ہندوستانی کھانے

ہندوستان میں کھانے اور پکوان کی اگر بات کریں تو بہت حد تک یہ مغلوں اور ایرانیوں کی دین ہے ۔ جہاں تک خالص ہندوستانی کھانوں کی بات ہے تو اس پر کسی دن گفتگو کرتا ہوں ۔ ایسے میرزا ادیب نے اپنی سوانح "مٹی کا دیا " میں اس تعلق سے ایک پیرا لکھا ہے ۔ میرے پاس کتاب ہے نہیں ورنہ وہی اقتبال نقل کرتا مفہوم کچھ اسطرح سے تھا دراصل کھانے پینے کا تعلق بھی تہذیب اور ثقافت سے ہوتا ہے ،ہمارے یہاں سیوئیاں بہت عمدہ بنتی ہیں جبکہ پوریاں ہندو اچھا بناتے ہیں عید بقرعید کے موقع پر ہمارے یہاں جس قسم کے شیر قورمہ اور سیوئیاں بنتی ہیں ہندو لاکھ کوشش کر لیں اور انواع و اقسام کے میوہ جات ڈال دیں وہ عمدگی اور لذت نہیں پیدا ہوتی جو مسلمانوں کے یہاں پائی جاتی ہے ۔
 
لیجئے اصل عبارت بھی مل گئی ، آج لائبریری گیا تھا ریسرچ کے کام سے یاد آیا تو’’ مٹی کا دیا ‘‘سے یہ عبارت بھی ڈھونڈ نکالی۔من و عن یہاں نقل کر رہا ہوں :

’’ پرانے عہد میں جب چھوٹی ’’عید‘‘آتی تو امی صبح سویرے سویاں پکاکر گھر والوں کے علاوہ غیر مسلم ہمسایوں کے گھر میں بھی بھجوا دیا کرتی تھیں ۔ وہ لوگ اس کے بڑے مشتاق ہوتے اور بڑے شوق سے سویاں کھاتے ،امی سے ترکیب سیکھ کر ہمارے ہمسائے سردار جن سنگھ کی بیوی (جسے ہم ہمیشہ سردارنی کہتے تھے ان کا نام کبھی معلوم نہ ہو سکا )نے بھی سویاں پکائیں اور حق یہ ہے کہ اس میں ایسی ایسی چیزیں ڈالیں جسکی ہمیں استطاعت نہیں تھی۔ یہ سویاں ہمارے یہاں بھی بھجوائی گئی ۔ بلا شبہ لذیذ تھیں مگر ان میں وہ روح نہیں تھی جو ہماری سادہ سی سویاں میں ہوتی تھی ۔
اصل قصہ یہ ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کا تعلق ایک قوم کے کلچر سے کافی گہرا ہوتا ہے ۔ یہ چیزیں کیا ہیں ۔ کیسے بنائی جاتی ہیں ، انھیں کس طرح اور کن برتنوں میں ڈالا جاتا ہے ۔ یہ سب باتیں ایک خاص کلچر سے وابستہ ہوتی ہیں ۔ وہ لوگ جن کی رگوں میں کلچر سرایت نہیں کر سکتا ، لاکھ تکلف کریں ، ایسے کھانے تیار نہیں کر سکتے جو ایک مخصوص کلچر کا جزو ہوتے ہیں ۔
پلاو غیر مسلم بھی پکاتے تھے ، بڑی نفاست سے پکاتے تھے ، مگر اس پلاو میں صرف کاریگری ہوتی تھی ، وہ ’’پلاو پن ‘‘ نہیں ہوتا تھا جو مسلمانوں کے پکائے ہوئے پلاو میں ہوتا ہے ۔ اسی کو میں نے کلچر کہا ہے ۔ غیر مسلم سیویاں نہیں پکا سکتے تھے اور ہم پوریاں تلنے میں غیر مسلموں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے اس لئے ہم نے پوریوں کا سارا معاملہ انھیں پر چھوڑ دیا تھا ‘‘۔

حوالہ : میرزا ادیب ،مٹی کا دیا (خود نوشت سوانح حیات) سنگ میل پبلیکیشنز چوک اردو بازار لاہور،ص 184۔
 

شمشاد

لائبریرین
لیجئے اصل عبارت بھی مل گئی ، آج لائبریری گیا تھا ریسرچ کے کام سے یاد آیا تو’’ مٹی کا دیا ‘‘سے یہ عبارت بھی ڈھونڈ نکالی۔من و عن یہاں نقل کر رہا ہوں :

’’ پرانے عہد میں جب چھوٹی ’’عید‘‘آتی تو امی صبح سویرے سویاں پکاکر گھر والوں کے علاوہ غیر مسلم ہمسایوں کے گھر میں بھی بھجوا دیا کرتی تھیں ۔ وہ لوگ اس کے بڑے مشتاق ہوتے اور بڑے شوق سے سویاں کھاتے ،امی سے ترکیب سیکھ کر ہمارے ہمسائے سردار جن سنگھ کی بیوی (جسے ہم ہمیشہ سردارنی کہتے تھے ان کا نام کبھی معلوم نہ ہو سکا )نے بھی سویاں پکائیں اور حق یہ ہے کہ اس میں ایسی ایسی چیزیں ڈالیں جسکی ہمیں استطاعت نہیں تھی۔ یہ سویاں ہمارے یہاں بھی بھجوائی گئی ۔ بلا شبہ لذیذ تھیں مگر ان میں وہ روح نہیں تھی جو ہماری سادہ سی سویاں میں ہوتی تھی ۔
اصل قصہ یہ ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کا تعلق ایک قوم کے کلچر سے کافی گہرا ہوتا ہے ۔ یہ چیزیں کیا ہیں ۔ کیسے بنائی جاتی ہیں ، انھیں کس طرح اور کن برتنوں میں ڈالا جاتا ہے ۔ یہ سب باتیں ایک خاص کلچر سے وابستہ ہوتی ہیں ۔ وہ لوگ جن کی رگوں میں کلچر سرایت نہیں کر سکتا ، لاکھ تکلف کریں ، ایسے کھانے تیار نہیں کر سکتے جو ایک مخصوص کلچر کا جزو ہوتے ہیں ۔
پلاو غیر مسلم بھی پکاتے تھے ، بڑی نفاست سے پکاتے تھے ، مگر اس پلاو میں صرف کاریگری ہوتی تھی ، وہ ’’پلاو پن ‘‘ نہیں ہوتا تھا جو مسلمانوں کے پکائے ہوئے پلاو میں ہوتا ہے ۔ اسی کو میں نے کلچر کہا ہے ۔ غیر مسلم سیویاں نہیں پکا سکتے تھے اور ہم پوریاں تلنے میں غیر مسلموں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے اس لئے ہم نے پوریوں کا سارا معاملہ انھیں پر چھوڑ دیا تھا ‘‘۔

حوالہ : میرزا ادیب ،مٹی کا دیا (خود نوشت سوانح حیات) سنگ میل پبلیکیشنز چوک اردو بازار لاہور،ص 184۔
خوبصورت اقتباس ہے۔
شریک محفل کرنے کا شکریہ۔
 
مغلوں اور ایرانیوں کا ہندوستانی کھانوں میں حصہ داری یا ان کو یہاں متعارف کرانے کی بات ہے تو اس کی بھی ڈھیروں مثالیں ہیں جس میں مغلئی قورمہ ، چکن چنگیزی ، نہاری وغیرہ خاص ہیں ۔ شاہی حلوہ بھی مغلوں کی ہی دین ہے ۔ اسی طرح پان کھانے اور حقہ پینے کا شوق بھی انھیں ایرانیوں اور مغلوں کی دین ہے جس کا شوق انھوں نے یہاں رہ کر پیدا کیا تھا ۔ یہاں پر یہ بات بھی آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ پان ہندوستان کے علاوہ کہیں اور نہیں ہوتا یہ الگ بات ہے کہ اب ہر چیز دنیا کہ ہر کونے میں لگائی اور اگائی جا رہی ہے ۔ امیر خسرو نے بھی پان کی توصیف میں بہت کچھ کہا ہے ۔
 
مغلوں اور ایرانیوں کا ہندوستانی کھانوں میں حصہ داری یا ان کو یہاں متعارف کرانے کی بات ہے تو اس کی بھی ڈھیروں مثالیں ہیں جس میں مغلئی قورمہ ، چکن چنگیزی ، نہاری وغیرہ خاص ہیں ۔ شاہی حلوہ بھی مغلوں کی ہی دین ہے ۔ اسی طرح پان کھانے اور حقہ پینے کا شوق بھی انھیں ایرانیوں اور مغلوں کی دین ہے جس کا شوق انھوں نے یہاں رہ کر پیدا کیا تھا ۔ یہاں پر یہ بات بھی آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ پان ہندوستان کے علاوہ کہیں اور نہیں ہوتا یہ الگ بات ہے کہ اب ہر چیز دنیا کہ ہر کونے میں لگائی اور اگائی جا رہی ہے ۔ امیر خسرو نے بھی پان کی توصیف میں بہت کچھ کہا ہے ۔

پان جیسی بے ہودہ چیز کیا کھانے میں شامل ہے؟
 
ویسے پاکستانی کھانوں اور ہندوستانی کھانوں کا اصل اوریجن ایران نہیں بلکہ وسط ایشیا اور ترکی ہے
بلکہ ترکی دنیا کے کھانوں کا اوریجن ہے
 
لیجئے اصل عبارت بھی مل گئی ، آج لائبریری گیا تھا ریسرچ کے کام سے یاد آیا تو’’ مٹی کا دیا ‘‘سے یہ عبارت بھی ڈھونڈ نکالی۔من و عن یہاں نقل کر رہا ہوں :

’’ پرانے عہد میں جب چھوٹی ’’عید‘‘آتی تو امی صبح سویرے سویاں پکاکر گھر والوں کے علاوہ غیر مسلم ہمسایوں کے گھر میں بھی بھجوا دیا کرتی تھیں ۔ وہ لوگ اس کے بڑے مشتاق ہوتے اور بڑے شوق سے سویاں کھاتے ،امی سے ترکیب سیکھ کر ہمارے ہمسائے سردار جن سنگھ کی بیوی (جسے ہم ہمیشہ سردارنی کہتے تھے ان کا نام کبھی معلوم نہ ہو سکا )نے بھی سویاں پکائیں اور حق یہ ہے کہ اس میں ایسی ایسی چیزیں ڈالیں جسکی ہمیں استطاعت نہیں تھی۔ یہ سویاں ہمارے یہاں بھی بھجوائی گئی ۔ بلا شبہ لذیذ تھیں مگر ان میں وہ روح نہیں تھی جو ہماری سادہ سی سویاں میں ہوتی تھی ۔
اصل قصہ یہ ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کا تعلق ایک قوم کے کلچر سے کافی گہرا ہوتا ہے ۔ یہ چیزیں کیا ہیں ۔ کیسے بنائی جاتی ہیں ، انھیں کس طرح اور کن برتنوں میں ڈالا جاتا ہے ۔ یہ سب باتیں ایک خاص کلچر سے وابستہ ہوتی ہیں ۔ وہ لوگ جن کی رگوں میں کلچر سرایت نہیں کر سکتا ، لاکھ تکلف کریں ، ایسے کھانے تیار نہیں کر سکتے جو ایک مخصوص کلچر کا جزو ہوتے ہیں ۔
پلاو غیر مسلم بھی پکاتے تھے ، بڑی نفاست سے پکاتے تھے ، مگر اس پلاو میں صرف کاریگری ہوتی تھی ، وہ ’’پلاو پن ‘‘ نہیں ہوتا تھا جو مسلمانوں کے پکائے ہوئے پلاو میں ہوتا ہے ۔ اسی کو میں نے کلچر کہا ہے ۔ غیر مسلم سیویاں نہیں پکا سکتے تھے اور ہم پوریاں تلنے میں غیر مسلموں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے اس لئے ہم نے پوریوں کا سارا معاملہ انھیں پر چھوڑ دیا تھا ‘‘۔

حوالہ : میرزا ادیب ،مٹی کا دیا (خود نوشت سوانح حیات) سنگ میل پبلیکیشنز چوک اردو بازار لاہور،ص 184۔
یخ یخ یخ !!! خدا وہ دن نہ دکھائے جب غیر مسلم خصوصا ۔۔۔۔ہندوؤں اور سکھوں کا کھانا پڑجائے ۔۔۔۔
بات غلط ہو کہ صحیح لیکن حقیقت یہی ہے کہ مجھے خصوصا ہندوؤں اور سکھوں کے ہاتھوں کے پکے کھانے میں سخت گھن آتی ہے ،
(ویسے اللہ کا شکر ہے کبھی کھایا بھی نہیں )
فطری طور پہ ۔۔۔۔جبکہ اہل کتاب کےساتھ بھی کھانے میں کراہیت آتی ہے ۔۔۔۔ ۔
 
میں نے سنا ہے کہ "بریانی" ، ایران سے درآمد شدہ ہے ؟؟؟ صحیح ؟؟؟
لیکن یہ بات محل نظر آتی ہے کیونکہ بریانی جس شوق سے ہندوستان اور پاکستان میں کھائی پکائی جاتی ہے کہیں اور نہیں ۔۔۔
یہ الگ بات ہے کہ ہم "بریانی" کسی اور ڈش کو کہتے ہیں ، جبکہ دوسرے اسی "بریانی" کو کچھ اور مراد لیتے ہیں

مثلا ۔۔۔سعودی عرب میں "کبسہ" چاول دو طرح کا ہوتا ہے ، ایک "رز پشاوری" اور ایک "رز بریانی" ۔۔۔۔
اب یہ "رز بریانی" چٹ پٹے مصالحہ دار والی بریانی نہیں ہوتی بلکہ ۔۔ابلے یوئے چاول ہوتے ہیں ، جس میں کوئی مصالحہ نہیں ہوتا ۔۔۔
 
میں نے سنا ہے کہ "بریانی" ، ایران سے درآمد شدہ ہے ؟؟؟ صحیح ؟؟؟
لیکن یہ بات محل نظر آتی ہے کیونکہ بریانی جس شوق سے ہندوستان اور پاکستان میں کھائی پکائی جاتی ہے کہیں اور نہیں ۔۔۔
یہ الگ بات ہے کہ ہم "بریانی" کسی اور ڈش کو کہتے ہیں ، جبکہ دوسرے اسی "بریانی" کو کچھ اور مراد لیتے ہیں

مثلا ۔۔۔سعودی عرب میں "کبسہ" چاول دو طرح کا ہوتا ہے ، ایک "رز پشاوری" اور ایک "رز بریانی" ۔۔۔۔
اب یہ "رز بریانی" چٹ پٹے مصالحہ دار والی بریانی نہیں ہوتی بلکہ ۔۔ابلے یوئے چاول ہوتے ہیں ، جس میں کوئی مصالحہ نہیں ہوتا ۔۔۔
اور ہمارے ہاں کی بریانی تو مصالحوں سے بھری ہوتی ہے۔ :)
 
بات ہپو
اور ہمارے ہاں کی بریانی تو مصالحوں سے بھری ہوتی ہے۔ :)
صحیح ۔۔۔۔لیکن ماننا پڑے گا ۔۔۔ہوتی بھی بہت ٹائٹ (y)۔۔۔
کیونکہ
بریانی ہےجس کا نام "دیسیوں" ہم جانتے ہیں
سارے جہاں میں دھوم ہمارے "مصالحوں" کی ہے
 
ویسے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی ۔۔۔۔
بریانی ۔۔۔انگریز تو شوق سے کھاتا نہیں ۔۔۔۔
پھر کیوں ہم "چکن" بریانی ۔۔۔۔۔۔۔ "بیف" بریانی۔۔۔۔"فش" بریانی۔۔۔ "ویجی ٹیبل" پلاؤ جیسی انگریزی اصطلاح استعمال کرتے ہیں ، چکن ، بیف ، فش اور ویجیٹیبل انگریزی باقی بریانی پلاؤ ہمارے ۔۔۔
ہم کیوں نہیں "مرغی" بریانی ، "گوشت" بریانی ، یا مچھلی بریانی بولتے ہیں ؟؟ کسی پاکستانی ہوٹل میں چلے جائے ،، بینر اور مینو میں بھی
اردو میں یہی لکھا ہوتا ہے ۔۔۔۔"چکن " بریانی ، ویجی ٹیبل پلاؤ ۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔۔۔
میں نے ہوٹلوں میں آج تک :"مرغی ، گوشت ، مچھلی " بریانی نہیں کھائی ۔۔۔

کاش وہ دن بھی آئے جب ، ابگریز چارپائے پر بیٹھا ، سی سی کرتا ہؤا اس طرح آرڈر کرے ۔۔۔ایک "مرغی" رائیس پلیز !!!!!
 
بریانی سے متعلق ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرتا چلوں ۔۔۔۔

ہماری کمپنی ہر سال سردیوں میں کسی دور صحرائی مقام پر "خیمہ" پروگرام بناتی ہے ، تین چار بڑے بڑے خیمہ لگاکر دو تین دن وہاں گزراتے ہیں۔۔۔بہت مزہ آتا ہے (سارے انتظامات اور کھانے پینے کے لوازمات کے ساتھ ، ہر خیمہ مختلف ، سونے کا الگ، بیٹھک کا الگ ، باورچی خانہ الگ ، حتی کے ٹین کے کیبن کا اچھا صاف ستھرا بیت الخلاء اور ڈش انٹینا، انٹرنیٹ سب کچھ ہوتا ہے ) ۔۔۔
وہاں رات گئے فور وہیل گاڑیوں میں بیٹھ کر "جربوعہ" کا شکار کرتے ہیں جوکہ بہت ہی پھرتیلا اور تیز ہوتا ہے اسکو پکڑنا آسان نہیں گاڑیوں کو تگنی کا ناچ نچادیتا ہے ۔۔یہ ایک قسم کا چھوٹا خرگوش ہوتا ہے چوہے سے مشابہہ دم لمبی اور پچھلی دو ٹانگیں کینگرو کی مانند ، کچھ لوگ اسے پکڑکر کھاتے بھی ہیں (خیر یہ الگ بحث ہے کہ وہ حرام ہے کہ حلال ۔۔۔یہاں مناسب نہیں)

اسی طرح اس سال جب ہمارا قافلہ اس خیمہ پروگرام کے لیے رواں دواں تھا تو اچانک ہمارے سعودی اوونر (کمپنی کا مالک) جو کہ کافی تیز گاڑی چلاتا ہے ایک جگہ گاڑی روک کر ہم (پاکستانیوں) سے عجیب فرمائش کرڈالی کہ اسے پاکستانی کھانا کھانے ، آج رات تم پاکستانی کھانا بناؤگے ۔۔۔
ہم ایک دم پریشان ، کہ کم ازکم تھوڑا پہلے بتادیتا تو گھر سے کڑاہی کا مسالہ ہی لے آتے ، خیر خدا کا شکر باورچی خیمہ میں شان کا بریانی مصالحہ موجود تھا ۔ لو جی اب بیس پچیس افراد کے لیے بریانی بنائی جارہی ہے ، اشیاء کی کمی نہیں ہر چیز وافر مقدار میں موجود ، تو جناب کوئی پیاز چھیل رہا ہے کوئی مرغی کاٹ رہا ہے تو کسی نے چولہا سنبھالا ہؤا ہے ۔۔۔

اب مسئلہ یہ ہؤا کہ ہمارے ساتھ کچھ ہمارے انڈین ساتھی بھی تھے وہ بھی جنوب کے جو کہ تیز مرچیوں کے شوقین ۔۔۔اب ہم اپنے حساب سے بریانی بناتے لیکن وہ مداخلت کرکے مرچی پر مرچی ڈالنے پر اصرار کریں ، جبکہ ہمارا مؤقف تھا کہ ہمارے عرب ساتھی اتنی مرچیں نہیں کھاتے لیکن وہ نہ مانے
آخر کار کافی محنت کے بعد رات گئے ، آدھی رات کو پاک۔- انڈین مشترکہ بریانی پک کر تیار ہوئی ۔۔۔۔اور دسترخوان پر چنوادی ۔۔۔۔
مت پوچھے ، ایک ہی چمچ سے ہمارے سی سی ہوگئی تو بچارے عرب کے سفید چہرے میں لال مرچ کی لالی بخوبی دیکھی جاسکتی تھی ۔۔
پورا خیمہ سی سی کررہا تھا، مگر بے چارے اخلاقی طور پر تعریف کررہے تھے جبکہ اوونر نے دل میں سوچا ہوگا کہ ان لوگوں نے مجھے سے پتا نہیں کس بات کا بدلہ لیا ہے ۔۔۔جبکہ ہمارے انڈین ساتھی مزے لے لے کر بریانی کھاتے رہے ۔۔۔اور اس طرح ہماری میزبانی انکو کافی مہنگی پڑگئی ۔۔
پاک - بھارت بریانی کی جنگ میں برا بریانی کا ہی ہونا تھا ۔۔

میری درخواست ہے آپ لوگوں سے کہ مشترکہ قومیت کا کھانا پکاتے وقت سوچے ضرور ۔۔۔۔۔۔
 

عزیزامین

محفلین
بریانی سے متعلق ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرتا چلوں ۔۔۔۔

ہماری کمپنی ہر سال سردیوں میں کسی دور صحرائی مقام پر "خیمہ" پروگرام بناتی ہے ، تین چار بڑے بڑے خیمہ لگاکر دو تین دن وہاں گزراتے ہیں۔۔۔بہت مزہ آتا ہے (سارے انتظامات اور کھانے پینے کے لوازمات کے ساتھ ، ہر خیمہ مختلف ، سونے کا الگ، بیٹھک کا الگ ، باورچی خانہ الگ ، حتی کے ٹین کے کیبن کا اچھا صاف ستھرا بیت الخلاء اور ڈش انٹینا، انٹرنیٹ سب کچھ ہوتا ہے ) ۔۔۔
وہاں رات گئے فور وہیل گاڑیوں میں بیٹھ کر "جربوعہ" کا شکار کرتے ہیں جوکہ بہت ہی پھرتیلا اور تیز ہوتا ہے اسکو پکڑنا آسان نہیں گاڑیوں کو تگنی کا ناچ نچادیتا ہے ۔۔یہ ایک قسم کا چھوٹا خرگوش ہوتا ہے چوہے سے مشابہہ دم لمبی اور پچھلی دو ٹانگیں کینگرو کی مانند ، کچھ لوگ اسے پکڑکر کھاتے بھی ہیں (خیر یہ الگ بحث ہے کہ وہ حرام ہے کہ حلال ۔۔۔یہاں مناسب نہیں)

اسی طرح اس سال جب ہمارا قافلہ اس خیمہ پروگرام کے لیے رواں دواں تھا تو اچانک ہمارے سعودی اوونر (کمپنی کا مالک) جو کہ کافی تیز گاڑی چلاتا ہے ایک جگہ گاڑی روک کر ہم (پاکستانیوں) سے عجیب فرمائش کرڈالی کہ اسے پاکستانی کھانا کھانے ، آج رات تم پاکستانی کھانا بناؤگے ۔۔۔
ہم ایک دم پریشان ، کہ کم ازکم تھوڑا پہلے بتادیتا تو گھر سے کڑاہی کا مسالہ ہی لے آتے ، خیر خدا کا شکر باورچی خیمہ میں شان کا بریانی مصالحہ موجود تھا ۔ لو جی اب بیس پچیس افراد کے لیے بریانی بنائی جارہی ہے ، اشیاء کی کمی نہیں ہر چیز وافر مقدار میں موجود ، تو جناب کوئی پیاز چھیل رہا ہے کوئی مرغی کاٹ رہا ہے تو کسی نے چولہا سنبھالا ہؤا ہے ۔۔۔

اب مسئلہ یہ ہؤا کہ ہمارے ساتھ کچھ ہمارے انڈین ساتھی بھی تھے وہ بھی جنوب کے جو کہ تیز مرچیوں کے شوقین ۔۔۔اب ہم اپنے حساب سے بریانی بناتے لیکن وہ مداخلت کرکے مرچی پر مرچی ڈالنے پر اصرار کریں ، جبکہ ہمارا مؤقف تھا کہ ہمارے عرب ساتھی اتنی مرچیں نہیں کھاتے لیکن وہ نہ مانے
آخر کار کافی محنت کے بعد رات گئے ، آدھی رات کو پاک۔- انڈین مشترکہ بریانی پک کر تیار ہوئی ۔۔۔۔اور دسترخوان پر چنوادی ۔۔۔۔
مت پوچھے ، ایک ہی چمچ سے ہمارے سی سی ہوگئی تو بچارے عرب کے سفید چہرے میں لال مرچ کی لالی بخوبی دیکھی جاسکتی تھی ۔۔
پورا خیمہ سی سی کررہا تھا، مگر بے چارے اخلاقی طور پر تعریف کررہے تھے جبکہ اوونر نے دل میں سوچا ہوگا کہ ان لوگوں نے مجھے سے پتا نہیں کس بات کا بدلہ لیا ہے ۔۔۔جبکہ ہمارے انڈین ساتھی مزے لے لے کر بریانی کھاتے رہے ۔۔۔اور اس طرح ہماری میزبانی انکو کافی مہنگی پڑگئی ۔۔
پاک - بھارت بریانی کی جنگ میں برا بریانی کا ہی ہونا تھا ۔۔

میری درخواست ہے آپ لوگوں سے کہ مشترکہ قومیت کا کھانا پکاتے وقت سوچے ضرور ۔۔۔۔۔۔
جانور کا عربی اور انگلش نام اور تصویر بھیج دیں؟ کہیں یہ گو تو نہیں ویسے گو حلال ہے ۔ میرے خیال سے عرب حلال ہی کھاتے ہیں۔
 
Top