حضور عالیٰ بابا جانی کو تو سمجھ میں آسکتی ہے آپ کی غزل مگر ہم تو طفلِ مکتب ٹھہرے اور آپ جغادری شاعر۔ ہم نے تو ابھی اتنا آٹا نہیں کھایا جتنا بابا جانی نمک کھا چکے ہیں۔
اور میں تو دور سے بھی نظر نہ آؤں گاواہ واہ واہ کیا بات کہی ہے جناب آپ نے ۔ سخنور بھائی کی یہ بات ہے تو پھر میںتو دور کہی جا کر نظر آؤں گا
اور میں تو دور سے بھی نظر نہ آؤں گا
بھائی آپ تو کشتی میں ہیںاس کا مطلب ہم دونوں ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں
محمود۔ تم نے تو با قاعدہ اکھاڑہ قائم کر رکھا ہے۔۔۔
خیر یہ بتاؤ کہ یہ ظفر اقبال کا مراسلہ کہاں سے لیا ہے۔۔ کسی سائٹ سے یا کسی رسالے سے۔ حوالہ دو۔
نوید بھائی کا شکریہ موصول ہوا لگتا ہے مراسلہ بھی آنے ہی کو ہے۔ آجائے تو لڑی مقفل کروادوں گا کہ شر نہ پھیلے۔
حضور ناسازی طبع کے باعث فون نہ اٹھا پایا لیکن بعد میں آپ کو فون کیا تو تب آپ مصروف تھے شاید۔نوید صادق صاحب کا انتظار ہے ۔۔ فاتح صاحب سے فون پر بات ہوئی تھی جناب نے جواب نہیں دیا اب تک:
میری رائے میں ایک اچھی ادبی بحث چل نکلی ہے۔ مقفل کیوں کرنا چاہتے ہیں؟نوید بھائی کا شکریہ موصول ہوا لگتا ہے مراسلہ بھی آنے ہی کو ہے۔ آجائے تو لڑی مقفل کروادوں گا کہ شر نہ پھیلے۔
نوید بھائی کا شکریہ موصول ہوا لگتا ہے مراسلہ بھی آنے ہی کو ہے۔ آجائے تو لڑی مقفل کروادوں گا کہ شر نہ پھیلے۔
تجربے کی اہمیت مسلم ہے۔ ہم دوسروں سے وہ چاہتے ہیں جو ہمین مرغوب ہے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم دوسروں کو موقع دیں کہ جو وہ چاہتے ہیں ، کر کے دکھائیں، بات ہونا ضرور ہے۔ لیکن بقول ہمارے دوست کے یہ ایک تجربہ ہے۔ تجربات کا راستا اگر بند کر دیا جاتا تو شاید ہم آج بھی ولی دکنی اور سعدی دکنی کی زبان لکھ اور بول رہے ہوتے۔ الف کا گرایا جانا ناپسندیدہ ہے۔ بعض مصنفین نے اسے غلط بھی لکھا ہے۔ لیکن میری دانست میں ہمیں شاعر کو موقع دینا چاہئے۔ عرفان صدیقی مرحوم کے ہاں ایسے تجربات نظر آئے تھے۔ پاکستان میں اس کی بھرپور تقلید ہوئی۔ لیکن انہوں نے الف کے گرانے کو قافیہ ردیف تک محدود رکھا۔
آزاد نظم کو ابتدا میں کیا کیا نہیں سننا پڑا۔ لیکن غزل کے ایک بڑے شاعر یگانہ کہ اس کے شدید مخالف تھے، جب وہ راشد سے ملے اور راشد نے انہیں اپنی کچھ نظمیں/نظم سنائی تو فرمانے لگے کہ اگر آزاد نظم یہ ہے تو پھر ٹھیک ہے۔
ہر تبدیلی کے پیچھے کوئی نہ کوئی تجربہ ہوتا ہے۔ اور اسے مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ابھی ظفر اقبال کا قصہ ہی دیکھ لیجے۔ اس سے پہلے کراچی میں سلیم احمد مرحوم ۔۔۔۔ آپ لوگوں کے ذہن میں ہو گا۔
بقول شاد عارفی
مشورہ ضروری ہے ہر طرح مگر یارو
عشق میں بزرگوں سے رائے کون لیتا ہے
اللہ کرے مغل صاحب نے غزل کو عشق کے درجہ پر فائز کر رکھا ہو۔
ابھی دفتر میں بیٹھا ہوں، زیادہ وقت نہیں دے سکتا، انشاء اللہ آج کل میں تفصیلی رائے دوں گا۔