ہماری تک بندیاں

کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا
آج قدموں میں ہمارے بھی کنارہ ہوتا

کسی گمراہ مسافر کے ہی کام آ جاتا
ماہِ تاباں نہ سہی بھور کا تارا ہوتا

آج کس منھ سے میں امیدِ شفاعت رکھوں
اسمِ وحدت جو کبھی لب سے گزارا ہوتا

رہگزر زیست کی لمبی سہی دشوار سہی
سہل ہو جاتی اگر تیرا سہارا ہوتا

کپکپاتی ہوئی شمع نے بھی دم توڑ دیا
صبح‌ نو خیز نے ٹک سر تو ابھارا ہوتا

سعود عالم ابنِ سعید

کتبہ: 12 مارچ، 2008
 

الف عین

لائبریرین
واہ سعود تم بھی چھپے رستم نکلے!! میں تو سمجھا تھا کہ یہ بڑے کام کا بندہ ہے۔ لیکن۔۔ جس کو انسان سمجھتے تھے وہ شاعر نکلا!!
خیر مذاق بر طرف۔ غزل واقعی اچھی ہی ہے، اس کے اوزان تو خطا نہیں ہو رہے۔ بس ایک اعتراض کر ہی دوں۔ جانتے ہو میں لگی لپٹی نہیں رکھتا۔۔۔
آخری شعر میں لفظ ’شمع‘ بر وزن ’شم عا‘ آ رہا ہے، جو غلط ہے۔ شمع میں م اور ع دونوں ساکت ہیں، یہیاں مشعل یا دیپک فٹ ہوتا ہے۔ مشعل تو خیر غلط ثابت ہوگا یہاں۔ دیپک معنی کے حسا سے بہتر ہے، لیکنن صبحِ و خیز کے ساتھ لگا نہیں کھاتا۔ میرا مشورہ ہے کہ صبحِ نو خیز کو بدل کر سویرا کر دیں۔ مثلاً
ٹک سویرے نے ذرا سرتو ابھارا ہوتا
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوب ابنِ سعید صاحب، لا جواب غزل ہے آپکی۔ سبھی اشعار بہت اچھے ہیں لیکن یہ اشعار تو خاص طور پر بہت پسند آئے مجھے


کسی گمراہ مسافر کے ہی کام آ جاتا
ماہِ تاباں نہ سہی بھور کا تارا ہوتا

آج کس منھ سے میں امیدِ شفاعت رکھوں
اسمِ وحدت جو کبھی لب سے گزارا ہوتا

آخری شعر کے متعلق اعجاز صاحب کی رائے صائب ہے، شمع، شَمع اور شَمَع دونوں طرح مستعمل ہے لیکن میم کی تشدید کے ساتھ "شمّع" صحیح نہیں ہے۔
 
بہت ممنون ہوں آپ دونوں اساتذہ کا اس تصحیح اور قیمتی رائے نیز پزیرائی کے لیے۔

ایک گزارش ہے کہ از راہ مہربانی مجھے شاعر نہ گردانیئے بس انہیں میری خالص تک بندیاں کہیئے۔

در اصل میں اب تک یہی سمجھتا تھا کہ ضرورت شعری کے لیے شمع کا میم مشدد بھی مستعمل ہے، اور غالباً کچھ نغموں میں ایسا سن بھی رکھا تھا۔ چلو ایک اور پتے کی بات ہاتھ لگی۔ اب میں اس روشنی میں اس بند کی تصحیح کرنے کی کوشش کرتا ہوں ورنہ استاد محترم کا بنا بنایا مصرع ہتھیانے میں مجھے قطعی وقت نہیں لگے گا۔ :)
 
میری پہلی تک بندی:بنام تپش

دریا میں بہتے آب کے دھاروں میں ہے تپش
ہے موج بیچ میں تو کناروں میں ہے تپش


منظر پگھل کے شیشہء دل میں اتر گیا
فطرت کے ان حسین نظاروں میں ہے تپش


آنکھوں کو ٹھنڈ دیتی ہے تاروں کی روشنی
کہتے ہیں لوگ پھر بھی ستاروں میں ہے تپش


قہار کے صفت سے کراتی ہے روشناس
شعلوں میں آنچ ہے تو شراروں میں ہے تپش


انگلی اٹھی کہ چاند بھی دو ٹکڑے ہو گیا
سرکار دو جہاں کے اشاروں میں ہے تپش


ابن سعید سنگ پگھل جائے گا ضرور
سب مانتے ہیں ساز کے تاروں میں ہے تپش


سعود عالم ابن سعید

27 دسمبر، 2002
 
بہت اچھے ابن سعید آپ اسی طرح تک بندیاں کرتے رہیے - آپ کی تک بندیاں اچھی خاصی شاعری ہے - بہت شکریہ!

بہت شکریہ آپ کی محبت کا۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ اس کم عمر بوڑھے کا مذاق مت اڑائیے تو کسر نفسی میں شمار کر لیں گے اس لئے باز آیا۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
میری پہلی تک بندی:بنام تپش

دریا میں بہتے آب کے دھاروں میں ہے تپش
ہے موج بیچ میں تو کناروں میں ہے تپش

منظر پگھل کے شیشہء دل میں اتر گیا
فطرت کے ان حسین نظاروں میں ہے تپش

آنکھوں کو ٹھنڈ دیتی ہے تاروں کی روشنی
کہتے ہیں لوگ پھر بھی ستاروں میں ہے تپش

قہار کے صفت سے کراتی ہے روشناس
شعلوں میں آںچ ہے تو شراروں میں ہے تپش


اںگلی اٹھی کہ چاند بھی دو ٹکڑے ہو گیا
سرکار دو جہاں کے اشاروں میں ہے تپش

ابن سعید سنگ پگھل جائے گا ضرور
سب مانتے ہیں ساز کے تاروں میں ہے تپش

سعود عالم ابن سعید


واہ واہ سبحان اللہ، بہت خوب اور لا جواب غزل ہے ابنِ سعید صاحب، بہت داد قبول کیجیئے۔
 
واہ واہ سبحان اللہ، بہت خوب اور لا جواب غزل ہے ابنِ سعید صاحب، بہت داد قبول کیجیئے۔

ارے واہ یعنی تک بندیاں بھی غزل ہو سکتی ہیں!
در اصل یہ میری پہلی تک بندی تھی جو کی 2002 میں لکھی گئی تھی۔
ویسے وارث بھائی آپ نے اس پر تنقیدی نگاہ نہیں ڈالی اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ابھی آپ نے حق ادا نہیں کیا۔

بہر کیف پسندیدگی کا بہت بہت شکریہ! :)
 
بہت خوب ابن سعید صاحب۔۔۔ بہت اعلیٰ۔۔۔ دونوں غزلیں بہت اعلی ہیں لیکن جو غزل پہلے پیش کی ہے، اس کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔۔۔۔!
 
تک بندی کے تین بند

ہم عہد گذشتہ کی کوئی ریت نہ لکھ پائے
پلکوں کی سیاہی میں کوئی گیت نہ لکھ پائے


ہاں گاہِ تماشا سے صد بار صدا آئی
ہم، زلف کے تاروں پر سنگیت نہ لکھ پائے


اس عشق کی بازی میں کیا کیا نہ ہوا اب تک
سو ہار لکھے لیکن اک جیت نہ لکھ پائے


سعود عالم ابن سعید

کتبہ: 17 مارچ، 2008
 
ایک اور تک بندی بنام سچ

مت سنو اس کو جو جہاں بولے
سچ تو وہ ہے جو آئینہ بولے


سب تو ہیں خو گر دروغ یہاں
سچ کوئی جا کے اب کہاں بولے


سچ کے پنّے نظر نہیں آتے
جھوٹ ہر ایک داستاں بولے


جن کو اپنوں پہ اعتبار نہیں
کون ایسوں کے درمیاں بولے


جھوٹ ہیں مکر ہیں بہار کے رنگ
سچ جو بولے تو بس خزاں بولے


دھوپ اور چھاؤں کتنے دیکھے ہیں
یہ تو چہرے کا ہر نشاں بولے


لب کِھلے اور بجھی بجھی آنکھیں
کچھ نہاں اور کچھ عیاں بولے


تیری ہر بات جھوٹ ہے اے سعود
سچ تو وہ ہے جو آئینہ بولے


سعود عالم ابن سعید

کتبہ: 16 نومبر، 2006
 

محمد وارث

لائبریرین
سچ کہوں تو یہ بھی بہت اچھی غزل ہے ابنِ سعید صاحب، بہت خوب۔

مت سنو اس کو جو جہاں بولے
سچ تو وہ ہے جو آئینہ بولے

تیری ہر بات جھوٹ ہے اے سعود
سچ تو وہ ہے جو آئینہ بولے

یہ "آئینہ" کا قافیہ، جہاں، کہاں، داستاں، وغیرہ کے ساتھ مجھے تو معیوب لگا ہے، آپ کا کیا خیال ہے۔
 
سچ کہوں تو یہ بھی بہت اچھی غزل ہے ابنِ سعید صاحب، بہت خوب۔



یہ "آئینہ" کا قافیہ، جہاں، کہاں، داستاں، وغیرہ کے ساتھ مجھے تو معیوب لگا ہے، آپ کا کیا خیال ہے۔

یہ ہوئی نہ بات!
سچ تو یہ ہے کہ مجھے شاعری کے الف ب سے بھی واقفیت نہیں ہے، یہ سب کی سب صوتی تک بندیاں ہیں۔ آئینہ کی صوتی ادائگی ایسے موقوں پر عموماً آئیناں کی طرح سنتا آیا ہوں۔ اب چوںکہ میں گنگنا گنگنا کے مصرعے وزن کرتا ہوں تو نتیجتاً تک بندیوں میں اتنا جھول تو آنا ہی تھا۔
ویسے یہ آپ کی تیز نظر تھی کہ تاڑ لیا ورنہ مجھے تو آج سے قبل یہ عیب نظر ہی نہیں آ سکا تھا۔

ارے ہاں پسندیدگی کا شکریہ ادا کرنا تو بھول ہی گیا۔ :)
 
تک بندیوں میں ایک اور اضافہ


کچھ پھول یہاں رنگوں سے عاری بھی کھلے تھے
پر آج انھیں پیڑوں کی شاخوں پہ ثمر ہے


چہروں پہ کئی چہرے لپیٹے ہیں یہاں لوگ
جو بھانپ لے سچائی وہی اہل نظر ہے


دیکھے ہیں کئی پیڑ یہاں سوکھتے ہم نے
رہتا ہے ہرا صحرا میں کیسا وہ شجر ہے


پلکوں کے جھروکوں سے ذرا جھانک کے دیکھو
ہلکورے ہیں شفقت کے کہ شدّت کی لہر ہے


مت مانو کہ باتیں ہیں یہ سو سال پرانی
شہرت ہے یہی اس کی کہ یہ تنگ نظر ہے


سعود عالم ابن سعید

کتبہ: 18 نومبر، 2006
 
ایک اور تک بندی: شفق بنام سرخ کنارہ

سرخ کناروں کے اس پار
ہم نے سنا ہے اک بستی ہے


کیسے اس بستی کے باسی
کون ہیں اس نگری کے نواسی
رہتا ہے خوشیوں کا بسیرا
یا چھائی رہتی ہے اداسی


سرخ کناروں کے اس پار
ہم نے سنا ہے اک بستی ہے


کیسی ہوگی گلوں کی لالی
کیسے ہونگے وہاں کے مالی
پیڑ وہاں بھی سوکھے ہونگے
یا ہر سو ہوگی ہریالی


سرخ کناروں کے اس پار
ہم نے سنا ہے اک بستی ہے


لوگ محبت کرنے والے
چاہت کا دم بھرنے والے
اک دوجے پر جان سے واری
یا آپس میں لڑنے والے


سرخ کناروں کے اس پار
ہم نے سنا ہے اک بستی ہے


وہاں بھی ہوتے ہونگے ظالم
کیا نہ ہوتے ہونگے مظالم
کیا ہونگے قانوں وہاں کے
کیسے ہونگے وہاں کے حاکم


سرخ کناروں کے اس پار
ہم نے سنا ہے اک بستی ہے


جی کرتا ہے سیر کو جاؤں
جا کے وہاں کے لطف اٹھاؤں
گر کوئی ہمراہ چلے تو
جاؤں اور وہیں بس جاؤں


سرخ کناروں کے اس پار
ہم نے سنا ہے اک بستی ہے



سعود عالم ابن سعید

کتبہ: 19 دسمبر، 2006
 
مذکورہ تک بندی شفق بنام سرخ کنارہ کا خیال یوں وارد ہوا کہ اکثر شعراء اور عشاق کو اپنی محبوباؤں سے یہ کہتے ہوئے پایا گیا ہے کہ "چلو اس ظالم سماج اور خلافِ مزاجِ عاشقاں ریت رواجوں کو چھوڑ چھاڑ کر افق کے اس پار محبت کی نگری بسائیں جہاں ان کا دور دور تک کوئی اندیشہ نہ ہو بس ہر سو چہار جانب پیار و محبت ہی موجزن ہو"

لہٰذا دیکھا جائے تو اب وہاں ایسے لا تعداد عاشق مزاج جوڑوں کے باعث پوری بستی وجود میں آ گئی ہوگی۔ میں نے ایسے نگری کا جائزہ لینے کہ کوشش کی ہے نیز دبی زبان میں اپنے خدشات کا بھی اظہار کیا ہے بعد ازاں اپنی شوق دید کا بھی اظہار کیا ہے۔

خیر یہ سب تو مذاق کی ذیل میں تھا اصل واقعہ یوں ہے کہ میں نے ایک تخیلی دنیاں سے حقیقی دنیاں کا موازنہ کر کے حقیقی دنیاں کے کچھ درد و کرب واضح کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ اہل نظر سے بہر طور مخفی نہیں ہیں۔
 
Top