محترم بٹیا میں تو اک تبصرہ اور کر آیا ۔ہم کیوں نہیں کر سکتے؟؟
لائبریری سیکشن ہے، اس وجہ سے پڑھ سکتی ہیں، تبصرہ ممکن نہیں
نہیں نا ارسال ہو رہا نایاب بھائی!! وہاں اخیر میں لکھا ہے کہ "آپ کو یہاں تبصرہ کرنے کا اختیار نہیں"محترم بٹیا میں تو اک تبصرہ اور کر آیا ۔
آپ دوبارہ کوشش کریں ۔
بہت دعائیں
اوہ اچھا!! شکریہلائبریری سیکشن ہے، اس وجہ سے پڑھ سکتی ہیں، تبصرہ ممکن نہیں
اوہلائبریری سیکشن ہے، اس وجہ سے پڑھ سکتی ہیں، تبصرہ ممکن نہیں
اوہ
پھر تو میں غلطی کر آیا تبصرہ کر کے ۔
میں نے تو عام شئیرنگ سمجھ تبصرہ کیا ۔
اب رپورٹ کر حذف کرواتا ہوں ۔۔
بہت دعائیں
اس ملازم کو چند دن قبل دو سو روپےملے تھے۔ اب عید کے بہانے مزید مانگنے کی کوشش پر کہا کہ کچھ ہندو بنو یعنی بچت سے کام لونایاب بھائی!! آپ نے پوچھا ہے کہ قائداعظم کی شخصیت کے چھپے گوشے ہندو بننے سے کیا مراد ہے۔
تو یہ انہوں نے مزاح کا عنصر پیدا کرنے کے لیے کہا تھا۔ انہوں نے اپنے ایک ملازم کو مسلمان کیا تو چند روز بعد عید آ گئی۔ ملازم نے عید اور عیدی کا ذکر چھیڑا تو قائداعظم نے ازراہ تفنن کہا کہ اتنی جلدی مسلمان بن گئے۔ ابھی تھوڑا ہندو ہی رہیں..
ہائیں!! ہمیں معلوم نہ تھا کہ ہندو لوگ بچت سے کام لیتے ہیں۔ ہم نے تو اپنی سمجھ کے مطابق بیان کیا تھا۔اس ملازم کو چند دن قبل دو سو روپےملے تھے۔ اب عید کے بہانے مزید مانگنے کی کوشش پر کہا کہ کچھ ہندو بنو یعنی بچت سے کام لو
اس بات پر بحث ہو سکتی ہے کیونکہ اس بیان میں تمام ہندو قوم کو ایک لیبل لگا دیا گیا تھاہائیں!! ہمیں معلوم نہ تھا کہ ہندو لوگ بچت سے کام لیتے ہیں۔ ہم نے تو اپنی سمجھ کے مطابق بیان کیا تھا۔
ہندو یا مسلمان کوئی قوم نہیں ہے۔ مذاہب یا ادیان کا نام ہے۔اس بات پر بحث ہو سکتی ہے کیونکہ اس بیان میں تمام ہندو قوم کو ایک لیبل لگا دیا گیا تھا
کیسا لیبل؟؟ بچت کرنے کا؟؟اس بات پر بحث ہو سکتی ہے کیونکہ اس بیان میں تمام ہندو قوم کو ایک لیبل لگا دیا گیا تھا
جی ہاں، یہ روایت ہے اردو ادب کی بھی ویسے بھی مشہور ہے کہ مسلمان فضول خرچ اور ہندو جمع کرتے ہیں پھر دل کے پھھولے پھوڑنے کے لیے مسلمان انہیں کنجوس بھی کہہ دیتے ہیں۔ یوسفی نے کہیں اس طرح کا لکھا تھا کہ مسلمان چا ر روپیوں کو کہتے ہیں ایک کم پانچ اور ہندو کہتے ہیں تین سے ایک اوپرکیسا لیبل؟؟ بچت کرنے کا؟؟
اچھا تو یہ بات ہے۔ اردو ادب والوں نے فضول روایت بیان کی ہے۔ ہم تو اس میں بھی optimistic پہلو نکال لیں گے۔ ایک تو یہ کہ مال جمع کرنے کی ممانعت کی ہے اللہ تعالیٰ نے اور دوسرے کونسا جمع کر کے کچھ ساتھ لے جانا ہے سو جمع کرنے کا فائدہ.. اس لیے مسلمان جمع نہیں کرتے۔جی ہاں، یہ روایت اردو ادب کی بھی ویسے بھی مشہور ہے کہ مسلمان فضول خرچ اور ہندو جمع کرتے ہیں پھر دل کے پھھولے پھوڑنے کے لیے مسلمان انہیں کنجوس بھی کہہ دیتے ہیں۔ یوسفی نے کہیں اس طرح کا لکھا تھا کہ مسلمان چا ر روپیوں کو کہتے ہیں ایک کم پانچ اور ہندو کہتے ہیں تین سے ایک اوپر
اسلام کی حد تک تو کہہ سکتے ہیں کہ اسلام ایک قوم بنا دیتا ہے، مگر ہندو مت میں ایسا کہنا ممکن نہیںہندو یا مسلمان کوئی قوم نہیں ہے۔ مذاہب یا ادیان کا نام ہے۔
جی، جلدی جلدی خریداری کر لیں اب عید کی، سیل ختم نہ ہو جائےکیسا لیبل؟؟ بچت کرنے کا؟؟
یہ صرف اردو ادب ہی کی بات نہیں تھی بلکہ عام طور پر ایک myth مشہور تھا تقسیم سے پہلے کہ مسلمان حساب کتاب یعنی ریاضی میں کمزور اور ہندو اس میں بہت آگے ہیں۔ خواجہ دل محمد ہندوستان کے شاید پہلے مسلمان تھے جنہوں نے ریاضی میں ماسٹرز کیا تھا اور اس وجہ سے ان کا شاید جلوس بھی نکالا گیا تھا۔ خواجہ دل محمد شاعر بھی تھے۔ مولانا عبدالمجید سالک نے، جو مولانا غلام رسول مہر کے ساتھ مل کر اخبار "انقلاب" نکالتے تھے اور اس سے پہلے مولانا ظفر علی خان کے ساتھ "زمیندار" میں کام کر چکے تھے، پچاس کی دہائی میں شائع ہونے والی خوبصورت سوانح عمری "سرگذشت" میں انجمن حمایت اسلام کے چندہ جمع کرنے کے اجلاس میں ڈپٹی نذیر احمد اور خواجہ دل محمد کا ایک واقعہ لکھا ہے۔ اس واقعہ میں ابتدائی جملہ خواجہ دل محمد اور مسلمانوں کی ریاضی کے متعلق ہے، یعنی یہ بات ہر جگہ پھیلی ہوئی تھی۔اچھا تو یہ بات ہے۔ اردو ادب والوں نے فضول روایت بیان کی ہے۔ ہم تو اس میں بھی optimistic پہلو نکال لیں گے۔ ایک تو یہ کہ مال جمع کرنے کی ممانعت کی ہے اللہ تعالیٰ نے اور دوسرے کونسا جمع کر کے کسی کو ساتھ لے جانا ہے سو جمع کرنے کا فائدہ.. اس لیے مسلمان جمع نہیں کرتے۔
ہاہاہا..... سیل سے اچھی چیز مل جائے تو کیا بات ہے۔ ورنہ ہم بھی خاصے فضول خرچ ہیں اور ہمیں اس پر فخر ہے۔جی، جلدی جلدی خریداری کر لیں اب عید کی، سیل ختم نہ ہو جائے
یہ صرف اردو ادب ہی کی بات نہیں تھی بلکہ عام طور پر ایک myth مشہور تھا تقسیم سے پہلے کہ مسلمان حساب کتاب یعنی ریاضی میں کمزور اور ہندو اس میں بہت آگے ہیں۔ خواجہ دل محمد ہندوستان کے شاید پہلے مسلمان تھے جنہوں نے ریاضی میں ماسٹرز کیا تھا اور اس وجہ سے ان کا شاید جلوس بھی نکالا گیا تھا۔ خواجہ دل محمد شاعر بھی تھے۔ مولانا عبدالمجید سالک نے، جو مولانا غلام رسول مہر کے ساتھ مل کر اخبار "انقلاب" نکالتے تھے اور اس سے پہلے مولانا ظفر علی خان کے ساتھ "زمیندار" میں کام کر چکے تھے، پچاس کی دہائی میں شائع ہونے خوبصورت سوانح عمری "سرگذشت" میں انجمن حمایت اسلام کے چندہ جمع کرنے کے اجلاس میں ڈپٹی نذیر احمد اور خواجہ دل محمد کا ایک واقعہ لکھا ہے۔ اس واقعہ میں ابتدائی جملہ خواجہ دل محمد اور مسلمانوں کی ریاضی کے متعلق ہے، یعنی یہ بات ہر جگہ پھیلی ہوئی تھی۔
کسی زمانے میں اپنے بلاگ پر یہ واقعہ پوسٹ کیا تھا۔ وہ یاد آگیا۔
"اس اجلاس میں ایک بہت دلچسپ واقعہ ہوا، جو مجھے اب تک یاد ہے۔ خواجہ دل محمد صاحب ان دنوں کوئی انیس بیس سال کے نوجوان تھے اور اسی سال انہوں نے ریاضی میں ایم - اے کر کے برادرانِ وطن کے اس طعنے کا مؤثر جواب مہیا کیا تھا کہ مسلمانوں کو حساب نہیں آتا۔ خواجہ صاحب کی ایک خصوصیت خاص طور پر حیرت انگیز تھی کہ وہ ریاضی جیسے خشک مضمون کے ساتھ ہی ساتھ بحرِ شاعری کے بھی شناور تھے۔ اس سال انہوں نے ایک پاکیزہ مسدس "کلک گہر بار" کے نام سے پڑھی جس پر ۔۔۔۔۔"
حالانکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ شاعری Aesthetic Pleasure میں ریاضی سے زیادہ پیچھے نہیں ہے۔یہ صرف اردو ادب ہی کی بات نہیں تھی بلکہ عام طور پر ایک myth مشہور تھا تقسیم سے پہلے کہ مسلمان حساب کتاب یعنی ریاضی میں کمزور اور ہندو اس میں بہت آگے ہیں۔ خواجہ دل محمد ہندوستان کے شاید پہلے مسلمان تھے جنہوں نے ریاضی میں ماسٹرز کیا تھا اور اس وجہ سے ان کا شاید جلوس بھی نکالا گیا تھا۔ خواجہ دل محمد شاعر بھی تھے۔ مولانا عبدالمجید سالک نے، جو مولانا غلام رسول مہر کے ساتھ مل کر اخبار "انقلاب" نکالتے تھے اور اس سے پہلے مولانا ظفر علی خان کے ساتھ "زمیندار" میں کام کر چکے تھے، پچاس کی دہائی میں شائع ہونے خوبصورت سوانح عمری "سرگذشت" میں انجمن حمایت اسلام کے چندہ جمع کرنے کے اجلاس میں ڈپٹی نذیر احمد اور خواجہ دل محمد کا ایک واقعہ لکھا ہے۔ اس واقعہ میں ابتدائی جملہ خواجہ دل محمد اور مسلمانوں کی ریاضی کے متعلق ہے، یعنی یہ بات ہر جگہ پھیلی ہوئی تھی۔
کسی زمانے میں اپنے بلاگ پر یہ واقعہ پوسٹ کیا تھا۔ وہ یاد آگیا۔
"اس اجلاس میں ایک بہت دلچسپ واقعہ ہوا، جو مجھے اب تک یاد ہے۔ خواجہ دل محمد صاحب ان دنوں کوئی انیس بیس سال کے نوجوان تھے اور اسی سال انہوں نے ریاضی میں ایم - اے کر کے برادرانِ وطن کے اس طعنے کا مؤثر جواب مہیا کیا تھا کہ مسلمانوں کو حساب نہیں آتا۔ خواجہ صاحب کی ایک خصوصیت خاص طور پر حیرت انگیز تھی کہ وہ ریاضی جیسے خشک مضمون کے ساتھ ہی ساتھ بحرِ شاعری کے بھی شناور تھے۔ اس سال انہوں نے ایک پاکیزہ مسدس "کلک گہر بار" کے نام سے پڑھی جس پر ۔۔۔۔۔"