ہمارے معاشرتی آداب اور مسائل ۔مسئلہ ۔1۔وقت کی پابندی

سید عاطف علی

لائبریرین
ہمارے معاشرتی آداب اور مسائل ۔
مسئلہ 1۔ وقت کا ضیاع ۔

یہ دھاگا معاشرے کے مسائل کی گفتگو کے ذیل میں شروع کیا جا رہا ہے ۔ اس میں پہلے مسئلے یعنی وقت کی پابندی کے موضوع پر بات کی جائے گی۔
آج کی تیز رفتار دنیا میں ہمارے معاشرے کی ایک بنیادی اور اہم ضرورت یہ ہے کہ اسے ایک تیزی سے بدلتا ہوا معاشرہ ہونا چایئے کیوں کہ اب دنیا کے ساتھ ساتھ چلنا اس کے لیے ممکن نہیں رہا ۔ایسی صورت سے دوچار جتنی شدید ضرورت ہمیں تبدیلی اور تغیر کی ہے اتنا ہی سخت جمود ہم پر طاری ہے ۔ اس لیے دور جدید کی برق رفتار دنیا کی رفتار تک پہنچنے کے لیے ہمیں ہمہ وقت اس کی فکر کرنی چاہیئے کہ قومی وسائل کے استعمال اور پیدا واری جدہ جہد میں ہم اپنے وقت کا بہترین استعمال کریں اور اس کے لیے معاشرے کی ہر سطح پر کوئی مفید حکمت عملی وضع کریں ۔

میں نے شروع میں مذکورہ تعارفی دھاگے آغاز میں ایک مثال تقریبات اورو اجتماعی تواصل کی ملاقاتوں اور تقاریب میں ضائع ہوتے اوقات کی مثال پیش کی تھی جو اپنے محدود مشاہدات اور حالیہ تجربات پر مبنی تھی ۔یہ ہمارے قومی وقت کی ضیاع کی صرف ایک جہت کا ذکر تھا جہاں ہم کئی گھنٹے روزانہ کے حساب سے برباد کرتے ہیں ۔ اسی طرح بچوں نوجوانوں کے پاس وقت کو منظم طور پر بروئے کار لانے لے لیے کوئی حکمت عملی نہیں ہو تی اور یوں ان کی صلاحیتوں کو ظاہر ہونے کا موقع نہیں ملتا۔

جب بھی کسی ترقی پذیر یا ترقی یافتہ معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بھی فرد یا شخص اپنی کسی متعین درگرمی میں مشغول و منہمک نظر آتا ہے ۔ اس کی مثالیں سڑکوں بسوں اور ٹرینوں میں بیٹھے مسافروں کے ہاتھوں میں کتابوں یا کانوں می لگے ائیر فون کی شکل میں نظر آتی ہیں ۔ غرض یہ کہ متحرک معاشرہ اپنے معاون عناصر کی بدولت ہر سمت میں مثبت سفر کرتا رہتا ہے اور وقت کے سمندر سے الماس و مروارید نکال کر اپنے مستقبل کو سنوارتا ہے ۔

مسائل کے بارے میں بات کرنے کے لیے ہم بنیادی خاکہ اس طرح کریں کہ پہلے مسئلے کے اسباب پھر اثرات اور آخر میں ممکنہ حل سوچیں گے۔ احباب سے گزارش ہو گی کے ہماری عمومی معاشرتی سرگرمیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے وقت کے مسئلے کی نوعیت کے لحاظ سے کچھ وقت غور و خوض کریں اور اپنی آراء کا اظہار کریں ۔اگر کوئی مشورہ ہو تو وہ بھی ضرور پیش کریں ۔ اس سلسلے میں بہتر ہو گا کہ ہم اسباب ، اثرات (و نقصانات ) اور حل یا نتائج کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کریں تا کہ غور و خوض (برین سٹورمنگ) کے ذریعے حاصل کردہ پر مغز نتائج کو کسی قابل عمل لائحہ عمل تشکیل دینے کے لیے بہتر طور پر پیش کیا جا سکے ۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
عنوان وقت کی پابندی ہے لیکن آپ کا مراسلہ کافی منتشر الخیال ہے۔ بہرحال وقت کی پابندی کے دو رخ ہیں۔ ایک ذاتی زندگی میں کہ ہم کیا اپنے کام وغیرہ وقت پر کرتے ہیں وغیرہ۔ یہ اتنا مشکل نہیں۔ دورا اجتماعی مسئلہ ہے: اگر کوئی تقریب یا میٹنگ وغیرہ ہے اور وہاں آپ وقت پر پہنچتے ہیں لیکن دیگر لوگ کافی دیر سے تو آپ کا وقت ضائع ہوا۔ لہذا آئیندہ آپ بھی دیر ہی سے جائیں گے تاکہ اس سے بچ سکیں اور اس وقت کو بہتر استعمال میں لا سکیں۔ یہ کولیکٹو ایکشن کا مسئلہ ہے۔

باقی بات رہی حل کی تو آسان حل ہے: ہجرت۔ یہی پاکستانی جب دیگر معاشروں میں بستے ہیں تو اکثر وقت کی ٹھیک ہی پابندی کرتے ہیں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
مسائل کے بارے میں بات کرنے کے لیے ہم بنیادی خاکہ اس طرح کریں کہ پہلے مسئلے کے اسباب پھر اثرات اور آخر میں ممکنہ حل سوچیں گے۔
وقت کا ضیا ع ہمارے معاشرے کا واقعی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ موجودہ دور میں اس کی بنیادی وجہ ٹیکنالوجی کا بے جا استعمال ہے۔ موبائل فون، سوشل میڈیا، ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور فیس بک جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر گھنٹوں صرف کیے جاتے ہیں۔ موبائل گیمز وغیرہ
وقت کے ضیاع کی ایک اور وجہ کام کاج کی جگہوں پر غیر موثر منصوبہ بندی ہے۔ سرکاری دفاتر ہی کو لیں، وہاں کے سست رفتار کام کی وجہ سے ایک ایک کام کے لیے کتنا وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ غیر ضروری تاخیر سارا نظام خراب کر دیتی ہے۔ ایک ایک بل صحیح کروانے کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تعلیمی اداروں میں بھی کئی کئی دن غیر نصابی سرگرمیاں چلتی رہتی ہیں اور تعلیم کی بجائے ان کی طرف زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ یہ چیز بھی وقت ضائع کرنے کا سبب بنتی ہے۔
ٹریفک جام یا پھر غیر منظم ٹرانسپورٹ سسٹم بھی لوگوں کا بہت وقت ضائع کرتے ہیں۔
وقت کے ضیا ع کا الزام گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر بھی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے گھریلو اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔
ہاں شادی کی تقریبات کی بات ہو رہی تھی کہ لوگ پابندی نہیں کرتے وقت کی۔ ایسا ہی ہے۔ شادی کی تقریبات بھی تو کئی کئی دن چلتی رہتی ہیں۔ جو سارا سال وقت کا ضیاع ہے۔

اسباب اور اثرات دونوں ہی کافی حد تک اسی میں آ گئے؟
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
عنوان وقت کی پابندی ہے لیکن آپ کا مراسلہ کافی منتشر الخیال ہے۔ بہرحال وقت کی پابندی کے دو رخ ہیں۔ ایک ذاتی زندگی میں کہ ہم کیا اپنے کام وغیرہ وقت پر کرتے ہیں وغیرہ۔ یہ اتنا مشکل نہیں۔ دورا اجتماعی مسئلہ ہے: اگر کوئی تقریب یا میٹنگ وغیرہ ہے اور وہاں آپ وقت پر پہنچتے ہیں لیکن دیگر لوگ کافی دیر سے تو آپ کا وقت ضائع ہوا۔ لہذا آئیندہ آپ بھی دیر ہی سے جائیں گے تاکہ اس سے بچ سکیں اور اس وقت کو بہتر استعمال میں لا سکیں۔ یہ کولیکٹو ایکشن کا مسئلہ ہے۔
درا صل وقت کی پابندی ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر کسی دوسرے مسئلہ کے ساتھ مربوط بھی ہے ۔ایسا بھی دیکھا جاتا ہے کہ ہم خاندانی ملاقاتوں میں بھی عموما وقت کا خیال نہیں رکھتے ۔ اور غیر متوقع اوقات پر غیر واضح غیر معین وقت تک نشست و برخاست بھی کرتے نظر آے ہیں ۔
باقی بات رہی حل کی تو آسان حل ہے: ہجرت۔ یہی پاکستانی جب دیگر معاشروں میں بستے ہیں تو اکثر وقت کی ٹھیک ہی پابندی کرتے ہیں۔
ہجرت سے مہاجر کا مسئلہ تو حل ہو جائے گا۔ معاشرے کا نہیں ۔۔۔۔دوسرے یہ بات تو بالکل ٹھیک ہے ۔ مجموعی طور پر معاشرے کے لیے کیا کچھ اقدامات کیے جا سکتے ہیں ؟
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
موجودہ دور میں اس کی بنیادی وجہ ٹیکنالوجی کا بے جا استعمال ہے۔ موبائل فون، سوشل میڈیا، ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور فیس بک جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر گھنٹوں صرف کیے جاتے ہیں۔ موبائل گیمز وغیرہ
پہلے کیا تھا؟ پاکستانی معاشرہ تو وقت کے معاملے میں اسی اور نوے کی دہائی میں بھی ایسا ہی تھا۔ اس وقت تو یہ ٹیکنالوجی نہ تھی۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آپ کی عر کچھ کم لگتی ہے۔ یہ نسٹالجیا کہ پرانا وقت کیا خوب تھا بہت عام ہے اور بالکل غلط
کم سے کم ہر ایک اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تو نہ بنائے رکھتا ہو گا تب۔ اگر اس پر مزید بات ہوتی رہی تو اس دھاگے کا مقصد کہیں پیچھے رہ جائے گا۔ جبکہ ٹاپک ہے بھی یہی۔۔۔ وقت کا ضیاع۔۔ اس کے بعد اس سے بچنے کا حل بھی تو ڈھونڈنا ہے نا۔
 

زیک

مسافر
اگر اس پر مزید بات ہوتی رہی تو اس دھاگے کا مقصد کہیں پیچھے رہ جائے گا۔ جبکہ ٹاپک ہے بھی یہی۔۔۔ وقت کا ضیاع۔۔ اس کے بعد اس سے بچنے کا حل بھی تو ڈھونڈنا ہے نا۔
مجھے تو یہ پوری محفل ہی وقت کا ضیاع لگ رہی ہے۔ ہزاروں کلومیٹر دور بیٹھے میں، آپ اور سید عاطف علی ایک معاشرے کی مسائل پر صفحے کالے کر رہے ہیں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
مجھے تو یہ پوری محفل ہی وقت کا ضیاع لگ رہی ہے۔ ہزاروں کلومیٹر دور بیٹھے میں، آپ اور سید عاطف علی ایک معاشرے کی مسائل پر صفحے کالے کر رہے ہیں۔
مسائل سامنے آئیں گے، ان پر بات چیت ہو گی تو ہی کچھ حل نکلے گا۔
یہ وقت کا ضیاع نہیں ہو رہا۔ سب اپنے خیالات شئیر کریں گے اور لازمی کچھ نہ کچھ سیکھنے ہی کو ملے گا۔
 

زیک

مسافر
مسائل سامنے آئیں گے، ان پر بات چیت ہو گی تو ہی کچھ حل نکلے گا۔
یہ وقت کا ضیاع نہیں ہو رہا۔ سب اپنے خیالات شئیر کریں گے اور لازمی کچھ نہ کچھ سیکھنے ہی کو ملے گا۔
اور پھر وہ حل لے کر امریکا، ڈنمارک اور سعودیہ سے پاکستان درآمد کیا جائے گا؟
 

زیک

مسافر
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ امریکا میں پاکستان (اسی نوے کی دہائیوں کے وقت) جیسے وقت کے مسائل نہیں ہیں لیکن علاقائی سٹیریوٹائپ پائے جاتے ہیں۔ جیسے شمالی ریاستوں کے لوگ اکثر جنوبی ریاستوں والوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ وقت کے شدید پابند نہیں ہوتے۔ بڑے شہروں میں لوگوں کی وقت کی تیزی دیہی اور مضافاتی علاقوں میں کافی زیادہ ہے وغیرہ
 
Top