ہمارے معاشرتی آداب اور مسائل ۔مسئلہ ۔1۔وقت کی پابندی

سید عاطف علی

لائبریرین
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ امریکا میں پاکستان (اسی نوے کی دہائیوں کے وقت) جیسے وقت کے مسائل نہیں ہیں لیکن علاقائی سٹیریوٹائپ پائے جاتے ہیں۔ جیسے شمالی ریاستوں کے لوگ اکثر جنوبی ریاستوں والوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ وقت کے شدید پابند نہیں ہوتے۔ بڑے شہروں میں لوگوں کی وقت کی تیزی دیہی اور مضافاتی علاقوں میں کافی زیادہ ہے وغیرہ
ہمارا ایک رشتہ دار ۔ کراچی سے ایک گاؤں جاتا تو اپنے تاثرات یوں بتا تا تھا کہ ۔ یہاں ٹائم ہی نہیں گزرتا۔۔۔
ٹائم دیکھو تو چھے بجے ہیں ۔پھر ایک گھنٹے بعد ٹائم دیکھو تو سواچھ ہوتے ہیں ۔
یہ بھی ایک عجیب فینومینا ہے ۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
وہ حل ان اور دیگر ممالک میں عرصہ دراز سے استعمال ہو رہے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آپ کی سوہنی دھرتی ان سے فائدہ نہ اٹھا سکی؟
ڈھونڈتے ہیں نا وجہ۔۔
گول میز کانفرنس کر کے حل نکالتے ہیں۔ ہمیں ذاتی طور پر وقت کے ضیاع کا مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس دھاگے میں دلچسپی ہے کیونکہ ہر بحث بھی کچھ نہ کچھ سکھا دیتی ہے چاہے وہ کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ہی ختم کیوں نہ ہو جائے۔
 

علی وقار

محفلین
ہمارا ایک رشتہ دار ۔ کراچی سے ایک گاؤں جاتا تو اپنے تاثرات یوں بتا تا تھا کہ ۔ یہاں ٹائم ہی نہیں گزرتا۔۔۔
ٹائم دیکھو تو چھے بجے ہیں ۔پھر ایک گھنٹے بعد ٹائم دیکھو تو سواچھ ہوتے ہیں ۔
یہ بھی ایک عجیب فینومینا ہے ۔
عموماً ایسا تب ہوتا ہے جب کرنے کے لیے کوئی کام نہ ہو۔
 

ظفری

لائبریرین
اور پھر وہ حل لے کر امریکا، ڈنمارک اور سعودیہ سے پاکستان درآمد کیا جائے گا؟
چونکہ آج کل مکمل فراغت ہے اور میں Netflix پر Viking Valhalla دیکھ رہا ہوں ۔ یعنی گیارہویں صدی عیسوی میں ایک عرب عورت ایک Viking کو لکھنا پڑھنا سیکھا رہی ہے ۔ کیا بات ہے ۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ۔۔۔ ! :idontknow:
 

ظفری

لائبریرین
باقی بات رہی حل کی تو آسان حل ہے: ہجرت۔ یہی پاکستانی جب دیگر معاشروں میں بستے ہیں تو اکثر وقت کی ٹھیک ہی پابندی کرتے ہیں۔
یہی پاکستانی جب دیگر معاشروں میں بستے ہیں تو اکثر سسٹم کی ٹھیک ہی پابندی کرتے ہیں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین

نیرنگ خیال

لائبریرین
سب سے پہلے اگر میں اپنی بات کروں تو میں وقت کی پابندی کے معاملے میں کافی جنونی ہوں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ وقت سے پہلے پہنچ جایا جائے بجائے اس کے کہ چند منٹ تاخیر کی جائے۔ شادیوں وغیرہ میں بھی وقت کی پابندی ملحوظ خاطر رہتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میں دیے گئے وقت پر جاتا ہوں۔ ہال خالی ہوتا ہے۔

اور اب بات کرتے ہیں عوام الانعام کی۔۔۔۔ یعنی بے کسوں مجبوروں کی۔۔۔ یعنی قسمت کے ماروں کی۔۔۔ یعنی ناہنجاروں کی۔۔۔ ہوہوہوہوہوہو
عوام میں اس خامی کی سب سے بڑی وجہ بچپن سے ہی اس طرف بچوں کی توجہ نہ دلانا ہے۔ میں بچوں کو اسکول چھوڑنے جاتا ہوں۔ چند منٹ لیٹ ہوجائیں ٹریفک میں تو میرے بچوں کو پسینہ آجاتا ہے۔ کہ پاپا دیر ہو رہی ہے۔ یہ عادت میں نے ہی ڈالی ہے۔ کہ تاخیر نہیں کرنی۔ اور میں ٹریفک کا حساب رکھ کر نکلتا ہوں۔ سو بچوں کو شاذ و نادر ہی اسکول سے تاخیر ہوتی ہے۔ پھر بچے دیکھتے ہیں کہ بڑوں نے جو وقت دیا ہے اس پر وہ نکلتے نہیں۔ یہ دوسری خامی ہے جس کی طرف اکثر بڑے یعنی والدین توجہ نہیں دیتے۔ ضروری ہے کہ بچوں کو جو وقت دیا جا ئے اس کے مطابق عمل کیا جائے یا پھر قبل از وقت انہیں اپنی کوتاہی کی وجہ بتائی جائے تاکہ وہ یہ سمجھیں کہ کل کلاں اگر ان کو تاخیر ہوتی ہے تو ان کو بھی شرمندہ ہونا ہے۔
میٹنگز میں اکثر پاکستانی دیر سے آتے ہیں۔ سامنے بیٹھے ہوتے ہیں، مگر کہتے ہیں ابھی وقت پڑا ہے۔۔۔ کیا کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یہ بہت ہی بری عادت ہے۔ چند دن قبل ایک گورے صاب کے ساتھ میٹنگ کر رہے تھے، تو اس نے کہا کہ تین منٹ انتظار کرتے ہیں سب آجائیں۔ تو میں نے کہہ دیا کہ یہ انتظار وقت پر آنے والوں کی توہین کرنا ہے۔ اس نے میری بات کو سنجیدگی سے لیا اور میٹنگ شروع کر دی۔
ایک اور عمومی مثال۔۔۔ ہمارے دفتر میں ایک گروپ بنا ہوا ہے جس پر لوگ نماز کا وقت بھیج دیتے ہیں۔ اس وقت جا کر دفتر میں جو جگہ نماز کے لیے مخصوص ہے وہاں ہم نماز پڑھ لیتے ہیں جماعت کے ساتھ۔ ایک دن میں گیا تو وہاں صرف میں اور وہ آدمی تھا جس نے جماعت کا وقت پیغام میں بھیجا تھا۔ میں نے اس کو کہا کہ جماعت کروا دیں۔ تو اس نے کہا چند اور لوگ آجائیں۔ ان کو بھی ثواب مل جائےگا۔ میں نے کہا آپ کے ثواب اور یاری ایک طرف۔ میری میٹنگ ہے۔ میں یہاں انتظار کرنے نہیں آیا۔ اگر آپ نے جماعت نہیں کروانی تھی تو وقت بھی نہیں دینا تھا۔ اس بات پر برہمی ہوئی۔ پر مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں نے خاصی کھری کھری سنا ڈالیں۔ بھائی اگر اپنے احباب کے ثواب کا اتنا ہی خیال ہے تو اپنی جماعت الگ کروا لیا کرو۔ کیا ضرورت ہے کسی ایک کو بھی خجل کرنے کی۔
اسی طرح شادی بیاہوں پر وقت کی پابندی نہ کرنے کی بہت بڑی وجہ ہر فریق کا یہ خیال کرنا ہے کہ ابھی وہاں کون آیا ہوگا۔ ابھی کیا ضرورت ہے جانے کی۔ یہ خیال، یہ سوچ، یہ عمل بدلنے کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہر شخص کو یہ سوچنا چاہیے کہ کوئی آئے نہ آئے میں وقت پر پہنچوں۔ اس سے معاشرے میں ایک واضح تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے۔

ابھی تک کے لیے اتنا ہی۔۔۔ کچھ دیر تک دوبارہ حاضری کی کوشش کروں گا۔
 

جاسمن

لائبریرین
عموماً ایسا تب ہوتا ہے جب کرنے کے لیے کوئی کام نہ ہو۔
غیر متفق۔
گاؤں دیہاتوں میں انتہائی مصروفیت کے باوجود بھی وقت کی فراوانی ہے۔ کسی دھاگے میں یہ حیرانی ظاہر بھی کی تھی کہ کڑھائی،سلائی، کتاب، گھر کے کام ۔۔ سب کر بھی لیں، تب بھی وقت بہت کم گزرا ہوتا ہے۔ یہ ایک دن کا تجربہ نہیں ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
وجوہات میں بے مقصدیت اور بے حسی بھی شامل ہیں۔ بنا مقصد کے، بنا منزل کا تعین کیے ہم چلتے چلے جاتے ہیں۔
اپنا وقت تو ضائع کرتے ہیں لیکن لوگوں کے قیمتی وقت کی بھی پرواہ نہیں۔
"اچھا چلے جانا۔ کیا کرنا ہے بھلا جا کر۔"
"چھوڑو کام۔ دو گھڑی بیٹھو تو۔"
بارات کا وقت ہے دس بجے لیکن روانگی ہی بارہ بجے ہو رہی ہے۔ جو انتظار کر رہے ہوں گے، ان کے وقت اور انتظار۔کی کوفت کا کوئی احساس نہیں۔ کسی کا نقصان ہو رہا ہو گا۔ کسی نے اپنے پیچھے بیمار والدین کے پاس واپس پہنچنا ہو گا۔ کسی نے نوکری پہ جانا ہو گا۔ کوئی اپنے پیچھے بچے چھوڑ کے آیا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
ہم نے اپنی ترجیحات کا تعین نہیں کیا ہوتا۔ ہمیں اس بات کا ادراک بھی نہیں کہ ترجیحات کا تعین کس قدر اہم ہوتا ہے۔ غیر اہم معاملات کو زیادہ ترجیح اور وقت دینا اور اہم معاملات کو آخر میں رکھنا اور کم وقت دینا۔ اس طرح بہت وقت ضائع ہوتا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
ترجیحات سے پہلے ہمیں یہ علم نہیں ہوتا کہ ہمیں کرنا کیا ہے۔ ہماری صلاحتیں کیا ہیں کہ جن کے لحاظ سے ہمیں اپنے میدان کا انتخاب کرنا ہے۔
ایک جاننے والی خاتون نے اردو، مطالعہ پاکستان اور تاریخ میں تین عدد ماسٹرز کیے ہیں۔ بی ایڈ۔ اب انھیں خیال آیا کہ ایم فل کرنا چاہیے سو اردو میں ایم فل کر رہی ہیں۔
میرے پاس علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سی ٹی کے دو مضامین تھے۔ ایک لڑکی میرے پاس آئی اپنی اسائنمنٹ کے سلسلے میں۔ نفسیات میں ایم اے یاایم ایس سی تھی۔ میں حیران کہ آپ کو سی ٹی کی ضرورت کیوں پڑی؟ بس کسی نے مشورہ دیا تھا۔ لوگ بنا سوچے ڈگریوں پہ ڈگریاں لیتے چلے جاتے ہیں۔
سو ہمارا بہت وقت ضائع ہوتا ہے۔
 

زیک

مسافر
ترجیحات سے پہلے ہمیں یہ علم نہیں ہوتا کہ ہمیں کرنا کیا ہے۔ ہماری صلاحتیں کیا ہیں کہ جن کے لحاظ سے ہمیں اپنے میدان کا انتخاب کرنا ہے۔
دنیا بھر میں یہ عام بات ہے۔ یہاں امریکا میں اکثر طلبا یونیورسٹی میں اپنا فیلڈ کم از کم ایک بار بدلتے ہیں۔ آدھے طلبا گریجویٹ ہونے میں چار سال سے زائد لگاتے ہیں۔ پھر گریجویٹ ہونے کے بعد کافی تعداد اپنی تعلیم کی فیلڈ میں جاب نہیں کرتی۔ اس سب میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اعلیٰ تعلیم کا مقصد صرف جاب ہی نہیں ہے
 
Top