استادِ محترم محمد یعقوب آسی صاحب آپ اس نوارد کی گھٹیا باتوں پر نالاں نہ ہوئیے گا تاکہ ہم جیسے مبتدیوں کی حق تلفی نہ ہو جائے۔ بہت نوازش
جن کو جوہری کی تراش خراش پسند نہیں انہیں اساتذہ کو زحمت ہی نہیں دینی چاہیے۔ یہ ایک سادہ سا اصول ہے۔ وہ اپنے خول میں خوش رہیں جو لوگ اپنا کلام اصلاح کے لیے پیش کرتے ہیں اور مخصوص اساتذہ کو مخاطب کرتے ہیں ان کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ اساتذہ کو ہی سکھانا شروع کر دیں کہ کیسے تنقید اور اصلاح کی جاتی ہے
ایک آدمی جب مفت کی شاگردی اختیار کر کے کسی کو استاد تسلیم کرلے تو اسے استادوں کے ساتھ استادی نہیں کرنی ہوتی بلکہ سننا سمجھنا ہوتا ہے۔۔۔ ۔ ۔ یا حیرت
ابن رضا بھائی، ضروری نہیں کہ بات تلخی سے ہی کی جائے، میری آپ سے گزارش ہے کہ میرے تمام مراسلے جو اس پوسٹ میں ہیں ایک مرتبہ پھر پڑھ لیں، یہ بھی غور فرما لیں کہ میں نے کس بات کا جواب دیا ہے اور یہ بھی دیکھ لیں کہ کس بات پر پسندیدگی مارک کی ہے اور کس بات پر کوئی مارک نہیں دیا ۔
میری آپ سے ایک مرتبہ پھر گزارش ہے کہ عمران صدیقی صاحب کی باتوں کی وجہ سے غیض میں آکر مجھ سے وہ باتیں منسوب کرنا جو مجھ سے سرزرد نہیں ہوئی ہیں ایک وقتی اور جذباتی بیان تو ہو سکتا ہے مگر میری از سرِ نو گزارش ہے کہ میرے مراسلے اطمینان سے پڑھ لیں اور اسکے جواب میں جو جناب @محمدیعقوب آسی صاحب نے فرمایا ہے اسے بھی دیکھ لیں ۔
نوازش
بھیا میرے تو سر کے اوپر سے گزر رہی ہیں آپ کی باتیں پھر بھی دیکھیں اتنے غور سے سن رہی ہوںظاہر سی بات ہے جب کوئی انسان کسی موضوع پر تیسری سطح سے گفتگو کا خواہاں ہو تو یہ مسئلہ آپ سے آپ ختم ہو جاتا ہے کہ وہ شخص کسی طور جانب داری کا مظاہرہ کرے یا کوئی ایسی رائے قائم کرے جو انصاف کے تقاضوں کو پورا نہ کر سکے کیوں کہ ایسی صورت میں رائے کے تار و پود آپ سے آپ ڈھیلے پڑ جائیں گے اور یہ رائے ہوا میں تحلیل ہو جائے گی
ہااااںںں۔۔۔یعنی میں اپنے پڑوسی سے ایک زمانے سے واقف ہوں ۔ دن میں ایک دو بار بلمشافہ ملاقات بھی ہوتی ہے مزاج سے بھی آشنا ہوں ، قد کاٹھ بھی جانتاہوں اسکے فہم و دانش ( intellect) کا بھی اندازہ ہے لہذا جب میری اپنے پڑوسی سے بات ہوگی تو میں اسکی ذہنی سطح
Intellectual level
کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کی بات کو سمجھوں گا بھی اور اپنی بات بھی اسی معیار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرونگا۔ یہی وہ تمام چیزیں ہیں جو کم از کم انٹر نیٹ پر میسر نہیں