میت کے لواحقین سے تعزیت کرنا
تعزیت کا عام فہم معنی یہ ہے کہ میت کے لواحقین او راس کے اہل خانہ سے ایسے کلمات کہنا جن کو سن کر اُن کا صدمہ کچھ کم ہوجائے ۔تعزیت کرنا بھی زندہ لوگوں کے ذمے ایک فرض ہے، جس کی بہت فضیلت ہے۔نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”
جو کوئی اپنے موٴمن بھائی کی مصیبت پر تعزیت کرے گا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسے قیامت کے روز عزت کا تاج پہنائے گا۔“(ابن ماجہ)
ہمارے معاشرے میں تعزیت بھی صرف رسماً کی جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ تعزیت کومیت کا حق سمجھ کر کریں، تاکہ مذکورہ اجرکے حق دار بن سکیں
انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنا اور اس کی فضیلت
جب کسی کی وفات کا علم ہو تو اس پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنا چاہیے۔یہ ایک طرح سے اللہ کی رضا پر راضی ہونے کی علامت ہے اور دوسری طرف اس حقیقت کااعتراف ہے کہ اس شخص کی طرح ہم سب نے بھی اپنے خالق کے پاس چلے جانا ہے۔
اس حوالے سے ہمارے ہاں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون صرف کسی کی موت پر پڑھنا مسنون ہے‘حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی نقصان کی صورت میں اسے پڑھا مسنون عمل ہے
ام سلمہ سے روایت ہے کہ
ر سول کریم صلی اللہ علیہ و سلم (ہمارے گھر) تشریف لائے۔ اس وقت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں پتھرا چکی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں بند کرکے فرمایا:۔’’جب روح قبض کی جاتی ہے تو نظر اس کے تعاقب میں جاتی ہے۔‘‘گھر والے اس بات پر رونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:۔ ’’اپنے مرنے والوں کے حق میں اچھی بات کہو کیونکہ جو کچھ تم کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے حق میں )یہ دعا فرمائی ’’اے اللہ، ابوسلمہ کو بخش دیجیئے، اسے ہدایت یافتہ لو گوں میں بلندمرتبہ عنایت فرمائیے اور اس کے ورثاء کی حفاظت فرمائیے، اے ربّ العالمین، ہم سب کو اور مرنے والے کو معاف فرمادیجئے، میت کی قبر کشادہ اور اسے نورسے بھر دیجیئے۔‘‘(مسلم۔عن ام سلمہ رضی اللہ عنہا )
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا بیٹافوت ہو گیا۔ تیسرے دن انہوں نے زرد رنگ کی خوشبو منگواکر استعمال کی اور کہا :۔
’’ہمیں (مسلمان عورتوں کو) شوہر کے علاوہ کسی اور پر 3 دن سے زیادہ سوگ کا اظہار کرنے سے منع کیا گیاہے۔‘‘(بخاری)
’’جب جعفر رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر آئی توآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے اہل و عیال کے لئے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا اور فرمایاکہ ان لوگوں کو ایسی پریشانی آئی ہے جس میں وہ کھانا نہیں پکاسکیں گے۔‘‘(ابوداؤد۔ عن عبداللہ رضی اللہ عنہ )
روزِ اوّل سے یہ قدرت کا قانون ہے کہ جو اِس دنیا میں آیا ہے اُس نے ایک دن یہاں سے چلے جانا ہے۔اس حوالے سے اسلام کی حقانیت ملاحظہ ہو کہ اسلام میں اس دنیا میں آنے والوں، یعنی زندہ لوگوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ اس دنیا سے جانے والوں،
یعنی مردوں کے حقوق بھی متعین کیے گئے ہیں، جن کو ادا کرنا زندہ لوگوں کے ذمے ہے