محمد مبین امجد
محفلین
لیجیے صاحب آج ہمارا اس دنیا میں وارد ہونے کا دن ہے۔ جن جن احباب نے خیر سگالی کا اظہار کیا ان کا شکریہ ۔ اور جو ابھی تک خواب غفلت میں ہیں اور وش نہیں کر سکے ان کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ کل کلاں آپ کی بھی سالگرہ آنی ہے لہٰذہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آہو۔۔۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا جس پہ آپ کو اعتراض کرنے کا حق بالکل بھی نئیں ہے۔
چونکہ دن ہمارے اس جہان میں قدم رنجہ فرمانے کا ہے تو سوچا کیوں نا یار لوگوں کو اپنا تعارف ہی کروادیا جائے۔ تو دوستان عزیز بات یوں ہے کہ وہ 25 دسمبر کا ہی دن تھا جب آندھی آئی نہ بجلی چمکی اور نا ہی کوئی سانحہ رونما ہوابلکہ مکمل امن و آشتی کا زمانہ تھا اور تواور اسی دن نیلسن منڈیلا کو امن کا نوبیل انعام بھی دیا گیا۔۔۔۔۔ جب اس بندہ حقیر وپر تقصیر نے روتے بلکتے اس فانی جہان کو رونق بخشی۔۔۔۔ ہمارا آنا تھا کہ حضرت امن رخصت ہوئے گویا۔۔۔۔۔۔
ان کا آنا حشر سے کچھ کم نہ تها
پیدائش کا بوجھ ضلع سیالکوٹ کو سہارنا پڑا مگر بچپن گوجرانوالہ میں گزرا۔۔۔ چونکہ خاندان میں پہلا لڑکا تھے اور والد صاحب آرمی میں تھے تو بچپن میں ہی ید بیضا والا اوخ بن گیا۔۔۔۔۔ اسلیے بچپن گلی میں آتے جاتے بچوں کی جیب سے ٹافیاں نکالتے، دروازے کھٹکھٹا کر بھاگ جانے،مسجد میں چٹائیوں کے دھاگےتوڑنے، وضو کرتے امام صاحب کے بوٹوں میں پانی ڈالتے اور وضو خانے میں پڑی مسواکیں تبدیل کرنے میں گزرا۔۔۔۔۔ اور تو اور جب تک یومیہ ایک عدد سائیکل کے ٹائروں سے ہوا نہ نکال لیتا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہتا ( واضح رہے کہ ضمیر میرے سب سے چھوٹے چاچو کا نام ہے)غرض کافی رنگین و سنگین بچپنا گزرا ہمارا۔ آج ان شرارتوں کو سوچتا ہوں تو بہت ہنسی آتی ہے۔آہ وہ بھی کیا دن تھے جب ہم
؎صبح سویرے تعبیروں کی نہر پہ جایا کرتے تھے
اپنے اپنے خواب وہاں پر ہم نہلایا کرتے تھے
خیر جوں جوں بڑے ہوتے گئے معصومیت کھوتے گئے۔ اور زندگی مشکل ہوتی گئی۔۔۔ سب سے پہلی مشکل جس کا ہمیں سامنا کرنا پڑا وہ تھا ہمارا سکول میں داخلہ۔۔۔۔۔ گو کہ اس حادثے کو نہایت حسین و جمیل رنگ دیا گیا ہمارے گلے میں گلابوں کا ہار ڈال مٹھائی کا ڈبہ ساتھ لیے پہلے دن کسی دولہا کی طرح ہمیں سکول لے جایا گیا۔ سارا خاندان امی،ابو، دادا ،دادی اور تمام چاچو حضرات میرے پیچھے پیچھے باراتیوں کی طرح ساتھ ساتھ تھے تو فکر کاہے کی۔۔۔۔۔ مگر مجھے سب چھوڑ کر انے لگے تو کھلا فکر کی بات تو ہے۔۔۔۔ خیر پہلے دن کا اہتمام تو پہلے دن کا ہی تھا آئندہ مجھے اکیلے ہی جانا تھا۔۔۔ سکول میں ایک میڈم صاحبہ سے ہمیں عشق ہو گیا اور ہم چھٹی والے روز بھی سکول جانے کی ضد کرنے لگے ۔ مگر بعد میں سالانہ امتحان مین ان میڈم صاحبہ نے اوروں کو تو پوزیشنیں دیں اور سب کے گلے میں پلاسٹک کے تمغے منگل سوتر کی طرح ڈالے اور مجھے ٹوٹلی اگنور کیا تو تب پہلی بار میرا دل ٹوٹا۔۔۔۔(اب تو کئی بار ٹوٹ چکا ہے)۔ یہ نہیں کہ اسکے بعد میں کوشش نئیں کی بلکہ کی مگر کیا ہے نا اپن کا ستارہ ذرا گردش میں رہا۔۔۔ ایک کو چاہا اسکی شادی ہوگئی، دوسری نے خود کشی کر لی اور تیسری کی بھی ابی حال میں ہی منگنی ہوئی ہے۔۔۔ بس تو صاحب اپنا تو ایمان اس نامراد عشق سے اٹھ سا گیا ہے۔۔ ہاں ہمت تو ابھی بھی نئیں ہاری بس ذرا ستارے کی گردش ٹھیک ہو جائے پھر 80 سال کی عمر میں ایک کامیاب عشق فرمانے کا ارادہ ہے۔۔۔۔ دل ہونا چاہیدا جوان تے عمراں وچ کی رکھیا۔۔۔؟
خیرتو میں بات کر رہا تھا اپنی اس میڈم کی بیوفائی کی۔۔۔ اس کے بعد کافی مغموم رہنے لگا اور میرے یہ لچھن والد صاحب نے بھانپ لیے ۔۔۔ آخر کو وہ میرے ہی باپ تھے انہوں نے مجھے ایک ایف جی سکول میں داخل کر وا دیا۔۔۔۔جہاں صرف اورصرف مرد اساتذہ تھے۔۔۔۔گویا انہوں نے کھوتا ہی کھوہ میں ڈال دیا۔۔۔
پھر پرائمری کے بعد ہمیں حفظ میں ڈال دیا گیا اور اس نیک کام کیلیے جامع مسجد مکرم میں داخلہ دلوایا گیا۔۔۔ یوں میرے شب و روز وہاں بسر ہونے لگے وہاں کافی اچھے دوست بھی ملے جن میں سیف الرحمٰن، عبدالرزاق، ناصر محمود، محمد بلال اور ابوبکر امین شامل ہیں ۔۔۔ اب ناجانے یہ سب کہاں کھوگئے ہیں ۔۔۔۔ اب ڈھونڈتا ہوں انہیں چراغ رخ زیبا لے کر۔۔۔۔۔ او ہاں وہاں ہمیں ایک عدد خٹک بھی ملا مگر ہم نے بھی اسکے وہ جما کر کک شریف رسید کی کہ سننے میں آیا ہے اس بیچارے کی ابھی تک شادی نہیں ہو سکی۔۔۔۔(ہاہاہاہاہا اس میں ہماری کک کا کوئی قصور نئیں)۔
خیر حفظ القران کے بعد پھر وہی ہم تھے، سکول تھا ، کتابیں تھیں اور تلخی ایام۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہاں ہمیں ایک ایسے استاد محترم ملے جوحقیقی معنوں میں استاد تھے ۔ انہوں نا صرف ہمیں ختم نبوتﷺ سے حوالے سے تیار کیا بلکہ مجھے تو بولنا بھی انہوں نے سکھایا۔۔۔یہ ان کی نگاہ کا ہی کرم تھا کہ میں ٹوٹی پھوٹی تقریر کرنے لگا۔۔۔ ان کا نام نامی سید احمد حسین ذیدؔہے۔۔۔اللہ پاک انکو صحت مند اور خوشیوں بھری لمبی زندگی عطا فرمائے آمین!
پھر کالج میں حافظ محمد ارشد صاحب کا سایہ عاطفت میسر رہا۔۔۔ نہایت شفیق اور مہربان استاد تھے۔ مجھ سے اکثر ہنسی مزاق بھی کر لیا کرتے تھے۔۔۔۔ ایک دن کلاس میں جہاد کا موضوع بیان فرما رہے تھے۔۔۔ لیکچر ختم ہوا تو مجھ سے پوچھا کیوں حافظ صاحب جہاد کرنا ہے نا۔۔۔؟ میں نے کہا جی سر ان شاءاللہ۔۔۔ تو فرمایا کہ تم نے کلنٹن کو پکڑنا ہے ۔۔۔ اس پہ میری رگ ظرافت پھڑک اٹھی دست بستہ عرض کی سر وہ تو وڈیری (بوڑھی) ہوگئی ہے کوئی جوان بتائیں نا۔۔۔ کچھ دیر تبسم فرماتے رہے پھر کہا او آلو کے پتے میں نے بل کلنٹن کہا اور تم ہیلری سمجھ بیٹھےاللہ پاک ان کا سایہ ہم پہ قائم رکھے کہ اب چراغ سحری ہیں۔۔۔۔۔۔ خیر کالج کے بعد اب یونیورسٹی میں ہوں تو ایک میڈم کا تذکرہ کرنا چاہوں گا ۔۔۔ نام تو نئیں بتاؤں گا ۔۔۔ یہ میڈم ہیں تو میری ہم قامت مگر مجھ سے اختلاف رکھنے کو اونچی ہیل کا استعمال کرتی ہیں۔ مگر ان کو اونچی ہیل کا وہی فائدہ ہوتا ہے جو نہانے کا عبدالمتین کو ہوتا ہے۔۔۔( عبدالمتین میرا چھوٹا بھائی ہے) یہ نہائے نا تو کافی معقول لگتا ہے مگر ادھر وہ نہایا ادھر اچھا خاصا مراثی لگنے لگا۔۔۔۔ چند دن کی بات ہے ابھی وہ نہاکر نکلا ہی تھا کہ والد صاحب فرمانے لگے ' کدی نہا وی لیا کر دھوشا' ( کبھی نہا بھی لیا کرو-دھوشا کا ترجمہ نہیں آتا مجھے)۔۔۔ باقی اساتذہ کا تذکرہ پھر کبھی۔ ہان اتنا کہے دیتا ہوں کہ اگر منہ اندھیرے کی بیداری اور جوابی کاپیاں بھرنے کی ذمہ داری نکال دی جائے تو سکول کالج کا زمانہ کچھ ایسا برا بھی نہیں گزرا۔۔۔
اگرچہ سکول کالج گیا مگر اصلی تعلیم زندگی نے ہی دی۔۔۔ 9 ماہ گوزہ تنہائی میں غوروفکر کرنے بعد بھی اگر بندہ مڈل کلاس گھرانےمیں ٹپکا ہے تو سرا سر بے قصور ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ
تدبیر کند بندہ، تقدیر کند خندہ
اس لیے کئی قسم کے کام کیے جیسے کہ گرم انڈے بھی بیچے، مستریوں کے ساتھ مزدوری بھی کی، کھیتوں میں آلو پیاز بھی نکالے، ایک پرنٹنگ پریس میں بھی کام کیا، آڑھت کی دکان پہ منشی گیری بھی کی،دو شاپنگ پلازوں میں سیلز میں بھی رہا، ایک بیکری چین میں بھی کام کیا۔۔۔ خیر یہ سارے کشٹ اپنے اللے تللوں کیلیے اٹھائے گھر میں ایک چونی بھی نئیں دی۔۔۔۔باوجود یہ کہ مجھ میں ساری خصوصیات بڑے لوگوں کی پائی جاتی ہیں جیسا کہ تاریخ پیدائش قائداعظم، نواز شریف سے ملتی ہے اور مزدوریاں بھی بڑے لوگوں والی کی ہیں( کہ ابتداء میں سب ایسے ہوتے ہیں) اگرچہ یہ ایک اتفاق ہی ہے مگر پھر بھی میری آپ سے اپنے متعلق گزارش ہے کہ Wait & Watch
اگرچہ میں ابھی بڑا نہیں ہوں مگر بڑوں کی باتیں قبولنے میں ید طولیٰ رکھتا ہوں جیسے کہ شاد مردانوی کی طرح فیس بک استعمال کرتے ہوئے آئینہ پاس رکھ لیتا ہوں۔۔۔ تعریفی کمنٹ آنے پر آئینہ دیکھتا ہوں اور خود سے کہتا ہوں شکل دیکھی ہے اپنی۔۔۔۔۔ اور تنقیدی کمنٹ پر بھی آئینہ دیکھتا ہوں اور خود کو تسلی دیتے ہوئے کہتا ہوں ابھے اچھی خاصی تو ہے۔۔۔
اگرچہ کافی بھرپور زندگی گزار رہا ہوں مگر اپنے مرشد فرنود عالم کی طرح کسی نو بیاہتا جوڑے کی چارپائی تلے رات بسر کرنے کی حسرت ابھی تک پوری نئیں ہو سکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ #اچھاسوری
آخر پہ اپنے دوستوں کا ذکر نا کرنا سراسر ناانصافی ہوگی۔۔۔ جس کے ہم روادار نئیں اس لیے سنیے۔۔۔۔! فیس بک پہ کافی اچھے اور اردو سے محبت رکھنے والے دوست ملے جن میں بانکے میاں، مہر مبین، اسامہ بن نسیم کیانی، HK Swati، فخر حسین بھٹی، ظفر جی، اور جناب محمد نعمان بخاری( انکی تحریر پڑھ کر میں کافی کچھ سیکھتا ہوں) شامل ہیں۔ فیس بکی دوستوں میں اب تک صرف تصور سمیع اور محمد طیب یونس صاحب سے مل چکا ہوں اور غلام محمد آذاد صاحب کی طرف سے ملنے کی دعوت ہے انہوں نے ہمیں لاہور بلایا ہے۔ دیکھیے کب فرصت ملتی ہے۔۔۔۔؟
ایک ہمارے دوست ہیں سید گیلانی ۔۔۔ انہوں نے ہمین عید الفطر پہ مٹھائی بھیجی، اسی طرح جناب محمد فیصل شہزاد صاحب( ایڈیٹر خواتین کا اسلام و ماہنامہ جہان صحت) انہوں نے ہمیں ظفر جی کی معشوقہ بھیجی، ایک ڈاکٹر عبیداللہ صاحب ہیں ان کا تعلق بہاؤالدین زکریا ؒ کی نگری سے ہے" کرن کرن روشنی" کے نام سے میگزین نکالتے ہیں ہمیں شمارہ بھیجتے ہیں۔۔۔۔۔!جزاک اللہ۔
حقیقی زندگی میں سے بھی چند دوستوں کا ذکر کرنا چاہوں گا ۔۔۔۔ ان میں حامد بن ناصر، عمر مزمل، حافظ ذوالقرنین میٹرک میں ملے اور ابھی تک دوستی نبھا رہے ہیں، کالج میں رانا طیب، حمزہ راجپوت، اور راحیل انور ملے۔۔۔ (نئیں مطلب ملے تو بہت مگر ان سے ذرا زیادہ انس ہو گیا) اور آخر پہ اس دوست کا ذکر جس پہ ہمہ یاراں دوزخ کی مثال فٹ آتی ہے اور وہ ہیں اویس افضل۔۔۔ انٹر سے ساتھ ہیں اور اب یونیورسٹی میں بھی۔۔۔ ہم ساتھ آتے جاتے ہیں ۔۔۔ پیریڈز اکٹھے بنک کرتے ہیں اور اور۔۔۔۔۔۔۔۔ بس کیا بتاؤں۔۔۔؟
اللہ پاک میرے تمام دوستوں کو سدا خوش رکھے ۔۔آمین!
نوٹ: یہ صادق عباس صاحب کی فرمائش پوری کرنے کی ایک حقیر کوشش کی ہے لہٰذہ اسکا سارا گناہ و ثواب انہی کے کھاتے میں ہے
چونکہ دن ہمارے اس جہان میں قدم رنجہ فرمانے کا ہے تو سوچا کیوں نا یار لوگوں کو اپنا تعارف ہی کروادیا جائے۔ تو دوستان عزیز بات یوں ہے کہ وہ 25 دسمبر کا ہی دن تھا جب آندھی آئی نہ بجلی چمکی اور نا ہی کوئی سانحہ رونما ہوابلکہ مکمل امن و آشتی کا زمانہ تھا اور تواور اسی دن نیلسن منڈیلا کو امن کا نوبیل انعام بھی دیا گیا۔۔۔۔۔ جب اس بندہ حقیر وپر تقصیر نے روتے بلکتے اس فانی جہان کو رونق بخشی۔۔۔۔ ہمارا آنا تھا کہ حضرت امن رخصت ہوئے گویا۔۔۔۔۔۔
ان کا آنا حشر سے کچھ کم نہ تها
پیدائش کا بوجھ ضلع سیالکوٹ کو سہارنا پڑا مگر بچپن گوجرانوالہ میں گزرا۔۔۔ چونکہ خاندان میں پہلا لڑکا تھے اور والد صاحب آرمی میں تھے تو بچپن میں ہی ید بیضا والا اوخ بن گیا۔۔۔۔۔ اسلیے بچپن گلی میں آتے جاتے بچوں کی جیب سے ٹافیاں نکالتے، دروازے کھٹکھٹا کر بھاگ جانے،مسجد میں چٹائیوں کے دھاگےتوڑنے، وضو کرتے امام صاحب کے بوٹوں میں پانی ڈالتے اور وضو خانے میں پڑی مسواکیں تبدیل کرنے میں گزرا۔۔۔۔۔ اور تو اور جب تک یومیہ ایک عدد سائیکل کے ٹائروں سے ہوا نہ نکال لیتا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہتا ( واضح رہے کہ ضمیر میرے سب سے چھوٹے چاچو کا نام ہے)غرض کافی رنگین و سنگین بچپنا گزرا ہمارا۔ آج ان شرارتوں کو سوچتا ہوں تو بہت ہنسی آتی ہے۔آہ وہ بھی کیا دن تھے جب ہم
؎صبح سویرے تعبیروں کی نہر پہ جایا کرتے تھے
اپنے اپنے خواب وہاں پر ہم نہلایا کرتے تھے
خیر جوں جوں بڑے ہوتے گئے معصومیت کھوتے گئے۔ اور زندگی مشکل ہوتی گئی۔۔۔ سب سے پہلی مشکل جس کا ہمیں سامنا کرنا پڑا وہ تھا ہمارا سکول میں داخلہ۔۔۔۔۔ گو کہ اس حادثے کو نہایت حسین و جمیل رنگ دیا گیا ہمارے گلے میں گلابوں کا ہار ڈال مٹھائی کا ڈبہ ساتھ لیے پہلے دن کسی دولہا کی طرح ہمیں سکول لے جایا گیا۔ سارا خاندان امی،ابو، دادا ،دادی اور تمام چاچو حضرات میرے پیچھے پیچھے باراتیوں کی طرح ساتھ ساتھ تھے تو فکر کاہے کی۔۔۔۔۔ مگر مجھے سب چھوڑ کر انے لگے تو کھلا فکر کی بات تو ہے۔۔۔۔ خیر پہلے دن کا اہتمام تو پہلے دن کا ہی تھا آئندہ مجھے اکیلے ہی جانا تھا۔۔۔ سکول میں ایک میڈم صاحبہ سے ہمیں عشق ہو گیا اور ہم چھٹی والے روز بھی سکول جانے کی ضد کرنے لگے ۔ مگر بعد میں سالانہ امتحان مین ان میڈم صاحبہ نے اوروں کو تو پوزیشنیں دیں اور سب کے گلے میں پلاسٹک کے تمغے منگل سوتر کی طرح ڈالے اور مجھے ٹوٹلی اگنور کیا تو تب پہلی بار میرا دل ٹوٹا۔۔۔۔(اب تو کئی بار ٹوٹ چکا ہے)۔ یہ نہیں کہ اسکے بعد میں کوشش نئیں کی بلکہ کی مگر کیا ہے نا اپن کا ستارہ ذرا گردش میں رہا۔۔۔ ایک کو چاہا اسکی شادی ہوگئی، دوسری نے خود کشی کر لی اور تیسری کی بھی ابی حال میں ہی منگنی ہوئی ہے۔۔۔ بس تو صاحب اپنا تو ایمان اس نامراد عشق سے اٹھ سا گیا ہے۔۔ ہاں ہمت تو ابھی بھی نئیں ہاری بس ذرا ستارے کی گردش ٹھیک ہو جائے پھر 80 سال کی عمر میں ایک کامیاب عشق فرمانے کا ارادہ ہے۔۔۔۔ دل ہونا چاہیدا جوان تے عمراں وچ کی رکھیا۔۔۔؟
خیرتو میں بات کر رہا تھا اپنی اس میڈم کی بیوفائی کی۔۔۔ اس کے بعد کافی مغموم رہنے لگا اور میرے یہ لچھن والد صاحب نے بھانپ لیے ۔۔۔ آخر کو وہ میرے ہی باپ تھے انہوں نے مجھے ایک ایف جی سکول میں داخل کر وا دیا۔۔۔۔جہاں صرف اورصرف مرد اساتذہ تھے۔۔۔۔گویا انہوں نے کھوتا ہی کھوہ میں ڈال دیا۔۔۔
پھر پرائمری کے بعد ہمیں حفظ میں ڈال دیا گیا اور اس نیک کام کیلیے جامع مسجد مکرم میں داخلہ دلوایا گیا۔۔۔ یوں میرے شب و روز وہاں بسر ہونے لگے وہاں کافی اچھے دوست بھی ملے جن میں سیف الرحمٰن، عبدالرزاق، ناصر محمود، محمد بلال اور ابوبکر امین شامل ہیں ۔۔۔ اب ناجانے یہ سب کہاں کھوگئے ہیں ۔۔۔۔ اب ڈھونڈتا ہوں انہیں چراغ رخ زیبا لے کر۔۔۔۔۔ او ہاں وہاں ہمیں ایک عدد خٹک بھی ملا مگر ہم نے بھی اسکے وہ جما کر کک شریف رسید کی کہ سننے میں آیا ہے اس بیچارے کی ابھی تک شادی نہیں ہو سکی۔۔۔۔(ہاہاہاہاہا اس میں ہماری کک کا کوئی قصور نئیں)۔
خیر حفظ القران کے بعد پھر وہی ہم تھے، سکول تھا ، کتابیں تھیں اور تلخی ایام۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہاں ہمیں ایک ایسے استاد محترم ملے جوحقیقی معنوں میں استاد تھے ۔ انہوں نا صرف ہمیں ختم نبوتﷺ سے حوالے سے تیار کیا بلکہ مجھے تو بولنا بھی انہوں نے سکھایا۔۔۔یہ ان کی نگاہ کا ہی کرم تھا کہ میں ٹوٹی پھوٹی تقریر کرنے لگا۔۔۔ ان کا نام نامی سید احمد حسین ذیدؔہے۔۔۔اللہ پاک انکو صحت مند اور خوشیوں بھری لمبی زندگی عطا فرمائے آمین!
پھر کالج میں حافظ محمد ارشد صاحب کا سایہ عاطفت میسر رہا۔۔۔ نہایت شفیق اور مہربان استاد تھے۔ مجھ سے اکثر ہنسی مزاق بھی کر لیا کرتے تھے۔۔۔۔ ایک دن کلاس میں جہاد کا موضوع بیان فرما رہے تھے۔۔۔ لیکچر ختم ہوا تو مجھ سے پوچھا کیوں حافظ صاحب جہاد کرنا ہے نا۔۔۔؟ میں نے کہا جی سر ان شاءاللہ۔۔۔ تو فرمایا کہ تم نے کلنٹن کو پکڑنا ہے ۔۔۔ اس پہ میری رگ ظرافت پھڑک اٹھی دست بستہ عرض کی سر وہ تو وڈیری (بوڑھی) ہوگئی ہے کوئی جوان بتائیں نا۔۔۔ کچھ دیر تبسم فرماتے رہے پھر کہا او آلو کے پتے میں نے بل کلنٹن کہا اور تم ہیلری سمجھ بیٹھےاللہ پاک ان کا سایہ ہم پہ قائم رکھے کہ اب چراغ سحری ہیں۔۔۔۔۔۔ خیر کالج کے بعد اب یونیورسٹی میں ہوں تو ایک میڈم کا تذکرہ کرنا چاہوں گا ۔۔۔ نام تو نئیں بتاؤں گا ۔۔۔ یہ میڈم ہیں تو میری ہم قامت مگر مجھ سے اختلاف رکھنے کو اونچی ہیل کا استعمال کرتی ہیں۔ مگر ان کو اونچی ہیل کا وہی فائدہ ہوتا ہے جو نہانے کا عبدالمتین کو ہوتا ہے۔۔۔( عبدالمتین میرا چھوٹا بھائی ہے) یہ نہائے نا تو کافی معقول لگتا ہے مگر ادھر وہ نہایا ادھر اچھا خاصا مراثی لگنے لگا۔۔۔۔ چند دن کی بات ہے ابھی وہ نہاکر نکلا ہی تھا کہ والد صاحب فرمانے لگے ' کدی نہا وی لیا کر دھوشا' ( کبھی نہا بھی لیا کرو-دھوشا کا ترجمہ نہیں آتا مجھے)۔۔۔ باقی اساتذہ کا تذکرہ پھر کبھی۔ ہان اتنا کہے دیتا ہوں کہ اگر منہ اندھیرے کی بیداری اور جوابی کاپیاں بھرنے کی ذمہ داری نکال دی جائے تو سکول کالج کا زمانہ کچھ ایسا برا بھی نہیں گزرا۔۔۔
اگرچہ سکول کالج گیا مگر اصلی تعلیم زندگی نے ہی دی۔۔۔ 9 ماہ گوزہ تنہائی میں غوروفکر کرنے بعد بھی اگر بندہ مڈل کلاس گھرانےمیں ٹپکا ہے تو سرا سر بے قصور ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ
تدبیر کند بندہ، تقدیر کند خندہ
اس لیے کئی قسم کے کام کیے جیسے کہ گرم انڈے بھی بیچے، مستریوں کے ساتھ مزدوری بھی کی، کھیتوں میں آلو پیاز بھی نکالے، ایک پرنٹنگ پریس میں بھی کام کیا، آڑھت کی دکان پہ منشی گیری بھی کی،دو شاپنگ پلازوں میں سیلز میں بھی رہا، ایک بیکری چین میں بھی کام کیا۔۔۔ خیر یہ سارے کشٹ اپنے اللے تللوں کیلیے اٹھائے گھر میں ایک چونی بھی نئیں دی۔۔۔۔باوجود یہ کہ مجھ میں ساری خصوصیات بڑے لوگوں کی پائی جاتی ہیں جیسا کہ تاریخ پیدائش قائداعظم، نواز شریف سے ملتی ہے اور مزدوریاں بھی بڑے لوگوں والی کی ہیں( کہ ابتداء میں سب ایسے ہوتے ہیں) اگرچہ یہ ایک اتفاق ہی ہے مگر پھر بھی میری آپ سے اپنے متعلق گزارش ہے کہ Wait & Watch
اگرچہ میں ابھی بڑا نہیں ہوں مگر بڑوں کی باتیں قبولنے میں ید طولیٰ رکھتا ہوں جیسے کہ شاد مردانوی کی طرح فیس بک استعمال کرتے ہوئے آئینہ پاس رکھ لیتا ہوں۔۔۔ تعریفی کمنٹ آنے پر آئینہ دیکھتا ہوں اور خود سے کہتا ہوں شکل دیکھی ہے اپنی۔۔۔۔۔ اور تنقیدی کمنٹ پر بھی آئینہ دیکھتا ہوں اور خود کو تسلی دیتے ہوئے کہتا ہوں ابھے اچھی خاصی تو ہے۔۔۔
اگرچہ کافی بھرپور زندگی گزار رہا ہوں مگر اپنے مرشد فرنود عالم کی طرح کسی نو بیاہتا جوڑے کی چارپائی تلے رات بسر کرنے کی حسرت ابھی تک پوری نئیں ہو سکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ #اچھاسوری
آخر پہ اپنے دوستوں کا ذکر نا کرنا سراسر ناانصافی ہوگی۔۔۔ جس کے ہم روادار نئیں اس لیے سنیے۔۔۔۔! فیس بک پہ کافی اچھے اور اردو سے محبت رکھنے والے دوست ملے جن میں بانکے میاں، مہر مبین، اسامہ بن نسیم کیانی، HK Swati، فخر حسین بھٹی، ظفر جی، اور جناب محمد نعمان بخاری( انکی تحریر پڑھ کر میں کافی کچھ سیکھتا ہوں) شامل ہیں۔ فیس بکی دوستوں میں اب تک صرف تصور سمیع اور محمد طیب یونس صاحب سے مل چکا ہوں اور غلام محمد آذاد صاحب کی طرف سے ملنے کی دعوت ہے انہوں نے ہمیں لاہور بلایا ہے۔ دیکھیے کب فرصت ملتی ہے۔۔۔۔؟
ایک ہمارے دوست ہیں سید گیلانی ۔۔۔ انہوں نے ہمین عید الفطر پہ مٹھائی بھیجی، اسی طرح جناب محمد فیصل شہزاد صاحب( ایڈیٹر خواتین کا اسلام و ماہنامہ جہان صحت) انہوں نے ہمیں ظفر جی کی معشوقہ بھیجی، ایک ڈاکٹر عبیداللہ صاحب ہیں ان کا تعلق بہاؤالدین زکریا ؒ کی نگری سے ہے" کرن کرن روشنی" کے نام سے میگزین نکالتے ہیں ہمیں شمارہ بھیجتے ہیں۔۔۔۔۔!جزاک اللہ۔
حقیقی زندگی میں سے بھی چند دوستوں کا ذکر کرنا چاہوں گا ۔۔۔۔ ان میں حامد بن ناصر، عمر مزمل، حافظ ذوالقرنین میٹرک میں ملے اور ابھی تک دوستی نبھا رہے ہیں، کالج میں رانا طیب، حمزہ راجپوت، اور راحیل انور ملے۔۔۔ (نئیں مطلب ملے تو بہت مگر ان سے ذرا زیادہ انس ہو گیا) اور آخر پہ اس دوست کا ذکر جس پہ ہمہ یاراں دوزخ کی مثال فٹ آتی ہے اور وہ ہیں اویس افضل۔۔۔ انٹر سے ساتھ ہیں اور اب یونیورسٹی میں بھی۔۔۔ ہم ساتھ آتے جاتے ہیں ۔۔۔ پیریڈز اکٹھے بنک کرتے ہیں اور اور۔۔۔۔۔۔۔۔ بس کیا بتاؤں۔۔۔؟
اللہ پاک میرے تمام دوستوں کو سدا خوش رکھے ۔۔آمین!
نوٹ: یہ صادق عباس صاحب کی فرمائش پوری کرنے کی ایک حقیر کوشش کی ہے لہٰذہ اسکا سارا گناہ و ثواب انہی کے کھاتے میں ہے