ہماری تک بندیاں

تک بندی: کتاب کی واپسی


آج کئی دن بعد اس نے
کتاب مجھے لوٹائی تھی
نیچی پلکوں بوجھل قدموں
سے وہ میرے پاس آئی تھی
یوں تو کوئی بات نہیں تھی
جانے کیوں وہ گھبرآئی تھی


گھر لا کر جب اس کو کھولا
عجب سی خوشبو بسی ہوئی تھی
ہر صفحے پر اسکے لمس کی
نرمی جیسے رچی ہوئی تھی
کیا اس نے چوما تھا اس کو
لبوں کی گرمی بسی ہوئی تھی


سرخ گلابوں کے کچھ پتے
کچھ ورقوں میں دبے ملے تھے
نازک نازک ننھے ننھے
شاید پورے نہیں کھلے تھے
رنگ اور خوش بو تو باقی تھے
لیکن پتے سوکھ چلے تھے


پینسل کی کچھ مٹی مٹی سی
کچھ گوشوں میں تحریریں تھیں
کچھ پنوں پر پھول بنے تھے
کہیں کہیں پر تصویریں تھیں
طرح طرح کے نقش میں پنہاں
میرے نام کی تحریریں تھیں


ایک ورق پہ کچھ دھبے تھے
گولائی میں شکن پڑے تھے
کیا ہو سکتے تھے وہ آخر
شاید کچھ قطرے ٹپکے تھے
آخر ان قطروں میں کیا تھا
شاید کچھ نازک جذبے تھے


پاگل لڑکی تم نے مجھ کو
کیسے یہ پیغام دیے ہیں
میں بیچارہ خزاں رسیدہ
کب میں نے یہ کام کیے ہیں
کیسے تم کو اپناؤں میں
راہ میں میرے بجھے دیے ہیں


میری راہیں بہت کٹھن ہیں
اپنے نازک قدم نہ ڈالو
مت میرے ہمراہ چلو تم
اپنا گھروندا الگ بنا لو
تھوڑا خود کو اور رلا لو
اپنے ان جذبوں کو سلا لو



سعود عالم ابن سعید

کتبہ: 16 دسمبر، 2006
 

الف عین

لائبریرین
بے شمار اردو فورمس میں ارکان اپنی ایسی ایسی شاعری پیش کرتے ہیں، فوٹو شاپ میں‌سجاتے ہیں (رومن نہ بھی پڑھوں تب بھی تصویروں پر نظر پڑ ہی جاتی ہے(، اس کو شاعری کہتے ہیں جو در اصل تک بندی بھی کہنے میں مجھے تامل ہو سکتا ہے۔ اور تم اپنی شاعری کو تک بندی کہہ رہے ہو۔ ایسی کسرِ نفسی بھی اچھی نہیں سعود۔
ہاں۔ یار تم درمیانی نون غنہ کو بھی نون غنہ ہی کیوں لکھتے ہو۔ جب تک یونی کوڈ کنزورشیم والے اس کو درست نہ کریں اور یونی کوڈ کے اصول ایسے نہ بنیں، تب تک تو درمیانی نون غنہ کو نون ہی لکھنا ہوگا۔ ہمارے رحمت یوسف زئ صاحب جو این ایل پی اردو سے متعلق ہیں، درمیانی بڑی ے کو بھی ے ہی لکھتے ہیں۔ کہ یونی کوڈ کو یہ غلطی ٹھیک کرنی ہوگی کبھی نہ کبھی۔ یعنی ’کیلا‘ کو ’کےلا‘۔
 

دوست

محفلین
واہ جی واہ۔ بہت اچھی شاعری ہے۔ بس دو ایک جگہ ز کے زبردستی استعمال نے پریشان کیا (ذ کی جگہ ز)
 
بے شمار اردو فورمس میں ارکان اپنی ایسی ایسی شاعری پیش کرتے ہیں، فوٹو شاپ میں‌سجاتے ہیں (رومن نہ بھی پڑھوں تب بھی تصویروں پر نظر پڑ ہی جاتی ہے(، اس کو شاعری کہتے ہیں جو در اصل تک بندی بھی کہنے میں مجھے تامل ہو سکتا ہے۔ اور تم اپنی شاعری کو تک بندی کہہ رہے ہو۔ ایسی کسرِ نفسی بھی اچھی نہیں سعود۔
ہاں۔ یار تم درمیانی نون غنہ کو بھی نون غنہ ہی کیوں لکھتے ہو۔ جب تک یونی کوڈ کنزورشیم والے اس کو درست نہ کریں اور یونی کوڈ کے اصول ایسے نہ بنیں، تب تک تو درمیانی نون غنہ کو نون ہی لکھنا ہوگا۔ ہمارے رحمت یوسف زئ صاحب جو این ایل پی اردو سے متعلق ہیں، درمیانی بڑی ے کو بھی ے ہی لکھتے ہیں۔ کہ یونی کوڈ کو یہ غلطی ٹھیک کرنی ہوگی کبھی نہ کبھی۔ یعنی ’کیلا‘ کو ’کےلا‘۔

اب آپ بزرگوں کا اصرار یوں ہی قائم رہا تو مجھے اپنی قسم توڑنی پڑ سکتی ہے۔ پھر سوچتا ہوں کہ 2-3 ہی تک بندیاں تو اور بچی ہیں اب اتنے کے لئے کیا شاعری کا نام دینا۔ اپنی تک بندیوں کے بارے میں میری اپنی رائے یہ ہے کہ۔

یہ دو چار فقرے مقفیٰ مسجع۔
تسلسل ندارد بحر میں نہیں ہیں۔
تخیل سے عاری تغزل سے خالی۔
یہ تک بندیاں ہیں غزل تو نہیں ہیں۔


کچھ دنوں قبل میں نے تک بندی عنوان کے تحت طنز و مزاح بھی لکھا تھا۔ جس میں گلی کوچوں کے صاحب دیوان خود ساختہ شاعر حضرات پر خاصہ کیچڑ اچھالا تھا حتیٰ کہ میں بھی شرابور ہو گیا تھا لھٰذا محتاط رہنا ضروری ہے۔ اب خوش قسمتی کہئے کہ اس کا مسودہ بھی گم ہو گیا ہے۔ :)

میں کئی دنوں تک کنفیوژ رہا ہوں درمیانی نون غنہ کو لیکر کہ اسے کیا لکھوں۔ اب آپ کی رہنمائی حاصل ہو گئی ہے تو ایک عدد مسئلہ حل ہوگیا۔ ایسی چھوٹی چھوٹی پریشانیوں کو بغیر پوچھے محسوس کر کے رہنمائی کرنے پر آپ کا شکر گزار ہی ہو سکتا ہوں۔
 
واہ جی واہ۔ بہت اچھی شاعری ہے۔ بس دو ایک جگہ ز کے زبردستی استعمال نے پریشان کیا (ذ کی جگہ ز)

حوصلہ افزئی اور رہنمائی کے لئے مشکور ہوں۔ میں نے دو جگہوں سے املا کی یہ غلطی دور کر دی ہے۔ مزید کہیں ہوں تو نشاندہی کر دیجیئے گا ممنون ہونگا۔
 
آزاد تک بندی: تحریر مجسم


تمھارے آنے سے!
محفل میں جان آئی ہے
تھرکے ہیں کچھ نئے جذبات
مہکی ہے اک نئی خوشبو
گونجی ہے اک انوکھی صدا۔

تمھارے قلم میں!
لگتا ہے روشنائی نہیں
آنسؤوں کے قطرے ہیں
یا لہو بھرا ہے
بسمل جذبات کا۔

تمھارے الفاظ!
کتنی تپش ہے ان میں
یہ تیز نشتر ہیں
یا جادو کے بول
کہ سنگ بھی پگھل جائے۔

تمہاری تحریریں!
دل کے نہاں خانوں میں
چنگاریاں جگاتی ہیں
اداس کرتی ہیں
پھر بھی بھاتی ہیں۔

اور تم!
کوئی الجھی ہوئی
تحریر ہو
یا اپنی تحریروں کی
مجسم تصویر ہو!!


سعود عالم ابن سعید

کتبہ: 22 اکتوبر، 2006
 
عجلت میں تھا اس لئے بغیر سیاق و سباق بتائے اسے پوسٹ کر دیا تھا۔

خیر! آزاد تک بندی نام ہی عجیب ہے۔ در اصل میں آزاد شاعری کو بھی شاعری میں شمار نہیں کرتا پر میرے کرنے یا نا کرنے سے کیا ہوتا ہے۔ :)

ایک عزیزہ کے اشعار (عموماً آزاد شاعری) سے اتنا متاثر ہوا تھا کہ انہیں داد دینے کے لئے کسی تدبیر کی تلاش میں غلطاں تھا کہ خیال آیا کیوں نا یہ کام آزاد شاعری ہی سے دیا جائے۔ پر چوںکہ میں اس علم سے کورا تھا لہٰذا اس میں بھی تک بندی کا تجربہ کر بیٹھا۔ اور یوں یہ آزاد تک بندی وجود میں آئی۔
 

زھرا علوی

محفلین
بھیا ان "تک بندیوں" کا تاسلسل ٹوٹنا نہیں چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔:)
میں سوچتی ہوں تک بندیوں کا یہ حال ہے توجب شاعری کریں گے تو کیا ہو گا؟:rolleyes:
 
چاچو اور زہرا بیٹا بہت شکریہ پذیرائی کا۔

خیر میں اور شاعری! بات ہی خارج از بحث ہے اور رہی بات تک بندیوں کی تو یہ اکثر امتحانوں میں وارد ہوئے ہیں۔ لہٰذا آپ لوگ میرے لئے یوں دعا کریں۔

خدا تجھے کسی امتحاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے تک بندی کے بحروں میں اضطراب نہیں

ہا ہا ہا ہا ہا

خیر حاضر ہے میری ایک عدد گم گشتہ تک بندی۔ :)
 
عرصہ بعد ایک اور تک بندی

کچھ پھولوں سے بے زاری ہے کچھ خاروں سے یارانہ ہے
جو شہر تھا چاہت کا مرکز ہر چہرہ وہاں انجانا ہے

کوئی بھی مزاج آگاہ نہیں کوئی پرسان حال نہیں
اس بسی بسائی نگری میں اب دور تلک ویرانہ ہے

پینے کو میسر جام نہیں بھرنے کو میسر آہ نہیں
پیاسے دکھیارے جائیں کہاں ساقی نہ کوئی پیمانہ ہے

یہ کیسے بوجھل لمحے ہیں اک خاموشی سی چھائی ہے

ہر چشم میں پرتو وحشت کا ہر آنکھ میں اک افسانہ ہے

لوگو اس کو روٹی دیدو بچو اس کو پتھر مارو
یہ بہکی باتیں کرتا ہے کوئی پاگل ہے دیوانہ ہے


۔۔
سعود عالم ابن سعید
 
شکریہ چاچو!

ویسے میرے مصر ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اگر میں اعلان بھی کر دوں کہ یہ تک بندی نہیں شاعری ہے یا میں تک بند نہیں شاعر ہوں تو حقیقت تو اپنی جگہ اٹل ہی ہوگی ناں۔ :)

یوں تو تک بندی میں کسی تخلص کی ضرورت محسوس نہیں کی پر کیا خیال ہے جو اپنا تخلص تک بند رکھ چھوڑوں۔ :)

خیر مذاق بر طرف یہ بتایئے کہ یارانہ اور انجانا کو شاعری میں ہم قافیہ تسلیم کرتے ہیں؟ (میں اپنی تک بندی میں تو کر لیتا ہوں :) )
نیز یہ کہ “بھرنے کو میسر آہ نہیں” کی معنویت میں کوئی ابہام تو نہیں؟
 

الف عین

لائبریرین
سعود۔ تخلص کی ضرورت نہیں۔۔ خود میری غزلوں میں مقطعے بہت کم ملیں گے۔ اس لئے ضروری نہیں کہ نام میں کچھ اضافہ ہی کیا جائے۔
تمہارے مسئلے کے سلسلے میں یہ کہ یارانہ اور انجانا قوافی آج کل ضرور چلتے ہیں۔ ثقہ شعراء یوں املا بھی بدل دیتے ہیں۔ یعنی یارانہ کو ’یارانا‘ لکھ کر۔ لیکن تمہاری غزل میں قوافی ہی ’نہ‘ والے ہیں۔ اس میں ایک اکلوتا ’نا‘ بس اجکنبی سا لگتا ہے۔ لیکن چلے گا میرے خیال میں۔
 

الف عین

لائبریرین
ہاں۔۔ بھرنے کو میسر آہ پر اب غور کر رہا ہوں۔۔۔۔ واقعی کھٹک رہا ہے/ آہیں بھی کیا کوئ سپلائ کرتا ہے جو اب بلیک میں مل رہی ہیں؟؟ یا میسر نہیں ہیں!!
اس کو
آنکھوں میں قطرۂ اشک نہیں
کر دیں تو معنویت بھی بڑھ جاتی ہے۔ خاص کر اگلے مصرعے کے پیاسے لفظ کے اتھ قطرہ آ جائے تو۔۔
 
پینے کو میسر جام نہیں بھرنے کو میسر آہ نہیں
پیاسے دکھیارے جائیں کہاں ساقی نہ کوئی پیمانہ ہے

وہی تو میں کہوں کہ چاچو نے اس پر کلام کیوں نہیں کیا۔ :)

اچھا اب میں اپنے تخیل کی اڑان ک قصہ بیان کرتا ہوں۔ دوسرے مصرعے کے پیاسے لفظ کو پہلے مصرعے کے نصف اول سے مربوط کیا ہے اور دکھیارے لفظ کو پہلے مصرعے کے نصف آخر سے۔ جبکہ “بھرنے کو میسر آہ نہیں” کو ان معنوں میں استعمال کیا ہے کہ ظلم و استبداد اور تشدد کا یہ عالم ہے کہ بندہ آہیں بھرنے سے بھی محروم ہے۔

اب ایک بار آپ کو پھر تکلیف دونگا کہ اس صورت میں یہ بند کس حد تک موزوں ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
تمھارا مطلب درست ہی نکلتا ہے یعنی بندہ آہ کرنے سے بھی معذور ہے، لیکن وہی بات کو ذرا بے ڈھب لگتی ہے۔ میرے خیال میں آہ کو میسر نہ ہونے کی بجائے آنکھوں کو خشک ہونا کہنا زیادہ مناسب ہے جیسا اوپر میں نے مشورہ دیا تھا۔
اور سعود، یہ ’بند‘ کہاں ہے۔ بند تو قطع بند نظم کے ایک حصے کو کہتے ہیں۔ یہ تو غزل کا ایک شعر ہے!! اتنی فاش غلطی کی تم سے توقع نہیں تھی بھتیجے۔
 
Top