بہت خوب اتنی زبردست معلومات شیر کرنے پر مہوش اور اتنے باریک نکات اٹھانے پر برادر سلیم کا بہت شکریہ۔
چلیں جی چوں کہ ڈاکٹر عافیہ اپنے بچوں کا پتہ نہیں بتا رہی ہیں جسکا مطلب یہ کہ ان کو پاکستان سے نہیں گرفتار کیا گیا تھا اور اس کا مطلب یہ کہ وہ القاعدہ کی رکن تھیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟(ااس فارمولے سے کہیں ایٹمی دھماکہ ہی نہ ہو جائے(
لہذا
1۔ ان پر تشد حلال ہو گیا
مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی اطلاعات کی بنیاد پر حقوق انسانی کی تنظیم نے قید خانے میں ڈاکٹر عافیہ کے شب و روز کی ہولناک تصویر کشی کی ہے۔
اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ، اور لاپتہ افراد اور خواتین کے خلاف تشدد کے حوالے سے قائم دیگر بین الاقوامی اداروں کو بھیجی جانے والی یادداشت میں دعوی کیا گیا ہے کہ اس بات کے کافی شواہد ملے ہیں کہ بگرام جیل کی قیدی نمبر چھ سو پچاس ڈاکٹر عافیہ ہی ہیں۔
جیل انتظامیہ بگرام جیل میں کسی خاتون قیدی کی موجودگی کی تردید کر چکی ہے۔
تاہم اس رپورٹ میں اپنے ذرائع کے حوالے سے الزام لگایا گیا ہے کہ بگرام ائر بیس میں ڈاکٹر عافیہ پر اس قدر تشدد کیا گیا ہے کہ وہ ذہنی توازن کھو چکی ہیں
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/07/080724_aafia_bagram.shtml
2۔ ان پر جنسی تشدد بھی حلال ہو گیا
3۔ مردوں کے درمیان ان کو رکھنا اور مردوں کے غسل خانے استعمال کرتے ہوئے مردوں کے سامنے ان کا نہانا دھونا بھی ایک اچھا عمل قرار پایا
رپورٹ میں برطانوی رکن پارلیمنٹ لارڈ نذیر احمد کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس خاتون کو جیل کے عملے کی جانب سے مسلسل جنسی زیادتی کا شکار بنایا جاتا ہے۔ اور قیدی نمبر چھ سو پچاس کے نام سے مشہور اس خاتون کو نہانے اور دیگر ضروریات کے لیے مردانہ غسل خانہ استعمال کرنا پڑتا ہے جس میں پردے کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/07/080724_aafia_bagram.shtml
4۔ ان کو گو لی مارنا بھی جائز ہو گیا
عافیہ صدیقی کی وکیل الزبتھ فنک نے عدالت کو بتایا’ 'یور آنر وہ کھڑی نہیں ہوسکتیں- وہ زخمی ہیں- انہی گولی کا زخم ہے۔ عافیہ صدیقی کی دوسری وکیل وکیل اییلین وٹفیلڈ شارپ بھی موجود تھیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/08/080806_aafia_mujtaba_court_ra.shtml
5۔پانچ سال ان کو قید میں رکھنا بھی جائز ہو گیا
اور ویسے اس معاملے میں احتیاط بھی ضروری ہے اور گو کہ
از مہوش۔۔۔۔اگر ڈاکٹر عافیہ کو بلا جرم کے امریکی فوج نے بگرام میں بند رکھا ہے تو یہ انسانیت کے نام پر بہت شرم کی بات ہے
تاہم زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ
از مہوش۔۔۔۔] کہیں یہ نہ ہو کہ ہم ڈاکٹر عافیہ کے حق میں دوسروں پر جو الزامات لگا رہے ہیں، وہ کہیں پلٹ کر ہمارے اوپر ہی نہ آ جائیں اور اصل مجرمہ ڈاکٹر عافیہ ہی نہ ثابت ہو جائیں۔
احتیاط کا مشور بہت اچھا ہے تاہم ہم بھی جناب برادر سلیم کو مشورہ ضرور دیں گئے کہ وہ اسکارٹ لینڈ یارڈ یا امریکن سی آئی اے میں ضرور بھرتی ہو جائیں کہ ان کا اصل مقام وہ ہی لگتا ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی قید خانے سے امریکی عدالت تک
عافیہ صدیقی کی پیدائش کراچی میں ہوئی، اعلی تعلیم انہوں نے امریکہ کے عالمی شہرت یافتہ میساچوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے حاصل کی، اور تیس مارچ دو ہزار تین کو وہ کراچی سے لاپتہ ہوگئیں۔
اگلے دن پاکستانی اخبارات میں خبر چھپی کے القاعدہ سے روابط کے الزام میں ایک عورت کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ا
س کی تصدیق پاکستان کی وزارت داخلہ نے کی، اور پھر وزیر داخلہ فیصل صالح حیات کے حوالے سے خبر چھپی کے عافیہ صدیقی کو امریکیوں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
بعد میں حکومت پاکستان اور امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی نے صاف انکار کیا کہ عافیہ کے گم شدگی سے ان کا کوئی تعلق تھا
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/08/080806_aafiya_bio.shtml
اس سب کے بعد اب اچانک امریکہ نے اعلان کیا کہ انہیں افغانستان سے گرفتار کیا گیا ہے۔ اب وہ امریکہ میں ہیں اور انہیں افغانستان میں حراست کےدوران امریکی فوجیوں کو قتل کرنےکی کوشش کے الزام کا سامنا ہے۔
ایف بی آئی ان کے خلاف پہلے سے عائد کردہ کوئی بھی الزام ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ماہرین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر عافیہ دہشت گردی کے الزام میں قید میں ہیں تو ان کے شوہر کیسے آزاد ہیں؟
اس کا جواب شاید اس بات سے مل سکتا ہے کہ عافیہ کی رشتہ داری خالد شیخ محمد سے ہے جنہوں نے مبینہ طور پر گیارہ ستمبر کے حملوں کی سازش رچی تھی۔
کہا یہ جاتا ہے کہ طلاق کے بعد عافیہ نے خالد شیخ محمد کے ایک بھتیجے علی عبدالعزیز سے شادی کر لی تھی۔ اگرچہ ان کے اہل خانہ اس بات سے انکار کرتے ہیں، لیکن بی بی سی نے خالد شیخ کی فیملی سے اس کی تصدیق کی ہے۔
ہ
و سکتا ہےکہ عافیہ کا ’جرم‘ صرف اتنا ہی ہو۔ لیکن امریکی اور پاکستانی انٹیلی جنس کے لیے شاید یہ ’جرم‘ شاید اتنا بڑا تھا کہ اسے نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/08/080806_aafiya_bio.shtml
اس کے بعد پتہ چلتا ہے اور پانچ سال بعد پتہ چلتا ہے کہ عافیہ افغانستان کی بگرام جیل میں ہیں جب زیادہ شود مچتا ہے تو اچانک عافیہ کو امریکا پہنچا دیا جاتا ہے۔
اتنی جلدی تو آدمی (نیویارک میں) برانکس سے مینہٹن نہیں پہنچ پاتا جتنے وقت میں آپ لوگ مدعاعلیہ کو افغانستان سے نیویارک لے آئے ہیں۔‘
یہ تھے جج ایلس کے الفاظ جو انہوں نے پاکستانی شہری نیورو سائنسدان اور مبینہ طور القاعدہ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مقدمے کی سماعت کے دوران کہے۔
گزشتہ پانچ برسوں سے لاپتہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو منگل کی شام نیویارک کی عدالت یونائٹیڈ سٹیٹس کورٹ سدرن ڈسٹرکٹ میں پیش کیاگیا۔ یہ عافیہ صدیقی کی کسی امریکی عدالت میں پہلی پیشی تھی۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/08/080806_aafia_mujtaba_court_ra.shtm
l
اس بعد عافیہ کس حالت میں عدالت میں دیکھی گئیں
افیہ صدیقی اپنی وکیل اور وفاقی ایجنٹوں کے سہارے سے چل رہی تھیں۔ سچی بات تو ہے کہ ایک ہڈیوں کی گٹھڑی بنی عورت، لاغر اور کمزور۔ ان کی دونوں وکلاء انہیں سہارا دیکر کرسی پر بٹھانے لگیں۔ سر پر سرخ رنگ کا سکارف یا حجاب، نیلے رنگ کی قمیص اور لمبے سکرٹ میں ملبوس عافیہ صدیقی کو کرسی پر بیٹھنے میں کچھ منٹ لگ گئے۔ ان کی وکیل نے کہا کہ ان کی مؤکل پاکستانی قونصلر سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی ہیں۔
جب عدالت کی کارروآئی شروع ہوتی ہے- تو جج نے کہا’عافیہ صدیقی کھڑی ہوجائیں۔‘
عافیہ صدیقی کی وکیل الزبتھ فنک نے عدالت کو بتایا’ 'یور آنر وہ کھڑی نہیں ہوسکتیں- وہ زخمی ہیں- انہی گولی کا زخم ہے۔ عافیہ صدیقی کی دوسری وکیل وکیل اییلین وٹفیلڈ شارپ بھی موجود تھی
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/08/080806_aafia_mujtaba_court_ra.shtml
نیز
افیہ صدیقی کی وکیل الزبیتھ فنک کھڑی ہوئيں اور عدالت سے اپنی موکلہ کی طبی حالت بیان کرنے لگيں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کی موکلہ کے ناف کے تلے زخم ہے۔ ’انکے پیٹ میں زخم ہے اور آنتوں سے خون جاری ہے اور اب تک انہیں حکومت کسی ڈاکٹر کو نہیں دکھا رہی‘۔ انہوں نے کہا کہ عافیہ صدیقی کو اپنے جسم سے خون بہتے رہنے پر سخت تشویش ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/08/080806_aafia_mujtaba_court_ra.shtml
امریکی عدالت میں ان پر الزام کیا عائد کیا گیا؟
جج نے ایف بی آئی کی طرف سے عافیہ صدیقی کے خلاف داخل کردہ فوجداری مقدمے کی تفصیلات پڑھ کر سنائیں۔ان تفصیلات میں عافیہ صدیقی کی چودہ جولائی دو ہزار آٹھ کو افغانستان میں بتائي گئی گرفتاری سے لیکر امریکی اہلکاروں پر تین اگست دو ہزار آٹھ کو ایم فور رائفل سے تھانے کے اندر حملے اور پھر زخمی اور گرفتار ہونے واقعات بیان کیے گئے۔
عدالت نے عافیہ صدیقی کے وکلاء کی طرف سے اٹھائے جانیوالے سوالوں کا جواب سرکار ی استغاثہ کی طرف سے مقدمے کی سماعت تک مؤخر رکھا۔
عافیہ صدیقی کیخلاف امریکی حکومت کیطرف سے داخل کردہ کرمنل کمپلینٹ میں کہا گيا ہے کہ انہیں تین اگست کو افغانستان میں امریکی اہلکاروں پر حملہ کرنے اور ان کی طرف سے جوابی فائرنگ میں زخمی ہونے کے بعدگرفتار کیا گیا اور چار اگست کو سیدھا نیویارک لایا گيا۔
عافیہ پر حکومت امریکہ کے سول و فوجی اہلکاروں پر مبینہ طور قاتلانہ حملہ کرنے کا ا لزام لگایا گیا ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/08/080806_aafia_mujtaba_court_ra.shtml
عافیہ کی وکیل
عافیہ صدیقی کی وکیل الزبیتھ فنک نے عدالت سے سوال کیا کہ’ کیا عدالت سمجھتی ہے یہ نوے پاؤنڈ کی عورت ایم فور رائفل امریکی فوجی کے بوٹوں کے بیچ سے اٹھا کر ان پر فائر کر سکتی ہے، اور یہ بڑی مضحکہ خیز تہمت ہے‘۔کیل نے عدالت سے کہا کہ ’کیا القاعدہ کا دہشت گرد پیلے پردے کے پیچھے چھپ کر امریکی فوجی پر فائر کر سکتا ہے۔ کیا القاعدہ کے دہشتگرد اب لاغر، نڈھال اور نوے پاونڈز وزن کے ہوتے ہیں؟ کیا اب القاعدہ کا یہ نیا چہرہ ہے؟
وکیل نےکہا کہ عافیہ صدیقی کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہےوہ سب کچھ سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے۔’اس ایجنٹ نے بھی انہی باتوں کی بنیاد پر مدعاعلیہ کے خلاف نیویارک میں بیٹھ کر کیس بنایا ہے۔ پانچ ہزار میل پرے جو افغانستان میں ہوا، اسے اس ایجنٹ نے نیویارک میں بیٹھ کر کیسے دیکھا؟ وکیل الزبتھ جج سے مخاطب تھیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/08/080806_aafia_mujtaba_court_ra.shtml
یعنی یہ کہ عافیہ کہ خلاف الزام یہ کہ اس نے امریکی فوجیوں پر فائرنگ کی اور اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔
رہا عافیہ کے بچوں کا معاملہ اس بارے میں ایک سے زیادہ باتیں ممکن ہیں
1۔ یہ بہت ممکن ہے کہ یہ بچے پاکستان یا امریکی قید میں ہوں اور عافیہ کو ان کا علم ہی نہ ہو اس کیس سے پہلے بھی امریکی اور پاکستانی حکام مشکوک لوگوں کو ان کے گھر کے افراد سمیت اٹھاتے رہی ہیں دیکھئے hrw کی یہ رپورٹ
On March 28, 2003, Aafia Siddiqui (see page 21) was reportedly apprehended in Karachi, Pakistan along with her three children (then aged seven years, five years and six months
http://hrw.org/backgrounder/usa/ct0607/5.htm)
2۔عافیہ کی عدالت میں پیشی کے دوران ان کی جسمانی حالت شدید خراب تھی ایسی عورت سے اور وہ پانچ سال کے تشدد کے بعد یہ توقع رکھنا کہ وہ بلکل فٹ فاٹ امریکا کے اے سی میں پلنے بڑھنے والوں کی طرح ہر چیز فر فر بیان کر دے گئی کیا یہ ایک مذاق نہیں ہے؟؟؟ ذرا عافیہ کی حالت دیکھئے
3عافیہ نے پاکستانی وفد سے نہ صرف اپنے بچوں بلکہ کس بھی قسم کی کوئی معلومات شیئر نہیں کی تھی
عافیہ کی وکیل کے مطابق، ڈاکٹر عافیہ نے پاکستانی سفارتکاروں سے اپنی گرفتاری سے قبل یا بعد کے حالات پر بات نہیں کی کیونکہ امریکی قوانین کے مطابق، ان کی طرف سے کی گئی کوئی بھی بات ان کے خلاف کسی بھی عدالت یا کورٹ آف لاء میں پیش کی جا سکتی ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/08/080809_aafia_consuler_access_zs.shtml
4۔بچوں کے حوالے سے مزید محتاط ہونے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کی گرفتاری کے بعد ایک مرتبہ ان کو ان ان کے بچوں کے قتل کی دھمکی ان کی والدہ کو دی جاچکی ہے
عافیہ صدیقی کی والدہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بیٹی کے غائب ہونے کے بعد ایک شخص موٹرسائیکل پر ان کے گھر آیا اور انہیں دھمکی دی کہ ’ اگر میں اپنی بیٹی اور نواسی نواسوں کو دبارہ زندہ دیکھنا چاہتی ہوں، تو میں خاموش رہوں۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/08/080806_aafiya_bio.shtml
بہر حال جو بھی وجہ ہو عافیہ کو محض اس لیے مشکوک قرار دینا کہ وہ اپنے بچوں کے بارے میں کچھ بتانے سے گریزاں ہے شاید اس صدی کا سب سے بڑا اور بے رحمانہ مذاق ہے
خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے