اسی سلسلہ میں روزنامہ ایکسپریس میں آج "جشنِ ریختہ" کے عنوان سے امجد اسلام امجد کا کالم
جشن ِ ریختہ
الفاظ مٹتے بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی زندگیوں میں بھی اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں اب مثلاً ریختہ کے لفظ کو ہی لے لیجیے جو اردو زبان کے ایک قدیم نام کے طور پر کم و بیش ایک صدی تک مستعمل رہا ہے لیکن آج شاید اردو زبان و ادب سے خصوصی دلچسپی رکھنے والوں کے علاوہ یہ ایک اجنبی لفظ ہو میرؔ نے کہا تھا
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
اور پھر میرؔ ہی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے مرزا غالبؔ نے بھی اسی لفظ کو یوں استعمال کیا کہ
ریختے کے تمہی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
لیکن پھر یوں ہوا کہ ہندی‘ ہندوی‘ دکنی‘ ریختہ اور ہندوستانی سے چلتا ہوا اس زبان کا نام اردو طے ہو گیا جو اس وقت دنیا کی تیسری اور بعض اندازوں کے مطابق دوسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے یہ اور بات ہے کہ رسم الخط کی سطح پر اس کا نمبر مسلسل نیچے آتا جا رہا ہے اپنی ذاتی ویب سائٹ رکھنے کے باوجود مجھے ابھی تک اس جدید ٹیکنالوجی سے کچھ زیادہ واقفیت نہیں۔
ایسے میں ’’ریختہ‘‘ ڈاٹ کام‘‘ کا نام تو میرے کانوں میں ضرور پڑا لیکن اسے پہلی بار دیکھنے کا اتفاق کوئی تین ماہ قبل ہوا جب مجھے اس ادارے کی طرف سے ’’جشن ریختہ‘‘ میں شرکت کا دعوت نامہ ملا چند دن بعد اطلاع ملی کہ اس کے ’’سب کچھ‘‘ ایک صاحب سنجیو صراف ہیں جو لاہور آ رہے ہیں۔
پیکیجز والے سید بابر علی صاحب کے دفتر میں ان سے وہ ملاقات طے پائی جس کی معرفت مجھے ایک نئی دنیا سے متعارف ہونے کا موقع ملا سنجیو صراف ایک انجینئر اور کامیاب صنعتکار ہیں جن کے پس منظر میں اردو سے کوئی دور کا تعلق بھی شامل نہیں اس زبان کی چاٹ انھیں کیسے لگی اس کا تو پتہ نہیں چل سکا مگر گزشتہ چند برسوں میں نہ صرف انھوں نے اسے پڑھنا سیکھا بلکہ اس کی محبت میں ایسے گرفتار ہوئے کہ اس کی ترویج و ترقی کے لیے ایک باقاعدہ ویب سائٹ بنا ڈالی جس میں قدیم اور جدید اردو ادب کا سرمایا اس طرح سے ایک جگہ جمع کر دیا کہ یہ ایک بھرپور اور مستند حوالے کی شکل اختیار کر گئی اور شائقین ادب کے لیے اس کی مثال فیضؔ صاحب کے اس مصرعے جیسی ہو گئی کہ ’’جو آئے‘ آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں‘‘
13,14,15 ماچ کو انھوں نے دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں ’’جشن ریختہ‘‘ کے عنوان سے تین روزہ تقاریب کا ایک ایسا سلسلہ ترتیب دیا کہ جسے اگر ’’کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا‘ این جاست‘‘ کہا جائے تو کچھ مبالغہ نہ ہو گا آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے کراچی لٹریری فیسٹیول کی طرح یہاں بھی بیک وقت تین اور بعض چار سیشن ایک ساتھ چلتے رہے ۔
جن میں ادبی مباحث‘ ادیبوں سے ملاقات‘ ضیا محی الدین کی ’’پڑھنت‘‘ داستان گوئی اسٹیج ڈرامے‘ فلم شوز‘ محفل موسیقی اور مشاعرے سمیت کئی رنگ ایک ساتھ اپنی بہار دکھاتے رہے حاضرین کے ذوق و شوق کا یہ عالم تھا کہ وافر مقدار میں نشستوں کے باوجود بے شمار لوگوں کو بیٹھنے کی جگہ نہ مل سکی اور انھوں نے کھڑے ہو کر پروگرام کو دیکھا اور سنا جب کہ ایک کھلی جگہ پر آویزاں اسکرین پر بھی یہ پروگرام براہ راست دکھائے جا رہے تھے۔
بیرون ہندوستان سے آئے ہوئے مندوبین کو جشن کے وینیو یعنی انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں ٹھہرایا گیا تھا جہاں ریختہ ڈاٹ کام کی انتظامیہ کے افراد ان کی ہر ممکن دیکھ بھال کر رہے تھے جب کہ ماسٹر آف دی شو یعنی سنجیو صراف ایک متبسم چہرے اور اپنی مخصوص شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ ہمہ وقت موجود دکھائی دیے پاکستان سے شرکت کرنے والوں میں انتظار حسین‘ ضیاء محی الدین اور ان کی بیگم اجمل کمال‘ آصف فرخی‘ انور شعور‘ کینیڈا میں مقیم اشفاق حسین‘ استاد حامد علی خاں‘ علی اکبر ناطق‘ فیض صاحب کے نواسے ڈاکٹر علی مدیح ہاشمی اور مجھ سمیت آواری لاہور کے جنرل مینجر اور ادب دوست برادرم قاسم جعفری تھے جو بطور خاص اس محفل میں بطور ایک سامع کے شریک ہوئے ان کے علاوہ دوستان عزیز عثمان اور ثمینہ پیر زادہ سے بھی ملاقات رہی جو وہاں کسی اور پروگرام کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے۔
میرے اور انتظار حسین صاحب کے کمرے کے درمیان ڈاکٹر ستیہ پال آنند کا کمرہ تھا جو اپنے آپ کو تین چوتھائی مسلمان اور ایک چوتھائی بدھسٹ قرار دیتے ہیں اور آدھی صدی سے امریکا میں مقیم ہونے کے اور انگریزی زبان و ادب کا استاد ہونے کے باوجود اب بھی اردو اور پنجابی میں سوچتے اور بولتے ہیں اور خوب بولتے ہیں۔
13 مارچ کی شام اختتامی تقریب منعقد ہوئی جس کی خاص بات نظامت کرنے والی خاتون (جن کا نام غالباً شگفتہ تھا) کی بہت عمدہ اور سشتہ اردو تھی جس میں صوتی اعتبار سے اس طرح کا کوئی گھپلا نہیں تھا جو پِھر کو فِر اور امجد کو امزد بنا دیتا ہے میزبان خصوصی یعنی سنجیو صراف دورانیے کے اعتبار سے تو چار پانچ منٹ ہی بولے مگر ان کے لہجے کے خلوص اور جذبے کی گرمی نے ایک ایک لفظ میں روشنی بھر دی تھی۔
ان کی گفتگو کا مرکزی نکتہ لفظ ریختہ کے معانی میں موجود وہ جوڑنے والی اور یک رنگی کی کیفیت تھی جس نے اردو کو سارے ہندوستان کی مشترکہ زبان کا درجہ دیا تھا اور جسے بعد میں (سیاسی موشگافیوں کی وجہ سے) محض مسلمانوں کی زبان قرار دے کر اس کے لاتعداد محبت کرنے والوں کو اس کے دائرے میں باہر نکال دیا گیا ۔
(جاری ہے)