ہمارے معاشرتی آداب اور مسائل ۔مسئلہ ۔1۔وقت کی پابندی

جاسمن

لائبریرین
اگر اعلیٰ تعلیم کا مقصد واقعی اعلیٰ تعلیم ہو تو اچھی بات ہے۔ لیکن ڈگریوں کے ڈھیر اکٹھے کرنا اور علم حاصل نہ کرنا تو اعلیٰ تعلیم نہیں ہے۔
ہمارے ہاں اکثر و بیشتر ایسا ہو رہا ہوتا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
اگر اعلیٰ تعلیم کا مقصد واقعی اعلیٰ تعلیم ہو تو اچھی بات ہے۔ لیکن ڈگریوں کے ڈھیر اکٹھے کرنا اور علم حاصل نہ کرنا تو اعلیٰ تعلیم نہیں ہے۔
ہمارے ہاں اکثر و بیشتر ایسا ہو رہا ہوتا ہے۔
لیکن ہم یہ کیسے نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ کون اعلیٰ تعلیم کی ڈگریز جمع کر کے علم حاصل نہیں کررہا ہے ۔ میں کچھ ایسے احباب کو جانتا ہوں جنہوں نے ایک ڈگری اپنے روزگار کے حصول کے لیئے حاصل کی اور باقی ڈگریز انہوں نے اپنے علم کے تشنگی کے لیئے حاصل کی۔ اور اس میں وہ اپنے پروفیشنل ڈگری سے زیادہ کامیاب ہوئے ۔ پاکستان میں ایسے دانشور مل جائیں گے کہ جن کی پروفیشنل ڈگریز کچھ اورتھیں ۔ مگر وہ کسی اور میدان میں کامیاب ہوئے ۔ اگر اعلیٰ تعلیم کا مقصد صرف نوکریاں حاصل کرنا ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ یہ اعلیٰ تعلیم کا حصول ہے ۔ اعلی ٰ تعلیم کا مقصد صرف علم حاصل کرنا ہونا چاہیئے ۔ بعد میں پھراس کا اطلاق کسی پروفیشنل فیلڈ میں کیا جاسکتا ہے ۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگریز کے حصول کے دوڑ دیکھ لیں کہ جو کہ اب صرف اسٹیس اور جاب حاصل کرنے کا ذریعہ بن گئی ہیں ۔ اور مسیحائی اپنے مقدس مقام سے کہاں آگئی ہے ۔
امریکہ میں کم از کم یہی رویہ ہے ۔ بچے اپنی فیلڈ ز کم ایک یا دو بار ضرور تبدیل کرتے ہیں ۔ جو کہ وقت کی ضرورت کا تقاضہ بھی ہوتی ہے ۔ اور مذید علم کی جستجو بھی ۔ میرے بیٹے نے Criminal Justice and Criminology میں بیچلیر کیا۔ پھر بعد میں اس نے اپنی فیلڈ ایم بی اے میں تبدیل کرلی ہے ۔ گو اس میں اس کے مذید سال صرف ہوئے ۔ بہرحال اس نے اپنا ہدف ضرور حاصل کیا ۔
مجھے پاکستان کے حالات کا کچھ علم نہیں تھا ۔ مگرتواتر کے ساتھ کئی وزٹ پاکستان کے کیئے تو احساس ہوا کہ لوگ یہ ایک ڈگری بھی کیوں حاصل کررہے ہیں ۔ :thinking:
 

ظفری

لائبریرین
وقت کی پابندی ایک معاشرتی نظم و ضبط کا بنیادی رکن ہے ۔ اس کا اطلاق ایک عام آدمی سے لیکر ایک ادارے اور پھر ریاست کے خدوخال پر لاگو ہوتا ہے ۔ وقت کی پابندی انفرادی طور پر معاشرے پر اتنی اثرانداز نہیں ہوسکتی ۔ جنتی اجتماعی طور پر ۔ اور یہ اتنی آسان بات بھی نہیں ہے کہ کسی سوئی قوم کو گہری نیند سے جگا لینا ۔ پاکستا نی معاشرے میں جس نوعیت کا انتشار پھیلا ہوا ہے ۔ اگر میں گنوانے بیٹھ جاؤں تو کئی صفحات تک بات پہنچ جائے ۔ اور یہ بات میرے پاکستانی احباب بہت اچھی طرح جانتے ہیں ۔ لوگوں میں وقت کی پابندی کا احساس اجاگر کرنا ، پورے ملک کے نظام سے جڑا ہوا ہے ۔ اگر آپ انفرادی طور پر بھی خود پر وقت کی پابندی کا اطلاق کرنا چاہیں تو بھی نہیں کرسکتے۔ مثال کے طور پر آپ کسی شادی پر دیئے وقت پر پہنچ کر دیکھئے،جب آپ کے مطابق آپ کے جانے کا وقت ہوگا تو اس وقت شادی کی تقربیات کا آغاز شروع ہوگا ۔ بلکل اسی طرح انفرادی طور پر بھی ، بجلی کا بل آنے کے بعد ہاتھ میں دبائے ہوئے آخری تاریخ کا انتظار کرنا اور آخری دن لمبی قطار میں لگ کر بل ادا کرنا اور اپنا وقت ضائع کرنا ۔ یہ سب اس بات کی علامتیں ہیں کہ معاشرے کا نظم بگڑا ہوا ہے ۔ اور میں نے اپنے پچھلے مراسلہ میں یہی کہنے کی کو شش کی تھی کہ آپ کو یہ دیکھنا ہے کہ غلطی کہاں ہو رہی ہے ۔ آپ کا اپنے sociology structure کی طرف دیکھنا پڑے گا کہ وہ کہاں کھڑا ہے ۔ پاکستان میں انفرادی حثییت کو چھوڑیں پہلے یہ دیکھیں کہ آپ کے ادارے کہاں کھڑے ہیں ۔ انصاف اور قانون کے اداروں کا کیا حال ہے ۔ انہوں نے اپنی ترجیحات کیا متعین کی ہوئی ہیں ۔ بیوروکریٹس کرپشن کی اعلی سطح پر پہنچی ہوئی ہے ۔ سیاستدانوں نے اقتدار کے حصول کے لیئے اخلاقیات کیا دھجیاں اڑائیں ہوئی ہیں ۔ علماء نے محض اپنے School of thought کو پروموٹ کرنے کے لیئے دین کے بنیادی اصولوں سے انحراف کیا ہے ۔ ایک عام آدمی سڑک پر سیدھی گاڑی چلا نہیں سکتا ۔ آپ کسی دوکان پر پہلے سے کھڑے ہیں ۔ کوئی دوسرا آپ کے سامنے چھلانگ لگا کر آپ سے پہلے چیز خریدنے کی کوشش کرتا ہوا نظر آئے گا ۔ ایک ٹھیلا لگانے والوں سے لیکر ایک بڑی پروڈکٹ کی فیکڑی تک ، ملاوٹ ایک مذہبی فریضہ سمجھا جائے ۔ چور بازاری ، رشوت ستانی ، قتل وغارت ، ڈکیتیاں و چوریاں ، دھوکہ دہی ،مکر وفریب ، حق تلفی ، خود کو خدا کا مکلف ٹہرا کر لوگوں کی جنت دوزخ کا فیصلہ کرنا ۔ لسانی تعصبت ، مذہبی تفرقات ، علاقائی حد بندیاں ، زبان پر پابندی ، یہ سب جس معاشرے کی روایت بن چکے ہوں ۔ وہاں وقت کی پابندی کے اطلاق سے ہم کچھ حاصل نہیں کرسکتے ۔
مجھے عنوان پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ جس نیک مقصد کو لیکر یہ ٹاپک شروع کیا گیا ہے ۔ اس کا آغاز وقت کی پابندی سے نہیں ہونا چاہیئے تھا ۔ اسے تو معاشرے کے خدوخال کے واضع ہونے کے بعد موضوعَ بحث بنانا تھا ۔ وقت کی پابندی کو معاشرےکا حصہ بنانے سے پہلے معاشرے میں اس کی جگہ بنانی ضروری ہے ۔
 

علی وقار

محفلین
اگر نوے فیصد افراد کسی تقریب میں دیر سے آتے ہیں تو اگر میں بھی دیر سے آتا ہوں تو اصولاًتو میں غلط ہو سکتا ہوں، مگر معاشرے کے حساب سے کچھ ایسی غلطی پر بھی نہیں ہوں۔ اگر میں جلد پہنچ جاؤں گا تو اپنا مزید وقت برباد کروں گا۔ اگر مجھے یقین ہو کہ کوئی میٹنگ عین اس وقت شروع ہو گی اور فلاں وقت پر ختم ہو جائے گی تو میں پوری کوشش کروں گا کہ وقت پر پہنچوں۔

میرے بس میں یہی کچھ ہے۔

باقی، شعور بیداری ایک طویل عمل ہے جسے جاری رہنا چاہیے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اگر نوے فیصد افراد کسی تقریب میں دیر سے آتے ہیں تو اگر میں بھی دیر سے آتا ہوں تو اصولاًتو میں غلط ہو سکتا ہوں، مگر معاشرے کے حساب سے کچھ ایسی غلطی پر بھی نہیں ہوں۔ اگر میں جلد پہنچ جاؤں گا تو اپنا مزید وقت برباد کروں گا۔ اگر مجھے یقین ہو کہ کوئی میٹنگ عین اس وقت شروع ہو گی اور فلاں وقت پر ختم ہو جائے گی تو میں پوری کوشش کروں گا کہ وقت پر پہنچوں۔

میرے بس میں یہی کچھ ہے۔

باقی، شعور بیداری ایک طویل عمل ہے جسے جاری رہنا چاہیے۔
اگر تقریب یا میٹنگ ہی دیر میں شروع کرنی ہے اور ہوتی بھی ہے تو دعوت نامے بھی تو اسی کے مطابق بنائے جا سکتے ہیں ۔

اس میں کیا خرابی ہے۔

DST والا فارمولا یہاں کام آسکتا ہے۔

مطلب جب آپ کو معلوم ہے کہ یہ وقت اور یہ چال اور یہ چلنےوالے ہیں تو اس طرح کیا جانے میں کیا قباحت ہے۔؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یعنی تقریب کا وقت 8 سے 10 بجے لکھنے اور تقریب کو 10 سے 12 بجے کرنے کے بجائے۔ دعوت نامے پر ہی 10 سے 12 کا وقت لکھ دیا جائے۔تو اس تکلف اور تکلیف سے جان چھوٹے ۔
 

علی وقار

محفلین
یعنی تقریب کا وقت 8 سے 10 بجے لکھنے اور تقریب کو 10 سے 12 بجے کرنے کے بجائے۔ دعوت نامے پر ہی 10 سے 12 کا وقت لکھ دیا جائے۔تو اس تکلف اور تکلیف سے جان چھوٹے ۔
گو کہ عجب بات ہے مگر چاہے کوئی عمل کرے یا نہ کرے، حکومت کی طرف سے پابندی ہے کہ دس بجے کے بعد شادی ہال بند کر دیے جائیں گے۔ شاید یہی وقت ہے دس یا گیارہ بجے کا۔ :) اس پر بھی شادی کارڈ کی حد تک عملدرآمد ہوتا ہے ویسے۔ آپ کو معلوم ہے کہ غیر قانونی کام تو ہم کرتے نہیں ہیں۔
:)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
گو کہ عجب بات ہے مگر چاہے کوئی عمل کرے یا نہ کرے، حکومت کی طرف سے پابندی ہے کہ دس بجے کے بعد شادی ہال بند کر دیے جائیں گے۔ شاید یہی وقت ہے دس یا گیارہ بجے کا۔ :) اس پر بھی شادی کارڈ کی حد تک عملدرآمد ہوتا ہے ویسے۔ آپ کو معلوم ہے کہ غیر قانونی کام تو ہم کرتے نہیں ہیں۔
:)
یہ اوقات تو خیر مثال کے طور لکھے تھے۔ مطلب بلکہ مطلوب یہ کہ تھا کہ لکھنے اور کہنے کے ساتھ عمل کرنے میں کچھ مطابقت ہو جائے ۔
 

ظفری

لائبریرین
یعنی تقریب کا وقت 8 سے 10 بجے لکھنے اور تقریب کو 10 سے 12 بجے کرنے کے بجائے۔ دعوت نامے پر ہی 10 سے 12 کا وقت لکھ دیا جائے۔تو اس تکلف اور تکلیف سے جان چھوٹے ۔
بڑی عجیب منطق آپ نے پیش کی ۔ یعنی آپ سمجھتے ہیں کہ 10 سے 12 کا وقت لکھ دیا جائے تو مسئلہ حل ہوجائے گا ۔ اگر ایسی بات ہے ۔ تو پھر 8 سے 10 پر آنے میں کیا قباحت ہے ۔ میں یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ قوم کا مزاج یہ بن چکا ہے کہ اسے وقت کی پابندی نہیں کرنی ۔ اس سے بعید کہ وقت کیا ہے ۔ 10 سے 12 کا وقت کردیں ۔ پھر دیکھیں کتنے لوگ اس وقت پر بھی آتے ہیں ۔ پھر دوسرا منفی پہلو اس رائے میں یہ ہے کہ جتنا وقت آگے کریں گے ۔ دوسرے دن صبح اٹھنے والوں کا مشکل کا سامنا ہوگا ۔( اگر یہ قوم صبح اٹھتی ہے تو !)۔ ورنہ ہمارے یہاں ویک ڈیز میں انتہائی وقت 10 ہے اور ویک اینڈز پر 11۔
 

علی وقار

محفلین
یہ اوقات تو خیر مثال کے طور لکھے تھے۔ مطلب بلکہ مطلوب یہ کہ تھا کہ لکھنے اور کہنے کے ساتھ عمل کرنے میں کچھ مطابقت ہو جائے ۔
اس کا سادہ حل یہ ہے کہ حکومت دس بجے واقعی شادی ہال بند کروا دے۔ یہ تو کچھ بھی مشکل کام نہیں مگر عملی طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے کیونکہ شادی ہال کے اونرز کے بااثر افراد سے تعلقات ہوتے ہیں جن کو وہ بروقت استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔
اہم ایشو ز= قانون عملی طور پر سب کے لیے یکساں نہیں اور قانون پر عمل درآمد نہیں کروایا جاتا۔
یعنی کہ،
اس نظام کو اندر سے گھن لگ چکا ہے، اگر واقعی یہ کوئی نظام ہے بھی۔
 

ظفری

لائبریرین
اس کا سادہ حل یہ ہے کہ حکومت دس بجے واقعی شادی ہال بند کروا دے۔ یہ تو کچھ بھی مشکل کام نہیں مگر عملی طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے کیونکہ شادی ہال کے اونرز کے بااثر افراد سے تعلقات ہوتے ہیں جن کو وہ بروقت استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔
اہم ایشو ز= قانون عملی طور پر سب کے لیے یکساں نہیں اور قانون پر عمل درآمد نہیں کروایا جاتا۔
یعنی کہ،
اس نظام کو اندر سے گھن لگ چکا ہے، اگر واقعی یہ کوئی نظام ہے بھی۔
واضع رہے کہ یہاں صرف شادی کی تقریبات میں وقت کی پابندی کی بات نہیں ہورہی ۔ہم مجموعی طور پر ایک قوم کی حیثیت سے اپنے فرائض ، ذمہ داریوں اور کام میں وقت کی پابندی کس طور پر کرتے ہیں۔ اور ان سے متعلق ہمارا رویہ کیا ہے ۔ اس پر بات ہو رہی ہے ۔
 

علی وقار

محفلین
واضع رہے کہ یہاں صرف شادی کی تقریبات میں وقت کی پابندی کی بات نہیں ہورہی ۔ہم مجموعی طور پر ایک قوم کی حیثیت سے اپنے فرائض ، ذمہ داریوں اور کام میں وقت کی پابندی کس طور پر کرتے ہیں۔ اور ان سے متعلق ہمارا رویہ کیا ہے ۔ اس پر بات ہو رہی ہے ۔
یہ تو ایک مثال پیش کی ہے۔ مجموعی طور پر، ہم جو کچھ کر رہے ہیں، وہ بھی مثالی نوعیت کے کام ہیں۔ وقت ملا تو اس پر بھی سوچیں گے، وقت کا ہی تو مسئلہ ہے۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
اس نظام کو اندر سے گھن لگ چکا ہے، اگر واقعی یہ کوئی نظام ہے بھی۔

اہم ایشو ز= قانون عملی طور پر سب کے لیے یکساں نہیں اور قانون پر عمل درآمد نہیں کروایا جاتا۔

میں یہی کہنا چاہ رہا تھا کہ وقت کی پابندی کیسے ممکن ہوسکتی ہے ۔ جب کہ اس کے عملداری میں بہت سی رکاوٹیں کھڑی ہیں ۔تو پہلے نظام میں تبدیلی لائی جائے پھر وقت کی پا بندی کا اطلاق کیا جائے ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر معاشرے کے نظام میں چند ضروری تبدیلیاں رونما ہوگئیں تو پھر شاید وقت کی پابندی کے اطلاق پر زور دینے کی ضرورت ہی نہ رہے گی ۔ قوم خودبخود وقت کی پابندی کرنے لگے گی ۔ جیسا کے مغرب میں ہوتا ہے ۔
 

جاسمن

لائبریرین
مجھے پاکستان کے حالات کا کچھ علم نہیں تھا ۔ مگرتواتر کے ساتھ کئی وزٹ پاکستان کے کیئے تو احساس ہوا کہ لوگ یہ ایک ڈگری بھی کیوں حاصل کررہے ہیں ۔ :thinking:
آپ کی اسی بات میں آپ کے سوال کا جواب ہے۔
آپ کو ویسے ہی لوگوں کو دیکھ کے یہ خیال آیا، ہم تعلیمی ادارے میں رہ کے دیکھ رہے ہیں۔
میرے پاس بہت مثالیں ہیں لیکن ہم موضوع سے ہٹ جائیں گے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بڑی عجیب منطق آپ نے پیش کی ۔ یعنی آپ سمجھتے ہیں کہ 10 سے 12 کا وقت لکھ دیا جائے تو مسئلہ حل ہوجائے گا ۔ اگر ایسی بات ہے ۔ تو پھر 8 سے 10 پر آنے میں کیا قباحت ہے ۔ میں یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ قوم کا مزاج یہ بن چکا ہے کہ اسے وقت کی پابندی نہیں کرنی ۔ اس سے بعید کہ وقت کیا ہے ۔ 10 سے 12 کا وقت کردیں ۔ پھر دیکھیں کتنے لوگ اس وقت پر بھی آتے ہیں ۔ پھر دوسرا منفی پہلو اس رائے میں یہ ہے کہ جتنا وقت آگے کریں گے ۔ دوسرے دن صبح اٹھنے والوں کا مشکل کا سامنا ہوگا ۔( اگر یہ قوم صبح اٹھتی ہے تو !)۔ ورنہ ہمارے یہاں ویک ڈیز میں انتہائی وقت 10 ہے اور ویک اینڈز پر 11۔
ظفری بھائی آپ کا نقطہ نظر اچھا اور مثبت ہے ۔اور یہ بھی مان لیا کہ یہ منطق بھی عجیب ہے ۔
لیکن جب تک آپ یہ روٹ کاز نہ نکال لیں کہ یہ تاخیر کیوں ہو رہی ہے اور اس کی اصل وجہ کیا ہے کہ جلد بلانے پر بھی لوگ دیر سے آتے ہیں ۔ تب ہم آٹھ بجے بلاکر دس بجے استقبال کے لیے خود پہنچیں ۔اس سے بہتر نہیں کہ ہم ٹائم ہی ایسا دیں جب لوگ واقعی آئیں ۔
اگر آپ یہ سمجھیں کہ میں اس تاخیر کا حامی ہوں تو یہ جان لیں کہ یہ ٹھیک نہیں ، میں خود دیئے گئے وقت کا اتنا لحاظ رکھنے والا ہوں کہ وقت سے پہلے پہنچنے کا سختی سے قائل اور کار بند بھی ہوں ۔لیکن ہمیں اس قومی مزاج کا تجزیہ کرنا ہے کہ اس تاخیر کے مزاج کو تشکیل پانے میں کیا کیا عناصر کار فرما ہیں ۔اور ان سے نبر آزما ہونے کی کیا صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ یہ بات یقینا اداروں اور انتظام تک پہنچے گی جن سے ہم وابستہ ہوں گے ۔لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ ہم اپنی ذاتی سطح پر اس سے نمٹنے اور اسے سدھارنے کے لیے کیا اقدامات کر سکتے ہیں ۔
 

جاسمن

لائبریرین
تب ہم آٹھ بجے بلاکر دس بجے استقبال کے لیے خود پہنچیں ۔اس سے بہتر نہیں کہ ہم ٹائم ہی ایسا دیں جب لوگ واقعی آئیں ۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ لوگوں کے لیے( کسی بھی سبب سے) وہ وقت مناسب نہیں ہوتا، اس لیے وہ اس وقت پہ نہیں آتے تو ہمیں ایسے وقت کا انتخاب کرنا چاہیے کہ جو سب کے لیے مناسب ہو، اس وقت کام بھی نہ ہوں، سونے کا وقت بھی نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔
لیکن میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ ان اوقات کی پابندی بھی نہیں کرتے۔
یہ شاید مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔
ہمارے ایک ادارے کے سربراہ ، ہمارے سینئیر، بہت دبنگ بندے، بیسویں گریڈ کے افسر، پی ایچ ڈی ڈاکٹر۔ کچھ بہت اہم مسائل و معاملات تھے کہ میں نے چند لوگوں کو شامل کر کے وی سی صاحب سے میٹنگ طے کی۔ احتراماً ڈاکٹر صاحب کو آگے آگے رکھا۔میٹنگ کا وقت دس بجے صبح تھا۔ ہم خاصا پہلے جب ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے تو وہ خواہ مخواہ دیر کرتے رہے۔ میں سخت بے چین کہ سر چلیں۔ ہمیں تاخیر ہو جائے گی۔ نہیں جی۔ ایک تو احترام بھی گھٹی میں پڑا ہے تو انھیں چھوڑ کے بھی جانا نامناسب لگتا تھا۔ دس بج گئے۔ وہ نہ اٹھے۔ ہم پورا ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے پہنچے۔ ہمارا انتظار ہو رہا تھا۔ میں انتہائی شرمندہ۔ معاملات و مسائل بھی ہمارے، میٹنگ بھی ہم نے طے کی اور تاخیر بھی ہماری طرف سے۔ ڈاکٹر صاحب بہت مطمئن۔ شاید وہ اس طرح خود کو "بڑا افسر" ثابت کرنا چاہتے تھے۔ کِس حِس کی تسکین تھی یہ، میں نہیں جانتی۔ لیکن جب بھی اس دن کو سوچتی ہوں، شرمندہ بھی ہوتی ہوں اور ان صاحب کے رویے پہ نئے سرے سے حیران بھی ہوتی ہوں۔
 
Top