ان دکان داروں سے جیتنا تقریبا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ریڑھی والوں نے بھی پورا حساب رکھا ہوا ہے۔
شہر بھی تو چھوٹا ہے۔ اس کے حساب سے ٹھیک ہیں۔ اور چنگچی پہ جائیں تو اور بھی کم ہو جاتے ہیں۔ چنچی کے دو لطائف سناؤں گی کسی وقت۔
شاہی بازار ہم بھی پھرتے رہے ہیں گزشتہ دس دسمبر والے دن۔۔۔۔سردیوں کی مردانہ سوٹوں کی خریداری کی پچھلے دنوں۔ بہت اچھے گرم سوٹ اٹھارہ، بائیس اور پچیس پچیس سو میں ملے۔ شاہی بازار میں مخصوص دکان سے خریدتی ہوں۔
پھر انتخاب صریحا غلط ہے۔۔۔ ابھی بلاتا ہوں محمداحمد بھائی۔۔۔ ان کی مسند دی جا رہی مجھےآج کل شیخ ہی پیر ہوتے ہیں ، کیونکہ صرف مال دار آسامی ہی پیر کہلانے کی مستحق ہے میری فقہ میں
ان دکان داروں سے جیتنا تقریبا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
ابھی چند روز پہلے، مرغی والے نے ریٹ 400 روپے کلو بتائے۔ میں نے کہا کہ دوسرا مرغی والا تو سستا بیچ رہا ہے۔ اس نے کہا 380 کی لے لیں۔ میں نے کہا ان مرغیوں کے کتنے ہوئے تو اس نے جھٹ کہا 2950. میں نے کہا کہ اس حساب سے تو کم بنتے ہیں تو بہت سٹپٹایا اور کہا کہ دراصل وزن زیادہ ہے میں نے کم بتا دیا تھا۔ میں نے کہا کہ میں تمھیں ایسے دام پر مجبور نہیں کرنا چاہتا جو تمھارے وارے میں نا آئے۔ ایسا کرو تم مجھے رعایت نا دو بلکہ 400 میں ہی دے دو۔ 120 روپے کی رعایت کے لیے تم کیا کچھ کر رہے ہو۔ جب اس نے دیکھ لیا کہ معاملہ صاف ہے اور اب رعایت بھی نہیں دینی ہو گی تو اس نے کہا اگر آپ رعایت کرا لیتے تو یہ بٹن دبا دیتا جس سے تول کا وزن بھی مرغی کے وزن میں آجاتا اور دو ڈھائی سو آپکو پتہ بھی نہیں چلتا آپ کو دینے پڑتے۔ پھر اس نے کہا کہ میں پنجے گہرے کاٹتا جس میں ران کا گوشت آجاتا جو الگ ٹھیلے والےتکے کے لیے بکتا ہے۔ اور میں گوشت کی صفائی کے نام پر گوشت کو گہرا کاٹتا تاکہ لگا ہوا گوشت الگ بیچا جائے۔ اسکے علاوہ ایک سے دو بوٹی پیچھے کی طرف گرا دیتا جو 70 سے 90 روپے میں الگ بکتی۔
اس لیے دکان داروں کے فریب سے بچنا ممکن نہیں لگتا۔
آپ غلط سمجھے۔۔۔ عجلت میں مال لکھا گیا۔۔۔ اصل میں مآل تھا۔مسند آپ لے لیں اور مال مجھے بھجوا دیجے۔
مال جب مجھے پہنچے گا تو خود ہی مآل بن جائے گا۔آپ غلط سمجھے۔۔۔ عجلت میں مال لکھا گیا۔۔۔ اصل میں مآل تھا۔
ان دکان داروں سے جیتنا تقریبا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
ابھی چند روز پہلے، مرغی والے نے ریٹ 400 روپے کلو بتائے۔ میں نے کہا کہ دوسرا مرغی والا تو سستا بیچ رہا ہے۔ اس نے کہا 380 کی لے لیں۔ میں نے کہا ان مرغیوں کے کتنے ہوئے تو اس نے جھٹ کہا 2950. میں نے کہا کہ اس حساب سے تو کم بنتے ہیں تو بہت سٹپٹایا اور کہا کہ دراصل وزن زیادہ ہے میں نے کم بتا دیا تھا۔ میں نے کہا کہ میں تمھیں ایسے دام پر مجبور نہیں کرنا چاہتا جو تمھارے وارے میں نا آئے۔ ایسا کرو تم مجھے رعایت نا دو بلکہ 400 میں ہی دے دو۔ 120 روپے کی رعایت کے لیے تم کیا کچھ کر رہے ہو۔ جب اس نے دیکھ لیا کہ معاملہ صاف ہے اور اب رعایت بھی نہیں دینی ہو گی تو اس نے کہا اگر آپ رعایت کرا لیتے تو یہ بٹن دبا دیتا جس سے تول کا وزن بھی مرغی کے وزن میں آجاتا اور دو ڈھائی سو آپکو پتہ بھی نہیں چلتا آپ کو دینے پڑتے۔ پھر اس نے کہا کہ میں پنجے گہرے کاٹتا جس میں ران کا گوشت آجاتا جو الگ ٹھیلے والےتکے کے لیے بکتا ہے۔ اور میں گوشت کی صفائی کے نام پر گوشت کو گہرا کاٹتا تاکہ لگا ہوا گوشت الگ بیچا جائے۔ اسکے علاوہ ایک سے دو بوٹی پیچھے کی طرف گرا دیتا جو 70 سے 90 روپے میں الگ بکتی۔
اس لیے دکان داروں کے فریب سے بچنا ممکن نہیں لگتا۔
ریڑھی والوں نے بھی پورا حساب رکھا ہوا ہے۔
کلو کا نرخ کچھ اور ہے اور درجن کا کچھ اور۔
عموماً درجن کے حساب سے ہی دیتے ہیں، ۱۵۰ روپے فی درجن
میں اسے فنکاری نہیں کاروبار سمجھتا ہوں کیونکہ مرغی لینے سے قبل ہر شخص کے علم میں ہوتا ہے کہ پر، بال، خون اور چربی ملے گی تو نہیں، لیکن قیمت دینا ہو گی۔ مرغی ہی کیا پھل ، سبزیاں، ڈرائی فروٹس سب ہی چھلکوں کے ساتھ فروخت ہوتے ہیں۔ یعنی مونگ پھلی، آلو اور کینو کےچھلکوں کی قیمت بھی دینا پڑتی ہے۔اور کچرا بھی گوشت کے وزن میں بیچ دینا فنکاری خیال کرتے ہیں۔
میرا یہ خیال ہے کہ جب آپ خالص گوشت کے ریٹ بتا رہے ہیں تو گوشت ہی تولنا بھی چاہیے۔ اگر زندہ مرغی لی جائے تو وہ الگ بات ہے۔میں اسے فنکاری نہیں کاروبار سمجھتا ہوں کیونکہ مرغی لینے سے قبل ہر شخص کے علم میں ہوتا ہے کہ پر، بال، خون اور چربی ملے گی تو نہیں، لیکن قیمت دینا ہو گی۔
یہاں چربی کا نہیں بلکہ آنتوں وغیرہ کا ذکر مقصود ہے۔شاید آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ بہرحال چربی قصابوں کی حس فنکاری جگا دیتی ہے۔
خالص صاف گوشت کا ریٹ کوئی گاہگ پوچھتا ہی نہیں! یہ گاہگ کی فنکاری ہےمیرا یہ خیال ہے کہ جب آپ خالص گوشت کے ریٹ بتا رہے ہیں تو گوشت ہی تولنا بھی چاہیے۔ اگر زندہ مرغی لی جائے تو وہ الگ بات ہے۔
شاید عرصے سے آپ مرغی مارکیٹ سے بَر گَشْتَہ ہیں!یہاں چربی کا نہیں بلکہ آنتوں وغیرہ کا ذکر مقصود ہے۔
ہمارے ہاں دوکانوں پر دو قسم کے نرخ لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک نرخ ران بازو کے اور دوسرے گوشت معہ گردن کے۔ زندہ مرغی کے دام بہت کم جگہ لکھے ہوتے ہیں۔خالص صاف گوشت کا ریٹ کوئی گاہگ پوچھتا ہی نہیں! یہ گاہگ کی فنکاری ہے
یہ سب حالیہ تجربے ہیں۔ اس لیے عرصہ سے کہنا مناسب نہیں ہے۔شاید عرصے سے آپ مرغی مارکیٹ سے بَر گَشْتَہ ہیں!
یہ طریقہ آپکی طرف کی دکانوں میں رائج ہو ۔ ورنہ عمومی طور پر پوری زندہ مرغی کے ریٹ اور گوشت کے ریٹ ایک سلیٹ پر دکانوں پر لٹک رہے ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں دوکانوں پر دو قسم کے نرخ لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک نرخ ران بازو کے اور دوسرے گوشت معہ گردن کے۔ زندہ مرغی کے دام بہت کم جگہ لکھے ہوتے ہیں۔