ہماری داستاں ، لکھتے ہوئے گزر جائے --------- ایک غزل نقد و نظر کیلیے

نوید صادق

محفلین
میرا انتظار ہے اور بھرپور ہے۔ لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ میں اس سب کا اہل بھی ہوں کہ نہیں۔ چند الفاظ جانتا ہوں۔ اور الفاظ سے تھوڑی بہت ہیرا پھیری کر لیتا ہوں۔کروں تو کیا کروں۔
دائیں طرف بھی اپنے ہیں اور بائیں جانب بھی اپنے۔
لیکن الفاظ ، بحور، ارکانِ بحور، زبان اور زبان کے دقیق مسائل۔ کیا ان سب میں کچھ حتمی بھی ہے۔ مرزا رفیع سودا کہ ان کی عظمت میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں نکالی جا سکتی، ’’دھیان‘‘ کو بروزن "گمان‘‘ باندھتے ہیں۔ اور انہی دنوں خواجہ میر درد کہ ہماری شاعری میں ایک اہم ستون کا درجہ رکھتے ہیں۔ ’’دھیان‘‘ کو بروزن ’’پان‘‘ باندھتے ہیں۔ جی کوئی صاحب کہہ رہے ہیں کہ ’’دھیان ‘‘ سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ تو کیا ہوا؟ یہ عجیب اصول ہے کہ سنسکرت اور ہندی کے الفاظ کے ساتھ تو جو چاہو کرو لیکن فارسی، عربی کے ساتھ نہیں۔
بہت پہلے میں نے دھیان والا مسئلہ ایک صاحب کے گوش گزار کیا کہ علم و فن میں طاق ہیں، بولے " بیٹا! اب دھیان پورا نہیں بندھ سکتا۔۔ دان ہی بندھے گا"۔ ان کی بات تو مان لی لیکن دل نہیں مانا۔
الفاظ کی بھی اپنی کہانیاں ہیں۔
جناب ظفر اقبال نے کیا کچھ نہیں کیا لفظوں کے ساتھ ۔ اعتراضات بھی ہوئے، لیکن وہ نہ مانے۔ اور نتیجا ! آپ سب جانتے ہیں۔
جناب محب عارفی نے بحور میں تجربات کئے۔
مرحوم مختار صدیقی نے اپنی نظموں میں بحور کا تجربہ کیا۔
لیکن آج ایک نوجوان اٹھتا ہے، علمِ بغاوت بلند کرتا ہے تو ہم بھی لٹھ لے کر پڑ گئے ہیں۔
میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ مغل صاحب کو موقع دیں۔ ان سے وضاحت طلب کی جائے۔ ان کے تجربے کو محض ان ہی کی حد تک سہی لیکن تھوڑا پھلنے پھولنے کا موقع تو دیجئے۔

مجھے کہنا ہے اپنی زباں میں کچھ اور بھی لیکن ابھی کچھ تحفظات ہیں۔
 

مغزل

محفلین
نوید بھائی آچکے ہیں ۔ اب میں اپنی زنبیل سے کچھ نکال رہا ہوں ۔

ملاحظہ کیجیے !

ہماری دا------ستاں ، لکھتے -----ہوئے گزر ---جائے
مفاعلن ------مفاعیلن ------ مفاعلن -----فعلن
زمیں پہ آ----سماں لکھتے----- ہوئے گزر------ جائے
مفاعلن ------مفاعیلن ------ مفاعلن -----فعلن
عجیب بھے---- دہے کھلتا -----نہیںکسی -----صورت
مفاعلن ------مفاعیلن ------ مفاعلن -----فعلان
کبھی تو را-----زداں ، لکھتے---- ہوئے گزر ----جائے
مفاعلن ------مفاعیلن ------ مفاعلن -----فعلن
اس ایک لف ---ظ کی مدّ ت--- سے ہے تلا---ش مجھے
مفاعلن ------مفاعیلن ------ مفاعلن -----فعلان
جو مجھ کو را----ئیگاں ، لکھتے ----- ہوئے گزر----- جائے
مفاعلن ------مفاعیلن ------ مفاعلن ------فعلن
تلاش ہو------ کسی عنوا-------ن کی مگر------- کوئی
مفاعلن ------مفاعیلن ------ مفاعلن ------فعلن
میانِ دا-------ستاں ، لکھتے ---ہوئے گزر----- جائے
مفاعلن ------مفاعیلن ------ مفاعلن ------فعلن
بھنور قری ----ب ہو اور اس ---پہ کشتیوں------- کا ملال
مفاعلن ------مفاعیلن ------ مفاعلن ------فعلان
ہوا پہ با------دباں ، لکھتے -----ہوئے گزر ------جائے
مفاعلن ------مفاعیلن ------- مفاعلن ------فعلن
میں سنگِ را----ہ سے اٹھتا ----نہیں کہ تے ---را وصال
مفاعلن ------مفاعیلن ------ مفاعلن -------فعلان
اسی کو آ------ستاں ، لکھتے -------ہوئے گزر -----جائے
مفاعلن ------مفاعیلن ------- مفاعلن --------فعلن
حصار کھیں-----چ کر بیٹھا----- ہوں ایک مد----دت سے
مفاعلن ------مفاعیلن ------- مفاعلن --------فعلن
رموزِ کہ -----کشاں لکھتے -------ہوئے گزر -----جائے
مفاعلن -------مفاعیلن ------- مفاعلن -------فعلن
وہ ایک حر----ف جو اب تک----- نہیں لکھا --------محمود
مفاعلن ------مفاعیلن -------- مفاعلن -------فعلا ن
کہ لوحِ ” بو----ستاں “ لکھتے---- ہوئے گزر -------جائے
مفاعلن ------مفاعیلن --------- مفاعلن -------فعلن

بہت بہت شکریہ نوید بھائی۔ الف عین ( بابا جانی ) ، وارث صاحب، فاتح الدین اور دیگر زعمائے ادب
انشا اللہ آئندہ میری کوشش ہوگی کہ اس طرح کے معاملات یہاں نہ چھیڑے جائیں کہ بہت سے احباب
کی طبعِ‌نازک پر گراں گزرتا ہے ۔ میرے تجربے کا فیصلہ جو بھی ہو ۔ آپ قبول کریں نہ کریں ،
ہم نے دیا جلا کے سرِ عام رکھ دیا ۔
والسلام
 

نوید صادق

محفلین
بھائی!

اس ساری تقطیع میں بنیادی ارکان کی تھوڑ پھوڑ کا نہ ہونا ہی اس تجربے کے صحیح ہونے پر دال ہے۔

مبارک ہو۔

دوست آئیں تو تفصیلی بات بھی ہو گی۔
 

مغزل

محفلین
بہت بہت شکریہ نوید صادق صاحب ،
آپ نے حوصلہ بڑھایا وگرنہ میں تو خاصا دل گرفتہ ہوگیا تھا۔
مجھے بھی بابا جانی ، وارث بھائی ، فاتح صاحب سمیت دیگر احباب کی رائے درکار ہے ۔
والسلام
 

الف عین

لائبریرین
اس تقطیع کی طرف کسی کا دھیان گیا ہی نہیں۔ واقعی مصرع اولیٰ بھی دوسرا رکن مفاعیلن درست آتا ہے۔
اب بس یہ طے کرنا ہے کہ یہ بحر جو محمود نے بنائی ہے، مستعمل ہے یا نہیں۔ اس کی گنجائش ہے یا نہیں۔ میری طرف سے تو "کلین چٹ‘ ہے۔ (میں یوں بھی جلد ہی مان جاتا ہوں)۔ اور میری کم علمی کے سبب باقی عروض کے لئے وارث۔۔ یوں بھی میرے پاس کتب نہیں ہیں عروض کی۔ میں تو بس بحرِعروض میں اس لحاظ سے غوطہ لگاتا ہوں کہ ’پدرم استاذ بود‘۔ عملی طور پر جو سامنے کی تقطیع اور بحر ہوتی ہے، میرا علم اس تک ہی محدود ہے۔
 

مغزل

محفلین
اس تقطیع کی طرف کسی کا دھیان گیا ہی نہیں۔ واقعی مصرع اولیٰ بھی دوسرا رکن مفاعیلن درست آتا ہے۔
اب بس یہ طے کرنا ہے کہ یہ بحر جو محمود نے بنائی ہے، مستعمل ہے یا نہیں۔ اس کی گنجائش ہے یا نہیں۔ میری طرف سے تو "کلین چٹ‘ ہے۔ (میں یوں بھی جلد ہی مان جاتا ہوں)۔

بہت بہت شکریہ بابا جانی
آپ نے مجھے پھر سے زندہ کردیا ہے ۔ وارث صاحب اور فاتح صاحب آجائیں تو یہ سلسلہ ختم ہو۔
اور آئندہ مرحلہ قبول و رد کا ہوگا ۔ لیکن میں یہ معلوم کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ اس ’’ قبول و رد ‘‘ معیا ر کیا ہے ۔
امید ہے مجھے اسی طرح قدم قدم پر آپ کی رہنمائی ، شفقت اور محبت حاصل رہے گی ۔
والسلام
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
السلام علیکم مغل بھائی جس دن آپ سے فون پر بات ہوئی تھی اسی دن میں نے اس کی تقطع کی تھی اور ان ارکان کے ساتھ مکمل وزن میں تھی لیکن مسئلہ وہی ہے کہ یہ بحر قبول کی جائے گی کہ نہیں ۔ جیسے نوید صاحب کہتے ہیں کہ تجربہ کرنے دیا جائے تو میں بھی اس حق میں ہوں لیکن میری رائے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا کیوں کے میں تو ابھی سیکھ رہا ہوں
ویسے اگر ن م راشد صاحب بھی تجربہ نا کرتے تو آج آزاد نظم کا وجود نا ہوتا

اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب فرمائیں آمین
 

محمد نعمان

محفلین
واہ محمود بھائی۔۔۔۔۔واہ
نوید بھائی کا بہت شکریہ۔۔۔۔
محمود بھائی اب آہستہ آہستہ آپ کی تائید ہوتی جا رہی ہے۔۔۔۔اعجاز صاحب استاد محترم نے بھی کسی حد تک تائید کی ہے نوید بھیا تو ہیں ہی آپ کی طرف کے اور فاتح بھائی اور وارث بھائی نے بھی کوئی آپ کی مخالفت نہیں کی بلکہ آپ کے پیغام کا انہیں بھی انتظار تھا اور وہ بھی بے چینی سے۔۔۔۔
میں کم علم کیا کہوں گا کہ یہ انتہائی افضل اور اعلی بحث ہے اور میں انتہائی ابتدائی سطح کا طالبعلم۔۔۔۔۔
آپ کی کاوش ضرور رنگ لائے گی اور کوئی کیونکر اور کس وجہ سے اس قسم کے تجربات کو روک سکے گا کہ یہ تو مثبت قسم کے انتہائی ضروری تجربات ہیں اور
تجربات کا نہ ہونا ہی تو دراصل ہماری کمزوری اور ہماری نالائقی رہا ہے چاہے وہ کوئی بھی علم ہو چاہے زبان دانی ہو چاہے راہ سخن ہو چاہے خالص سائنسی علوم ہوں۔۔۔۔
اسی لیے ہم بہت پیچھے ہیں مگر ہم اس لیے ناامید نہیں کہ آپ جیسے محنت کش لوگ ابھی ناپید نہیں ابھی ایسے لوگ موجود ہیں۔۔۔۔

بہت بہت شکریہ نوید بھائی۔ الف عین ( بابا جانی ) ، وارث صاحب، فاتح الدین اور دیگر زعمائے ادب
انشا اللہ آئندہ میری کوشش ہوگی کہ اس طرح کے معاملات یہاں نہ چھیڑے جائیں کہ بہت سے احباب
کی طبعِ‌نازک پر گراں گزرتا ہے ۔ میرے تجربے کا فیصلہ جو بھی ہو ۔ آپ قبول کریں نہ کریں ،
ہم نے دیا جلا کے سرِ عام رکھ دیا ۔
والسلام

اور کیوں اس طرح کہہ رہے ہیں بھیا یہی تو امتحان ہے ۔۔۔۔۔کیا اتنی سی مخالفت جو دراصل مخالفت نہیں تھی بلکہ آپ کی سمت کو پرکھنے کے لیے کچھ باد مخالف تھی کہ آپ کو تھوڑا اوپر اٹھائے۔۔۔
اور آپ ہیں کہ دل شکستہ ہوئے جاتے ہیں۔۔۔۔۔
یہ تو آپ کو ذہنی طور پر تیار ہونا چاہیئے کہ ایسے سوال اٹھیں گے اس لیے کہ آپ کو بھی باور کرا سکیں کہ کیا آپ کی اپنی سمت بھی درست ہے یا نہیں۔۔۔۔۔
اونچی پرواز کیا باد مخالف کے بغیر ممکن ہے ؟؟؟؟؟؟ آپ ہی بتائیے !
تندہی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے​
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ نعمان بھائی ۔
سدا سلاامت رہیں ۔ آپ نے میرا حوصلہ بڑھایا ہے ۔
فاتح اور وارث صاحبان کے فرمودات کا مجھے بھی انتظار ہے ۔
والسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے خیال میں پہلے تجربے کی بات کر لی جائے۔

ایک گرم و سرد چشیدہ، جہاں دیدہ، گرگِ باراں دیدہ سرجن یہ اعلان کرے کہ وہ اوپن ہارٹ سرجری میں ایک تجربہ کر کے اس سے یہ یہ مقاصد حاصل کرے گا جو کہ سود مند ہیں تو پھر بھی اسکی مخالفت ضرور ہوگی لیکن کوئی اسے تجربہ کرنے سے روکے گا نہیں۔

دوسری جانب ڈاکٹری کا فرسٹ ایئر کا اسٹوڈنٹ جس نے ابھی آپریشن ہوتے دیکھے ہی ہوں اسطرح کا اعلان کر دے تو نہ صرف اسکی مخالفت ہوگی بلکہ اسے کوئی تجربہ کرنے بھی نہیں دے گا۔

پھر آیئے سرجن کی طرف، سرجن کے اعلان کے بعد اور تجربہ کرنے سے پہلے اور پھر تجربہ کرنے کے بعد کیا اس سے یہ سوال نہیں ہونگے:

- یہ تجربہ کیا تھا؟
- اس کے مقاصد کیا ہیں؟
- یہ کیوں اور کیسے ہوا؟
- اس سے کیا نتائج حاصل ہوئے؟
- کیا مقاصد مکمل ہوئے اور یہ ناکام رہا یا کامیاب؟

سرجری کو گولی ماریئے، شاعری بھی جان لینے دینے سے کم نہیں ہے۔

ساقی فاروقی نے ایک کتاب لکھی ہے "ہدایت نامۂ شاعر"، اس میں انہوں نے اپنے، احمد ندیم قاسمی اور مشفق خواجہ کے درمیان ہونے والی خط و کتابت لکھی ہے۔ اور وہ اس وجہ سے کہ قاسمی مرحوم نے انکی ایک غزل فنون میں شائع کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

پہلے یہ وضاحت کردوں کہ ساقی فاروقی، احمد ندیم قاسمی کے بہت بڑے حمایتی اور ڈاکٹر وزیر آغا کے انتہائی دشمن ۔ اتنے دشمن کے اسی کتاب میں وزیر آغا کے خلاف ایک مضمون لکھا ہے "نابالغ شاعر عرف دولے شاہ کا چوہا" اور اس مضمون میں ڈاکٹر وزیر آغا کے کلیات پر مطالب اور عروض اور زبان و بیان کے کڑے اور جائز اعتراضات ہیں، یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ یہ مضمون پڑھ کر ڈاکٹر صاحب چھ ماہ تک صبح کی سیر کیلیے بھی اپنی حویلی سے باہر نہیں نکلے تھے۔

اسکے باوجود ساقی کی غزل رد ہوئی تو اس وجہ سے کہ انہوں نے ایک بحر کے ساتھ تجربہ کیا تھا اور اس غزل نے ایک بحث شروع کر دی جس میں دیگر ماہرین و شعرائے کرام بھی شامل ہو گئے۔

فنون میں اپنی غزل چھپوانے سے پہلے ساقی کو قاسمی اور خواجہ کے ان سوالات کا تسلی بخش جواب دینا پڑا:

- جس بحر میں تجربہ کیا ہے وہ کونسی تھی؟
- صدیوں سے مروج بحر میں کیا کمی تھی کہ تجرے کی ضرورت پیش آئی؟
- جب ستر سے زائد بحور پہلے سے موجود ہیں تو ایک نئی بحر ایجاد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
- اس تجربے میں بحر کے ساتھ کیا کیا گیا تھا؟
- بحر کے آہنگ پر اس سے کیا فرق پڑا؟
- اسکی روانی اور بہاؤ پر اس سے کیا اثر پڑا؟
- اس سے غزل پر کیا اثر پڑا؟

اب سرجن اور شاگرد کو ذرا ذہن میں لایئے اور دیکھیئے کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں!

نوید صادق صاحب نے اوپر جن شعراء کرام کا نام لیا ہے ان کی شخصیات کو ذہن میں لایئے یا ان سے پوچھیے کہ انہوں نے الفاظ اور بحور کے ساتھ "چھیڑ خوانی" کرنی شروع کب کی تھی تو بات مزید واضح ہوگی!

یا اس کو مزید واضح کرنے کیلیے میں مغل صاحب سے اوپر دیئے گئے سوالوں میں سے ایک بھی سوال کروں (چاہے وہ منحوس سرجن والا ہو یا ساقی فاروقی پر ہونے والی لعن طعن والا) تو کیا وہ اسکا تسلی بخش جواب دے سکیں گے؟ کیا وہ صرف اس بحر کا نام ہی بتا سکیں گے جس کے ساتھ انہوں نے "خود ساختہ تجربہ" کیا ہے؟

عرض صرف کرنا چاہ رہا ہوں کہ پہلے جس چیز کے ساتھ تجربہ کرنا مقصود ہے اسکا علم حاصل کیجیئے اس پر عبور حاصل کیجیئے پھر جو چاہے کیجیئے۔ یعنی یہ کہ اگر بحر کے ساتھ تجربہ کرنا ہے تو یہ جانیئے کہ وہ کیا ہے، وہ کہاں سے نکالی گئی ہے، اس میں کتنے مختلف اوزان جمع ہو سکتے ہیں، اس میں کیا رعایتیں ہیں، اس کو اساتذہ نے کس طرح برتا ہے، اسکا آہنگ کیا ہے، اس کا چلن کیا ہے، اس کا پڑھنے کا انداز کیا ہے۔

اور اسکے باوجود اگر آپ سمجھیں کہ جو آپ کہنا چاہ رہے ہیں وہ دنیا کی کسی بحر میں نہیں آ سکتا تو کیجیئے ایک نئی بحر ایجاد کس کافر کو اعتراض ہے؟

میں واضح کردوں کہ میں ہمیشہ سے عروض کو آسان بنانے اور اس میں غیر ضروری بندشیں ختم کرنے، جیسے 'کہ' اور 'نہ' کو سبب نہ سمجھنا، کی ہمیشہ سے حمایت کرتا رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس علم میں بہتری آئے اور زیادہ سے زیادہ افراد باوزن شاعری کو سمجھ کر کر سکیں۔

لیکن کسی بھی علم کی کسی بھی مبتدی کے ہاتھوں کھلواڑ کی اجازت کوئی نہیں دے گا، یہ خاکسار بھی نہیں۔

یہ اس تھریڈ میں میری آخری پوسٹ ہے، جبکہ پہلی پوسٹ میں میں نے صاف لکھ مارا تھا کہ یہ شاعری نہیں ہے، اتنے سخت جواب کی وجہ یہ تھی کہ مغل صاحب یا تو کسی کے علم کا امتحان لیتے ہیں یا ہمیں مسخرہ سمجھتے ہیں یا خود انتہائی غیر سنجیدہ انسان ہیں۔

یہ تھریڈ پوسٹ کرنے سے چند دن پہلے جب انہوں نے اصلاح سخن میں یہ غزل پوسٹ کی تھی تو اعجاز صاحب اور فاتح صاحب اور اس خاکسار سبھی نے اپنی رائے دی تھی تو پھر اس غزل کو بغیر کسی قطع و برید کے یہاں پوسٹ کرنے کا کیا مقصد تھا؟ حضور کیا صرف چھکے ہی مارتے ہیں!

و ما علینا الا البلاغ
 

محمد نعمان

محفلین
بہت شکریہ وارث بھائی آپ کی بات کی کیا بات ہے۔۔۔جناب دل موہ لیا قسم سے۔۔۔۔
سر میں کم علم بار بار اپنی کم علمی ظاہر کرنے کو آ ٹپکتا ہوں معذرت خواہ ہوں۔۔۔آپ کی بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی۔۔۔۔۔
میں واضح کردوں کہ میں ہمیشہ سے عروض کو آسان بنانے اور اس میں غیر ضروری بندشیں ختم کرنے، جیسے 'کہ' اور 'نہ' کو سبب نہ سمجھنا، کی ہمیشہ سے حمایت کرتا رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس علم میں بہتری آئے اور زیادہ سے زیادہ افراد باوزن شاعری کو سمجھ کر کر سکیں۔
سر یہ تو آپ کا احسان عظیم ہے اور ہو گا اور صدقہ جاریہ۔۔۔۔

جہاں تک میرا خیال ہے آپ کی بات سو فیصد درست ہے کہ کچھ نیا ایجاد کرنے کے لیے پہلے مروجہ اور موجودہ پر مکمل عبور حاصل کرنا لازم ہے کہ یہ سب کچھ بھی تو یوں ہی نہیں ایجاد ہو گیا تھا اس کے پیچھے مکمل علم اور تجربہ تھا۔۔۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
مغل صاحب!
یوں تو وارث صاحب نے اپنے مراسلے میں صورت حال کو واضح کر ہی دیا ہے لیکن آپ کو یاد ہو گا کہ آپ سے بالمشافہ ملاقات کے دوران جب آپ نے تین مزید شعرا کی موجودگی میں اپنا یہی کلام عطا فرمایا تھا اور اپنی اس تازہ ایجاد بحر کا تذکرہ فرمایا تھا تو ناچیز کی کم علمی کا امتحان لینے کو استفسار بھی فرمایا تھا کہ اب کہیے کیا کہتے ہیں اس بارے؟ تب بھی اس نا چیز نے بھی یہی عرض کیا تھا کہ اخراج بحور کے مسلمہ اصول وضع کیے گئے ہیں جن سے رو گردانی نہیں کی جا سکتی نیز اگر یہ بحر ہی ہے تو کس دائرے میں سے اخذ کی گئی ہے؟
عروض‌میں بحور کے اخراج یا کے حوالے سے ہی کچھ دائرے مثلاً دائرہ مفردہ، مفروقیہ، متقابلہ، متساویہ، مرکبہ متفقہ، مختلفہ، وغیرہ تشکیل دیے گئے ہیں جن پر بحور کے اخراج کی اساس ہے۔ نیز ان دائروں سے بحور کے اخراج کے بھی کچھ اصول وضع کیے گئے ہیں جن میں مراقبہ، معاقبہ، مکاتفہ، وغیرہ شامل ہیں۔
ورنہ کیا امر مانع تھا کہ ناچیز سے منچلے ذیل کی امثال سے ملتی جلتی سینکڑوں‌نہیں بلکہ ہزاروں بحور ایجاد نہ کر لیتے:
فعولن فاعلن مفاعیلن مستفعلن
فاعلن مفاعیلن مستفعلن فاعلاتن
مفاعیلن مستفعلن فاعلاتن مفاعلتن
مستفعلن فاعلاتن مفاعلتن متفاعلن
فاعلاتن مفاعلتن متفاعلن فاع لاتن
مفاعلتن متفاعلن فاع لاتن مفعولات
متفاعلن فاع لاتن مفعولات مستفعلن
الخ
غور کیجیے کہ ان تمام مغلظات میں ارکان حقیقی ہی استعمال ہوئے ہیں۔

میں اس کے متعلق مزید کچھ لکھنا تو چاہتا ہوں لیکن کیا کروں ایک تو میری ازلی جہالت آڑے آ جاتی ہے اور دوسرا مسئلہ ایچ ٹی ایم ایل یا وی بی میں ایسے دائروں کی شکلیں بنانے کا ہے۔ بہرحال میں کوشش کرتا ہوں کہ کچھ لکھ سکوں اور دائروں کو چارٹ کی شکل میں پیش کر سکوں۔ جلد ہی ایک دھاگا شروع کرتا ہوں جس میں اس مضمون پر بات ہو گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ
 

مغزل

محفلین
میرے خیال میں پہلے تجربے کی بات کر لی جائے۔

ایک گرم و سرد چشیدہ، جہاں دیدہ، گرگِ باراں دیدہ سرجن یہ اعلان کرے کہ وہ اوپن ہارٹ سرجری میں ایک تجربہ کر کے اس سے یہ یہ مقاصد حاصل کرے گا جو کہ سود مند ہیں تو پھر بھی اسکی مخالفت ضرور ہوگی لیکن کوئی اسے تجربہ کرنے سے روکے گا نہیں۔

دوسری جانب ڈاکٹری کا فرسٹ ایئر کا اسٹوڈنٹ جس نے ابھی آپریشن ہوتے دیکھے ہی ہوں اسطرح کا اعلان کر دے تو نہ صرف اسکی مخالفت ہوگی بلکہ اسے کوئی تجربہ کرنے بھی نہیں دے گا۔

پھر آیئے سرجن کی طرف، سرجن کے اعلان کے بعد اور تجربہ کرنے سے پہلے اور پھر تجربہ کرنے کے بعد کیا اس سے یہ سوال نہیں ہونگے:

- یہ تجربہ کیا تھا؟
- اس کے مقاصد کیا ہیں؟
- یہ کیوں اور کیسے ہوا؟
- اس سے کیا نتائج حاصل ہوئے؟
- کیا مقاصد مکمل ہوئے اور یہ ناکام رہا یا کامیاب؟

سرجری کو گولی ماریئے، شاعری بھی جان لینے دینے سے کم نہیں ہے۔

ساقی فاروقی نے ایک کتاب لکھی ہے "ہدایت نامۂ شاعر"، اس میں انہوں نے اپنے، احمد ندیم قاسمی اور مشفق خواجہ کے درمیان ہونے والی خط و کتابت لکھی ہے۔ اور وہ اس وجہ سے کہ قاسمی مرحوم نے انکی ایک غزل فنون میں شائع کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

پہلے یہ وضاحت کردوں کہ ساقی فاروقی، احمد ندیم قاسمی کے بہت بڑے حمایتی اور ڈاکٹر وزیر آغا کے انتہائی دشمن ۔ اتنے دشمن کے اسی کتاب میں وزیر آغا کے خلاف ایک مضمون لکھا ہے "نابالغ شاعر عرف دولے شاہ کا چوہا" اور اس مضمون میں ڈاکٹر وزیر آغا کے کلیات پر مطالب اور عروض اور زبان و بیان کے کڑے اور جائز اعتراضات ہیں، یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ یہ مضمون پڑھ کر ڈاکٹر صاحب چھ ماہ تک صبح کی سیر کیلیے بھی اپنی حویلی سے باہر نہیں نکلے تھے۔

اسکے باوجود ساقی کی غزل رد ہوئی تو اس وجہ سے کہ انہوں نے ایک بحر کے ساتھ تجربہ کیا تھا اور اس غزل نے ایک بحث شروع کر دی جس میں دیگر ماہرین و شعرائے کرام بھی شامل ہو گئے۔

فنون میں اپنی غزل چھپوانے سے پہلے ساقی کو قاسمی اور خواجہ کے ان سوالات کا تسلی بخش جواب دینا پڑا:

- جس بحر میں تجربہ کیا ہے وہ کونسی تھی؟
- صدیوں سے مروج بحر میں کیا کمی تھی کہ تجرے کی ضرورت پیش آئی؟
- جب ستر سے زائد بحور پہلے سے موجود ہیں تو ایک نئی بحر ایجاد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
- اس تجربے میں بحر کے ساتھ کیا کیا گیا تھا؟
- بحر کے آہنگ پر اس سے کیا فرق پڑا؟
- اسکی روانی اور بہاؤ پر اس سے کیا اثر پڑا؟
- اس سے غزل پر کیا اثر پڑا؟

اب سرجن اور شاگرد کو ذرا ذہن میں لایئے اور دیکھیئے کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں!

نوید صادق صاحب نے اوپر جن شعراء کرام کا نام لیا ہے ان کی شخصیات کو ذہن میں لایئے یا ان سے پوچھیے کہ انہوں نے الفاظ اور بحور کے ساتھ "چھیڑ خوانی" کرنی شروع کب کی تھی تو بات مزید واضح ہوگی!

یا اس کو مزید واضح کرنے کیلیے میں مغل صاحب سے اوپر دیئے گئے سوالوں میں سے ایک بھی سوال کروں (چاہے وہ منحوس سرجن والا ہو یا ساقی فاروقی پر ہونے والی لعن طعن والا) تو کیا وہ اسکا تسلی بخش جواب دے سکیں گے؟ کیا وہ صرف اس بحر کا نام ہی بتا سکیں گے جس کے ساتھ انہوں نے "خود ساختہ تجربہ" کیا ہے؟

عرض صرف کرنا چاہ رہا ہوں کہ پہلے جس چیز کے ساتھ تجربہ کرنا مقصود ہے اسکا علم حاصل کیجیئے اس پر عبور حاصل کیجیئے پھر جو چاہے کیجیئے۔ یعنی یہ کہ اگر بحر کے ساتھ تجربہ کرنا ہے تو یہ جانیئے کہ وہ کیا ہے، وہ کہاں سے نکالی گئی ہے، اس میں کتنے مختلف اوزان جمع ہو سکتے ہیں، اس میں کیا رعایتیں ہیں، اس کو اساتذہ نے کس طرح برتا ہے، اسکا آہنگ کیا ہے، اس کا چلن کیا ہے، اس کا پڑھنے کا انداز کیا ہے۔

اور اسکے باوجود اگر آپ سمجھیں کہ جو آپ کہنا چاہ رہے ہیں وہ دنیا کی کسی بحر میں نہیں آ سکتا تو کیجیئے ایک نئی بحر ایجاد کس کافر کو اعتراض ہے؟

میں واضح کردوں کہ میں ہمیشہ سے عروض کو آسان بنانے اور اس میں غیر ضروری بندشیں ختم کرنے، جیسے 'کہ' اور 'نہ' کو سبب نہ سمجھنا، کی ہمیشہ سے حمایت کرتا رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس علم میں بہتری آئے اور زیادہ سے زیادہ افراد باوزن شاعری کو سمجھ کر کر سکیں۔

لیکن کسی بھی علم کی کسی بھی مبتدی کے ہاتھوں کھلواڑ کی اجازت کوئی نہیں دے گا، یہ خاکسار بھی نہیں۔

یہ اس تھریڈ میں میری آخری پوسٹ ہے، جبکہ پہلی پوسٹ میں میں نے صاف لکھ مارا تھا کہ یہ شاعری نہیں ہے، اتنے سخت جواب کی وجہ یہ تھی کہ مغل صاحب یا تو کسی کے علم کا امتحان لیتے ہیں یا ہمیں مسخرہ سمجھتے ہیں یا خود انتہائی غیر سنجیدہ انسان ہیں۔

یہ تھریڈ پوسٹ کرنے سے چند دن پہلے جب انہوں نے اصلاح سخن میں یہ غزل پوسٹ کی تھی تو اعجاز صاحب اور فاتح صاحب اور اس خاکسار سبھی نے اپنی رائے دی تھی تو پھر اس غزل کو بغیر کسی قطع و برید کے یہاں پوسٹ کرنے کا کیا مقصد تھا؟ حضور کیا صرف چھکے ہی مارتے ہیں!

و ما علینا الا البلاغ

محترمی محمد وارث (صاحب)
آپ کا محبت اور شفقت نامہ نظرنواز ہوا، رسید حاضر ہے۔
جو کچھ بھی آپ نے فرمایا ، سر آنکھوں پر ، کہ میں جہل مرتب سمجھنے سے قاصر ہوں۔ یقینا میری بہتری کی بات کی ہوگی، ہاں ایک گزارش آپ صاحبِ‌علم اور میں ٹھہرا جاہل ۔میرے لیے اتنا کافی ہے جو میں کیا ۔ پہلے تو آپ اسے وزن سے خارج قرار دے رہےتھے ۔تھیک ہے مروجہ بحر میں نہیں تو کیا ہوا ۔ آپ عالم العروض او ر میں جاہل ، بھلا کیا آپ کے سوالات کے سامنے ٹھہر سکوں گا۔ میں یہاں وضاحتیں کرنے نہیں آیا ۔ بس یہ کہوں گا کہ جناب قصور میرا تھا جو تیسرے درجےمیں ہوکر ایم اے کی شخصیت سے سوال پوچھ بیٹھا۔۔میں شاید کبھی کچھ نہ سیکھ پاتا اگر آپ کے مراسلے کے بعد مجھے ایک قول یاد نہ آجاتا ، شیخ سعد ی کا کہنا تھا ’’ حدیث موچی کو سنانے کی نہیں ہوتی ‘‘ ۔۔ لیکن آپ نے مجھے حدیث سنا کر میرے علم میں اضافہ فرما یا اس کے لیے سراپا تشکر ہوں۔ مجھے آپ کا امتحان مقصود نہ تھا اور نہ ہی آپ کی علمی حیثیت جانچنا، مجھے جو کرنا تھا میں‌کر چلا ۔ آپ رد کیجیے شوق سے مجھے آپ سے کم علم رکھنے والے اساتذہ کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔ سو میری غلطی پر مجھے معاف کیجے ۔
والسلام
 

مغزل

محفلین
محترم احباب اب چونکہ مجھے عروض کا اتنا علم نہیں ، میں نے ایک تک بندی کی ، ایک بھونڈا تجربہ جو ناکام ہوا ۔ سو یہ بحث میری طرف سے ختم ۔ والسلام
 

مغزل

محفلین
مغل صاحب!
یوں تو وارث صاحب نے اپنے مراسلے میں صورت حال کو واضح کر ہی دیا ہے لیکن آپ کو یاد ہو گا کہ آپ سے بالمشافہ ملاقات کے دوران جب آپ نے تین مزید شعرا کی موجودگی میں اپنا یہی کلام عطا فرمایا تھا اور اپنی اس تازہ ایجاد بحر کا تذکرہ فرمایا تھا تو ناچیز کی کم علمی کا امتحان لینے کو استفسار بھی فرمایا تھا کہ اب کہیے کیا کہتے ہیں اس بارے؟ تب بھی اس نا چیز نے بھی یہی عرض کیا تھا کہ اخراج بحور کے مسلمہ اصول وضع کیے گئے ہیں جن سے رو گردانی نہیں کی جا سکتی نیز اگر یہ بحر ہی ہے تو کس دائرے میں سے اخذ کی گئی ہے؟
عروض‌میں بحور کے اخراج یا کے حوالے سے ہی کچھ دائرے مثلاً دائرہ مفردہ، مفروقیہ، متقابلہ، متساویہ، مرکبہ متفقہ، مختلفہ، وغیرہ تشکیل دیے گئے ہیں جن پر بحور کے اخراج کی اساس ہے۔ نیز ان دائروں سے بحور کے اخراج کے بھی کچھ اصول وضع کیے گئے ہیں جن میں مراقبہ، معاقبہ، مکاتفہ، وغیرہ شامل ہیں۔
ورنہ کیا امر مانع تھا کہ ناچیز سے منچلے ذیل کی امثال سے ملتی جلتی سینکڑوں‌نہیں بلکہ ہزاروں بحور ایجاد نہ کر لیتے:
فعولن فاعلن مفاعیلن مستفعلن
فاعلن مفاعیلن مستفعلن فاعلاتن
مفاعیلن مستفعلن فاعلاتن مفاعلتن
مستفعلن فاعلاتن مفاعلتن متفاعلن
فاعلاتن مفاعلتن متفاعلن فاع لاتن
مفاعلتن متفاعلن فاع لاتن مفعولات
متفاعلن فاع لاتن مفعولات مستفعلن
الخ
غور کیجیے کہ ان تمام مغلظات میں ارکان حقیقی ہی استعمال ہوئے ہیں۔

میں اس کے متعلق مزید کچھ لکھنا تو چاہتا ہوں لیکن کیا کروں ایک تو میری ازلی جہالت آڑے آ جاتی ہے اور دوسرا مسئلہ ایچ ٹی ایم ایل یا وی بی میں ایسے دائروں کی شکلیں بنانے کا ہے۔ بہرحال میں کوشش کرتا ہوں کہ کچھ لکھ سکوں اور دائروں کو چارٹ کی شکل میں پیش کر سکوں۔ جلد ہی ایک دھاگا شروع کرتا ہوں جس میں اس مضمون پر بات ہو گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ

بہت شکریہ فاتح بھائی،
 

مغزل

محفلین
صاحبانِ فن اگر کوئی بات کرنا چاہیں تو ٹھیک ، وگرنہ میری گزارش ہے کہ اصلاحِ سخن کی لڑی اور اس لڑی کو باہم ملا کر ایک کیا جائے اور مقفل کردیا جائے۔ والسلام
 
Top