ابن سعید
خادم
کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا
آج قدموں میں ہمارے بھی کنارہ ہوتا
کسی گمراہ مسافر کے ہی کام آ جاتا
ماہِ تاباں نہ سہی بھور کا تارا ہوتا
آج کس منھ سے میں امیدِ شفاعت رکھوں
اسمِ وحدت جو کبھی لب سے گزارا ہوتا
رہگزر زیست کی لمبی سہی دشوار سہی
سہل ہو جاتی اگر تیرا سہارا ہوتا
کپکپاتی ہوئی شمع نے بھی دم توڑ دیا
صبح نو خیز نے ٹک سر تو ابھارا ہوتا
سعود عالم ابنِ سعید
کتبہ: 12 مارچ، 2008
آج قدموں میں ہمارے بھی کنارہ ہوتا
کسی گمراہ مسافر کے ہی کام آ جاتا
ماہِ تاباں نہ سہی بھور کا تارا ہوتا
آج کس منھ سے میں امیدِ شفاعت رکھوں
اسمِ وحدت جو کبھی لب سے گزارا ہوتا
رہگزر زیست کی لمبی سہی دشوار سہی
سہل ہو جاتی اگر تیرا سہارا ہوتا
کپکپاتی ہوئی شمع نے بھی دم توڑ دیا
صبح نو خیز نے ٹک سر تو ابھارا ہوتا
سعود عالم ابنِ سعید
کتبہ: 12 مارچ، 2008