مجھے صوتی اعتبار سے “کھٹکا” استعمال کرنے میں قدرے تامل تھا کہ سننے میں ایسا بھلا نہیں لگتا ہے لیکن اس وقت کوئی اور متبادل بھی نہیں سجھائی دے رہا تھا۔ معنوی لحاظ سے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ کوئی ایسا مبہم یا ان سُنا لفظ ہو گا۔
“کھٹکا “ میں نے تو نثر میں دو طرح سے مستعمل دیکھا ہے۔ ایک بمعنی تشویش یا اندیشہ ، جیسے دل میں کھٹکا پیدا ہونا۔ دوسرا بمعنی آہٹ یا آواز ، جیسے صحن میں کھٹکا ہوا۔
میری مراد آخر الذکر سے تھی۔
کھٹکا اسم ہے اور بمعنی تشویش یا اندیشہ عام مستعمل ہے ۔
کھٹکا ہونا یعنی آہٹ ہونا بھی مستعمل ہے ۔ بالکل بھی غیر معروف نہیں ہے۔ لیکن آپ نے
کھٹکا کرنا استعمال کیا ہے جو نہ صرف متروک اور غیر معروف ہے بلکہ آپ کے شعر میں اس کا کوئی محل بھی نہیں ہے۔ امید ہے کہ واضح ہوگیا ہوگا۔
آپ کی یہ بات درست ہے کہ کھٹکا صوتی اعتبار سے بھی کھٹکتا ہے ۔ اس شعر کی بلکہ پوری غزل کی لفظیات پر عربی و فارسی کا رنگ غالب ہے ۔ اس صورت میں کھٹکا کا لفظ اور بھی غریب محسوس ہوتا ہے ۔ اسی قسم کا تبصرہ میں تیسرے شعر پر بھی کرنا چاہتا تھا لیکن کچھ سوچ کر نہیں کیا ۔
ہوتی جو چاہ، نسخہِ مرہم بھی ڈھونڈتے
تھا درد جاں گداز، مداوا نہیں کِیا
چاہ کا لفظ اگرچہ برا نہیں اور مفہوم ادا کررہا ہے لیکن فارسی الفاظ کے ساتھ میل نہیں کھارہا ۔ دل چاہتا تو نسخۂ مرہم بھی ڈھونڈتے ۔۔ یا ۔۔ ہم چاہتے تو نسخۂ مرہم بھی ڈھونڈتے کیوں نہیں کہا۔
تھوڑی وضاحت درکار ہے۔ یہ فقط ارباب کے ساتھ ہی مخصوص ہے یا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ جہاں اضافت آئے وہاں دوسرا اسم، اسم صفت نہیں ہو سکتا۔
اگر ایسا ہی ہے تو اضافت کے ساتھ کچھ ایسی تراکیب اکثر پڑھنے کو ملتی ہیں ۔ مثلاً آبِ رواں، راہِ پرخار، عذابِ عظیم وغیرہ وغیرہ
لا المیٰ ، آپ ٹھیک سمجھیں۔ یہ مجبوری صرف ارباب کے ساتھ ہے کیونکہ ارباب کا لفظ مفرد استعمال نہیں ہوتا ۔ ارباب کا لفظ کسی دوسرے اسم کا مضاف بن کر ہی بامعنی ہو سکتا ہے ۔ مثلا اربابِ جنوں ، اربابِ اختیار ، اربابِ سخن ، اربابِ شہر وغیرہ۔ چنانچہ ارباب کے ساتھ مرکب توصیفی نہیں بنایا جاسکتا۔ جو اسم مفرد استعمال ہوسکتا ہے اس کے ساتھ مرکب اضافی اور مرکب توصیفی دونوں بنائے جاسکتے ہیں۔
اربا ب کا مرکب اضافی بنانے کے بعد اس مرکب میں قواعد کے عام اصول کے مطابق صفت کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ جیسے اربابِ شہرِ ناشناس ، اربابِ سخنِ کامل ، اربابِ اقتدارِ کہنہ ، اربابِ جہانِ تازہ وغیرہ ۔
سر جامِ نیستی ہے کوئی اور مشروب تھوڑا ہے کہ سب پی کر سو جائیں۔ اب سوگئے کی جگہ “ مر گئے” بھی نہیں کہہ سکتے کہ اتنی دو ٹوک بات بھی کہاں کی جا سکتی ہے۔
اسی دو ٹوک اور کرخت بات سے بچنے کے لیے ہی تو میں نے یہ کہا تھا کہ: ایک روز پی کے سو گئے سب جام نیستی
جام نیستی پی کر سونے کا مطلب موت ہی ہوتا ہے۔ یہ شاعرانہ پیرائے میں کی گئی بات ہے۔
کیوں نہیں۔ مفید تبصروں کو مثبت ہی لیا جا سکتا ہے۔ بدون اسکے سیکھنے کا عمل آگے بڑھ ہی نہیں سکتا۔ جزاک اللہ۔
جزاک اللّٰہ خیرا ۔ اگر دل چاہے تو آپ
اس دھاگے میں اپنا کلام ضرور شریک کیجیے ۔