ہم ، پنجابی نہیں ہیں، ہم سرائیکی ہیں

ہم سرائیکی لوگ ہر بار بڑی غلطی کر جاتے ہیں جب ہم معاشی اور انتظامی مفاد کو نئے صوبے کی وجہ بتاتے ہیں۔ سرائیکی ایک الگ قوم ہے، جیسےجرمن یا سندھی یا فارسی یا ازٹک ہیں۔ بات یہ ناگوار گزرے مگر سہی بات یہ ہے کہ مسلمان یا پاکستانی ایک قوم نہیں صرف ایک مصنوعی لیبل ہے ۔

اگر آپ سرائیکی نہیں ہیں، آپ نہیں سمجھ سکتے ہمارا دکھ جو ہمیں ہوتا ہے جب کبھی پاکستانی اقوام جیسے پنجابی، بلوچی، سندھی، پٹھان گنوائی جاتی ہیں اور ہر بار اس 2 سے 4 کروڑ لوگوں کی عوام کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ (آخر کیوں؟ کیوں کہ ہمارا صوبہ نہیں ہے؟) آپ وہ دکھ نہیں سمجھ سکتے جب لوگ ہمیں پنجابی کہتے، جب کہ ہم بالکل ہی مختلف قوم ہیں۔ اور اگر پنجابیوں سے کسی طرح کا تعلق بھی ہے، یہ وہی تعلق ہے جو کشمیریوں کا ہندوستان سے ہے۔

(ایک اور لڑی سے میری پوسٹ کاپی پیسٹ کی گئی۔)
 
معظم بھائی آپ کا مطالبہ صوبے ہے مگر آپ نے جو دلائل پیش کیے ہیں ان سے تو آپ کی مانگ الگ ملک ظاہر ہو رہی ہے ۔
میں آپ سے متفق ہوں کہ کچھ صوبوں کا قائم ہونا چاہیے مگر جوصوبے بنے ان کی بنیادلسانی نہ ہو ،صوبوں کا قیام کا مقصدصرف پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہو۔اگر قوم پرستی اورزبان کی بنیاد پر نئے صوبوں بنائے گئے تو ملک فرقہ واریت کے ساتھ ساتھ صوبہ واریت کا بھی شکار ہو سکتا ہے ۔
 
اگر ہم 2017 کی مردم شماری کے نتائج کا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب کے وہ 21 یا 22 اضلاع جنھیں جنوبی پنجاب کہا جاتا ہے کی کل آبادی صوبہ پنجاب کی آبادی کا لگ بھگ 35 فیصد ہے۔
اب آتے ہیں پنجاب میں بولی جانے والی زبانوں کے اعداد وشمار پر۔
Pcj25t.jpg
ان اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کی 17 فیصد آبادی کی مادری زبان سرائیکی ہے۔ (ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ 17 فیصد آبادی پوری کی پوری جنوبی پنجاب میں ہی آباد ہے) اس کا مطلب یہ ہوا کہ سرائیکی علاقہ کہلائے جانے والے اضلاع میں بھی لگ بھگ پچاس فیصد آبادی کی مادری زبان سرائیکی نہیں ہے۔ تو یہاں ہم سرائیکی زبان کو بنیاد بنا کر الگ صوبے کا مقدمہ ہار جاتے ہیں۔

رہی بات نئے صوبے کی تو اس کی بنیادیں انتظامی ہونی چاہیے ناکہ زبان، نسل وغیرہ۔
 

سید عمران

محفلین
اصل تو ہم سب کی ایک ہے یعنی حضرت آدم ہمارے باپ ہیں۔۔۔
یہ سب سے بڑی حقیقت ہے۔۔۔
باقی لسانیت و علاقائیت پر ظلم و ستم کرنا،انسانیت کی تقسیم در تقسیم کرنا، شیطانی کھیل کھلواڑ ہیں۔۔۔
اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظلمت کی جڑ ہی کاٹ دی، یہ کہہ کر۔۔۔
جس نے تعصب کو پکارا، تعصب کی دہائی دی وہ ہم میں سے نہیں، جو اس بات پر لڑا مرا وہ ہم میں سے نہیں اور جو یہ عصبیت دل میں لیے مر گیا اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں!!!
لَيْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا إِلَى عَصَبِيَّةٍ ، وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ ، وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ۔۔۔
(رواه ابو داؤد، باب فی العصبیة، رقم:۵۱۲۱)
 
سرائیکی بیلٹ میں اردو سپیلنگ اور پنجابی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
اور اب لاہور، پنڈی اور اسلام آباد میں بھی بہت سے سرائیکی رہتے ہیں۔
 
پنجابی اور سرائیکی کی حد تک زبان میں تبدیلی یکلخت تو نہیں آتی بتدریج تبدیلی آتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو خالص سرائیکی اور خالص پنجابی کے درمیان کوئی حد بندی کیسے کی جائے گی؟ اور ان دونوں معیاری لہجوں کے درمیان والے لہجوں کا کیا ہو گا؟
 
اصل تو ہم سب کی ایک ہے یعنی حضرت آدم ہمارے باپ ہیں۔۔۔
یہ سب سے بڑی حقیقت ہے۔۔۔
باقی لسانیت و علاقائیت پر ظلم و ستم کرنا،انسانیت کی تقسیم در تقسیم کرنا، شیطانی کھیل کھلواڑ ہیں۔۔۔
اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظلمت کی جڑ ہی کاٹ دی، یہ کہہ کر۔۔۔
جس نے تعصب کو پکارا، تعصب کی دہائی دی وہ ہم میں سے نہیں، جو اس بات پر لڑا مرا وہ ہم میں سے نہیں اور جو یہ عصبیت دل میں لیے مر گیا اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں!!!
لَيْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا إِلَى عَصَبِيَّةٍ ، وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ ، وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ۔۔۔
(رواه ابو داؤد، باب فی العصبیة، رقم:۵۱۲۱)
زبان یا نسل کی بنیاد پر کسی سے برا سلوک کرنا تعصب ہے۔

محض اپنے آپ کو الگ قوم تسلیم کرنے یا اپنی قوم پر فخر محسوس کرنے میں کیا برائی ہے؟

ایک زبان اور کلچر کی حفاظت کی طرف پہلا قدم تو اس کو تسلیم کرنا ہے، جس کی اشدضرورت ہے۔
 

آصف اثر

معطل
مسئلہ دراصل نئے صوبوں یا اِن کا مطالبہ کرنے والوں کا نہیں بلکہ اِن قوموں کو مساوی حقوق اور برابری نہ دینے کا ہے۔ پنجاب، خیبرپختون خوا، سندھ اور بلوچستان کے انگریز دور کی بیوروکریسی اور ذہنیت جب تک رہے گی یہ ظلم ہوتا رہے گا۔ کیوں کہ اِن لوگوں کو صرف اپنے مفادات، مطالب اور آقاؤں کی فِکر دامن گیر ہوتی ہے۔
میں اس بات پر سب سے زیادہ حیران ہوں کہ فاٹا کے قبائل کو بھی خیبرپختون میں ضم کرکے اِن ذہنی غلاموں اور احساسِ کمتری کے شکار بیوروکریٹس کا طوق ڈالا جارہا ہے۔ بجائے اس کے کہ اِن کو آزاد صوبہ دے کر نئی مقامی بیوروکریسی تشکیل دی جائے۔ یاللعجب!
 

A jabbar

محفلین
پنجابی اور سرائیکی کی حد تک زبان میں تبدیلی یکلخت تو نہیں آتی بتدریج تبدیلی آتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو خالص سرائیکی اور خالص پنجابی کے درمیان کوئی حد بندی کیسے کی جائے گی؟ اور ان دونوں معیاری لہجوں کے درمیان والے لہجوں کا کیا ہو گا؟
درست فرمایا آپ نے۔حقیقت ہے کہ ہر دس بیس میل کے بعد زبان کا لہجہ تبدیل ہو جاتا ہے اوراگر فاصلہ سو میل ہو جائے توبہت فرق آ جاتا ہے۔گجرات دریا کے ایک کنارے پر ہے اور دوسرے کنارے پر وزیر آباد ہے۔دونوں حصوں کے باسیوں کی زبان بتا دیتی ہے کہ وہ کس طرف کے ہیں۔اسی طرح سیالکوٹ، کوجرانوالہ، لاہور کی بولی جانے والی زبان پنجابی ہونے کے باوجود قطعی مختلف ہے۔ اسی طرح جوں جوں ہم نیچے کی طرف چلتے جائیں فرق پڑتا جاتا ہے۔ اوکاڑہ ،ساہیوال دوسری طرف سے چنیوٹ،پھرجھنگ ہم پنجابی کی ایک اور ہی شکل دیکھتے ہیں جسے عام طور پر جانگلی بھی کہا جاتا ہے مگر یہ کافی حد تک سرائیکی کے قریب ہونے لگتی ہے۔اور پھر بڑھتے بڑھتے سرائیکی رنگ غالب ہوتا جاتا ہے۔ خانیوال،ملتان سے آگے مقامی لوگ ٹھیٹھ سرائیکی بولتے ہیں اور یہ سب کچھ بتدیج تبدیل ہوتا ہے۔سندھ کی سرحد کے قریب پہنچ کر بتدریج تبدیلی کا عمل ہمیں یوں دکھائی دیتا ہے کہ سرائیکی میں سندھی رنگ نمایاں ہونے لگتا ہے اور پھر سندھ میں سندھی زبان غلبہ پا لیتی ہے۔
نئے صوبے وقت کی ضرورت ہیں اور انتظامی بنیادوں پر بننے چاہیئں مگر لسانیت کو بنیاد بنانا،قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنا ہے۔اس وقت قوم کو خانوں میں بانٹنے کی نہیں ایک کرنے کی ضرورت ہے۔ سرائیکی زبان کی ترویج و ترقی بہت اچھی بات ہے اس کے لئے جدوجہد اور کوشش ضرور کرنا چاہیئے مگر دوسری زبان سے نفرت پھیلا کر نہیں۔اپنے علاقے کی ترقی کے لئے سعی ضرور کرنا چاہیئے مگر کسی اور علاقے کے خلاف پراپیگنڈہ کرکے نہیں۔ہمیں ایک دوسرے کے بھائی، دوست رہتے ہوئے اپنے لئے سہانے مستقبل کی راہیں تلاش کرنا ہیں ایک دوسرے کے راستے میں کانٹے بچھا کر نہیں۔پاکستان ہم سب کا ہے۔ ہمیں اسے متحد ہو کر دنیا کی با وقار قوموں میں جگہ دلوانا ہے،باہمی دست و گریباں ہو کر تماشا نہیں بننا۔
 
نئے صوبے وقت کی ضرورت ہیں اور انتظامی بنیادوں پر بننے چاہیئں مگر لسانیت کو بنیاد بنانا،قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنا ہے۔اس وقت قوم کو خانوں میں بانٹنے کی نہیں ایک کرنے کی ضرورت ہے۔ سرائیکی زبان کی ترویج و ترقی بہت اچھی بات ہے اس کے لئے جدوجہد اور کوشش ضرور کرنا چاہیئے مگر دوسری زبان سے نفرت پھیلا کر نہیں۔
الگ شناخت مانگنا کہاں کی نفرت کی بات ہے؟ اور زبان کی حفاظت اور ترقی کےلیے اس سے بڑھ کر کیا طریقہ ہو سکتا ہے کہ الگ صوبہ زبان کی بنیاد پر بنایا جائے؟
آپ پنجابی لوگ افسوس کی بات ہے اس حد تک برین واش ہو چکے ہیں کہ اس لسانی بنیاد پر صوبہ بنانا ایک ٹیبو (taboo) سمجھنے لگے ہیں حالانکہ اس میں کیا متنازعہ بات ہے؟ مجھے تو سمجھ نہیں آتی۔
 
آخری تدوین:
قبلہ زبان کی بنیاد پہ صوبہ صرف پنجاب میں بنوانا چاہتے ہیں لوگ، لیکن وہی لوگ ہزارہ، مہاجر صوبہ کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔ باقی ہر شناخت کے پیچھے وسائل پہ تصرف حاصل کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔
 
Top