سب سے پہلے اگر میں اپنی بات کروں تو میں وقت کی پابندی کے معاملے میں کافی جنونی ہوں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ وقت سے پہلے پہنچ جایا جائے بجائے اس کے کہ چند منٹ تاخیر کی جائے۔ شادیوں وغیرہ میں بھی وقت کی پابندی ملحوظ خاطر رہتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میں دیے گئے وقت پر جاتا ہوں۔ ہال خالی ہوتا ہے۔
اور اب بات کرتے ہیں عوام الانعام کی۔۔۔۔ یعنی بے کسوں مجبوروں کی۔۔۔ یعنی قسمت کے ماروں کی۔۔۔ یعنی ناہنجاروں کی۔۔۔ ہوہوہوہوہوہو
عوام میں اس خامی کی سب سے بڑی وجہ بچپن سے ہی اس طرف بچوں کی توجہ نہ دلانا ہے۔ میں بچوں کو اسکول چھوڑنے جاتا ہوں۔ چند منٹ لیٹ ہوجائیں ٹریفک میں تو میرے بچوں کو پسینہ آجاتا ہے۔ کہ پاپا دیر ہو رہی ہے۔ یہ عادت میں نے ہی ڈالی ہے۔ کہ تاخیر نہیں کرنی۔ اور میں ٹریفک کا حساب رکھ کر نکلتا ہوں۔ سو بچوں کو شاذ و نادر ہی اسکول سے تاخیر ہوتی ہے۔ پھر بچے دیکھتے ہیں کہ بڑوں نے جو وقت دیا ہے اس پر وہ نکلتے نہیں۔ یہ دوسری خامی ہے جس کی طرف اکثر بڑے یعنی والدین توجہ نہیں دیتے۔ ضروری ہے کہ بچوں کو جو وقت دیا جا ئے اس کے مطابق عمل کیا جائے یا پھر قبل از وقت انہیں اپنی کوتاہی کی وجہ بتائی جائے تاکہ وہ یہ سمجھیں کہ کل کلاں اگر ان کو تاخیر ہوتی ہے تو ان کو بھی شرمندہ ہونا ہے۔
میٹنگز میں اکثر پاکستانی دیر سے آتے ہیں۔ سامنے بیٹھے ہوتے ہیں، مگر کہتے ہیں ابھی وقت پڑا ہے۔۔۔ کیا کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یہ بہت ہی بری عادت ہے۔ چند دن قبل ایک گورے صاب کے ساتھ میٹنگ کر رہے تھے، تو اس نے کہا کہ تین منٹ انتظار کرتے ہیں سب آجائیں۔ تو میں نے کہہ دیا کہ یہ انتظار وقت پر آنے والوں کی توہین کرنا ہے۔ اس نے میری بات کو سنجیدگی سے لیا اور میٹنگ شروع کر دی۔
ایک اور عمومی مثال۔۔۔ ہمارے دفتر میں ایک گروپ بنا ہوا ہے جس پر لوگ نماز کا وقت بھیج دیتے ہیں۔ اس وقت جا کر دفتر میں جو جگہ نماز کے لیے مخصوص ہے وہاں ہم نماز پڑھ لیتے ہیں جماعت کے ساتھ۔ ایک دن میں گیا تو وہاں صرف میں اور وہ آدمی تھا جس نے جماعت کا وقت پیغام میں بھیجا تھا۔ میں نے اس کو کہا کہ جماعت کروا دیں۔ تو اس نے کہا چند اور لوگ آجائیں۔ ان کو بھی ثواب مل جائےگا۔ میں نے کہا آپ کے ثواب اور یاری ایک طرف۔ میری میٹنگ ہے۔ میں یہاں انتظار کرنے نہیں آیا۔ اگر آپ نے جماعت نہیں کروانی تھی تو وقت بھی نہیں دینا تھا۔ اس بات پر برہمی ہوئی۔ پر مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں نے خاصی کھری کھری سنا ڈالیں۔ بھائی اگر اپنے احباب کے ثواب کا اتنا ہی خیال ہے تو اپنی جماعت الگ کروا لیا کرو۔ کیا ضرورت ہے کسی ایک کو بھی خجل کرنے کی۔
اسی طرح شادی بیاہوں پر وقت کی پابندی نہ کرنے کی بہت بڑی وجہ ہر فریق کا یہ خیال کرنا ہے کہ ابھی وہاں کون آیا ہوگا۔ ابھی کیا ضرورت ہے جانے کی۔ یہ خیال، یہ سوچ، یہ عمل بدلنے کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہر شخص کو یہ سوچنا چاہیے کہ کوئی آئے نہ آئے میں وقت پر پہنچوں۔ اس سے معاشرے میں ایک واضح تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے۔
ابھی تک کے لیے اتنا ہی۔۔۔ کچھ دیر تک دوبارہ حاضری کی کوشش کروں گا۔