Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
روزنامہ خبريں نے مورخہ اگست 24 کو يہ دعوی کيا تھا کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی کی فيملی کو امريکی ڈپٹی اٹارنی جرنل مائيکل جے گارسيا کی جانب سے ايک خط موصول ہوا ہے جس ميں پہلی مرتبہ امريکی حکومت نے يہ "تسليم" کيا ہے ڈاکٹر عافيہ کا بيٹا 2005 سے امريکی تحويل ميں ہے۔
اخبار کی يہ خبر ايک تازہ مثال ہے کہ کيسے ميڈيا کے کچھ عناصر حقائق کو توڑ مروڑ کر کہانی کو ايک خاص انداز سے پيش کرتے ہيں۔
اخبار کا يہ "انکشاف" آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=770822&da=y
کچھ اردو فورمز نے بغير تحقيق کے اسی خبر کو بنياد بنا کر اپنے جذبات کا اظہار شروع کر ديا ہے۔
امريکی ڈيپارٹمنٹ آف جسٹس کی جانب سے ڈاکٹر عافيہ کی فيملی کو جو خط بيجھا گيا تھا وہ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=772838&da=y
(اس خط کے جن حصوں کو پوشيدہ رکھا گیا ہے اس کی وجہ ايک امريکی قانون ہے جس کے تحت کسی امريکی شہری کے ذاتی کوائف اس کی مرضی کے بغير کسی پبلک فورم پر شائع نہيں کيے جا سکتے)
اس خط کے متن کا اخبار کی خبر سے موازنہ کريں تو يہ واضح ہے کہ خط ميں يہ کہا گيا ہے کہ ڈاکٹر عافيہ کا بيٹا اس وقت افغان پوليس کی تحويل ميں ہے اور اسے ڈاکٹر عافيہ کے ساتھ جولائ 17 کو گرفتار کيا گيا تھا۔ خط ميں يہ بھی واضح کيا گيا ہے کہ بچے کے اپنے بيان کے مطابق اس کے والدين 2005 کے زلزلے ميں ہلاک ہو چکے ہيں اور اس نے اپنے ساتھ گرفتار ہونے والی خاتون کا نام صالحہ بتايا تھا۔ ليکن اس کے ابتدائ بيان کے برعکس ڈی –اين – اے ٹيست سے يہ ثابت ہوا کہ وہ ڈاکٹر عافيہ کا بيٹا ہے۔
اس خط کو بنياد بنا کر خبريں اخبار کا دعوی حقائق کی واضح نفی ہے۔
جيسا کہ ميں نے پہلے کہا تھا کہ اس کيس کے حوالے سے سارے حقائق عدالتی کاروائ کے دوران سامنے آئيں گے۔ محض قياس پر مبنی خبروں کو بغير تحقيق کے بنياد بنا کر اپنے جذبات کا اظہار کرنا دانشمندی نہيں ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
عافیہ کا کم سن بیٹا بھی ہماری تحویل میں ہے :
دنیا کے منصفو ! سلامتی کے ضامنو، امریکہ کے کاسہ لیسو ، غور کرو۔
Updated at: 1251 PST, Saturday, August 23, 2008
روزنامہ خبريں نے مورخہ اگست 24 کو يہ دعوی کيا تھا کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی کی فيملی کو امريکی ڈپٹی اٹارنی جرنل مائيکل جے گارسيا کی جانب سے ايک خط موصول ہوا ہے جس ميں پہلی مرتبہ امريکی حکومت نے يہ "تسليم" کيا ہے ڈاکٹر عافيہ کا بيٹا 2005 سے امريکی تحويل ميں ہے۔
اخبار کی يہ خبر ايک تازہ مثال ہے کہ کيسے ميڈيا کے کچھ عناصر حقائق کو توڑ مروڑ کر کہانی کو ايک خاص انداز سے پيش کرتے ہيں۔
اخبار کا يہ "انکشاف" آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=770822&da=y
کچھ اردو فورمز نے بغير تحقيق کے اسی خبر کو بنياد بنا کر اپنے جذبات کا اظہار شروع کر ديا ہے۔
امريکی ڈيپارٹمنٹ آف جسٹس کی جانب سے ڈاکٹر عافيہ کی فيملی کو جو خط بيجھا گيا تھا وہ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=772838&da=y
(اس خط کے جن حصوں کو پوشيدہ رکھا گیا ہے اس کی وجہ ايک امريکی قانون ہے جس کے تحت کسی امريکی شہری کے ذاتی کوائف اس کی مرضی کے بغير کسی پبلک فورم پر شائع نہيں کيے جا سکتے)
اس خط کے متن کا اخبار کی خبر سے موازنہ کريں تو يہ واضح ہے کہ خط ميں يہ کہا گيا ہے کہ ڈاکٹر عافيہ کا بيٹا اس وقت افغان پوليس کی تحويل ميں ہے اور اسے ڈاکٹر عافيہ کے ساتھ جولائ 17 کو گرفتار کيا گيا تھا۔ خط ميں يہ بھی واضح کيا گيا ہے کہ بچے کے اپنے بيان کے مطابق اس کے والدين 2005 کے زلزلے ميں ہلاک ہو چکے ہيں اور اس نے اپنے ساتھ گرفتار ہونے والی خاتون کا نام صالحہ بتايا تھا۔ ليکن اس کے ابتدائ بيان کے برعکس ڈی –اين – اے ٹيست سے يہ ثابت ہوا کہ وہ ڈاکٹر عافيہ کا بيٹا ہے۔
اس خط کو بنياد بنا کر خبريں اخبار کا دعوی حقائق کی واضح نفی ہے۔
جيسا کہ ميں نے پہلے کہا تھا کہ اس کيس کے حوالے سے سارے حقائق عدالتی کاروائ کے دوران سامنے آئيں گے۔ محض قياس پر مبنی خبروں کو بغير تحقيق کے بنياد بنا کر اپنے جذبات کا اظہار کرنا دانشمندی نہيں ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov