عرفان سعید
محفلین
2003 میں جب تعلیم کی غرض سے جاپان کے لیے نکلے تو ایک انڈہ فرائی کرنے کے علاوہ کچھ نہ آتا تھا۔ فلائیٹ سے دو دن پہلے کچھ چاول وغیرہ پکانے سیکھے لیکن وہ بھی بھول گئے۔ جاپان جا کر ایک سال خوب خوار ہوتا رہا۔ سب سے زیادہ مسئلہ پیاز کاٹتے وقت پیش آتا۔ ایک تو آنکھوں سے پانی نکلتا اور ایک میری بے بسی کے آنسو اس میں مل جاتے۔ تب خیال آتا کہ کیا فائدہ ایسی کیمیا کا کہ اگر اپنے مطلب کا کھانا ہی نہ پکا اور کھا سکوں!
خیر ایک سال بعد شادی ہوگئی اور بیگم بھی تعلیم کے لیے جاپان آ گئیں۔ ذہین تو خیر تھیں ہی لیکن پکانے میں بھی لاثانی! اللہ نظر نہ لگائے! ایک سال میں جتنے دکھ اس پکانے کے ہاتھوں سہے تھے، سب چند دنوں میں زائل ہو گئے۔ بیگم بھی ہمارے ساتھ لیب میں اپنے تجربات میں مصروف رہتیں۔ اس لیے پکاتے وقت مدد کرنا ہمارے اخلاقی فرائض میں داخل تھا۔ جب کبھی مردانیت کا دورہ پڑتا اور میں یہ اخلاقیات فراموش کر دیتا، بیگم فٹ سے اعلی تعلیم کا ایسا طعنہ جڑتیں کہ میں ان کا ہاتھ بٹانے حاضر ہو جاتا۔ جو اصل کام ہے وہ تو اہلیہ خود ہی کرتیں، ہمیں مصالحے ڈالنے کی اجازت بھی بمشکل ملتی۔ لیکن ہمارا ساتھ ساتھ رہنا نہایت ضروری تھا اور چھوٹی موٹی چیزیں ہمارے ہاتھوں بیگم کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں۔
شب و روز کے اس معمول کے بعد ہم نے بغور بیگم کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ شروع کیا تو اس دنیائے پکوان کے کچھ اسرا و رموز ہم پر افشا ہونے شروع ہوئے، جس کا جب بھی ہم نے بیگم کے سامنے اظہار کیا جواب میں سو سو باتیں سننے کو ملیں۔ شادی کوایک دہائی سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر گیا اور کھانا پکاتے اب اگر ہم باورچی خانے میں نہ ہوں تو طبیعت خود ہی مضطرب ہو جاتی ہے۔ گویا ادھر ہنڈیا چڑھانے کی تیاری شروع ہوئی ادھر ہم لاشعوری طور پر ہنڈیا کے سامنے پہنچ گئے۔
سال پہلے حالات کچھ ایسے ہوئے کہ بیگم کو ایک ماہ کے لیے بچوں سمیت پاکستان جانا پڑ گیا۔ وہ کچھ افسردہ خاطر ہوئیں کہ میں اکیلا کیسے کھاؤں گا۔ ہم نے انہیں تسلی دی کہ کچھ نہ کچھ کر لیا کروں گا۔ جب وہ چلی گئیں تو جہانِ پکوان کے جو اسرر و رموز ہم پر ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں کھلے تھے ہم نے ان کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ روز ہم کچھ نہ کچھ پکاتے اور ماشاءاللہ اچھا ہی بنتا تھا۔ ایک ماہ میں ہم تو خود کو شیف ذاکر سمجھنے لگے۔ بیگم کی واپسی کے دن قریب آ گئے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ان کی آمد پر ان کو مطلع کیے بغیر ایک پر تکلف کھانا بنا کر انہیں حیران و پریشان کر دیں گے۔ ان کی واپسی سے ایک دن پہلے ہم نے پکانے کی تمام اشیا جمع کر لیں اور پوری دل جمعی سے تن تنہا کچن میں پکانے پر جت گئے۔ بیگم اور بچوں کو ائیر پورٹ سے واپس لانے سے پہلے ہم نے کھانے کی میز سجائی اور انہیں لینے چلے گئے۔
جب انہیں لے کر واپس آئے تو کھانے کی میز پر انہوں نے کیا دیکھا؟ یہ اگلے مراسلوں میں بتاتا ہوں۔
خیر ایک سال بعد شادی ہوگئی اور بیگم بھی تعلیم کے لیے جاپان آ گئیں۔ ذہین تو خیر تھیں ہی لیکن پکانے میں بھی لاثانی! اللہ نظر نہ لگائے! ایک سال میں جتنے دکھ اس پکانے کے ہاتھوں سہے تھے، سب چند دنوں میں زائل ہو گئے۔ بیگم بھی ہمارے ساتھ لیب میں اپنے تجربات میں مصروف رہتیں۔ اس لیے پکاتے وقت مدد کرنا ہمارے اخلاقی فرائض میں داخل تھا۔ جب کبھی مردانیت کا دورہ پڑتا اور میں یہ اخلاقیات فراموش کر دیتا، بیگم فٹ سے اعلی تعلیم کا ایسا طعنہ جڑتیں کہ میں ان کا ہاتھ بٹانے حاضر ہو جاتا۔ جو اصل کام ہے وہ تو اہلیہ خود ہی کرتیں، ہمیں مصالحے ڈالنے کی اجازت بھی بمشکل ملتی۔ لیکن ہمارا ساتھ ساتھ رہنا نہایت ضروری تھا اور چھوٹی موٹی چیزیں ہمارے ہاتھوں بیگم کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں۔
شب و روز کے اس معمول کے بعد ہم نے بغور بیگم کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ شروع کیا تو اس دنیائے پکوان کے کچھ اسرا و رموز ہم پر افشا ہونے شروع ہوئے، جس کا جب بھی ہم نے بیگم کے سامنے اظہار کیا جواب میں سو سو باتیں سننے کو ملیں۔ شادی کوایک دہائی سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر گیا اور کھانا پکاتے اب اگر ہم باورچی خانے میں نہ ہوں تو طبیعت خود ہی مضطرب ہو جاتی ہے۔ گویا ادھر ہنڈیا چڑھانے کی تیاری شروع ہوئی ادھر ہم لاشعوری طور پر ہنڈیا کے سامنے پہنچ گئے۔
سال پہلے حالات کچھ ایسے ہوئے کہ بیگم کو ایک ماہ کے لیے بچوں سمیت پاکستان جانا پڑ گیا۔ وہ کچھ افسردہ خاطر ہوئیں کہ میں اکیلا کیسے کھاؤں گا۔ ہم نے انہیں تسلی دی کہ کچھ نہ کچھ کر لیا کروں گا۔ جب وہ چلی گئیں تو جہانِ پکوان کے جو اسرر و رموز ہم پر ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں کھلے تھے ہم نے ان کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ روز ہم کچھ نہ کچھ پکاتے اور ماشاءاللہ اچھا ہی بنتا تھا۔ ایک ماہ میں ہم تو خود کو شیف ذاکر سمجھنے لگے۔ بیگم کی واپسی کے دن قریب آ گئے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ان کی آمد پر ان کو مطلع کیے بغیر ایک پر تکلف کھانا بنا کر انہیں حیران و پریشان کر دیں گے۔ ان کی واپسی سے ایک دن پہلے ہم نے پکانے کی تمام اشیا جمع کر لیں اور پوری دل جمعی سے تن تنہا کچن میں پکانے پر جت گئے۔ بیگم اور بچوں کو ائیر پورٹ سے واپس لانے سے پہلے ہم نے کھانے کی میز سجائی اور انہیں لینے چلے گئے۔
جب انہیں لے کر واپس آئے تو کھانے کی میز پر انہوں نے کیا دیکھا؟ یہ اگلے مراسلوں میں بتاتا ہوں۔
آخری تدوین: