پاکستان میں فی الحال تو اصلاحی تحریکوں کی زیادہ ضرورت ہے ۔۔۔ معاشرہ جس ڈگر پر چل نکلا ہے، اس کو دیکھا جائے تو شاید کوئی بھی رہنما سیاست میں جا کر فی الوقت بڑی تبدیلی لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔۔۔ دس پندرہ سال تو لگیں گے ۔۔۔ کم از کم ۔۔۔ کسی ایسے "سیاسی رہنما" کے ابھرنے میں ۔۔۔ معاشرے کے عمومی مزاج میں تبدیلی نظر نہیں آ رہی ہے ۔۔۔ ابھی بہت وقت پڑا ہے ۔۔۔ غزنوی صاحب کی بات پر دھیان دیا جائے ۔۔۔ مجھے مناسب الفاظ نہیں مل رہے ۔۔۔ ان کی تعریف کرنے کے لیے ۔۔۔ بڑے پتے کی بات کی ہے انہوں نے ۔۔۔ یہاں کسی "مثالی رہنما" کو بھی "قیادت" دے دی جائے تو فی الحقیقت وہ کوئی بہت بڑی تبدیلی نہ لا سکےگا ۔۔۔ ہمارے دل ہی نہیں بدلے ابھی تک ۔۔۔ تبدیلی کی ایک دبی دبی سی خواہش ضرور موجود ہے اور ہم "بڑی تبدیلی" کی طرف بھی جائیں گے ۔۔۔ ان شاء اللہ ضرور جائیں گے ۔۔۔ لیکن وقت لگے گا ۔۔۔ ابھی مزید وقت لگے گا ۔۔۔
یہ بحث شروع کرنے کا ایک مقصد یہ تھا کہ سیاست کے صنم خانے کے کچھ بُت توڑ دیئے جائیں ۔ ایک کسوٹی بنا کر ووٹ دینے سے پہلے اُمیدوار کو پرکھا جائے ۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ وفاداری پی پی پی سے ہے تو اُن کے کھمبے کو بھی ووٹ دے دیں گے۔ اور شریفین سے محبت ہے تو پانچویں پاس کو بھی پانچ سال کے لئے مسلط کر لیں گے۔
مجھے معلوم ہے کہ اب جواب یہ آئے گا کہ یہاں کوئی بھی اُمیدوار کسی کسوٹی پر پورا نہیں اُترے گا ۔ مگر بہت سے بُرے لوگوں میں سے نسبتا کم برے اُمیدوار کا انتخاب بھی تبدیلی کی جانب ایک قدم ہو گا
مزید یہ کہ اپنے معاشرے کا مزاج ایسا ہے کہ اعلیٰ طبقے کی یا ارباب اقتدار کی تقلید کرتا ہے
سو اگر سب سے اوپر ایماندار ہو گا تو ایمانداری بتدریج بڑھے گی ۔
عدلیہ کی مثال دیکھیئے
یا ایک معمولی مثال ملاحظہ کیجیے
بھٹو صاحب نے عوامی سوٹ متعارف کروایا تو لوگ شلوار قمیض پہننے لگے
ضیا الحق نے واسکٹ کا رواج ڈالا تو بڑے لوگ بھی واسکٹیں اور شلوار قمیض پہننے لگے
مشرف نے کوٹ پینٹ کو پسند کیا تو واسکٹیں دفتروں کے ساتھ ساتھ شادیوں کی تقریبات سے بھی غائب ہو گئیں