محمد نعمان
محفلین
بہت خوب محمود بھیا۔۔۔
ہم انتظار میں ہیں۔۔۔
ہم انتظار میں ہیں۔۔۔
اس تقطیع کی طرف کسی کا دھیان گیا ہی نہیں۔ واقعی مصرع اولیٰ بھی دوسرا رکن مفاعیلن درست آتا ہے۔
اب بس یہ طے کرنا ہے کہ یہ بحر جو محمود نے بنائی ہے، مستعمل ہے یا نہیں۔ اس کی گنجائش ہے یا نہیں۔ میری طرف سے تو "کلین چٹ‘ ہے۔ (میں یوں بھی جلد ہی مان جاتا ہوں)۔
بہت بہت شکریہ نوید بھائی۔ الف عین ( بابا جانی ) ، وارث صاحب، فاتح الدین اور دیگر زعمائے ادب
انشا اللہ آئندہ میری کوشش ہوگی کہ اس طرح کے معاملات یہاں نہ چھیڑے جائیں کہ بہت سے احباب
کی طبعِنازک پر گراں گزرتا ہے ۔ میرے تجربے کا فیصلہ جو بھی ہو ۔ آپ قبول کریں نہ کریں ،
ہم نے دیا جلا کے سرِ عام رکھ دیا ۔
والسلام
سر یہ تو آپ کا احسان عظیم ہے اور ہو گا اور صدقہ جاریہ۔۔۔۔میں واضح کردوں کہ میں ہمیشہ سے عروض کو آسان بنانے اور اس میں غیر ضروری بندشیں ختم کرنے، جیسے 'کہ' اور 'نہ' کو سبب نہ سمجھنا، کی ہمیشہ سے حمایت کرتا رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس علم میں بہتری آئے اور زیادہ سے زیادہ افراد باوزن شاعری کو سمجھ کر کر سکیں۔
میرے خیال میں پہلے تجربے کی بات کر لی جائے۔
ایک گرم و سرد چشیدہ، جہاں دیدہ، گرگِ باراں دیدہ سرجن یہ اعلان کرے کہ وہ اوپن ہارٹ سرجری میں ایک تجربہ کر کے اس سے یہ یہ مقاصد حاصل کرے گا جو کہ سود مند ہیں تو پھر بھی اسکی مخالفت ضرور ہوگی لیکن کوئی اسے تجربہ کرنے سے روکے گا نہیں۔
دوسری جانب ڈاکٹری کا فرسٹ ایئر کا اسٹوڈنٹ جس نے ابھی آپریشن ہوتے دیکھے ہی ہوں اسطرح کا اعلان کر دے تو نہ صرف اسکی مخالفت ہوگی بلکہ اسے کوئی تجربہ کرنے بھی نہیں دے گا۔
پھر آیئے سرجن کی طرف، سرجن کے اعلان کے بعد اور تجربہ کرنے سے پہلے اور پھر تجربہ کرنے کے بعد کیا اس سے یہ سوال نہیں ہونگے:
- یہ تجربہ کیا تھا؟
- اس کے مقاصد کیا ہیں؟
- یہ کیوں اور کیسے ہوا؟
- اس سے کیا نتائج حاصل ہوئے؟
- کیا مقاصد مکمل ہوئے اور یہ ناکام رہا یا کامیاب؟
سرجری کو گولی ماریئے، شاعری بھی جان لینے دینے سے کم نہیں ہے۔
ساقی فاروقی نے ایک کتاب لکھی ہے "ہدایت نامۂ شاعر"، اس میں انہوں نے اپنے، احمد ندیم قاسمی اور مشفق خواجہ کے درمیان ہونے والی خط و کتابت لکھی ہے۔ اور وہ اس وجہ سے کہ قاسمی مرحوم نے انکی ایک غزل فنون میں شائع کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
پہلے یہ وضاحت کردوں کہ ساقی فاروقی، احمد ندیم قاسمی کے بہت بڑے حمایتی اور ڈاکٹر وزیر آغا کے انتہائی دشمن ۔ اتنے دشمن کے اسی کتاب میں وزیر آغا کے خلاف ایک مضمون لکھا ہے "نابالغ شاعر عرف دولے شاہ کا چوہا" اور اس مضمون میں ڈاکٹر وزیر آغا کے کلیات پر مطالب اور عروض اور زبان و بیان کے کڑے اور جائز اعتراضات ہیں، یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ یہ مضمون پڑھ کر ڈاکٹر صاحب چھ ماہ تک صبح کی سیر کیلیے بھی اپنی حویلی سے باہر نہیں نکلے تھے۔
اسکے باوجود ساقی کی غزل رد ہوئی تو اس وجہ سے کہ انہوں نے ایک بحر کے ساتھ تجربہ کیا تھا اور اس غزل نے ایک بحث شروع کر دی جس میں دیگر ماہرین و شعرائے کرام بھی شامل ہو گئے۔
فنون میں اپنی غزل چھپوانے سے پہلے ساقی کو قاسمی اور خواجہ کے ان سوالات کا تسلی بخش جواب دینا پڑا:
- جس بحر میں تجربہ کیا ہے وہ کونسی تھی؟
- صدیوں سے مروج بحر میں کیا کمی تھی کہ تجرے کی ضرورت پیش آئی؟
- جب ستر سے زائد بحور پہلے سے موجود ہیں تو ایک نئی بحر ایجاد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
- اس تجربے میں بحر کے ساتھ کیا کیا گیا تھا؟
- بحر کے آہنگ پر اس سے کیا فرق پڑا؟
- اسکی روانی اور بہاؤ پر اس سے کیا اثر پڑا؟
- اس سے غزل پر کیا اثر پڑا؟
اب سرجن اور شاگرد کو ذرا ذہن میں لایئے اور دیکھیئے کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں!
نوید صادق صاحب نے اوپر جن شعراء کرام کا نام لیا ہے ان کی شخصیات کو ذہن میں لایئے یا ان سے پوچھیے کہ انہوں نے الفاظ اور بحور کے ساتھ "چھیڑ خوانی" کرنی شروع کب کی تھی تو بات مزید واضح ہوگی!
یا اس کو مزید واضح کرنے کیلیے میں مغل صاحب سے اوپر دیئے گئے سوالوں میں سے ایک بھی سوال کروں (چاہے وہ منحوس سرجن والا ہو یا ساقی فاروقی پر ہونے والی لعن طعن والا) تو کیا وہ اسکا تسلی بخش جواب دے سکیں گے؟ کیا وہ صرف اس بحر کا نام ہی بتا سکیں گے جس کے ساتھ انہوں نے "خود ساختہ تجربہ" کیا ہے؟
عرض صرف کرنا چاہ رہا ہوں کہ پہلے جس چیز کے ساتھ تجربہ کرنا مقصود ہے اسکا علم حاصل کیجیئے اس پر عبور حاصل کیجیئے پھر جو چاہے کیجیئے۔ یعنی یہ کہ اگر بحر کے ساتھ تجربہ کرنا ہے تو یہ جانیئے کہ وہ کیا ہے، وہ کہاں سے نکالی گئی ہے، اس میں کتنے مختلف اوزان جمع ہو سکتے ہیں، اس میں کیا رعایتیں ہیں، اس کو اساتذہ نے کس طرح برتا ہے، اسکا آہنگ کیا ہے، اس کا چلن کیا ہے، اس کا پڑھنے کا انداز کیا ہے۔
اور اسکے باوجود اگر آپ سمجھیں کہ جو آپ کہنا چاہ رہے ہیں وہ دنیا کی کسی بحر میں نہیں آ سکتا تو کیجیئے ایک نئی بحر ایجاد کس کافر کو اعتراض ہے؟
میں واضح کردوں کہ میں ہمیشہ سے عروض کو آسان بنانے اور اس میں غیر ضروری بندشیں ختم کرنے، جیسے 'کہ' اور 'نہ' کو سبب نہ سمجھنا، کی ہمیشہ سے حمایت کرتا رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس علم میں بہتری آئے اور زیادہ سے زیادہ افراد باوزن شاعری کو سمجھ کر کر سکیں۔
لیکن کسی بھی علم کی کسی بھی مبتدی کے ہاتھوں کھلواڑ کی اجازت کوئی نہیں دے گا، یہ خاکسار بھی نہیں۔
یہ اس تھریڈ میں میری آخری پوسٹ ہے، جبکہ پہلی پوسٹ میں میں نے صاف لکھ مارا تھا کہ یہ شاعری نہیں ہے، اتنے سخت جواب کی وجہ یہ تھی کہ مغل صاحب یا تو کسی کے علم کا امتحان لیتے ہیں یا ہمیں مسخرہ سمجھتے ہیں یا خود انتہائی غیر سنجیدہ انسان ہیں۔
یہ تھریڈ پوسٹ کرنے سے چند دن پہلے جب انہوں نے اصلاح سخن میں یہ غزل پوسٹ کی تھی تو اعجاز صاحب اور فاتح صاحب اور اس خاکسار سبھی نے اپنی رائے دی تھی تو پھر اس غزل کو بغیر کسی قطع و برید کے یہاں پوسٹ کرنے کا کیا مقصد تھا؟ حضور کیا صرف چھکے ہی مارتے ہیں!
و ما علینا الا البلاغ
مغل صاحب!
یوں تو وارث صاحب نے اپنے مراسلے میں صورت حال کو واضح کر ہی دیا ہے لیکن آپ کو یاد ہو گا کہ آپ سے بالمشافہ ملاقات کے دوران جب آپ نے تین مزید شعرا کی موجودگی میں اپنا یہی کلام عطا فرمایا تھا اور اپنی اس تازہ ایجاد بحر کا تذکرہ فرمایا تھا تو ناچیز کی کم علمی کا امتحان لینے کو استفسار بھی فرمایا تھا کہ اب کہیے کیا کہتے ہیں اس بارے؟ تب بھی اس نا چیز نے بھی یہی عرض کیا تھا کہ اخراج بحور کے مسلمہ اصول وضع کیے گئے ہیں جن سے رو گردانی نہیں کی جا سکتی نیز اگر یہ بحر ہی ہے تو کس دائرے میں سے اخذ کی گئی ہے؟
عروضمیں بحور کے اخراج یا کے حوالے سے ہی کچھ دائرے مثلاً دائرہ مفردہ، مفروقیہ، متقابلہ، متساویہ، مرکبہ متفقہ، مختلفہ، وغیرہ تشکیل دیے گئے ہیں جن پر بحور کے اخراج کی اساس ہے۔ نیز ان دائروں سے بحور کے اخراج کے بھی کچھ اصول وضع کیے گئے ہیں جن میں مراقبہ، معاقبہ، مکاتفہ، وغیرہ شامل ہیں۔
ورنہ کیا امر مانع تھا کہ ناچیز سے منچلے ذیل کی امثال سے ملتی جلتی سینکڑوںنہیں بلکہ ہزاروں بحور ایجاد نہ کر لیتے:
فعولن فاعلن مفاعیلن مستفعلن
فاعلن مفاعیلن مستفعلن فاعلاتن
مفاعیلن مستفعلن فاعلاتن مفاعلتن
مستفعلن فاعلاتن مفاعلتن متفاعلن
فاعلاتن مفاعلتن متفاعلن فاع لاتن
مفاعلتن متفاعلن فاع لاتن مفعولات
متفاعلن فاع لاتن مفعولات مستفعلن
الخ
غور کیجیے کہ ان تمام مغلظات میں ارکان حقیقی ہی استعمال ہوئے ہیں۔
میں اس کے متعلق مزید کچھ لکھنا تو چاہتا ہوں لیکن کیا کروں ایک تو میری ازلی جہالت آڑے آ جاتی ہے اور دوسرا مسئلہ ایچ ٹی ایم ایل یا وی بی میں ایسے دائروں کی شکلیں بنانے کا ہے۔ بہرحال میں کوشش کرتا ہوں کہ کچھ لکھ سکوں اور دائروں کو چارٹ کی شکل میں پیش کر سکوں۔ جلد ہی ایک دھاگا شروع کرتا ہوں جس میں اس مضمون پر بات ہو گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ