمل کا تعین اس کا معاشرتی ڈھانچہ اور نظام کرتا ہے۔ فرد اپنی صلاحیتوں اور کردار کا اظہار اور پریکٹس نہیں کر پائے گا جب معاشرتی نظام میں اس کے مواقع اور گنجائش نہیں ہوگی۔ یہاں مجھے کراچی کے پروفیسر احمدجاکھرانی یاد آرہے ہیں ۔ وہ اور انکی بیوی محض اس وجہ سے فاقہ کشی کی حالت میں وفات پا گئے تھے کیوں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے حقداری کے حصول کے لئے غلط طریقے استعمال کرنے سے گریز کیا تھا۔
یہ صورتحال کا محض ایک پہلو تھا، ذرا غور کریں تو آپ کو معاشرتی ڈھانچے کی بدصورتی اوراس میں فرد کی بے بسی زیادہ واضح طور پر دکھائی دے گی۔
 
آخری تدوین:

شیہک طاہر

محفلین
شیہک طاہر صاحب اردو محفل میں خوش آمدید۔

اپنا تعارف تو دیں۔
بلوچستان سے تعلق ہے۔ اردو زبان و ادب سے دلچسپی ہے۔ نفسیات کا طالب علم ہوں۔ تعلیم و تدریس سے دلچسپی ہے۔ احمد جاوید صاحب سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ فلسفیانہ اور فکری معاملات سے خصوصی دلچسپی ہے۔
 

شیہک طاہر

محفلین
میرے بھائی . یہ معاشرہ ہم جیسے " افراد " پر ہی قائم ہے ............
کسی بھی معاشرے کے عروج و زوال میں " فرد " کا کردار اہم رہتا ہے .......
معاشرے کا چلن کیسا بھی ہو . یہ چلن " فرد " کے کردار پر ہی استوار ہوتا ہے .
فرد اپنی اصلاح کرنے میں مخلص ہو تو معاشرہ عروج کی جانب رواں ہونے لگتا ہے ........
1965 کے زمانے میں سید خلیل احمد نے ایک افسانہ لکھا ہے، "جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے" اس صورتحال کو سمجھنے کے لئے اس افسانے کا مطالعہ بہت مفید ہو گا۔
 

شیہک طاہر

محفلین
یہ افسانہ "جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے" کہیں آن لائن مل سکتا ہے؟
میرے خیال میں نہیں، کم از کم میں سرچ نہیں کر پایا۔ مگر کسی بھی معیاری لائبریری میں ضرور ملنا چاہئیے۔ سید خلیل احمد کا اسی عنوان سے شائع ہونے والا افسانوں کا مجموعہ ہے، اس میں یہ افسانہ شامل ہے۔
 
Top