راشد اشرف
محفلین
علی گڑھ میں مقیم راقم الحروف کے ایک 82 سالہ کرم فرما عرصہ آٹھ ماہ سے نایاب خودنوشتیں اور خاکوں کے مجموعے ارسال کررہے ہیں۔ اپنے کتب خانے سے کئی نایاب آپ بیتیاں بھیج چکے ہیں۔ آپ ایک برس قبل تک بزم قلم کے رکن تھے اور اسی فورم سے انہوں نے راقم سے رابطہ کیا تھا۔ کتابوں کی پہلی کھیپ انہوں یہ کہہ کر بھیجوائی تھی کہ میرے بعد یہ ذخیرہ ایک نہ ایک روز فٹ پاتھ پر آجانے کا ڈر ہے، تمہارے پاس چلا جائے گا تو وہاں سے بذریعہ انٹرنیٹ ایسے لوگوں تک بھی پہنچ سکے جو اس کے متمنی و متلاشی ہیں۔ راقم کو ان کی بات سن کر ملال تو ہوا تھا لیکن پھر ان کے لہجے میں یقین کی کیفیت اور ان کے مضبوط موقف کو بھانپ کر سر تسلیم خم کیا ۔ ۔ ۔بسر و چشم ۔۔۔۔۔۔۔! ایک قلبی رشتہ ان سے قائم ہوا جو آج تک قائم ہے، گاہے گاہے گفتگو رہتی ہے۔
پہلی کھیپ میں مسعود حسین خاں مرحوم کی خودنوشت "ورود مسعود" کا وہ نسخہ تھا جسے مصنف نے انہیں دستخط کے ساتھ پیش کیا تھا۔
سلسلہ چل نکلا اور پارسل آتے گئے۔ اس تمام عرصے میں کم از کم چالیس کتابیں آچکی ہیں۔ جواب میں یہاں سے بھی کچھ نہ کچھ حسب توفیق جاتا رہا۔ ہندوستان سے پہلے کلوگرام کے دو سو روپے لیے جاتے ہیں جبکہ یہاں صورت حال یہ ہے کہ پہلے کلوگرام پر گیارہ سو اور اس کے بعد ہر کلو گرام پر دوسو دس روپے۔۔۔۔۔۔۔! یہی وجہ ہے کہ اچھے اچھوں کے قدم اکھڑ گئے ہیں۔ بھلے وقتوں میں ہندوستان سے رسالے آجایا کرتے تھے، وہ سلسلہ بھی بڑھتی گرانی کی وجہ سے بہتیروں کے لیے موقوف ہوچکا ہے۔
ڈیڑھ ماہ قبل چھ کلو گرام کے ایک پارسل کے بھیجے جانے کی نوید سنائی گئی تھی۔ اس میں موجود تمام خودنوشتیں (معہ رفعت سروش کا لکھا خاکوں کا مجموعہ یادوں کا دریچہ) اسی نوعیت کی تھیں جن کا انتظار بے چینی سے تھا۔ ان میں 1965 میں الہ آباد سے شائع ہوئی 500 صفحات پر مشتمل ڈاکٹر اعجاز حسین (ابن صفی مرحوم کے استاد) کی خودنوشت "یادوں کی دنیا" بھی شامل تھی جس کی نقل میرے ایک دوسرے کرم فرما نے الہ آباد سے علی گڑھ بھیجی۔ راقم مذکورہ پارسل پر فاتحہ پڑھ چکا تھا، ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ کتابیں اس قدر طویل انتظار کے باوجود نہ پہنچی ہوں لیکن پھر گزشتہ ہفتے کی صبح ہمارے جامی صاحب کا ڈاک خانے سے فون آیا:
"بھئی میں اس وقت اپنے ایک کام سے یہاں موجود ہوں اور تمہارے نام علی گڑھ سے ایک پارسل یہاں پڑا ہوا ہے"
جامی صاحب نے یہ نوید سن کر راقم کو گویا مالا مال کردیا۔ کتابیں پہنچی اور اب ان کے سرورق و دیگر تفصیل یہاں معلومات کی غرض سے لنک کی شکل میں دیے جارہے ہیں:
کتابوں کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے
علی گڑھ سے علی گڑھ تک
خودنوشت
اشاعت اول: 1977
اشاعت ثانی: 2012
مصنف: اطہر پرویز
ناشر: مکتبہ جامعہ، دہلی
جو یاد رہا
خودنوشت
مصنف: عابد سہیل
صفحات: 600 سے زائد
اشاعت: 2012
ناشر: اردو اکادمی دہلی
نوائے زندگی
خودنوشت
مصنفہ: ساجدہ زیدی
صفحات: 450
ناشر: اردو اکادمی، دہلی
اشاعت: 2013
ل احمد اکبر آبادی (پ: 8 اپریل، 185 کی خودنوشت
تقریبا 30 صفحات پر مشتمل
ناشر و سن اشاعت درج نہیں ہے
اوراق زیست
خودنوشت
مصنفہ: طلعت آراء
اشاعت: 2012
ناشر: یونیورسل بک ہاؤس، علی گڑھ
برگ گل
خودنوشت، سفرنامہ، تعلیمی خدمات و سلسلہ نسب
مصنف: پروفیسر سید مقبول احمد
اشاعت: 2001
ناشر: قاضی مہتاب احمد بمبئی
دھوپ چھاؤںخودنوشت
مصنف: ریاض الرحمن شیروانی
اشاعت: 2011
ناشر: مصنف نے علی گڑھ سے شائع کی
میری دنیا
خودنوشت
مصنف: ڈاکٹر اعجاز حسین
کارواں پبلشرس، الہ آباد
اشاعت: 1965
صفحات: 515
نقش ہستی
خودنوشت
مصنف: ڈاکٹر سید احتشام احمد ندوی
ناشر: فیض المصنفین، علی گڑھ
صفحات: 300
اشاعت: 2012
یادوں کا دریچہ
خاکے
مصنف: رفعت سروش
اشاعت: 2010
ناشر: اردو اکادمی، دہلی
زندگی ہے تو کہانی بھی ہوگی
علی گڑھ اور دلی کی یادیں
مصنف: فیاض رفعت
اشاعت: 2012
ناشر: -معیار پبلیکیشنز دہلی
برنی نامہ
خودنوشت
صفحات: 45
مصنف: محمد الیاس برنی
اشاعت: 1957
ناشر: حیدرآباد دکن