لیکن ہم یہ کیسے نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ کون اعلیٰ تعلیم کی ڈگریز جمع کر کے علم حاصل نہیں کررہا ہے ۔ میں کچھ ایسے احباب کو جانتا ہوں جنہوں نے ایک ڈگری اپنے روزگار کے حصول کے لیئے حاصل کی اور باقی ڈگریز انہوں نے اپنے علم کے تشنگی کے لیئے حاصل کی۔ اور اس میں وہ اپنے پروفیشنل ڈگری سے زیادہ کامیاب ہوئے ۔ پاکستان میں ایسے دانشور مل جائیں گے کہ جن کی پروفیشنل ڈگریز کچھ اورتھیں ۔ مگر وہ کسی اور میدان میں کامیاب ہوئے ۔ اگر اعلیٰ تعلیم کا مقصد صرف نوکریاں حاصل کرنا ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ یہ اعلیٰ تعلیم کا حصول ہے ۔ اعلی ٰ تعلیم کا مقصد صرف علم حاصل کرنا ہونا چاہیئے ۔ بعد میں پھراس کا اطلاق کسی پروفیشنل فیلڈ میں کیا جاسکتا ہے ۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگریز کے حصول کے دوڑ دیکھ لیں کہ جو کہ اب صرف اسٹیس اور جاب حاصل کرنے کا ذریعہ بن گئی ہیں ۔ اور مسیحائی اپنے مقدس مقام سے کہاں آگئی ہے ۔اگر اعلیٰ تعلیم کا مقصد واقعی اعلیٰ تعلیم ہو تو اچھی بات ہے۔ لیکن ڈگریوں کے ڈھیر اکٹھے کرنا اور علم حاصل نہ کرنا تو اعلیٰ تعلیم نہیں ہے۔
ہمارے ہاں اکثر و بیشتر ایسا ہو رہا ہوتا ہے۔
اگر تقریب یا میٹنگ ہی دیر میں شروع کرنی ہے اور ہوتی بھی ہے تو دعوت نامے بھی تو اسی کے مطابق بنائے جا سکتے ہیں ۔اگر نوے فیصد افراد کسی تقریب میں دیر سے آتے ہیں تو اگر میں بھی دیر سے آتا ہوں تو اصولاًتو میں غلط ہو سکتا ہوں، مگر معاشرے کے حساب سے کچھ ایسی غلطی پر بھی نہیں ہوں۔ اگر میں جلد پہنچ جاؤں گا تو اپنا مزید وقت برباد کروں گا۔ اگر مجھے یقین ہو کہ کوئی میٹنگ عین اس وقت شروع ہو گی اور فلاں وقت پر ختم ہو جائے گی تو میں پوری کوشش کروں گا کہ وقت پر پہنچوں۔
میرے بس میں یہی کچھ ہے۔
باقی، شعور بیداری ایک طویل عمل ہے جسے جاری رہنا چاہیے۔
گو کہ عجب بات ہے مگر چاہے کوئی عمل کرے یا نہ کرے، حکومت کی طرف سے پابندی ہے کہ دس بجے کے بعد شادی ہال بند کر دیے جائیں گے۔ شاید یہی وقت ہے دس یا گیارہ بجے کا۔ اس پر بھی شادی کارڈ کی حد تک عملدرآمد ہوتا ہے ویسے۔ آپ کو معلوم ہے کہ غیر قانونی کام تو ہم کرتے نہیں ہیں۔یعنی تقریب کا وقت 8 سے 10 بجے لکھنے اور تقریب کو 10 سے 12 بجے کرنے کے بجائے۔ دعوت نامے پر ہی 10 سے 12 کا وقت لکھ دیا جائے۔تو اس تکلف اور تکلیف سے جان چھوٹے ۔
یہ اوقات تو خیر مثال کے طور لکھے تھے۔ مطلب بلکہ مطلوب یہ کہ تھا کہ لکھنے اور کہنے کے ساتھ عمل کرنے میں کچھ مطابقت ہو جائے ۔گو کہ عجب بات ہے مگر چاہے کوئی عمل کرے یا نہ کرے، حکومت کی طرف سے پابندی ہے کہ دس بجے کے بعد شادی ہال بند کر دیے جائیں گے۔ شاید یہی وقت ہے دس یا گیارہ بجے کا۔ اس پر بھی شادی کارڈ کی حد تک عملدرآمد ہوتا ہے ویسے۔ آپ کو معلوم ہے کہ غیر قانونی کام تو ہم کرتے نہیں ہیں۔
بڑی عجیب منطق آپ نے پیش کی ۔ یعنی آپ سمجھتے ہیں کہ 10 سے 12 کا وقت لکھ دیا جائے تو مسئلہ حل ہوجائے گا ۔ اگر ایسی بات ہے ۔ تو پھر 8 سے 10 پر آنے میں کیا قباحت ہے ۔ میں یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ قوم کا مزاج یہ بن چکا ہے کہ اسے وقت کی پابندی نہیں کرنی ۔ اس سے بعید کہ وقت کیا ہے ۔ 10 سے 12 کا وقت کردیں ۔ پھر دیکھیں کتنے لوگ اس وقت پر بھی آتے ہیں ۔ پھر دوسرا منفی پہلو اس رائے میں یہ ہے کہ جتنا وقت آگے کریں گے ۔ دوسرے دن صبح اٹھنے والوں کا مشکل کا سامنا ہوگا ۔( اگر یہ قوم صبح اٹھتی ہے تو !)۔ ورنہ ہمارے یہاں ویک ڈیز میں انتہائی وقت 10 ہے اور ویک اینڈز پر 11۔یعنی تقریب کا وقت 8 سے 10 بجے لکھنے اور تقریب کو 10 سے 12 بجے کرنے کے بجائے۔ دعوت نامے پر ہی 10 سے 12 کا وقت لکھ دیا جائے۔تو اس تکلف اور تکلیف سے جان چھوٹے ۔
اس کا سادہ حل یہ ہے کہ حکومت دس بجے واقعی شادی ہال بند کروا دے۔ یہ تو کچھ بھی مشکل کام نہیں مگر عملی طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے کیونکہ شادی ہال کے اونرز کے بااثر افراد سے تعلقات ہوتے ہیں جن کو وہ بروقت استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔یہ اوقات تو خیر مثال کے طور لکھے تھے۔ مطلب بلکہ مطلوب یہ کہ تھا کہ لکھنے اور کہنے کے ساتھ عمل کرنے میں کچھ مطابقت ہو جائے ۔
واضع رہے کہ یہاں صرف شادی کی تقریبات میں وقت کی پابندی کی بات نہیں ہورہی ۔ہم مجموعی طور پر ایک قوم کی حیثیت سے اپنے فرائض ، ذمہ داریوں اور کام میں وقت کی پابندی کس طور پر کرتے ہیں۔ اور ان سے متعلق ہمارا رویہ کیا ہے ۔ اس پر بات ہو رہی ہے ۔اس کا سادہ حل یہ ہے کہ حکومت دس بجے واقعی شادی ہال بند کروا دے۔ یہ تو کچھ بھی مشکل کام نہیں مگر عملی طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے کیونکہ شادی ہال کے اونرز کے بااثر افراد سے تعلقات ہوتے ہیں جن کو وہ بروقت استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔
اہم ایشو ز= قانون عملی طور پر سب کے لیے یکساں نہیں اور قانون پر عمل درآمد نہیں کروایا جاتا۔
یعنی کہ،
اس نظام کو اندر سے گھن لگ چکا ہے، اگر واقعی یہ کوئی نظام ہے بھی۔
یہ تو ایک مثال پیش کی ہے۔ مجموعی طور پر، ہم جو کچھ کر رہے ہیں، وہ بھی مثالی نوعیت کے کام ہیں۔ وقت ملا تو اس پر بھی سوچیں گے، وقت کا ہی تو مسئلہ ہے۔واضع رہے کہ یہاں صرف شادی کی تقریبات میں وقت کی پابندی کی بات نہیں ہورہی ۔ہم مجموعی طور پر ایک قوم کی حیثیت سے اپنے فرائض ، ذمہ داریوں اور کام میں وقت کی پابندی کس طور پر کرتے ہیں۔ اور ان سے متعلق ہمارا رویہ کیا ہے ۔ اس پر بات ہو رہی ہے ۔
اس نظام کو اندر سے گھن لگ چکا ہے، اگر واقعی یہ کوئی نظام ہے بھی۔
اہم ایشو ز= قانون عملی طور پر سب کے لیے یکساں نہیں اور قانون پر عمل درآمد نہیں کروایا جاتا۔
آپ کی اسی بات میں آپ کے سوال کا جواب ہے۔مجھے پاکستان کے حالات کا کچھ علم نہیں تھا ۔ مگرتواتر کے ساتھ کئی وزٹ پاکستان کے کیئے تو احساس ہوا کہ لوگ یہ ایک ڈگری بھی کیوں حاصل کررہے ہیں ۔
ظفری بھائی آپ کا نقطہ نظر اچھا اور مثبت ہے ۔اور یہ بھی مان لیا کہ یہ منطق بھی عجیب ہے ۔بڑی عجیب منطق آپ نے پیش کی ۔ یعنی آپ سمجھتے ہیں کہ 10 سے 12 کا وقت لکھ دیا جائے تو مسئلہ حل ہوجائے گا ۔ اگر ایسی بات ہے ۔ تو پھر 8 سے 10 پر آنے میں کیا قباحت ہے ۔ میں یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ قوم کا مزاج یہ بن چکا ہے کہ اسے وقت کی پابندی نہیں کرنی ۔ اس سے بعید کہ وقت کیا ہے ۔ 10 سے 12 کا وقت کردیں ۔ پھر دیکھیں کتنے لوگ اس وقت پر بھی آتے ہیں ۔ پھر دوسرا منفی پہلو اس رائے میں یہ ہے کہ جتنا وقت آگے کریں گے ۔ دوسرے دن صبح اٹھنے والوں کا مشکل کا سامنا ہوگا ۔( اگر یہ قوم صبح اٹھتی ہے تو !)۔ ورنہ ہمارے یہاں ویک ڈیز میں انتہائی وقت 10 ہے اور ویک اینڈز پر 11۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ لوگوں کے لیے( کسی بھی سبب سے) وہ وقت مناسب نہیں ہوتا، اس لیے وہ اس وقت پہ نہیں آتے تو ہمیں ایسے وقت کا انتخاب کرنا چاہیے کہ جو سب کے لیے مناسب ہو، اس وقت کام بھی نہ ہوں، سونے کا وقت بھی نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔تب ہم آٹھ بجے بلاکر دس بجے استقبال کے لیے خود پہنچیں ۔اس سے بہتر نہیں کہ ہم ٹائم ہی ایسا دیں جب لوگ واقعی آئیں ۔
جاسمن پلیز تھوڑی سی بد تمیزی سیکھ لیجیے ۔ چاہے ایک نئی گھٹی کا گھونٹ بھر نا پڑے۔ایک تو احترام بھی گھٹی میں پڑا ہے تو انھیں چھوڑ کے بھی جانا نامناسب لگتا تھا
یہاں آپ کو کوئی نظر آتا ہو تو بتائیں تاکہ یہ کام بھی لگے ہاتھوں جلد کر ہی لیا جائے۔جاسمن پلیز تھوڑی سی بد تمیزی سیکھ لیجیے ۔ چاہے ایک نئی گھٹی کا گھونٹ بھر نا پڑے
میں خود اسی چکر میں ہوں ۔یہاں آپ کو کوئی نظر آتا ہو تو بتائیں تاکہ یہ کام بھی لگے ہاتھوں جلد کر ہی لیا جائے۔