ہندوستان سے چند کتابیں-مئی 2013

راشد اشرف

محفلین
علی گڑھ میں مقیم راقم الحروف کے ایک 82 سالہ کرم فرما عرصہ آٹھ ماہ سے نایاب خودنوشتیں اور خاکوں کے مجموعے ارسال کررہے ہیں۔ اپنے کتب خانے سے کئی نایاب آپ بیتیاں بھیج چکے ہیں۔ آپ ایک برس قبل تک بزم قلم کے رکن تھے اور اسی فورم سے انہوں نے راقم سے رابطہ کیا تھا۔ کتابوں کی پہلی کھیپ انہوں یہ کہہ کر بھیجوائی تھی کہ میرے بعد یہ ذخیرہ ایک نہ ایک روز فٹ پاتھ پر آجانے کا ڈر ہے، تمہارے پاس چلا جائے گا تو وہاں سے بذریعہ انٹرنیٹ ایسے لوگوں تک بھی پہنچ سکے جو اس کے متمنی و متلاشی ہیں۔ راقم کو ان کی بات سن کر ملال تو ہوا تھا لیکن پھر ان کے لہجے میں یقین کی کیفیت اور ان کے مضبوط موقف کو بھانپ کر سر تسلیم خم کیا ۔ ۔ ۔بسر و چشم ۔۔۔۔۔۔۔! ایک قلبی رشتہ ان سے قائم ہوا جو آج تک قائم ہے، گاہے گاہے گفتگو رہتی ہے۔
پہلی کھیپ میں مسعود حسین خاں مرحوم کی خودنوشت "ورود مسعود" کا وہ نسخہ تھا جسے مصنف نے انہیں دستخط کے ساتھ پیش کیا تھا۔
سلسلہ چل نکلا اور پارسل آتے گئے۔ اس تمام عرصے میں کم از کم چالیس کتابیں آچکی ہیں۔ جواب میں یہاں سے بھی کچھ نہ کچھ حسب توفیق جاتا رہا۔ ہندوستان سے پہلے کلوگرام کے دو سو روپے لیے جاتے ہیں جبکہ یہاں صورت حال یہ ہے کہ پہلے کلوگرام پر گیارہ سو اور اس کے بعد ہر کلو گرام پر دوسو دس روپے۔۔۔۔۔۔۔! یہی وجہ ہے کہ اچھے اچھوں کے قدم اکھڑ گئے ہیں۔ بھلے وقتوں میں ہندوستان سے رسالے آجایا کرتے تھے، وہ سلسلہ بھی بڑھتی گرانی کی وجہ سے بہتیروں کے لیے موقوف ہوچکا ہے۔
ڈیڑھ ماہ قبل چھ کلو گرام کے ایک پارسل کے بھیجے جانے کی نوید سنائی گئی تھی۔ اس میں موجود تمام خودنوشتیں (معہ رفعت سروش کا لکھا خاکوں کا مجموعہ یادوں کا دریچہ) اسی نوعیت کی تھیں جن کا انتظار بے چینی سے تھا۔ ان میں 1965 میں الہ آباد سے شائع ہوئی 500 صفحات پر مشتمل ڈاکٹر اعجاز حسین (ابن صفی مرحوم کے استاد) کی خودنوشت "یادوں کی دنیا" بھی شامل تھی جس کی نقل میرے ایک دوسرے کرم فرما نے الہ آباد سے علی گڑھ بھیجی۔ راقم مذکورہ پارسل پر فاتحہ پڑھ چکا تھا، ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ کتابیں اس قدر طویل انتظار کے باوجود نہ پہنچی ہوں لیکن پھر گزشتہ ہفتے کی صبح ہمارے جامی صاحب کا ڈاک خانے سے فون آیا:
"بھئی میں اس وقت اپنے ایک کام سے یہاں موجود ہوں اور تمہارے نام علی گڑھ سے ایک پارسل یہاں پڑا ہوا ہے"
جامی صاحب نے یہ نوید سن کر راقم کو گویا مالا مال کردیا۔ کتابیں پہنچی اور اب ان کے سرورق و دیگر تفصیل یہاں معلومات کی غرض سے لنک کی شکل میں دیے جارہے ہیں:
کتابوں کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے
علی گڑھ سے علی گڑھ تک
خودنوشت
اشاعت اول: 1977​
اشاعت ثانی: 2012​
مصنف: اطہر پرویز​
ناشر: مکتبہ جامعہ، دہلی​
جو یاد رہا
خودنوشت
مصنف: عابد سہیل​
صفحات: 600 سے زائد​
اشاعت: 2012​
ناشر: اردو اکادمی دہلی​
نوائے زندگی
خودنوشت
مصنفہ: ساجدہ زیدی​
صفحات: 450​
ناشر: اردو اکادمی، دہلی​
اشاعت: 2013​


ل احمد اکبر آبادی (پ: 8 اپریل، 1858) کی خودنوشت
تقریبا 30 صفحات پر مشتمل​
ناشر و سن اشاعت درج نہیں ہے​
اوراق زیست
خودنوشت
مصنفہ: طلعت آراء​
اشاعت: 2012​
ناشر: یونیورسل بک ہاؤس، علی گڑھ​
برگ گل
خودنوشت، سفرنامہ، تعلیمی خدمات و سلسلہ نسب
مصنف: پروفیسر سید مقبول احمد​
اشاعت: 2001​
ناشر: قاضی مہتاب احمد بمبئی​
دھوپ چھاؤںخودنوشت
مصنف: ریاض الرحمن شیروانی​
اشاعت: 2011​
ناشر: مصنف نے علی گڑھ سے شائع کی​
میری دنیا
خودنوشت
مصنف: ڈاکٹر اعجاز حسین​
کارواں پبلشرس، الہ آباد​
اشاعت: 1965​
صفحات: 515​
نقش ہستی
خودنوشت
مصنف: ڈاکٹر سید احتشام احمد ندوی​
ناشر: فیض المصنفین، علی گڑھ​
صفحات: 300​
اشاعت: 2012​
یادوں کا دریچہ
خاکے
مصنف: رفعت سروش​
اشاعت: 2010​
ناشر: اردو اکادمی، دہلی​
زندگی ہے تو کہانی بھی ہوگی
علی گڑھ اور دلی کی یادیں
مصنف: فیاض رفعت​
اشاعت: 2012​
ناشر: -معیار پبلیکیشنز دہلی​
برنی نامہ
خودنوشت
صفحات: 45​
مصنف: محمد الیاس برنی​
اشاعت: 1957​
ناشر: حیدرآباد دکن​
 

الف عین

لائبریرین
علی گڑھ کے ان کرم فرما کا نام کو کسی وجہ سے صیغہ راز میں رکھا گیا ہے@راشد اشرف ؟
 

تلمیذ

لائبریرین
واہ واہ، جناب عالی!۔
آپ کی محنت و شوق کے ممنون احسان اور سراپا تشکر تو ہم ہیں ہی اورانشأ اللہ ہمیشہ رہیں گے لیکن اردو کے ان چاہنے والوں کے لئے بھی ہمارا سپاس شکر گذاری واجب ہے۔ جو آپ کے ذریعے اردو کی ان نادر کتابوں کو محفوظ کروا رہے ہیں۔ ورنہ، جیسا کہ پروفیسر اطہر صدیقی صاحب نے فرمایا ہے، زیدہ تر صورتوں میں ان کا مقدر فٹ پاتھ کی دکونوں پر سجنا ہی رہ جاتا ہے۔
آپ کی صحت و تندرستی اور جذبے کی روانی کے لئے دعائیں۔
 

راشد اشرف

محفلین

راشد اشرف

محفلین
واہ واہ، جناب عالی!۔
آپ کی محنت و شوق کے ممنون احسان اور سراپا تشکر تو ہم ہیں ہی اورانشأ اللہ ہمیشہ رہیں گے لیکن اردو کے ان چاہنے والوں کے لئے بھی ہمارا سپاس شکر گذاری واجب ہے۔ جو آپ کے ذریعے اردو کی ان نادر کتابوں کو محفوظ کروا رہے ہیں۔ ورنہ، جیسا کہ پروفیسر اطہر صدیقی صاحب نے فرمایا ہے، زیدہ تر صورتوں میں ان کا مقدر فٹ پاتھ کی دکونوں پر سجنا ہی رہ جاتا ہے۔
آپ کی صحت و تندرستی اور جذبے کی روانی کے لئے دعائیں۔

جزاک اللہ
 

سید زبیر

محفلین
درست کہا آپ نے۔ ایسا ہی ایک جہان میں نے تین برس سے بسا رکھا ہے، ملاحظہ کیجیے:

http://www.wadi-e-urdu.com/urdu-autobiographies-part-1/
http://www.wadi-e-urdu.com/urdu-autobiographies-part-2/
برادرم راشد اشرف صاحب ،ماشا اللہ بہت گراں قدر کام کیا ہے ، اللہ جزائے خیر عطا فرمائے ، ان آپ بیتیوں کا مطالعہ کیسے ممکن ہے ۔ نہ میں اس کو آن لائن پڑھنے میں کامیاب ہوسکا نہ آف لائن ، آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے
 

فلک شیر

محفلین
درست کہا آپ نے۔ ایسا ہی ایک جہان میں نے تین برس سے بسا رکھا ہے، ملاحظہ کیجیے:

http://www.wadi-e-urdu.com/urdu-autobiographies-part-1/
http://www.wadi-e-urdu.com/urdu-autobiographies-part-2/
زبردست........راشد بھائی، غالباً یہ فہرست ہے.........کمپیوٹر میں محفوظ کرنے کے لیے تو مہیا نہیں ہیں ........
 

راشد اشرف

محفلین
برادرم راشد اشرف صاحب ،ماشا اللہ بہت گراں قدر کام کیا ہے ، اللہ جزائے خیر عطا فرمائے ، ان آپ بیتیوں کا مطالعہ کیسے ممکن ہے ۔ نہ میں اس کو آن لائن پڑھنے میں کامیاب ہوسکا نہ آف لائن ، آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے

بہت شکریہ
آپ کا خیال درست ہے، یہ محض ریکارڈ ہے۔۔۔ نام، مصنف، ناشر اور سن اشاعت کی تفصیل لیے۔ ان کے حصول کے لیے ابتدا میں مشفق خواجہ ودیگر لائبریریوں میں کئی گھنٹے صرف ہوئے تھے۔ پھر لوگوں نے ہندوستان سے بہت مدد کی۔
یہ ضرو رہے کہ ان میں سے چند کو محفوظ کیا ہے یا کررہا ہوں۔ ان کے لنکس یہیں درج کیے جائیں گے۔
 

راشد اشرف

محفلین
راشد اشرف دنیائے اردو کے افق پر طلوع ہونے والا ایک روشن ستارہ۔

بھائی، پیشے کے لحاظ سے انجئینر ہوں، ادب کا طالب علم ہوں، بس اسی نظر سے خود کو دیکھتا ہوں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ستائش کے لیے آپ کا شکرگزار ہوں
 
Top