نوید ناظم
محفلین
طرحی غزل۔
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسا لیا ہے اسے ہم نے آشیاں کی طرح
ہمیں یہ دشت بھی لگتا ہے اب مکاں کی طرح
وہی تپش ہے، جلا کے بھی راکھ کرتی ہے
یہ آگ لگتی ہے مجھ کو مِری فغاں کی طرح
وہ محض رسم سمجھتا رہا محبت کو
وفا تو اُس نے بھی کی تھی مگر جہاں کی طرح
وہ مجھ سے جب بھی ملا تو اک اجنبی بن کر
بہار آتی رہی ہے مگر خزاں کی طرح
ہو سکتا ہے کہ یہی شخص میرا قاتل ہو
بس اک یہی ہے جو ملتا تھا مہرباں کی طرح
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسا لیا ہے اسے ہم نے آشیاں کی طرح
ہمیں یہ دشت بھی لگتا ہے اب مکاں کی طرح
وہی تپش ہے، جلا کے بھی راکھ کرتی ہے
یہ آگ لگتی ہے مجھ کو مِری فغاں کی طرح
وہ محض رسم سمجھتا رہا محبت کو
وفا تو اُس نے بھی کی تھی مگر جہاں کی طرح
وہ مجھ سے جب بھی ملا تو اک اجنبی بن کر
بہار آتی رہی ہے مگر خزاں کی طرح
ہو سکتا ہے کہ یہی شخص میرا قاتل ہو
بس اک یہی ہے جو ملتا تھا مہرباں کی طرح