ہمیں کیسے سیاسی راہنما کی ضرورت ہے؟

الف نظامی

لائبریرین
ساجد صاحب آپ عمل کی بات کر رہے ہیں مگر قانون پر عمل کرنے کے اوصاف ہر شخص میں نہیں ہوتے۔ دوسری بات یہ کہ قانون آپ کے لئے حدود بناتا ہے ۔ مستقبل کا لائحہ عمل نہیں
سیاسی رہنما (معاشرہ کا ایک فرد ) جو افرادِ معاشرہ پر اس طرح اثر انداز ہو کہ انہیں بھی اپنی طرح قانون کا پابند کر دے۔
 

ساجد

محفلین
ساجد صاحب آپ عمل کی بات کر رہے ہیں مگر قانون پر عمل کرنے کے اوصاف ہر شخص میں نہیں ہوتے۔ دوسری بات یہ کہ قانون آپ کے لئے حدود بناتا ہے ۔ مستقبل کا لائحہ عمل نہیں
بس جی ہمیں جتنی عقل تھی ہم نے اتنی بات کر دی ۔
مستقبل کے لائحہ عمل کی تیاری کے اجزائے ترکیبی میں بھی سب سے اہم قوانین ہی نظر آئیں گے اور ان پر عمل کئے بغیر ہم قومی مستقبل کی طرف ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہاں ایسے ہی منتشر گروہ ضرور بن سکتے ہیں جیسے کہ آج کل ہم ہیں۔
السلام علیکم
محفل میں ملکی سیاست پر بحث جاری ہے۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قوم کی مثال ایک ایسے گروہ کی مانند ہے جو اندھیری راہوں میں بھٹک رہا ہو اور نشانِ منزل گم کر چکا ہو ایسے میں جو شخص امید کا جگنو ہاتھ میں لئے نظر آتا ہے گروہ کے کچھ افراد اسے ہی اپنا نجات دہندہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔
ایک توقحط الرجال ہے اور دوسرے نا پُختہ سیاسی و سماجی شعور
تو کیا ہم یہ طے کر سکتے ہیں کہ ہمارے نجات دہندہ کو کن اوصاف کا حامل ہونا چاہیئے
اپنی رائے دیجئے
 

الف نظامی

لائبریرین
ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ
“میرا سماجی فہم کہتا ہے کہ سیاست سماجی ماحول کا پرتو ہوتی ہے۔ جو( لیڈر) سیاست کو مثالی صورت میں دیکھنا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ پہلے سماج کو تبدیل کرے۔“ خورشید ندیم
اور
سماجی رویے سیاسی جدوجہد سے نہیں سماجی جدوجہدسے تشکیل پاتے ہیں۔سماج اگر ہدف نہ ہوتو محض سیاسی جدوجہد سے معاشرہ تبدیل نہیں ہوتا۔رویے برسوں میں بنتے ہیں۔ خورشید ندیم
 

زرقا مفتی

محفلین
ج
بس جی ہمیں جتنی عقل تھی ہم نے اتنی بات کر دی ۔
مستقبل کے لائحہ عمل کی تیاری کے اجزائے ترکیبی میں بھی سب سے اہم قوانین ہی نظر آئیں گے اور ان پر عمل کئے بغیر ہم قومی مستقبل کی طرف ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہاں ایسے ہی منتشر گروہ ضرور بن سکتے ہیں جیسے کہ آج کل ہم ہیں۔
چلئے آپ نے ہماری کسی بات سے تو اتفاق کیا۔ آپ کا جواب کافی حقیقت پسندانہ لگا
 

arifkarim

معطل
ہمیں ایسے سیاسی رہنما کی ضرورت ہے ہو جو سیاست کے ساتھ ساتھ دین کو بھی لے کر چلے ۔۔۔ ۔! کیونکہ اگر سیاست سے دین کو نکال دیا جائے تو پھر بقولِ اقبال صرف چنگیزی ہی رہ جاتی ہے ۔۔۔ ! اس لئے سیاسی رہنما کے اوصاف وہی ہونے چاہئں ۔۔۔ جو خلافتِ راشدہ کے زمانے میں ہوتے تھے ۔۔۔ !
میں اس سے 100 فیصد متفق نہیں۔ ریاست میں دین کا کیا کام؟ مشرقی ممالک سے لیکر مغربی ممالک تک بغیر دین کو سیاست سے ملائے ایک عرصہ دراز سے ناکام مسلمان حکومتوں سے بہت بہتر حکمرانی کر رہے ہیں اور امن میں رہ رہے ہیں۔ تبھی تو ہم مسلمان دوڑ دوڑ کر ان ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔
کامیاب غیر مذہبی مشرقی ممالک:
ساؤتھ کوریا، جاپان، سنگاپور
کامیاب غیر مذہبی یورپی ممالک:
ناروے، اسویڈن، فن لینڈ
 
اس کے لیے ہمیں آٹھ آدمی تلاش کرنے پڑیں گے۔
1-صادق۔۔۔ ایک لیڈر بہترین integrity کا حامل ہوتا ہے اور اپنوں ، غیروں بلکہ اپنی ذات کے ساتھ بھی جھوٹ پر مبنی معاملہ نہیں کرتا
2-امین۔۔۔ اس میں اتنی امانتداری ہوتی ہے کہ لوگ دل و جان کے ساتھ اس پر اعتماد کرسکتے ہوں۔
3-قوی۔۔۔ ایک لیڈر کی طاقت اسکے Followers ہوتے ہیں۔ اور اسکا اپنا ذاتی عزم و حوصلہ ہوتا ہے۔
4-مکین۔۔۔ اثر و رسوخ کا حامل ہوتا ہے۔ اور اسکا حلقہِ اثر بتدریج وسیع ہوتا جاتا ہے۔
5-حفیظ۔۔۔ ذہنی طور پر بہت مضبوط ہوتا ہے اور جس معاملے میں ہاتھ ڈالتا ہے، اس کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہوتا ہے اور موضوع پر مناسب گرفت رکھتا ہے۔
6-علیم۔۔۔ اپنے کام کا ماہر ہوتا ہے۔
7-روشن ضمیر۔۔۔ اس میں ایک خاص بصیرت اور intuitive powerہوتی ہے۔ چنانچہ معاملہ فہمی اور حقیقی صورتحال کا اچھا ادراک رکھتا ہے۔
8-بلند اقدار سے وابستگی۔۔۔ ایک اچھا لیڈر اخلاقی، روحانی اور سماجی اعتبار سے بلند اقدار کا حامل ہوتا ہے ۔
9-متوازن شخصیت۔۔۔ آئیڈیلزم اور پریکٹیکل ازم کا ایک خوبصورت امتزاج اسکی ذات کے اند پایا جاتا ہے۔
 
اس کے لیے ہمیں آٹھ آدمی تلاش کرنے پڑیں گے۔
ضروری نہیں۔۔۔ایسا لیڈر کسی وقت بھی کہیں سے بھی نمودار ہوسکتا ہے۔۔۔آپ پہلے اچھا Followerبننے کی کوشش کریں۔ اور کسی کو فالو کرنے کیلئے جس قسم کی صفات چاہئیں، جب تک وہ قوم کے اندر نہ ہونگی، ایسا لیڈر بھی نہیں ملے گا۔فی الوقت ہماری قوم کی جو حالت ہے اور جو مزاج ہے، میں سمجھتا ہوں کہ بہت بڑی خوش قسمتی ہے کہ ہم لوگ کسی نبی کے زمانے میں پیدا نہیں ہوئے، ورنہ اکثریت ابوجہل کا ساتھ دیتی۔اسی لئے ایک حدیث میں ابھی اسی کی طرف اشارہ ہے۔۔۔
[ARABIC]حَياتِی خَيْرٌ لَكُمْ ومَمَاتِی خَيْرٌ لَكُمْ[/ARABIC]
۔۔۔میری حیات بھی تمہارے لئے خیر ہے، اور میری وفات بھی تمہارے لئے باعثِ خیر ہے۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
ضروری نہیں۔۔۔ ایسا لیڈر کسی وقت بھی کہیں سے بھی نمودار ہوسکتا ہے۔۔۔ آپ پہلے اچھا Followerبننے کی کوشش کریں۔ اور کسی کو فالو کرنے کیلئے جس قسم کی صفات چاہئیں، جب تک وہ قوم کے اندر نہ ہونگی، ایسا لیڈر بھی نہیں ملے گا۔فی الوقت ہماری قوم کی جو حالت ہے اور جو مزاج ہے، میں سمجھتا ہوں کہ بہت بڑی خوش قسمتی ہے کہ ہم لوگ کسی نبی کے زمانے میں پیدا نہیں ہوئے، ورنہ اکثریت ابوجہل کا ساتھ دیتی۔اسی لئے ایک حدیث میں ابھی اسی کی طرف اشارہ ہے۔۔۔
[ARABIC]حَياتِی خَيْرٌ لَكُمْ ومَمَاتِی خَيْرٌ لَكُمْ[/ARABIC]
۔۔۔ میری حیات بھی تمہارے لئے خیر ہے، اور میری وفات بھی تمہارے لئے باعثِ خیر ہے۔
سو فی صد متفق!
 

متلاشی

محفلین
میں اس سے 100 فیصد متفق نہیں۔

جناب اگر آپ ذرہ برابر بھی متفق نہ ہوتے تو بھی ہمیں کوئی فرق نہ پڑتا۔۔۔۔کیونکہ حقائق آپ کے متفق ہونے یا نہ ہونے سے مسخ نہیں ہو سکتے۔

ریاست میں دین کا کیا کام؟ مشرقی ممالک سے لیکر مغربی ممالک تک بغیر دین کو سیاست سے ملائے ایک عرصہ دراز سے ناکام مسلمان حکومتوں سے بہت بہتر حکمرانی کر رہے ہیں اور امن میں رہ رہے ہیں۔ تبھی تو ہم مسلمان دوڑ دوڑ کر ان ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔
کامیاب غیر مذہبی مشرقی ممالک:
ساؤتھ کوریا، جاپان، سنگاپور
کامیاب غیر مذہبی یورپی ممالک:
ناروے، اسویڈن، فن لینڈ

جناب آپ کے اس خیال باطل کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے مذہب کو صرف عبادات کا نام سمجھ رکھا ہے ۔۔۔۔ اگر آپ مذہب کو اک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر سمجھنے کی جسارت فرمائیں تو پھر آپ دیکھ سکیں گے واقعی مذہب کو سیاست سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ کیونکہ سیاست کے لئے منشور اور لائحہ عمل تو یہ مذہب ہی فراہم کرتا ہے ۔۔۔
اس لئے مندرجہ بالا ممالک جن کے آپ نے نام گنوائے ہیں ۔۔۔وہ سب سرکاری طور پر اپنے آپ کو کسی نہ کسی مذہب سے جوڑتے ہیں چاہے عملی طور پر وہ مذہب سے کنارہ کش ہو چکے ہوں۔۔۔!
 

زرقا مفتی

محفلین
ہماری قوم میں صبر اور برداشت کی کتنی کمی ہے ۔ یہ بحث تو صرف شعوری بیداری کے لئے ہے جس میں جذبات کو الگ رکھنا ہی بہتر ہوتا۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قوم میں اختلافِ رائے برداشت کرنے کا مادہ نہیں ہے
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
پاکستان میں فی الحال تو اصلاحی تحریکوں کی زیادہ ضرورت ہے ۔۔۔ معاشرہ جس ڈگر پر چل نکلا ہے، اس کو دیکھا جائے تو شاید کوئی بھی رہنما سیاست میں جا کر فی الوقت بڑی تبدیلی لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔۔۔ دس پندرہ سال تو لگیں گے ۔۔۔ کم از کم ۔۔۔ کسی ایسے "سیاسی رہنما" کے ابھرنے میں ۔۔۔ معاشرے کے عمومی مزاج میں تبدیلی نظر نہیں آ رہی ہے ۔۔۔ ابھی بہت وقت پڑا ہے ۔۔۔ غزنوی صاحب کی بات پر دھیان دیا جائے ۔۔۔ مجھے مناسب الفاظ نہیں مل رہے ۔۔۔ ان کی تعریف کرنے کے لیے ۔۔۔ بڑے پتے کی بات کی ہے انہوں نے ۔۔۔ یہاں کسی "مثالی رہنما" کو بھی "قیادت" دے دی جائے تو فی الحقیقت وہ کوئی بہت بڑی تبدیلی نہ لا سکےگا ۔۔۔ ہمارے دل ہی نہیں بدلے ابھی تک ۔۔۔ تبدیلی کی ایک دبی دبی سی خواہش ضرور موجود ہے اور ہم "بڑی تبدیلی" کی طرف بھی جائیں گے ۔۔۔ ان شاء اللہ ضرور جائیں گے ۔۔۔ لیکن وقت لگے گا ۔۔۔ ابھی مزید وقت لگے گا ۔۔۔
 

زرقا مفتی

محفلین
پاکستان میں فی الحال تو اصلاحی تحریکوں کی زیادہ ضرورت ہے ۔۔۔ معاشرہ جس ڈگر پر چل نکلا ہے، اس کو دیکھا جائے تو شاید کوئی بھی رہنما سیاست میں جا کر فی الوقت بڑی تبدیلی لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔۔۔ دس پندرہ سال تو لگیں گے ۔۔۔ کم از کم ۔۔۔ کسی ایسے "سیاسی رہنما" کے ابھرنے میں ۔۔۔ معاشرے کے عمومی مزاج میں تبدیلی نظر نہیں آ رہی ہے ۔۔۔ ابھی بہت وقت پڑا ہے ۔۔۔ غزنوی صاحب کی بات پر دھیان دیا جائے ۔۔۔ مجھے مناسب الفاظ نہیں مل رہے ۔۔۔ ان کی تعریف کرنے کے لیے ۔۔۔ بڑے پتے کی بات کی ہے انہوں نے ۔۔۔ یہاں کسی "مثالی رہنما" کو بھی "قیادت" دے دی جائے تو فی الحقیقت وہ کوئی بہت بڑی تبدیلی نہ لا سکےگا ۔۔۔ ہمارے دل ہی نہیں بدلے ابھی تک ۔۔۔ تبدیلی کی ایک دبی دبی سی خواہش ضرور موجود ہے اور ہم "بڑی تبدیلی" کی طرف بھی جائیں گے ۔۔۔ ان شاء اللہ ضرور جائیں گے ۔۔۔ لیکن وقت لگے گا ۔۔۔ ابھی مزید وقت لگے گا ۔۔۔
یہ بحث شروع کرنے کا ایک مقصد یہ تھا کہ سیاست کے صنم خانے کے کچھ بُت توڑ دیئے جائیں ۔ ایک کسوٹی بنا کر ووٹ دینے سے پہلے اُمیدوار کو پرکھا جائے ۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ وفاداری پی پی پی سے ہے تو اُن کے کھمبے کو بھی ووٹ دے دیں گے۔ اور شریفین سے محبت ہے تو پانچویں پاس کو بھی پانچ سال کے لئے مسلط کر لیں گے۔
مجھے معلوم ہے کہ اب جواب یہ آئے گا کہ یہاں کوئی بھی اُمیدوار کسی کسوٹی پر پورا نہیں اُترے گا ۔ مگر بہت سے بُرے لوگوں میں سے نسبتا کم برے اُمیدوار کا انتخاب بھی تبدیلی کی جانب ایک قدم ہو گا
مزید یہ کہ اپنے معاشرے کا مزاج ایسا ہے کہ اعلیٰ طبقے کی یا ارباب اقتدار کی تقلید کرتا ہے
سو اگر سب سے اوپر ایماندار ہو گا تو ایمانداری بتدریج بڑھے گی ۔
عدلیہ کی مثال دیکھیئے
یا ایک معمولی مثال ملاحظہ کیجیے
بھٹو صاحب نے عوامی سوٹ متعارف کروایا تو لوگ شلوار قمیض پہننے لگے
ضیا الحق نے واسکٹ کا رواج ڈالا تو بڑے لوگ بھی واسکٹیں اور شلوار قمیض پہننے لگے
مشرف نے کوٹ پینٹ کو پسند کیا تو واسکٹیں دفتروں کے ساتھ ساتھ شادیوں کی تقریبات سے بھی غائب ہو گئیں
 
ہماری قوم میں صبر اور برداشت کی کتنی کمی ہے ۔ یہ بحث تو صرف شعوری بیداری کے لئے ہے جس میں جذبات کو الگ رکھنا ہی بہتر ہوتا۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قوم میں اختلافِ رائے برداشت کرنے کا مادہ نہیں ہے
اگر یہاں ہماری قوم کی جگہ ہم لفظ استعمال ہو تو میرا خیال ہے زیادہ اچھا لگے گا۔
 
یہ بحث شروع کرنے کا ایک مقصد یہ تھا کہ سیاست کے صنم خانے کے کچھ بُت توڑ دیئے جائیں ۔ ایک کسوٹی بنا کر ووٹ دینے سے پہلے اُمیدوار کو پرکھا جائے ۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ وفاداری پی پی پی سے ہے تو اُن کے کھمبے کو بھی ووٹ دے دیں گے۔ اور شریفین سے محبت ہے تو پانچویں پاس کو بھی پانچ سال کے لئے مسلط کر لیں گے۔
مجھے معلوم ہے کہ اب جواب یہ آئے گا کہ یہاں کوئی بھی اُمیدوار کسی کسوٹی پر پورا نہیں اُترے گا ۔ مگر بہت سے بُرے لوگوں میں سے نسبتا کم برے اُمیدوار کا انتخاب بھی تبدیلی کی جانب ایک قدم ہو گا
مزید یہ کہ اپنے معاشرے کا مزاج ایسا ہے کہ اعلیٰ طبقے کی یا ارباب اقتدار کی تقلید کرتا ہے
سو اگر سب سے اوپر ایماندار ہو گا تو ایمانداری بتدریج بڑھے گی ۔
عدلیہ کی مثال دیکھیئے
یا ایک معمولی مثال ملاحظہ کیجیے
بھٹو صاحب نے عوامی سوٹ متعارف کروایا تو لوگ شلوار قمیض پہننے لگے
ضیا الحق نے واسکٹ کا رواج ڈالا تو بڑے لوگ بھی واسکٹیں اور شلوار قمیض پہننے لگے
مشرف نے کوٹ پینٹ کو پسند کیا تو واسکٹیں دفتروں کے ساتھ ساتھ شادیوں کی تقریبات سے بھی غائب ہو گئیں
تھوڑا سا اختلاف ہے ۔ وہ یہ کہ تبدیلی ہمیشہ نیچے سے شروع ہوتی ہے۔ یہ کوئی تبدیلی نہیں۔ ہم لوگ چاہے شلوار قمیض پہنیں، ٹائی لگائیں یا واسکٹ پہنیں۔ اندر تو ہمارا وہی ہے نا۔ ہمیں اپنے اندر کو بدلنا ہوگا۔
 
ضروری نہیں۔۔۔ ایسا لیڈر کسی وقت بھی کہیں سے بھی نمودار ہوسکتا ہے۔۔۔ آپ پہلے اچھا Followerبننے کی کوشش کریں۔ اور کسی کو فالو کرنے کیلئے جس قسم کی صفات چاہئیں، جب تک وہ قوم کے اندر نہ ہونگی، ایسا لیڈر بھی نہیں ملے گا۔فی الوقت ہماری قوم کی جو حالت ہے اور جو مزاج ہے، میں سمجھتا ہوں کہ بہت بڑی خوش قسمتی ہے کہ ہم لوگ کسی نبی کے زمانے میں پیدا نہیں ہوئے، ورنہ اکثریت ابوجہل کا ساتھ دیتی۔اسی لئے ایک حدیث میں ابھی اسی کی طرف اشارہ ہے۔۔۔
[ARABIC]حَياتِی خَيْرٌ لَكُمْ ومَمَاتِی خَيْرٌ لَكُمْ[/ARABIC]
۔۔۔ میری حیات بھی تمہارے لئے خیر ہے، اور میری وفات بھی تمہارے لئے باعثِ خیر ہے۔
اچھا محمود بھائی آپ کونسے ملک سے ہیں؟
 
Top